• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام کے بارے میں بعض غلط رجحانات

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بات یہ ہے کہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں استثناء ویسا ہے ہی نہیں جیسے آپ بیان فرما رہے ہیں۔ آپ کا بیان تب درست تھا جب تواتر سے ثابت ہو کہ:
زید، عمر، بکر ایسے ایسے کریں۔
اور خبر واحد ہو
بکر ایسے نہیں ویسے کرے۔
اب یہ خبر واحد ، متواتر کے "مخالف" ہے۔ کیونکہ دونوں براہ راست ٹکرا رہی رہیں۔ بکر کے لئے خصوصی طور پر متواتر میں کچھ اور حکم ہے اور خبر واحد میں کچھ اور۔

لیکن اگر تواتر یوں ہو:
تمام لوگ ایسے ایسے کریں۔
اور خبر واحد ہو
بکر ویسے کرے۔
اب یہ خبر واحد، متواتر کے "مخالف "نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ خبر کسی سچے نے دی ہے تو ہم اس کی بات کا یقین کریں گے کہ واقعتا یہ حکم بکر کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ تواتر میں "نام" لے کر کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ عمومی حکم ہے، اس سے استثناء عقلا و شرعا و عرفا بالکل ہو سکتا ہے۔اور یہ استثنا یہ ظاہر کرے گا کہ "تواتر میں موجود حکم بکر کے لئے تھا ہی نہیں"۔ خلاف اس کے کہ پہلی مثال میں تواتر میں بھی بکر کے لئے خصوصی حکم موجود تھا، اور بکر کا استثناء تواتر کی مخالفت کئے بغیر ممکن نہ تھا۔
کافی پوسٹ ہو گئیں آپ کی۔ اس لیے میں وقت کے حساب سے ایک ایک کا جواب دیتا جاؤں گا۔ ویسے بھی آج کل ایک تحقیق میں مصروف ہوں اور کل سے ان شاء اللہ ایک اور مصروفیت بھی سر پر ہے۔
اب آتے ہیں جواب کی طرف۔
جزاک اللہ خیرا۔ یہ افہام و تفہیم کا انداز مجھے بہت پسند ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ یہ اتنا دقیق مسئلہ ہے کہ تیرہ سو سال میں حل نہیں ہو سکا تو ابھی بھی اس کا حل ہونا مشکل ہی معلوم ہوتا ہے۔ بہر حال۔

ریڈیو یا ٹی وی پر موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف اعلان کرے کہ کل سے پورے ملک میں کرفیو ہے۔ کسی کو بھی نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور جو نکلا اسے بغیر کچھ پوچھے گولی مار دی جائے گی۔ یا چیف آف آرمی اسٹاف سے دو سو بندے آپ کو یہ بتائیں۔ اور صرف ایک لڑی جس میں ایک دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے اور تیسرا چیف آف آرمی اسٹاف سے یہ روایت کر رہا ہو کہ آپ کو اس کرفیو میں استثنا ہے۔ آپ نکل سکتے ہیں۔ آپ کے علم کے مطابق یہ روایت کرنے والے سچے بھی ہوں تب بھی کیا آپ باہر نکلیں گے؟ آپ کو یہ خیال نہیں ہوگا کہ بغیر کچھ پوچھے آپ کو گولی ماری جا سکتی ہے اگر یہ خبر غلط ہوئی؟ کیا آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ ان سے غلطی بھی ہو سکتی ہے؟
اگر ایسا واقعی نہیں ہے تو پھر تو آپ تخصیص بھی کیجیے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ایک عام انسان کے ساتھ ایسا لازمی ہوتا ہے۔
بس یہی مثال اس تخصیص ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد لوگ پوری دنیا کے لیے اللہ پاک کا عمومی قانون سنا رہے ہیں اور ایک شخص آپ کا استثنا بتا رہا ہے۔ تطبیق ہو سکے تو بہت مناسب۔ ورنہ پھر زیادہ امکان یہی ہے کہ اس شخص سے غلطی ہوئی ہے۔
ذرا سوچیں ایک شخص کے بارے میں صرف آپ اپنی معلومات کی بنا پر کہ اس کا حافظہ خراب ہے اس کی روایت چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ایک شخص کی روایت کے خلاف قرآن آ رہا ہوتا ہے اور آپ اس سے غلطی کو نہیں تسلیم کرتے؟

اب اسی بات کو دوسرے ر خ سے دیکھیں۔

قرآن میں کوئی عمومی حکم آیا۔مثلا چور کے لئے کہ فاقطعو ایدیھما۔
اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استثناء کر دیا کہ مثلا ربع دینار سے کم کی چوری کرنے والے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
قرآن کے عمومی الفاظ کو دیکھیں تو چونکہ ایک پیسے کی چوری کرنے والا بھی چور ہی کہلاتا ہے تو اس کے ہاتھ کٹنے چاہئیں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتواتر کے حکم کے ایک فرد کو اس سے مستثنیٰ کر دیا۔
اب یہ استثناء ایک امانت دار، سچے، حافظ ، عادل مسلمان کے ذریعے ہم تک پہنچا۔
کیا خیال ہے اسے قبول کریں یا رد کر دیں؟
میرے محترم بھائی۔ ایک تو اس بات پر امت کی اکثریت کا اجماع ہے کہ فلاں رقم جیسے ربع دینار سے کم میں ہاتھ نہیں کٹے گا۔ اجماع کا مطلب یہ کہ اس سے کم کا قول چند ایک نے ہی اختیار کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا ہے انہوں نے اور ان سے آگے لینے والوں نے اس آیت کا یہ خاص محمل سمجھا ہے۔ اسے ہم اصطلاح میں یہ کہتے ہیں کہ اجماع قطعی ہوتا ہے۔
لیکن ایک اور بات یہ عرض ہے کہ قرآن کریم نے کہا ہے السارق
اس کا مطلب ہے الذی سرق۔ یعنی جو چوری کرے۔
اب اگر ایک روایت بطریق خبر واحد آ جائے کہ فلاں قبیلہ اس ہاتھ کٹنے کے حکم سے مستثنی ہے تو کیا یہ روایت قبول ہوگی؟ ہرگز نہیں۔
لیکن دوسری طرف یہی آیت ما سرق اور ماالسرقۃ کے بارے میں مجمل ہے۔ یعنی اس میں اس بات کا ابہام ہے کہ جو بھی چوری کرے اس کی یہ سزا ہے لیکن وہ جو بھی کیا چوری کرے اس کی کوئی وضاحت نہیں۔ عموم کے لیے عموم کے الفاظ بھی ضروری ہوتے ہیں ورنہ ایسے تو ہم ہر چیز میں عموم نکالنا شروع کر دیں گے۔ الذی سرق کے عموم کے لیے تو "ال" یا "الذی" کے الفاظ ہیں۔ لیکن "ما سرق" کے لیے کون سا لفظ ہے جو عموم پر دلالت کرے؟
اس "ما سرق" کی وضاحت احادیث میں ہوئی ہے۔
آپ جو فرما رہے ہیں کہ ایک پیسے کی چوری کرنے والا بھی چور ہے یہ مفہوم سے نکال رہے ہیں۔ جب کہ عموم الفاظ سے نکالا جاتا ہے۔


آپ کہتے ہیں کہ "ایک متواتر جماعت کے مخالف کسی فرد واحد کی بات کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟"
ہم کہتے ہیں کہ پہلے اس بنیادی سوال کو حل کریں:
  • کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عمومی حکم میں استثناء کا حق حاصل ہے یا نہیں؟
جی یقینا ہے۔

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عام حکم کو مقید کیا ہو اور ہم تک وہ فقط خبر واحد ہی سے پہنچا ہو؟ جبکہ احادیث کا اکثر ذخیرہ اخبار آحاد پر ہی مشتمل ہے؟
کیا صرف امکانات کی بنا پر قرآن کے ایک حکم یعنی اطلاق کو رد کیا جا سکتا ہے؟
پھر جب ایک روایت کوئی ضعیف راوی روایت کرتا ہے جس میں یہ امکان ہوتا ہے کہ صحیح روایت کی ہو اور ہم تک اسی ضعیف راوی سے پہنچی ہو تو اسے رد کیوں کر دیا جاتا ہے؟ جب کہ احادیث کا ایک بڑا حصہ ضعیف رواۃ کی روایت پر مشتمل ہے؟


ظاہر ہے یہ عین ممکن ہے بلکہ ایسا ہوا بھی ہے۔
  • اب ایک طریقہ یہ ہے کہ اس استثناء کو ایک ثقہ راوی کی گواہی کی بنا پر قبول کرلیا جائے کیونکہ دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنی ہماری استطاعت ہے۔
  • دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فقط "امکان" کی بنا پر کہ راوی سے غلطی ہو گئی ہوگی، حدیث رسول کو رد کر دیا جائے۔
کون سا طریقہ بہتر ہے۔ ؟ حنفی چشمہ ایک طرف رکھ کر انصاف سے فرمائیے۔
جب آپ خود دونوں کو طریقہ مان رہے ہیں تو پھر حنفی اور اہلحدیث کو ایک طرف رکھ کر سوچیئے۔ جس کے نزدیک جو طریقہ زیادہ مناسب ہوگا وہی اختیار کرے گا۔
البتہ حدیث رسول کو رد نہیں کیا جاتا بلکہ وہ حدیث اس صورت میں ثابت نہیں ہو رہی ہوتی۔
میں آپ کے ہی طریقوں کو دوسرے رخ سے دکھاتا ہوں:۔

  • ایک طریقہ یہ ہے کہ غلطی کے قوی امکان کی بنا پر اس حدیث کو ثابت نہ مانا جائے۔ جیسا کہ ضعیف راوی کی حدیث کو صرف غلطی کے قوی امکان کی بنا پر ثابت نہیں مانا جاتا۔
  • دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک ثقہ راوی کی روایت کی بنا پر اس بات پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ اللہ پاک اپنے دین کی خود حفاظت کر لے گا، ہم نے کیا کرنا ہے قرآن کے حکم میں تبدیلی کر دی جائے۔
اب آپ بتائیے کون سا طریقہ زیادہ مناسب ہے؟

اب ذرا کچھ اور عرض کرتا ہوں:۔
قرآن کریم میں ہے:
لا تخرجوہن من بیوتہن
یہاں ضمیر "ھن" عام ہے جو مطلقہ رجعیہ اور مطلقہ ثلاثہ بائنہ دونوں کو شامل ہے۔
عمر رض کے سامنے ایک صحابیہ فاطمہ بنت قیس رض کی روایت پیش کی گئی کہ وہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے کہا تھا کہ تیرے لیے نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ جب کہ وہ مطلقہ ثلاث تھیں۔ بجائے اس کے کہ عمر رض ان کی روایت سے اس آیت میں مطلقہ ثلاث کی تخصیص کرتے آپ نے فرمایا:۔
ما كنا لندع كتاب ربنا وسنة نبينا -صلى الله عليه وسلم- لقول امرأة لا ندري أحفظت أم لا
سنن ابی داود، حدیث صحیح

"ہم ایسے نہیں کہ اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک ایسی عورت کے قول کی وجہ سے چھوڑ دیں کہ ہم نہیں جانتے کہ اس نے یاد رکھا ہے یا نہیں۔"
حالاں کہ یہاں فاطمہ بنت قیس رض کی روایت قرآن کے مخالف نہیں تھی بلکہ قرآن کے عموم میں تخصیص کر رہی تھی۔ بعد میں ان کی روایت کی صحابہ نے مختلف توجیہات کیں۔ لیکن عمر رض کے یہ الفاظ اس اصول کو بیان کرتے ہیں۔
اس حدیث کے چند طرق ذکر ہیں:۔
حدثنا نصر بن علي، أخبرني أبو أحمد، حدثنا عمار بن رزيق
عن أبي إسحاق، قال: كنت في المسجد الجامع مع الأسود، فقال: أتت فاطمة بنت قيس عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: ما كنا لندع كتاب ربنا وسنة نبينا -صلى الله عليه وسلم- لقول امرأة لا ندري أحفظت أم لا
سنن ابی داود

أخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، قال: قالت فاطمة بنت قيس: «طلقني زوجي ثلاثا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يجعل لي سكنى ولا نفقة» قال المغيرة فأتيت إبراهيم فذكرت ذلك له، فقال لها السكنى والنفقة، فذكرت له ما قال الشعبي: قال: كان عمر يجعل لها ذلك، فقال عمر: لا ندع كتاب ربنا وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم بقول امرأة لا ندري لعلها حفظت أم نسيت
مسند اسحاق بن راہویہ

وحثنا يوسف، قثنا محمد بن كثير، عن سفيان بمثله، وزاد قال: فذكرت ذلك لإبراهيم قال عمر: لا ندع كتاب ربنا وسنة نبينا لقول امرأة لها السكنى والنفقة
مستخرج ابی عوانہ

حدثنا ابن مرزوق , قال أخبرنا محمد بن كثير , قال أخبرنا سفيان , عن سلمة , عن الشعبي , عن فاطمة , عن النبي صلى الله عليه وسلم «أنه لم يجعل لها حين طلقها زوجها سكنى ولا نفقة» . فذكرت ذلك لإبراهيم , فقال: قد رفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: «لا ندع كتاب ربنا عز وجل , وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم لقول امرأة , لها السكنى والنفقة»
شرح معانی الآثار

أخبرنا أبو بكرة , قال: ثنا أبو أحمد محمد بن عبد الله بن الزبير , قال: ثنا عمار بن رزيق , عن أبي إسحاق , قال: كنت عند الأسود بن يزيد في المسجد الأعظم , ومعنا الشعبي , فذكروا المطلقة ثلاثا. فقال الشعبي: حدثتني فاطمة بنت قيس: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لها: «لا سكنى لك ولا نفقة» . قال: فرماه الأسود بحصاة , قال: ويلك , أتحدث بمثل هذا , قد رفع ذلك إلى عمر بن الخطاب فقال: " لسنا بتاركي كتاب ربنا وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم بقول امرأة , لا ندري لعلها كذبت , قال الله تعالى {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن} الآية
شرح معانی الآثار

وحدثناه محمد بن عمرو بن جبلة، حدثنا أبو أحمد، حدثنا عمار بن رزيق، عن أبي إسحاق، قال: كنت مع الأسود بن يزيد جالسا في المسجد الأعظم، ومعنا الشعبي، فحدث الشعبي بحديث فاطمة بنت قيس، «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لم يجعل لها سكنى ولا نفقة»، ثم أخذ الأسود كفا من حصى، فحصبه به، فقال: ويلك تحدث بمثل هذا، قال عمر: لا نترك كتاب الله وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم لقول امرأة، لا ندري لعلها حفظت، أو نسيت، لها السكنى والنفقة، قال الله عز وجل: {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة}
صحیح مسلم


احناف کا یہ اصول کہ کتاب اللہ میں خبر واحد سے تخریج نہیں ہو سکتی صرف اتنا سا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی پوری تفصیل اور گہرائی یہ ہے کہ کتاب اللہ کے الفاظ سندا و متنا قطعی ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی شبہ ممکن نہیں ہے جبکہ خبر واحد میں ذرا سا شبہ آ جاتا ہے چاہے وہ شبہ اس وجہ سے ہو کہ راوی سے سننے، سمجھنے یا یاد رکھنے میں غلطی ممکن ہے یا اس وجہ سے کہ حدیث میں روایت بالمعنی جائز ہے اور بسا اوقات ذرا سے الفاظ کے فرق سے بہت کچھ بدل جاتا ہے۔
اگر کسی وقت کتاب اللہ کی مراد ظنی ہو جائے جیسے اس میں خود کتاب اللہ سے ہی تخصیص ہو جائے یا کسی بھی وجہ سے خبر واحد قطعی ہو جائے تو کتاب اللہ میں اس سے تخصیص درست نہیں بلکہ لازم ہو جاتی ہے۔ یہ خبر قطعی اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے راوی کثیر ہوں اور دیگر طرق سے بھی جیسے کوئی صحابی خود نبی ﷺ سے سنے تو وہ اس کے لیے قطعی ہے یا امت کا اس پر تعامل ہو جائے یا صحابہ وغیرہ اسے قبول کر لیں یا مجتہد تک ایسی سند سے پہنچا ہو جس میں شبہ کا امکان نہ ہو جیسے ابراہیم نخعی بغیر سند کے عبد اللہ بن مسعود رض سے روایت کریں وغیرہ۔ میں نے اپنے ذہن سے کچھ صورتیں بیان کی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امام مدینہؒ اور امام اعظمؒ کا دور چونکہ صحابہ و تابعین کے انتہائی قریب ہے اس لیے وہ ان کے تعامل کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس لیے بہت سی احادیث جو ہمارے نزدیک صرف خبر واحد ہوتی ہیں ان کے نزدیک تعامل کی وجہ سے قطعی ہو جاتی ہیں کیوں کہ ظاہر ہے یہ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ صحابہ اور اجل تابعین نبی ﷺ کی اور صحابہ کی زندگی اور آپ کے فعل کو دیکھیں گے اور پھر اس کے خلاف کریں گے۔ نسخ وغیرہ کا امکان ہوتا ہے لیکن وہ بھی چند ایک میں ہوتا ہے کہ انہیں معلوم نہیں ہوا ہوگا۔ جماعت میں تو وہ بھی نہیں ہوتا۔
اس لیے احناف کا یہ اصول صرف سطحی یا سرسری نہیں ہے جو خبر واحد کو رد کرکے اپنا مسلک ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا ہو بلکہ یہ انتہائی گہرائی رکھتا ہے۔

آپ کی دیگر پوسٹس کے جوابات بعد میں دوں گا ان شاء اللہ۔ ابھی تو وہ پڑھی بھی نہیں ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
گویا اس قاعدہ کی دلیل زیر بحث حدیث نہیں بلکہ عقل ہے ۔
دوسری بات خبر واحد اور متواتر کا یا حدیث اور قرآن کے بظاہر اختلاف کو رواۃ کے اختلاف کے ساتھ قیاس کرنا میرے خیال میں قیاس مع الفارق ہے ۔
شاذ روایت کو تو اس وجہ سےرد کیا جاتا ہےکہ مخالفت کرنےوالے راوی سے بیان کرنے میں چوک ہوگئی ہے ۔ اور امر واقع ایسے ہی ہے ۔
لیکن خبر واحد کو قرآن کے ساتھ رد کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی خاص آدمی کے فہم کے مطابق قرآن سے متعارض ہوتی ہے ۔ رواۃ کی غلطی کا شائبہ اس میں نہیں ہوتا ۔
ارے نہیں بھائی۔ وہ حدیث تو میں نے ایسے ہی پیش کر دی تھی صرف یہ بتانے کے لیے کہ یہاں بھی یہی قاعدہ جاری ہو رہا ہے۔ اب چاہے قاعدہ مانیں یا نہ مانیں۔
باقی آپ نے جو فرمایا ہے وہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن تب تک جب تک "بظاہر" متعارض ہو۔ تب تو دونوں میں تطبیق کی جاتی ہے۔ ہاں جہاں تطبیق کی صورت ممکن نہیں ہوتی وہاں تھوڑی سی دیر کے لیے قرآن کریم کو بھی ایک روایت سمجھ لیں جو تواتر سے مروی ہے تو خود ہی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ قرآن کریم کو قوت مروی کی وجہ سے اور کثرت روات کی وجہ سے ترجیح مل جائے گی۔ جب تک تطبیق ممکن ہے تب تک تو تطبیق ہی کی جاتی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ تطبیق کی کوئی ایک صورت راجح سمجھتا ہے اور کوئی دوسری۔


طبقہ اہل حدیث کو آپ نے ایک خاص عینک لگا کر دیکھا ہوگا ، ذرا اصول حدیث پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرکے دیکھیں ، انصاف شرط ہے آپ اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
اگر اتنا وقت نہ ہو تو پھر اصول حدیث پر لکھی گئی کتب کی کم از کم فہرست ہی ملاحظہ فرمالیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ معاملہ اس قدر آسان نہیں جتنا سمجھ لیا گیا ہے ۔ اصول حدیث اور علم الأسانید وہ علم ہے جس پر منصف مزاج غیر مسلم بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے ۔
بعض جگہوں پر ان میں بھی کمزوری یا سطحی فیصلہ نظر آتا ہے اور اکثر محدثین کے درمیان اختلاف ایسی ہی جگہوں پر ہوتا ہے۔
میں تو بےعلم بندہ ہوں اور وہ علم کے پہاڑ۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ لیکن یہ صرف بعض جگہ ہوتا ہے اور ہر علم میں ایسا ہوتا ہے کیوں کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی قانون کامل نہیں ہے۔ اعتبار اکثر کا ہوتا ہے۔
آپ بھی اگر ایک نظر اصول فقہ کی کتب پر ڈال لیں اور انہیں ایک بار تھوڑی گہرائی سے پڑھ لیں تو آپ بھی اپنی رائے ان شاء اللہ تبدیل کر لیں گے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
طبقہ اہل حدیث کو آپ نے ایک خاص عینک لگا کر دیکھا ہوگا ، ذرا اصول حدیث پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرکے دیکھیں ، انصاف شرط ہے آپ اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
اگر اتنا وقت نہ ہو تو پھر اصول حدیث پر لکھی گئی کتب کی کم از کم فہرست ہی ملاحظہ فرمالیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ معاملہ اس قدر آسان نہیں جتنا سمجھ لیا گیا ہے ۔ اصول حدیث اور علم الأسانید وہ علم ہے جس پر منصف مزاج غیر مسلم بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے ۔
آپ کے لیے ” مسلکِ اعتدال “ والا مضمون کا مطالعہ اس سلسلے میں بہتر رہے گا پھر آپ کو علم ہو جائے گا کہ میرے کہنے کا کیا مطلب ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آپ کے لیے ” مسلکِ اعتدال “ والا مضمون کا مطالعہ اس سلسلے میں بہتر رہے گا پھر آپ کو علم ہو جائے گا کہ میرے کہنے کا کیا مطلب ہے۔
میں نے اس مضمون کا بعض مقامات سے مطالعہ کیا ہے ۔ محدثین کے حوالے سے آپ کے جو دو اعتراض ہیں وہ اصول حدیث سے ناواقفیت اور محدثین کی عبارات میں عدم تفکر کا نتیجہ ہیں ۔
خیر اگر آپ چاہیں تو ایک ایک کرکے نکات بیان کرتے جائیں تو آپ سےمکالمہ کیا جاسکتا ہے ۔ یا پھر مسلک اعتدال کو یونیکوڈ میں لکھ دیں تاکہ اگر کوئی اس پر تبصرہ کرنا چاہے تو اقتباس لینا ممکن ہو ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
آپ بھی اگر ایک نظر اصول فقہ کی کتب پر ڈال لیں اور انہیں ایک بار تھوڑی گہرائی سے پڑھ لیں تو آپ بھی اپنی رائے ان شاء اللہ تبدیل کر لیں گے۔
مجھے یہ زعم ہے کہ اس مسئلہ کی تمام جزئیات میرے علم میں ہیں اگر آپ کسی خاص کتاب یا چند کتابوں کی طرف رہنمائی کریں تو میں ان کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کرلوں گا ۔ اور اگر کچھ کہنے کے لیے بھی ہوا تو یہاں لکھ دوں گا ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اور میں پہلے تین جوابات دے چکا ہوں، مکرر ملاحظہ فرما لیجئے گزشتہ پوسٹ میں۔
باقی یہ نتیجہ نکالنا کہ ابراہیم نہایت سچے تھے لیکن تین بار جھوٹ بولنا اس سچے ہونے سے مستثنیٰ ہے، آپ کی کور چشمی پر دال ہے۔
ارے بھائی، جب استثناء والی حدیث ہی میں موجود تفصیل سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ باتیں جھوٹ تھیں ہی نہیں، تو سیاق و سباق سے بھی آخر دلیل لی جاتی ہے یا نہیں؟
مجھے سیاق و سباق اس کا دکھائیے تو سہی۔ ہو سکتا ہے میرے ذہن سے محو ہو گیا ہو۔
جو تین جواب آپ نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہی ہے نا کہ یہاں کذب کا اصل معنی مراد نہیں ہے؟ تو یہی تو میں بھی پوچھ رہا ہوں کہ آخر کیوں؟


آپ ایک کام کیجئے، ایک مرتبہ میرا یہ مضمون ملاحظہ کر لیں:

خلاف قرآن روایات کا فلسفہ -- تحقیق و جائزہ
اور پھر یہ فرمائیے:
’’ قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ن یکون میتۃ اودما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیر اﷲ بہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فان ربک غفور الرحیم ‘‘۔(الانعام :145)
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
آپ کا مضمون تو میں نے پڑھ لیا۔ عمدہ مضمون ہے ویسے تو۔ لیکن ہماری اس بحث سے خارج ہے۔

البتہ آپ کے اس سوال کا جواب میں دیتا ہوں۔
جب بھی کسی بات کی صرف ایک جانب کو دیکھا جائے تو مختلف قسم کے اشکال پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔
قرآن کریم میں اسی حصر کی مخالف آیت بھی موجود ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ
یہ ہائیلائٹڈ اشیاء آیت قل لا اجد میں موجود نہیں ہیں۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ آیت قل لا اجد میں حصر ہے۔ اور حصر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس میں حکم بند ہو۔ تو ان دونوں آیات میں تطبیق دینی ہوگی۔
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور دوسری آیت مدنی ہے اور متاخر ناسخ ہوتی ہے۔ (تفسیر قرطبی)
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ جو چیزیں تم یعنی اہل مکہ کھاتے ہو ان میں یہ یہ چیزیں حرام ہیں۔ جنہیں تم نے حرام بنا دیا ہے انہیں حرام نہیں کیا گیا۔ (الرسالہ ، تفسیر قرطبی)
یعنی یہ اہل مکہ کو جواب دیا گیا ہے۔ باقی اصل حکم دوسری آیت میں ہے۔
اور یہ جو دوسری آیت ہے اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس کی وجہ سے ہم حدیث میں حرام ہونے والی کسی چیز کو اس کے خلاف قرار دیں۔ اس میں تو صرف چند چیزوں کا ذکر ہے۔
اب آپ خود بتائیے کہ کیا مزید چیزوں کی حرمت کے ثبوت کے لیے متواتر روایات کی ضرورت ہوگی؟


ان مثالوں سے یہ خوب واضح ہو جاتا ہے کہ احناف خود خبر واحد سے قرآن کی تخصیص نہیں کرنی چاہئے، والے اصول پر ہمہ وقت عمل پیرا نہیں ہوتے ، ہاں اپنے مفاد اور مطلب کی خاطر یہ اصول بڑے زور و شور سے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر مقصد حدیث رسول کی تردید سے زیادہ امام ابو حنیفہ کی ناجائز تقلید ہوا کرتا ہے، الا ماشاءاللہ۔۔۔
اب اس مسئلہ کی تفصیل آپ نے دیکھ لی ہے۔ اگر اب بھی آپ اپنی بات پر ہی بضد ہوں تو پھر میں کچھ نہیں کر سکوں گا۔ اصولا جتنے کھلے ذہن سے آپ لوگ تمام علماء کی کتب پڑھتے ہیں اتنے ہی کھلے ذہن سے آپ احناف کی کتب پڑھیں تو بہت سے اشکالات ختم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر پڑھنے سے پہلے ہی یہ خیال ذہن میں ہو کہ یہ حنفی ہے اس لیے غلط ہی کہے گا تو پھر نتیجہ کوئی اچھا نہیں نکلے گا۔ ہماری ذات پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن آپ کی علم حاصل کرنے کی صلاحیت محدود ہوتی جائے گی۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
حلالہ والے دھاگے میں مجھے ملا نہیں، لنک دے دیں ذرا۔
یہ لیجیے محترم بھائی:۔
دوسری بات روایت ابن عمر رض کی۔
اس پر جو اقوال آپ نے تحریر فرمائے وہ میں پڑھ چکا ہوں اور یہ لکھتے وقت میرے ذہن میں بھی تھے۔
میرے محترم من السنۃ، امرنا اور نہینا میں تو رفع صراحتا ثابت ہوتا ہے (و فیہ اختلاف ایضا) لیکن کنا نعد اور ان الفاظ میں ہر لحاظ سے فرق ہے جو آپ پر بھی مخفی نہیں ہوگا۔ لہذا ان الفاظ سے اس کی بحث تو نہیں ہوسکتی۔ وجہ یہ ہے کہ صحابی جب من السنۃ کہے گا تو سنت نبی ﷺ کی ہی مراد ہو گی، جب امرنا کہے گا تو ظاہر ہے آمر نبی مکرم ﷺ ہی ہوں گے اور جب نہینا کہے گا تو ناہی بھی میرے آقا ﷺ ہی ہوں گے۔ لیکن جب کنا نعد (ہم شمار کرتے تھے) کہا جائے گا تو اس میں نبی ﷺ کی جانب کس بات کی نسبت ہوگی؟؟؟
ہاں اس کی بحث تقریر رسول ﷺ کی تحت ہو سکتی ہے کہ صحابی کہیں کنا فعلنا فی عہد رسول اللہ ﷺ (ہم نبی ﷺ کے زمانے میں کرتے تھے) تو ظاہر ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اس کام سے منع نہیں فرمایا۔ اس بات میں کس قدر مضبوطی ہے اس سے قطع نظر تقریر رسول ﷺ کو دیکھیے کہ یہ کیا ہے؟ نبی ﷺ ایک امر کا مشاہدہ فرمائیں اور اس سے روکیں نہ۔ یہ تقریر رسول ﷺ ہے۔ لیکن یہ امر مشاہد پر تو ہو سکتی ہے امر عقلی پر نہیں ہو سکتی۔
جیسے کوئی صحابی کہیں: ہم نبی ﷺ کے زمانے میں ایسا "سمجھتے" تھے یا ہم نبی ﷺ کے زمانے میں ایسا "سوچتے" تھے۔ اس سے تقریر رسول ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح "عد" (شمار کرنا (کسی بات کو)) بھی ایک امر عقلی ہے۔ ہم نبی پاک ﷺ کے لیے علم غیب نہیں مانتے اور اس بات کے ذکر کا صحابی نے تذکرہ نہیں کیا تو بھلا تقریر کیسے ثابت ہوئی؟
آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں اس لیے اگر آپ محدثین کا الفاظ "ظن" وغیرہ پر بھی یہ فیصلہ جانتے ہیں تو مجھے مطلع فرمائیے۔
جزاک اللہ خیرا
http://forum.mohaddis.com/threads/حلالہ-جیسے-لعنتی-فعل-پر-آپکو-سمجھانے-کے-لئے،،،-انتہائی-ضروری-بات،،.22361/page-10#post-179548

میرے علم کی حد تک محدثین کرام نے جتنے الفاظ استعمال کیے ہیں وہ سب وہ ہیں جن میں کوئی کام ظاہری ہوتا ہے۔ اور اس پر نبی ﷺ کی تقریر کی وجہ سے وہ مرفوع ہو جاتا ہے۔ یہی اس کی دلیل اور وجہ ہے۔
لیکن اگر کوئی کام ذہنی ہے تو اس کا تو نبی ﷺ نے مشاہدہ کیا ہی نہیں۔ تو پھر وہ کس بنا پر مرفوع ہو سکتا ہے؟؟ ہر جگہ عقل لگاتے ہیں تو یہاں بھی استعمال کیجیے۔

غلط، اسی کو مغالطہ کہتے ہیں۔
ارے بھئی صحابہ سارے عادل تھے تو تب اسناد کی ضرورت نہیں تھے۔ جب فسق زیادہ ہوا تو اسناد کا مطالبہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ کہاں کی بات کہاں ملا رہے ہیں۔
حضرت ابن عباس رض کی وفات 68 ھ کی ہے۔ ان کا واقعہ مسلم کے مقدمہ میں ہے:۔
وحدثني أبو أيوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا أبو عامر يعني العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه، ولا ينظر إليه، فقال: يا ابن عباس، مالي لا أراك تسمع لحديثي، أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسمع، فقال ابن عباس: " إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابتدرته أبصارنا، وأصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب، والذلول، لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف
کیا یہ صحابہ کا زمانہ نہیں تھا اور صحابہ تمام عادل نہیں تھے؟
اس روایت سے چند چیزیں معلوم ہوتی ہیں:۔

  1. صحابہ کے زمانے میں غیر صحابہ بھی روایت کرتے تھے۔
  2. دار و مدار صرف سند پر نہیں ہوتا تھا کیوں کہ یہ بشیر العدوی ثقہ راوی ہیں اور کبار تابعین میں سے ہیں۔
  3. صحابہ وہ حدیثیں قبول کرتے تھے جنہیں وہ اپنے اجتہاد یا علم کی بنا پر صحیح سمجھتے تھے اس لیے یہ فرمایا "لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف"
اس لیے آپ کا یہ کہنا کہ صحابہ ثقات تھے اس لیے سند کے بارے میں پوچھا نہیں جاتا تھا یہ درست نہیں۔ بلکہ اصل یہی ہے کہ ابتدائی زمانے میں سند کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا تھا۔ پھر بھی حدیث کا رد اور قبول موجود ہے۔ تو یہ کس بنیاد پر ہوتا تھا؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جزاک اللہ خیرا یا اخی۔
یہ نظریہ اپنے کمال کے ساتھ درحقیقت اباضیہ کا ہے اور علماء امت نے اس پر سختی سے رد کیا ہے۔
اس کی وضاحت فرمادیجیے؛کون سا نظریہ اباضیہ کا ہے؟حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کا؟کوئی حوالہ ہو تو پیش فرمادیں،جزاکم اللہ خیراً
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس کی وضاحت فرمادیجیے؛کون سا نظریہ اباضیہ کا ہے؟حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کا؟کوئی حوالہ ہو تو پیش فرمادیں،جزاکم اللہ خیراً
جی حدیث كو قرآن کریم پر اس طرح پیش کرنے کا کہ اگر اس کے خلاف ہو تو یہ تطبیق وغیرہ نہیں کرتے بلکہ رد کر دیتے ہیں۔ اس پر دلیل مسند امام ربیع کی ایک روایت سے دیتے ہیں جو وہ اپنے ایک مجہول شیخ (نام غالبا ابو عبیدہ ہے) سے روایت کرتے ہیں۔
یہ جملہ لکھتے وقت میں سرچ کرتا ہوا ان کے ایک دو فورمز پر چلا گیا تھا۔ وہاں اس مسئلہ کی تفصیل اور بحث دیکھی۔ پھر علماء اہل سنت کا رد مختلف جگہوں سے مع حوالہ جات کے دیکھا۔
لیکن چوں کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی اس لیے لنکس سیو نہیں کیے۔ اور اب یہ یاد بھی نہیں آ رہا کہ کن الفاظ سے سرچ کی تھی۔
 
Top