• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحيح البخاري - مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ - جلد ٤ - احادیث ۲۷۸۲سے ۳۷۷۵

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
3 م- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} إِلَى آخِرِ السُّورَةِ:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا ، اس سے پہلے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے آخر سورت تک

‏‏‏‏وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ‏‏‏‏ إِلَى قَوْلِهِ: ‏‏‏‏مِنَ الْمُسْلِمِينَ‏‏‏‏.
اور سورۃ یونس میں فرمانا «واتل عليهم نبأ نوح إذ قال لقومه يا قوم إن كان كبر عليكم مقامي وتذكيري بآيات الله» اے رسول! نوح کی خبر ان پر تلاوت کر، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے قوم! اگر میرا یہاں ٹھہرنا اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو تمہارے سامنے بیان کرنا تمہیں زیادہ ناگوار گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «من المسلمين» تک۔



حدیث نمبر: 3337
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَالِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ وَلَكِنِّي أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَوْلًا:‏‏‏‏ لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے، انہیں زہری نے کہ سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطبہ سنانے کھڑے ہوئے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی، اس کی شان کے مطابق ثنا بیان کی، پھر دجال کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے نہ ڈرایا ہو۔ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا تھا۔ لیکن میں تمہیں اس کے بارے میں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے بھی اپنی قوم کو نہیں بتائی تھی، تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دجال کانا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے۔



حدیث نمبر: 3338
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا عَنِ الدَّجَّالِ مَا حَدَّثَ بِهِ نَبِيٌّ قَوْمَهُ إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّهُ يَجِيءُ مَعَهُ بِمِثَالِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَالَّتِي يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّهَا الْجَنَّةُ هِيَ النَّارُ وَإِنِّي أُنْذِرُكُمْ كَمَا أَنْذَرَ بِهِ نُوحٌ قَوْمَهُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔



حدیث نمبر: 3339
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغْتَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَيْ رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لِأُمَّتِهِ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغَكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ لَا مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتُهُ فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ وَهُوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا، کیا (میرا پیغام) تم نے پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا، کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے نہیں، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا، اس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت (کے لوگ میرے گواہ ہیں)چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ اور «وسط» کے معنی درمیانی کے ہیں۔



حدیث نمبر: 3340
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ بِمَنْ يَجْمَعُ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَعْضُ النَّاسِ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ إِلَى مَا بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَعْضُ النَّاسِ أَبُوكُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ وَأَسْكَنَكَ الْجَنَّةَ أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا أَمَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى إِلَى مَا بَلَغَنَا أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ:‏‏‏‏ لَا أَحْفَظُ سَائِرَهُ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے باوا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے (نفسی نفسی) تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام! آپ (آدم علیہ السلام کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبدشکور کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہو گا۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے۔ (نفسی نفسی) تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں (ان کی شفاعت کے لیے) عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر آواز آئے گی، اے محمد! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا۔ محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا کہ ساری حدیث میں یاد نہ رکھ سکا۔



حدیث نمبر: 3341
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قَرَأَ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15 مِثْلَ قِرَاءَةِ الْعَامَّةِ".
ہم سے نصر بن علی بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابواحمد نے خبر دی، انہیں سفیان نے انہیں ابواسحاق نے انہیں اسود بن یزید نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (آیت) «فهل من مدكر‏» مشہور قرآت کے مطابق(ادغام کے ساتھ) تلاوت فرمائی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

4- بَابُ: {وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلاَ تَتَّقُونَ أَتَدْعُونَ بَعْلاً وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ اللَّهُ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الأَوَّلِينَ فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ إِلاَّ عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الآخِرِينَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الصافات میں ) فرمان اور بیشک الیاس رسولوں میں سے تھا ، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ( اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرنے سے ) ڈرتے کیوں نہیں ہو ؟ تم بعل ( بت ) کی تو عبادت کرتے ہو اور سب سے اچھے پیدا کرنے والے کی عبادت کو چھوڑتے ہو ۔ اللہ ہی تمہارا رب ہے اور تمہارے باپ دادوں کا بھی ، لیکن ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا ۔ پس بیشک وہ سب لوگ ( عذاب کے لیے ) حاضر کئے جائیں گے ۔ سوائے اللہ کے ان بندوں کے جو مخلص تھے اور ہم نے بعد میں آنے والی امتوں میں ان کا ذکر خیر چھوڑا ہے

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ يُذْكَرُ بِخَيْرٍ سَلامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ سورة الصافات آية 130 إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ سورة الصافات آية 131 إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ سورة الصافات آية 132 يُذْكَرُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ إِلْيَاسَ هُوَ إِدْرِيسُ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «تركنا عليه في الآخرين‏» کے متعلق کہا کہ بھلائی کے ساتھ انہیں یاد کیا جاتا رہے گا۔ سلامتی ہو الیاسین پر، بیشک ہم اسی طرح مخلصین کو بدلہ دیتے ہیں۔ بیشک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔ ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ الیاس، ادریس علیہ السلام کا نام تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

5- بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا}:
باب: ادریس علیہ السلام کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا اور ہم نے ان کو بلند مکان ( آسمان ) پر اٹھا لیا تھا
حدیث نمبر: 3342

قَالَ عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَايُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَفَرَجَ صَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ فَلَمَّا جَاءَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جِبْرِيلُ:‏‏‏‏ لِخَازِنِ السَّمَاءِ افْتَحْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَعَكَ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَافْتَحْ فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ فَأَهْلُ الْيَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِخَازِنِهَا افْتَحْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْأَوَّلُ فَفَتَحَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ إِدْرِيسَ وَمُوسَى وَعِيسَى وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ لِي كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَ إِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِإِدْرِيسَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا إِدْرِيسُ ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا مُوسَى ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ عِيسَى ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا إِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا حَيَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ حَزْمٍ وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ مَا الَّذِي فَرَضَ عَلَى أُمَّتِكَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَاجِعْ رَبَّكَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَاجِعْ رَبَّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَاجِعْ رَبَّكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى أَتَى بِي السِّدْرَةَ الْمُنْتَهَى فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ".
عبدان نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے، (دوسری سند) اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ نے، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھر کی چھت کھولی گئی۔ میرا قیام ان دنوں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف لے کر چلے، جب آسمان دنیا پر پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو، پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں جبرائیل، پھر پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پوچھا کہ انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا۔ جواب دیا کہ ہاں، اب دروازہ کھلا، جب ہم آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی، کچھ انسانی روحیں ان کے دائیں طرف تھیں اور کچھ بائیں طرف، جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو پڑتے۔ انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بیٹے! میں نے پوچھا، جبرائیل! یہ صاحب کون بزرگ ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ انسانی روحیں ان کے دائیں اور بائیں طرف تھیں ان کی اولاد بنی آدم کی روحیں تھیں ان کے جو دائیں طرف تھیں وہ جنتی تھیں اور جو بائیں طرف تھیں وہ دوزخی تھیں، اسی لیے جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روتے تھے، پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے اوپر لے کر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے، اس آسمان کے داروغہ سے بھی انہوں نے کہا کہ دروازہ کھولو، انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جو پہلے آسمان پر ہو چکے تھے، پھر دروازہ کھولا، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو پایا، لیکن انہوں نے ان انبیاء کرام کے مقامات کی کوئی تخصیص نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا (پہلے آسمان پر) پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر اور انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب جبرائیل علیہ السلام، ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا خوش آمدید، نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انہوں نے بھی کہا خوش آمدید نیک نبی، نیک بھائی، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ تو بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں، ابن شہاب سے زہری نے بیان کیا اور مجھے ایوب بن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوحیہ انصاری رضی اللہ عنہم بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے اوپر لے کر چڑھے اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں سے قلم کے لکھنے کی آواز صاف سننے لگی تھی، ابوبکر بن حزم نے بیان کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں۔ میں اس فریضہ کے ساتھ واپس ہوا اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی گئی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ پچاس وقت کی نمازیں ان پر فرض ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں، کیونکہ آپ کی امت میں اتنی نمازوں کی طاقت نہیں ہے، چنانچہ میں واپس ہوا اور رب العالمین کے دربار میں مراجعت کی، اس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ کم کر دیا گیا، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں پھر انہوں نے اپنی تفصیلات کا ذکر کیا کہ رب العالمین نے ایک حصہ کی پھر کمی کر دی، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں خبر کی، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے مراجعت کریں، کیونکہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے، پھر میں واپس ہوا اور اپنے رب سے پھر مراجعت کی، اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ فرما دیا کہ نمازیں پانچ وقت کی کر دی گئیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ہی باقی رکھا گیا، ہمارا قول بدلا نہیں کرتا۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہئے۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اللہ پاک سے باربار درخواست کرتے ہوئے اب شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لائے جہاں مختلف قسم کے رنگ نظر آئے، جنہوں نے اس درخت کو چھپا رکھا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

6- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ}، وَقَوْلِهِ: {إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالأَحْقَافِ} إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى: {كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ}:
باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو ( نبی بنا کر ) بھیجا انہوں نے کہا ، اے قوم ! اللہ کی عبادت کرو اور ( سورۃ الاحقاف میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو احقاف یعنی ریت کے میدانوں میں ڈرایا اللہ تعالیٰ کے ارشاد یوں ہی ہم بدلہ دیتے ہیں مجرم قوموں کو

فِيهِ عَنْ عَطَاءٍ وَسُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس باب میں عطاء ابن ابی رباح اور سلیمان بن یسار نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

6 م- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ} شَدِيدَةٍ:
باب: اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ الحاقہ میں ) فرمایا لیکن قوم عاد ، تو انہیں ایک نہایت تیز تند آندھی سے ہلاک کیا گیا ، جو بڑی غضبناک تھی

قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَتَتْ عَلَى الْخُزَّانِ سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا سورة الحاقة آية 7 مُتَتَابِعَةً فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ سورة الحاقة آية 7 أُصُولُهَا فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ سورة الحاقة آية 8 بَقِيَّةٍ.
ابن عیینہ نے (آیت کے لفظ) «عاتية‏» کی تشریح میں کہا کہ ( «عتت على الخزان») یعنی وہ اپنے داروغہ فرشتوں کے قابو سے باہر ہو گئی جسے اللہ نے ان پر متواتر سات رات اور آٹھ دن تک مسلط کیا (آیت میں) لفظ «حسوما‏» بمعنی «متتابعة» ہے یعنی وہ پے در پے چلتی رہی (ایک منٹ بھی نہیں رکی) پس اگر تو اس وقت موجود ہوتا تو اس قوم کو وہاں یوں گرا ہوا دیکھتا کہ گویا وہ کھوکھلی کھجوروں کے تنے پڑے ہیں، سو کیا تجھ کو ان میں سے کوئی بھی بچا ہوا نظر آتا ہے۔



حدیث نمبر: 3343
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَكَمِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (غزوہ خندق کے موقع پر) پروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہوا سے ہلاک کر دی گئی تھی۔



حدیث نمبر: 3344
قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَرْبَعَةِ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِيِّ وَعُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَزَيْدٍ الطَّائِيِّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ وَعَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَالْأَنْصَارُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُ أَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَلَا تَأْمَنُونِي فَسَأَلَهُ رَجُلٌ قَتْلَهُ أَحْسِبُهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ فَمَنَعَهُ فَلَمَّا وَلَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا أَوْ فِي عَقِبِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ".
(امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) کہ ابن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابن ابی نعیم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ خالد بن ولید تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔



حدیث نمبر: 3345
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَقْرَأُ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15".
ہم سے خالد بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے ان سے اسود نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ آیت «فهل من مدكر‏» کی تلاوت فرما رہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

7- بَابُ قِصَّةِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ:
باب: یاجوج و ماجوج کا بیان

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ‏‏‏‏.
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں فرمایا «قالوا يا ذا القرنين إن يأجوج ومأجوج مفسدون في الأرض‏» وہ لوگ کہنے لگے۔ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچا رہے ہیں۔



وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا فَاتَّبَعَ سَبَبًا‏‏‏‏ إِلَى قَوْلِهِ: ‏‏‏‏ائْتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ‏‏‏‏ وَاحِدُهَا زُبْرَةٌ وَهْيَ الْقِطَعُ ‏‏‏‏حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ‏‏‏‏ يُقَالُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْجَبَلَيْنِ، وَالسُّدَّيْنِ الْجَبَلَيْنِ ‏‏‏‏خَرْجًا‏‏‏‏ أَجْرًا ‏‏‏‏قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا‏‏‏‏ أَصْبُبْ عَلَيْهِ رَصَاصًا، وَيُقَالُ الْحَدِيدُ. وَيُقَالُ الصُّفْرُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ النُّحَاسُ. ‏‏‏‏فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ‏‏‏‏ يَعْلُوهُ، اسْتَطَاعَ اسْتَفْعَلَ مِنْ أَطَعْتُ لَهُ فَلِذَلِكَ فُتِحَ أَسْطَاعَ يَسْطِيعُ وَقَالَ بَعْضُهُمُ اسْتَطَاعَ يَسْتَطِيعُ، ‏‏‏‏وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكًّا‏‏‏‏ أَلْزَقَهُ بِالأَرْضِ، وَنَاقَةٌ دَكَّاءُ لاَ سَنَامَ لَهَا، وَالدَّكْدَاكُ مِنَ الأَرْضِ مِثْلُهُ حَتَّى صَلُبَ مِنَ الأَرْضِ وَتَلَبَّدَ. ‏‏‏‏وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ‏‏‏‏، ‏‏‏‏حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ‏‏‏‏ قَالَ قَتَادَةُ حَدَبٍ أَكَمَةٍ. قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ السَّدَّ مِثْلَ الْبُرْدِ الْمُحَبَّرِ. قَالَ: «رَأَيْتَهُ».
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا‏» اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا . اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد‏» تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔ «صدفين‏» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين‏» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين‏» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين»(دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا‏» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا‏» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه‏» بمعنی «يعلوه» ،«أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو«دكا‏» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔



حدیث نمبر: 3346
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الْإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ زَيْنَبُ ابْنَةَ جَحْشٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے، ان سے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آ جائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کر دیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بنا کر بتلایا۔ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کر دئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا (تو یقیناً بربادی ہو گی)۔



حدیث نمبر: 3347
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "فَتَحَ اللَّهُ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلَ هَذَا وَعَقَدَ بِيَدِهِ تِسْعِينَ".
ہمیں مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک نے یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا کھول دیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنا کر بتلایا۔



حدیث نمبر: 3348
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ "يَا آدَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا بَعْثُ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ فَعِنْدَهُ يَشِيبُ الصَّغِيرُ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَيُّنَا ذَلِكَ الْوَاحِدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَبْشِرُوا فَإِنَّ مِنْكُمْ رَجُلًا وَمِنْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ أَلْفًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَبْيَضَ أَوْ كَشَعَرَةٍ بَيْضَاءَ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) فرمائے گا، اے آدم! آدم علیہ السلام عرض کریں گے میں اطاعت کے لیے حاضر ہوں، مستعد ہوں، ساری بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جہنم میں جانے والوں کو (لوگوں میں سے الگ) نکال لو۔ آدم علیہ السلام عرض کریں گے۔ اے اللہ! جہنمیوں کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ اس وقت (کی ہولناکی اور وحشت سے) بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل گرا دے گی۔ اس وقت تم (خوف و دہشت سے) لوگوں کو مدہوشی کے عالم میں دیکھو گے، حالانکہ وہ بیہوش نہ ہوں گے۔ لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ ایک شخص ہم میں سے کون ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو، وہ ایک آدمی تم میں سے ہو گا اور ایک ہزار دوزخی یاجوج ماجوج کی قوم سے ہوں گے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم (امت مسلمہ) تمام جنت والوں کے ایک تہائی ہو گے۔ پھر ہم نے اللہ اکبر کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تم تمام جنت والوں کے آدھے ہو گے پھر ہم نے اللہ اکبر کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (محشر میں) تم لوگ تمام انسانوں کے مقابلے میں اتنے ہو گے جتنے کسی سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ بال، یا جتنے کسی سیاہ بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

8- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ نساء میں ) فرمان کہ اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا

وَقَالَ أَبُو مَيْسَرَةَ:‏‏‏‏ الرَّحِيمُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ.
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «واتخذ الله إبراهيم خليلا‏» اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا۔ اور (سورۃ نحل میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «إن إبراهيم كان أمة قانتا‏» بیشک ابراہیم (تمام خوبیوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے خود) ایک امت تھے، اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار، ایک طرف ہونے والے اور (سورۃ التوبہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «إن إبراهيم لأواه حليم‏» بیشک ابراہیم نہایت نرم طبیعت اور بڑے ہی بردبار تھے۔ ابومیسرہ (عمرو بن شرحبیل) نے کہا کہ «أواه» حبشی زبان میں «لرحيم» کے معنی میں ہے۔



حدیث نمبر: 3349
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِي يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ:‏‏‏‏ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ فَأَقُولُ كَمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي إِلَى قَوْلِهِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 117 - 118".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ حشر میں ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏» جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ، ہم ایسے ہی لوٹائیں گے۔ یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے (سورۃ انبیاء)۔ اور انبیاء میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا اور میرے اصحاب میں سے بعض کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو میں پکار اٹھوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں، میرے اصحاب! لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے پھر کفر اختیار کر لیا تھا۔ اس وقت میں بھی وہی جملہ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) کہیں گے «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم‏» جب تک میں ان کے ساتھ تھا۔ ان پر نگران تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «الحكيم» ‏‏‏‏ تک۔



حدیث نمبر: 3350
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَخِي عَبْدُ الْحَمِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لَا تَعْصِنِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَبُوهُ فَالْيَوْمَ لَا أَعْصِيكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لَا تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ فَأَيُّ خِزْيٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الْأَبْعَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُقَالُ:‏‏‏‏ يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے بھائی عبدالحمید نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں سعید مقبری نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔



حدیث نمبر: 3351
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فَوَجَدَ فِيهِ صُورَةَ إِبْرَاهِيمَ وَصُورَةَ مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَمَا لَهُمْ فَقَدْ سَمِعُوا أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ هَذَا إِبْرَاهِيمُ مُصَوَّرٌ فَمَا لَهُ يَسْتَقْسِمُ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے بکیر نے بیان کیا، ان سے ابن عباس کے مولیٰ کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس میں ابراہیم علیہ السلام اور مریم علیہما السلام کی تصویریں دیکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریش کو کیا ہو گیا؟ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ فرشتے کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں رکھی ہوں، یہ ابراہیم علیہ السلام کی تصویر ہے اور وہ بھی پانسہ پھینکتے ہوئے۔



حدیث نمبر: 3352
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَمَّا رَأَى الصُّوَرَ فِي الْبَيْتِ لَمْ يَدْخُلْ حَتَّى أَمَرَ بِهَا فَمُحِيَتْ وَرَأَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ عَلَيْهِمَا السَّلَام بِأَيْدِيهِمَا الْأَزْلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ وَاللَّهِ إِنِ اسْتَقْسَمَا بِالْأَزْلَامِ قَطُّ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں ایوب نے، انہیں عکرمہ نے اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں تو اندر اس وقت تک داخل نہ ہوئے جب تک وہ مٹا نہ دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں دیکھیں کہ ان کے ہاتھوں میں تیر(پانسے کے) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ان پر بربادی لائے۔ واللہ ان حضرات نے کبھی تیر نہیں پھینکے۔



حدیث نمبر: 3353
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَتْقَاهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو أُسَامَةَ وَمُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْسَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ (سب سے زیادہ شریف ہیں) صحابہ نے کہا کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں پوچھتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا عرب کے خاندانوں کے متعلق تم پوچھنا چاہتے ہو۔ سنو جو جاہلیت میں شریف تھے اسلام میں بھی وہ شریف ہیں جب کہ دین کی سمجھ انہیں آ جائے۔ ابواسامہ اور معتمر نے عبیداللہ سے بیان کیا، ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔



حدیث نمبر: 3354
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَمُرَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ طَوِيلٍ لَا أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا وَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے مؤمل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے، کہا ہم سے ابورجاء نے، کہا ہم سے سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کی رات میرے پاس (خواب میں) دو فرشتے (جبرائیل و میکائیل علیہما السلام)آئے۔ پھر یہ دونوں فرشتے مجھے ساتھ لے کر ایک لمبے قد کے بزرگ کے پاس گئے، وہ اتنے لمبے تھے کہ ان کا سر میں نہیں دیکھ پاتا تھا اور یہ ابراہیم علیہ السلام تھے۔



حدیث نمبر: 3355
حَدَّثَنِي بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا النَّضْرُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُجَاهِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَذَكَرُوا لَهُ الدَّجَّالَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ كَافِرٌ أَوْ ك ف ر، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمْ أَسْمَعْهُ وَلَكِنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا إِبْرَاهِيمُ فَانْظُرُوا إِلَى صَاحِبِكُمْ وَأَمَّا مُوسَى فَجَعْدٌ آدَمُ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ مَخْطُومٍ بِخُلْبَةٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ انْحَدَرَ فِي الْوَادِي".
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عون نے خبر دی، انہیں مجاہد نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا آپ کے سامنے لوگ دجال کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہو گا کافر یا (یوں لکھا ہوا ہو گا) ک ف ر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ حدیث نہیں سنی تھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ ابراہیم علیہ السلام (کی شکل و وضع معلوم کرنے) کے لیے تم اپنے صاحب کو دیکھ سکتے ہو اور موسیٰ علیہ السلام کا بدن گٹھا ہوا، گندم گوں، ایک سرخ اونٹ پر سوار تھے۔ جس کی نکیل کھجور کی چھال کی تھی۔ جیسے میں انہیں اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔



حدیث نمبر: 3356
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالْقَدُّومِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن القرشی نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے اسی (80) سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا۔



حدیث نمبر: 3356 -
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ بِالْقَدُومِ مُخَفَّفَةً تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ عَجْلَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ .
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، پھر یہی حدیث نقل کی لیکن پہلی روایت میں«قدوم» بہ تشدید دال ہے اور اس میں «قدوم» بہ تخفیف دال ہے۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ یعنی بسولہ (جو بڑھیوں کا ایک مشہور ہتھیار ہوتا ہے اسے بسوہ بھی کہتے ہیں) شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن اسحاق نے بھی ابوالزناد سے روایت کیا ہے اور عجلان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔



حدیث نمبر: 3357
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ الرُّعَيْنِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا".
ہم سے سعید بن تلید رعینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا کہ مجھے جریر بن حازم نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی نے، انہیں محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام نے توریہ تین مرتبہ کے سوا اور کبھی نہیں کیا۔



حدیث نمبر: 3358
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَّا ثَلَاثَ كَذَبَاتٍ ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَوْلُهُ إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89 وَقَوْلُهُ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّ هَا هُنَا رَجُلًا مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُخْتِي فَأَتَى سَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا سَارَةُ لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي فَلَا تُكَذِّبِينِي فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ فَأُخِذَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعِي اللَّهَ لِي وَلَا أَضُرُّكِ فَدَعَتِ اللَّهَ فَأُطْلِقَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ادْعِي اللَّهَ لِي وَلَا أَضُرُّكِ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشَيْطَانٍ فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ فَأَتَتْهُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ مَهْيَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ رَدَّ اللَّهُ كَيْدَ الْكَافِرِ أَوِ الْفَاجِرِ فِي نَحْرِهِ وَأَخْدَمَ هَاجَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کا فرمانا (بطور توریہ کے) کہ میں بیمار ہوں اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری (دینی اعتبار سے) بہن ہو۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔ پھر اس ظالم نے سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو (کہ اس مصیبت سے نجات دے) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑ لیا گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلا کر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، یہ تو کوئی سرکش جن ہے (جاتے ہوئے) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا (یہ کہا کہ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ علیہا السلام کو خدمت کے لیے دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے «بني ماء السماء‏.» (اے آسمانی پانی کی اولاد! یعنی اہل عرب) تمہاری والدہ یہی (ہاجرہ علیہا السلام) ہیں۔



حدیث نمبر: 3359
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَوْ ابْنُ سَلَامٍ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا یا ابن سلام نے (ہم سے بیان کیا عبیداللہ بن موسیٰ کے واسطے سے) انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں عبدالحمید بن جبیر نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ام شریک رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونکا تھا۔



حدیث نمبر: 3360
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ كَمَا تَقُولُونَ وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 بِشِرْكٍ أَوَ لَمْ تَسْمَعُوا إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت اتری «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی قسم کے ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں ایسا کون ہو گا جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعہ وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ (میں ظلم سے مراد) شرک ہے کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت نہیں سنی کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا، بیشک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

9- بَابٌ:
باب: ۔۔۔

‏‏‏‏يَزِفُّونَ‏‏‏‏ النَّسَلاَنُ فِي الْمَشْيِ.
سورۃ الصافات میں جو لفظ «يزفون» وارد ہوا ہے، اس کے معنی ہیں دوڑ کر چلے۔



حدیث نمبر: 3361
بَاب حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَصْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ يَجْمَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَيُنْفِذُهُمُ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَذَكَرَ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنَ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ فَذَكَرَ كَذَبَاتِهِ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ أَنَسٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوحیان نے، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک ہموار اور وسیع میدان میں جمع کرے گا، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سنا سکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا (کیونکہ یہ میدان ہموار ہو گا، زمین کی طرح گول نہ ہو گا) اور لوگوں سے سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفاعت کا ذکر کیا کہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور خلیل ہیں۔ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کیجئے، پھر انہیں اپنے جھوٹ (توریہ) یاد آ جائیں گے اور کہیں گے کہ آج تو مجھے اپنی ہی فکر ہے۔ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔



حدیث نمبر: 3362
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْلَا أَنَّهَا عَجِلَتْ لَكَانَ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا".
مجھ سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا، ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے، ان سے ان کے والد سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) پر رحم کرے، اگر انہوں نے جلدی نہ کی ہوتی (اور زمزم کے پانی کے گرد منڈیر نہ بناتیں) تو آج وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہوتا۔



حدیث نمبر: 3363
قَالَ:‏‏‏‏ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا كَثِيرُ بْنُ كَثِيرٍ فَحَدَّثَنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ جُلُوسٌ مَعَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مَا هَكَذَا حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ وَلَكِنَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَقْبَلَ إِبْرَاهِيمُ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّهِ عَلَيْهِمُ السَّلَام وَهِيَ تُرْضِعُهُ مَعَهَا شَنَّةٌ لَمْ يَرْفَعْهُ ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ".
محمد بن عبداللہ انصاری نے کہا کہ ہم سے اسی طرح یہ حدیث ابن جریج نے بیان کی لیکن کثیر بن کثیر نے مجھ سے یوں بیان کیا کہ میں اور عثمان بن ابوسلیمان دونوں سعید بن جبیر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے یہ حدیث اس طرح بیان نہیں کی بلکہ یوں کہا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ کی سر زمین کی طرف آئے۔ ہاجرہ علیہا السلام اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ان کے ساتھ ایک پرانی مشک تھی۔ ابن عباس نے اس حدیث کو مرفوع نہیں کیا۔



حدیث نمبر: 3364
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ، ‏‏‏‏‏‏ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَكَثِيرِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاس :‏‏‏‏ "أَوَّلَ مَا اتَّخَذَ النِّسَاءُ الْمِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لَتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَى سَارَةَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُرْضِعُهُ حَتَّى وَضَعَهُمَا عِنْدَ الْبَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَى الْمَسْجِدِ وَلَيْسَ بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا إِبْرَاهِيمُ أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ لَهُ:‏‏‏‏ ذَلِكَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ لَهُ:‏‏‏‏ آللَّهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ إِذًا لَا يُضَيِّعُنَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ حَتَّى بَلَغَ يَشْكُرُونَ سورة إبراهيم آية 37 وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَاءِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّى أَوْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَتَلَبَّطُ فَانْطَلَقَتْ كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ فَوَجَدَتْ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الْأَرْضِ يَلِيهَا فَقَامَتْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَقْبَلَتِ الْوَادِيَ تَنْظُرُ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَهَبَطَتْ مِنْ الصَّفَا حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْوَادِيَ رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الْإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ حَتَّى جَاوَزَتِ الْوَادِيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَتِ الْمَرْوَةَ فَقَامَتْ عَلَيْهَا وَنَظَرَتْ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَفَعَلَتْ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "فَذَلِكَ سَعْيُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَى الْمَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا فَقَالَتْ صَهٍ تُرِيدُ نَفْسَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَسَمَّعَتْ فَسَمِعَتْ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ قَدْ أَسْمَعْتَ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ غِوَاثٌ فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَكِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ أَوْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بِجَنَاحِهِ حَتَّى ظَهَرَ الْمَاءُ فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا هَكَذَا وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ الْمَاءِ فِي سِقَائِهَا وَهُوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَكَتْ زَمْزَمَ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَاءِ لَكَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَشَرِبَتْ وَأَرْضَعَتْ وَلَدَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا:‏‏‏‏ الْمَلَكُ لَا تَخَافُوا الضَّيْعَةَ فَإِنَّ هَا هُنَا بَيْتَ اللَّهِ يَبْنِي هَذَا الْغُلَامُ وَأَبُوهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَهْلَهُ وَكَانَ الْبَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الْأَرْضِ كَالرَّابِيَةِ تَأْتِيهِ السُّيُولُ فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ فَكَانَتْ كَذَلِكَ حَتَّى مَرَّتْ بِهِمْ رُفْقَةٌ مِنْ جُرْهُمَ أَوْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنْ جُرْهُمَ مُقْبِلِينَ مِنْ طَرِيقِ كَدَاءٍ فَنَزَلُوا فِي أَسْفَلِ مَكَّةَ فَرَأَوْا طَائِرًا عَائِفًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَيَدُورُ عَلَى مَاءٍ لَعَهْدُنَا بِهَذَا الْوَادِي وَمَا فِيهِ مَاءٌ فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا أَوْ جَرِيَّيْنِ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ فَرَجَعُوا فَأَخْبَرُوهُمْ بِالْمَاءِ فَأَقْبَلُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأُمُّ إِسْمَاعِيلَ عِنْدَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ وَلَكِنْ لَا حَقَّ لَكُمْ فِي الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَأَلْفَى ذَلِكَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُحِبُّ الْإِنْسَ فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَى أَهْلِيهِمْ فَنَزَلُوا مَعَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِينَ شَبَّ فَلَمَّا أَدْرَكَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ وَمَاتَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَاءَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَمَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِكَتَهُ فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا ثُمَّ سَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ نَحْنُ بِشَرٍّ نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ فَشَكَتْ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ كَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ أَحَدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا فَسَأَلَنَا عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ وَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكِ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ فَلَمْ يَجِدْهُ فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ فَسَأَلَهَا عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَنْتُمْ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ وَأَثْنَتْ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا طَعَامُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اللَّحْمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا شَرَابُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ يَوْمَئِذٍ حَبٌّ وَلَوْ كَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُمَا لَا يَخْلُو عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَكَّةَ إِلَّا لَمْ يُوَافِقَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَمُرِيهِ يُثْبِتُ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ أَتَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ فَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَوْصَاكِ بِشَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَأْمُرُكَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكِ أَبِي وَأَنْتِ الْعَتَبَةُ أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِكَكِ ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلًا لَهُ تَحْتَ دَوْحَةٍ قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَآهُ قَامَ إِلَيْهِ فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَعُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ وَالْوَلَدُ بِالْوَالِدِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاصْنَعْ مَا أَمَرَكَ رَبُّكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَتُعِينُنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأُعِينُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ هَا هُنَا بَيْتًا وَأَشَارَ إِلَى أَكَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ عَلَى مَا حَوْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَعِنْدَ ذَلِكَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَيْتِ فَجَعَلَ إِسْمَاعِيلُ يَأْتِي بِالْحِجَارَةِ وَإِبْرَاهِيمُ يَبْنِي حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَاءَ بِهَذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَهُ لَهُ فَقَامَ عَلَيْهِ وَهُوَ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولَانِ:‏‏‏‏ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَعَلَا يَبْنِيَانِ حَتَّى يَدُورَا حَوْلَ الْبَيْتِ وَهُمَا يَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی اور کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ نے۔ یہ دونوں کچھ زیادہ اور کمی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ دونوں سعید بن جبیر سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم (علیہما السلام) ساتھ لے کر مکہ میں آئے، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے۔ مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے) روانہ ہوئے۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے)پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے (سورۃ ابراہیم) «يشكرون‏» تک۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا (پیاس کی شدت سے) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا (کہا کہ) زمین پر لوٹ رہا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صفا اور مروہ کے درمیان) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا۔ (ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے کہا، خاموش! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ! ام اسماعیل پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا(آپ نے یہ فرمایا کہ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا (قریب ہی) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ (اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) کا انتقال ہو گیا)۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے، بڑی فراخی ہے، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو؟ بتایا کہ پانی! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے (جاتے ہوئے) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا (کہ کہاں ہیں؟) اور میں نے بتا دیا، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔



حدیث نمبر: 3365
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ خَرَجَ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيلَ وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيهَا مَاءٌ فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى أَهْلِهِ فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ حَتَّى لَمَّا بَلَغُوا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِلَى مَنْ تَتْرُكُنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ رَضِيتُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى لَمَّا فَنِيَ الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتْ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ أَحَدًا فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا فَلَمَّا بَلَغَتِ الْوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتْ الْمَرْوَةَ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ أَشْوَاطًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ تَعْنِي الصَّبِيَّ فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هُوَ عَلَى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتْ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ فَإِذَا جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ بِعَقِبِهِ هَكَذَا وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْبَثَقَ الْمَاءُ فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ الْمَاءُ ظَاهِرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الْمَاءِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الْوَادِي فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا ذَاكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا يَكُونُ الطَّيْرُ إِلَّا عَلَى مَاءٍ فَبَعَثُوا رَسُولَهُمْ فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ فَأَتَوْا إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا أُمَّ إِسْمَاعِيلَ أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَكُونَ مَعَكِ أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيهِمُ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءَ فَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُولِي لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتِ ذَاكِ فَاذْهَبِي إِلَى أَهْلِكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءَ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَلَا تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَشَرَابُنَا الْمَاءُ:‏‏‏‏ طَعَامُنَا اللَّحْمُ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ يُصْلِحُ نَبْلًا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَطِعْ رَبَّكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِي أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَنْ أَفْعَلَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَمَا قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَتَّى ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَلَى نَقْلِ الْحِجَارَةِ فَقَامَ عَلَى حَجَرِ الْمَقَامِ فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے کثیر بن کثیر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی(سارہ علیہ السلام) کے درمیان جو کچھ جھگڑا ہونا تھا جب وہ ہوا تو آپ اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ (ہاجرہ علیہ السلام) کو لے کر نکلے، ان کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا۔ جس میں پانی تھا، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسی مشکیزہ کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ جب ابراہیم مکہ پہنچے تو انہیں ایک بڑے درخت کے پاس ٹھہرا کر اپنے گھر واپس جانے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں۔ جب مقام کداء پر پہنچے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی کہ اے ابراہیم! ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پر! ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ پھر میں اللہ پر خوش ہوں۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ اپنی جگہ پر واپس چلی آئیں اور اسی مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں جب پانی ختم ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ ادھر ادھر دیکھنا چاہئے، ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہی سوچ کر وہ صفا (پہاڑی) پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آ جائے لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ پھر جب وادی میں اتریں تو دوڑ کر مروہ تک آئیں۔ اسی طرح کئی چکر لگائے، پھر سوچا کہ چلوں ذرا بچے کو تو دیکھوں کس حالت میں ہے۔ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا (جیسے تکلیف کے مارے) موت کے لیے تڑپ رہا ہو۔ یہ حال دیکھ کر ان سے صبر نہ ہو سکا، سوچا چلوں دوبارہ دیکھوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے، آئیں اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف نظر پھیر پھیر کر دیکھتی رہیں لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ اس طرح ہاجرہ علیہ السلام نے سات چکر لگائے پھر سوچا، چلوں دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے؟ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی۔ انہوں نے (آواز سے مخاطب ہو کر) کہا کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کرو۔ وہاں جبرائیل علیہ السلام موجود تھے۔ انہوں نے اپنی ایڑی سے یوں کیا (اشارہ کر کے بتایا) اور زمین ایڑی سے کھودی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس عمل کے نتیجے میں وہاں سے پانی پھوٹ پڑا۔ ام اسماعیل ڈریں۔ (کہیں یہ پانی غائب نہ ہو جائے) پھر وہ زمین کھودنے لگیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی زمین پر بہتا رہتا۔ غرض ہاجرہ علیہ السلام زمزم کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وادی کے نشیب سے گزرے۔ انہیں وہاں پرند نظر آئے۔ انہیں یہ کچھ خلاف عادت معلوم ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ پرندہ تو صرف پانی ہی پر (اس طرح) منڈلا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنا آدمی وہاں بھیجا۔ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی وہاں پانی موجود تھا۔ اس نے آ کر اپنے قبیلے والوں کو خبر دی تو یہ سب لوگ یہاں آ گئے اور کہا کہ اے ام اسماعیل! کیا ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی یا (یہ کہا کہ) اپنے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ پھر ان کے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) بالغ ہوئے اور قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہو گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا اور انہوں نے اپنی اہلیہ (سارہ علیہا السلام) سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو (مکہ میں) چھوڑ آیا تھا ان کی خبر لینے جاؤں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لائے اور سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو ان کی بیوی نے واقعہ کی اطلاع دی۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں ہو (جسے بدلنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کہہ گئے ہیں) اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ بیان کیا کہ پھر ایک مدت کے بعد دوبارہ ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا اور انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں انہیں دیکھنے جاؤں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ٹھہرئیے اور کھانا تناول فرما لیجئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے پیتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ان کے کھانے اور ان کے پانی میں برکت نازل فرما۔ بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی برکت اب تک چلی آ رہی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر (تیسری بار) ابراہیم علیہ السلام کو ایک مدت کے بعد خیال ہوا اور اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ جن کو میں چھوڑ آیا ہوں ان کی خبر لینے مکہ جاؤں گا۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور اس مرتبہ اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جو زمزم کے پیچھے اپنے تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اے اسماعیل! تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناؤں، بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائیے۔ انہوں نے فرمایا اور مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو۔ عرض کیا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ یا اسی قسم کے اور الفاظ ادا کئے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں باپ بیٹے اٹھے۔ ابراہیم علیہ السلام دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام انہیں پتھر لا لا کر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے جاتے تھے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول کر۔ بیشک تو بڑا سننے والا، بہت جاننے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر جب دیوار بلند ہو گئی اور بزرگ (ابراہیم علیہ السلام) کو پتھر (دیوار پر) رکھنے میں دشواری ہوئی تو وہ مقام (ابراہیم) کے پتھر پر کھڑے ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے اور ان حضرات کی زبان پر یہ دعا جاری تھی۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اسے قبول فرما لے۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

10- بَابٌ:
باب: ۔۔۔
حدیث نمبر: 3366

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ "الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَيٌّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعُونَ سَنَةً ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد الحرام۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے عرض کیا اور اور اس کے بعد؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) میں نے عرض کیا، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے۔



حدیث نمبر: 3367
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا"، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے مطلب کے آزاد کردہ غلام عمرو بن ابی عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا اور میں مدینہ کے دو پتھریلے علاقے کے درمیانی علاقے کے حصے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں۔ اس حدیث کو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔



حدیث نمبر: 3368
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ .
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ابن ابی بکر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ کی (نئی) تعمیر کی تو کعبہ کی ابراہیمی بنیاد کو چھوڑ دیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر آپ ابراہیمی بنیادوں کے مطابق دوبارہ اس کی تعمیر کیوں نہیں کر دیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتا (تو میں ایسا ہی کرتا) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں رکنوں کے، جو حجر اسود کے قریب ہیں، بوسہ لینے کو صرف اسی وجہ سے چھوڑا تھا کہ بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں بنا ہے(یہ دونوں رکن آگے ہٹ گئے ہیں) اسماعیل بن ابی اویس نے اس حدیث میں عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کہا۔



حدیث نمبر: 3369
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی۔ انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے ‘ انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں عمرو بن سلیم زرقی نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہصحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو «اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما صليت على آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وبارك على محمد وأزواجه وذريته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما باركت على آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد‏"‏‏.‏» اے اللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔



حدیث نمبر: 3370
حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ مُسْلِمُ بْنُ سَالِمٍ الْهَمْدَانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى فَأَهْدِهَا لِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُولُوا:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ہم سے قیس بن حفص اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ابوقرہ مسلم بن سالم ہمدانی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عیسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کیوں نہ تمہیں (حدیث کا) ایک تحفہ پہنچا دوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا یا رسول اللہ! ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو «اللهم صل على محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم بارك على محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كما باركت على إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وعلى آل إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنك حميد مجيد‏"‏‏.‏» اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔



حدیث نمبر: 3371
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمِنْهَالِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أَبَاكُمَا كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ‘ ان سے منصور نے ‘ ان سے منہال نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا (ابراہیم علیہ السلام) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لیے مانگا کرتے تھے۔ «أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومن كل عين لامة» میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

11- بَابُ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ}:
باب: اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کے بارے میں خبر دیں

قَوْلُهُ: ‏‏‏‏وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي‏‏‏‏.
فرمایا صرف میں اس لیے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔



حدیث نمبر: 3372
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِوَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260 وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے ‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لیے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔
 
Top