اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
میرے محترم یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہو۔عموم کی تخصیص کو معارض قرار دینا ہی اصل غلط فہمی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمام مردار حرام ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ سمندر کا مردار حلال ہے اور یہ بات صحیح سند سے فقط ایک ہی روایت میں مروی ہو تو اس کی تخصیص بالکل جائز و درست ہوگی کیونکہ اصلا یہ روایت قرآن کے معارض ہوگی ہی نہیں۔ ہاں قرآن کی تبین و تشریح اور حکم کے اجمال کی توضیح قرار دی جا سکتی ہے ۔ ۔
خبر واحد جو ثقہ راویان سے ہم تک پہنچتی ہے وہ دین ہی ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنا ہماری استطاعت میں ہے۔ قرآن کے صریح قطعی الدلالۃ حکم رضاعت دو سال کو قیاس سے بدل دینے والوں کے لئے صحیح حدیث کو رد کرنے کا یہ خود ساختہ اصول کچھ اتنا عجیب نہیں لگتا ہوگا۔ ۔
اجمال کی توضیح تو حدیث سے ہوتی ہے، تبیین و تشریح بھی ہوتی ہے لیکن عموم میں تخصیص یا استثنا کے بارے میں میں نے اوپر عرض کر دیا ہے جو شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔
اگر آپ اس کا رد کر دیں تو واضح ہو جائے گا۔ وگرنہ صرف آپ کے کہنے پر کہ یہ غلط فہمی ہے بھلا میں کیسے مان سکتا ہوں۔محترم بھائی۔
تخصیص یا زیادتی کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک چیز میں آئے ہوئے اطلاق یا عموم کو ختم کر کے اس میں قید پیدا کرنا۔
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
محترم بھائی۔ منکرین حدیث جو اس سے استدلال کرتے ہیں وہ میں نہیں کر رہا جس کا جواب دیا گیا ہے۔ جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے اسی کے بارے میں میں نے عرض کیا ہے کہ آخر کذب کے بارے میں یہ ساری تاویلات کیوں کی جاتی ہیں؟ آخر اسے اس کے اصل پر کیوں نہیں رکھا جاتا؟یہ بعینہ وہی اعتراض ہے جو منکرین حدیث پیش کرتے ہیں ۔ الحمدللہ ایک دوسرے فورم پر منکرین حدیث کے اس اعتراض کا شافی جواب دیا تھا، جسے محترم کنعان بھائی نے یہاں محدث فورم پر بھی منتقل کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/ا...نے-تین-مرتبہ-جھوٹ-بولا-تھا.20170/#post-156931
مختصراً عرض ہے کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جن تین باتوں کو حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے دو باتیں خود قرآن ہی سے ثابت ہیں۔ لہٰذا یہ استثناء تو ویسے ہی درست نہ ہوا کیونکہ جو اعتراض آپ حدیث پر کر رہے ہیں، وہ حدیث سے پہلے خود قرآن پر جاری ہوتا ہے۔ دوسری بات کذب کے معنی میں جھوٹ کے علاوہ احتمالات موجود ہیں ، جس کی مفصل وضاحت درج بالا مراسلہ میں موجود ہے۔ تیسری بات اسے عموم اور استثناء قرار ہی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قرآن نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لے کر انہیں سچا قرار دیا ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَۚإِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔
لہٰذا بدقسمتی سے آپ کی مثال یہاں بالکل فٹ نہیں آتی۔
قرآن کریم نے کہا ہے: وہ نہایت سچے تھے۔
حدیث میں ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین مرتبہ۔
اپنے اصول کے مطابق اس کا استثنا کر لیجیے۔ نتیجہ نکلے گا: ابراہیم نہایت سچے تھے لیکن تین بار جھوٹ بولنا اس سچے ہونے سے مستثنی ہے۔
میں یہی کہہ رہا ہوں کہ آخر یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے سند صحیح ہونے کے باوجود عقلا اس استثنا کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی اصول بھی ہونا چاہیے یا یہ صرف عقل پر موقوف ہونا چاہیے؟
البتہ آگے آپ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
جی یہی بات میں بھی کہتا ہوں کہ کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ اور اس قبول کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس بات کو مانا جائے کہ خبر واحد سے قرآن کی تخصیص ضروری ہے۔آخری بات یہ کہ خبر واحد سے قرآن یا حدیث متواتر کی تخصیص وغیرہ کے اصول کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روایت و درایت کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر فوری فیصلہ دے دیا جائے۔ جمع و تطبیق، ناسخ و منسوخ، مختلف مفاہیم ، مختلف شان نزول یا مختلف مخاطبین کی بنیاد پر کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ جہاں گنجائش ہو۔
آپ اس کو درست مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ ہم نہیں مانتے۔ ہمارے پاس اپنی دلیل اور وجہ ہے۔ آپ اپنی سوچ دوسرے پر کیوں لازم کرنا چاہتے ہیں؟
چلیے مان لیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور مجھے دوسرا موقف راجح لگتا ہے۔ اور میں کچھ نہ کچھ علم بھی رکھتا ہوں اور امت کی ایک جماعت میرے اس موقف میں میرے ساتھ بھی ہے۔
تو مجھے بتائیے کہ مجھ پر آپ کی تقلید لازم ہے یہاں یا جس موقف کو میں درست کہتا ہوں وہ لازم ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ضرور دیجیے گا۔
اسی مقدمہ مسلم میں ابن سیرین نے یہ بتایا ہے کہ "لم يكونوا يسألون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالكم، فينظر إلى أهل السنة فيؤخذ حديثهم، وينظر إلى أهل البدع فلا يؤخذ حديثهم"یہ بات جزوی طور پر بالکل درست ہے کہ سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی،صحیح سند سے ایک روایت کے ثبوت کے بعد بھی محدثین کے ہاں روایت و درایت کے دیگر اصول ہیں، جن پر اس روایت کو پرکھا جا سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر اس کے قبول و رد کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن دوسری طرف اسی صحیح مسلم کے مقدمہ میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ بھی آپ ملاحظہ کریں کہ:
’’الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شائ‘‘
’’اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )
کیا آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں؟
باقی آپ کا ابن عباس کی مجمل و محمل بات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ عقل کے زور پر صحیح احادیث کی تردید کی جا سکتی ہے، نہایت خطرناک بات ہے۔ اگر آپ واقعی یہ اصول رکھتے ہیں کہ عقل کی بنیاد پر اخبار آحاد کو رد کیا جا سکتا ہے تو وضاحت کیجئے ہم علیحدہ دھاگا ہی کھول لیتے ہیں پھر۔اور اگر یہ اصول نہیں تو پھر ابن عباس کی بات سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتا، ورنہ اس کے آپ بھی اتنے ہی جواب دہ ہوں گے جتنے کہ ہم۔
اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ 110 ھ میں وفات پانے والے ابن سیرینؒ کے ابتدائی زمانے میں اسناد کو نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تو پھر صحابہ و تابعین کس بنیاد پر حدیث کو قبول و رد کرتے تھے؟
اسی کو اصول کہتے ہیں۔
میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ اسناد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اسناد سب کچھ نہیں ہوتیں۔ اتنی بات کو آپ بھی مانتے ہیں۔ درایت کے ذریعے بھی حدیث کے صحیح و غیر صحیح کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس بات کو بھی آپ مانتے ہیں۔
لیکن درایت میں اس اصول کو آپ نہیں مانتے کہ خبر واحد اگر تواتر قرآن کے اطلاق کے خلاف آ جائے تو وہ قبول نہیں۔
دوسری بات میں یہ نہیں کہہ رہا کہ حدیث کو عقل سے رد کر دیا جاتا ہے لیکن یہ تو بتائیے کہ آخر اس کا کوئی اصول تو ہونا چاہیے نا؟؟
اگر آپ کو تقی عثمانی صاحب کی بات پر تحفظات ہیں تو وہ زندہ سلامت موجود ہیں۔ آپ ان سے معلوم کر لیں۔پھر وہی خلط مبحث۔ ہم نے آپ سے اس حدیث کا درست محل کب معلوم کیا ہے؟
ارے بھائی اعتراض کو سمجھیں پھر جواب دیں۔
چلیں آپ کو لولی لنگڑی کوئی تاویل سمجھ آ گئی ، لیکن اعتراض ہے تقی عثمانی صاحب پر، کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث کا کوئی جواب نہیں ہے ان کے پاس۔ لیکن چونکہ یہ خبر واحد ہے لہٰذا اس سے قرآن پر زیادتی ممکن نہیں۔
اور تقی عثمانی صاحب نے فقط اس ایک زریں اصول کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کو رد کر دیا۔اب یا تو اصول غلط مانئے اور یا تقی عثمانی صاحب (اور ان جیسے دیگر فقیہان حرم ) کے نکتہ نظر سے ان کا دفاع پیش کیجئے۔ کہ کیا ان کا ایسے حدیث کو رد کرنا درست و جائز تھا؟
اب آپ کی تاویل پر بھی دو لفظ:
پہلی بات یہ کہ جیسے حلالہ والے مراسلے میں انس صاحب نے بدلائل وضاحت کی تھی کہ :
صحابی کا یہ کہنا كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ معاشرتی مسئلہ ہے ۔ صحابی کا اجتہاد یا قلبی فعل نہیں کہ جی سے کچھ گھڑ کر بیان کر دیا ہو۔ اور خصوصا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلالہ کو زنا سمجھتے تھے، اس میں اجتہاد کی گنجائش ہی نہیں۔ اور ان کا تفرد بھی نہیں کیونکہ یقینا ایک سے زائد صحابہ کا یہی عقیدہ رہا ہوگا۔اور صحابی اسی کی بنیاد پر نکاح حلالہ منعقد نہ ہونے کا فتویٰ جاری فرما رہے ہیں۔
تیسری بات یہ اگر واقعی آیت عموم پر ہے اور اس سے استثناء جائز ہی نہیں، تو پھر نکاح متعہ بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ نکاح متعہ کی حرمت بھی خبر واحد ہی سے ثابت ہے۔بلکہ نکاح متعہ تو پھر کسی زمانے میں حلال بھی رہا ہے، نکاح حلالہ تو دور نبوی سے حرام و زنا ہی ہے۔
میں نے جو انس بھائی کی پوسٹ کا جواب دیا تھا وہ تو آپ نے وہاں دیکھا نہیں تھا شاید۔ ذرا وہاں دیکھ آئیے۔
باقی میں نے عرض کیا ہے کہ اگر ان مسائل پر بات کرنی ہے تو الگ دھاگہ بنا لیجیے۔ میں آپ کی دونوں باتوں کا جواب دے سکتا ہوں کیوں کہ آپ فقط عقلی گھوڑے دوڑا رہے ہیں لیکن محترم یہ اس کا مقام نہیں ہے۔
Last edited: