• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحيح البخاري - مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ - جلد ٤ - احادیث ۲۷۸۲سے ۳۷۷۵

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

22- بَابُ: {وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ} إِلَى قَوْلِهِ: {مُسْرِفٌ كَذَّابٌ}:
باب: ( اللہ تعالیٰ نے فرمایا ) اور فرعون کے خاندان کے ایک مومن مرد ( شمعان نامی ) نے کہا جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھا اللہ تعالیٰ کے ارشاد «مسرف كذاب» تک
حدیث نمبر: 3392

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ سَمِعْتُ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ "فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ رَجُلًا تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "وَرَقَةُ مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى وَإِنْ أَدْرَكَنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا النَّامُوسُ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي يُطْلِعُهُ بِمَا يَسْتُرُهُ عَنْ غَيْرِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غار حراء سے) ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وہ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عربی میں پڑھتے تھے۔ ورقہ نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہی ہیں وہ «ناموس» جنہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور اگر میں تمہارے زمانے تک زندہ رہا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔ «ناموس» محرم راز کو کہتے ہیں جو ایسے راز سے بھی آگاہ ہو جو آدمی دوسروں سے چھپائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

23- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى إِذْ رَأَى نَارًا} إِلَى قَوْلِهِ: {بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ طہٰ میں ) فرمان فرمانا اے نبی تو نے موسیٰ کا قصہ سنا ہے جب انہوں نے آگ دیکھی آخر آیت «بالوادي المقدس طوى‏» تک

آنَسْتُ سورة طه آية 10 أَبْصَرْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ سورة طه آية 10 الْآيَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ الْمُقَدَّسُ الْمُبَارَكُ طُوًى اسْمُ الْوَادِي سِيرَتَهَا سورة طه آية 21 حَالَتَهَا وَ النُّهَى سورة طه آية 54 التُّقَى بِمَلْكِنَا سورة طه آية 87 بِأَمْرِنَا هَوَى سورة طه آية 81 شَقِيَ فَارِغًا سورة القصص آية 10 إِلَّا مِنْ ذِكْرِ مُوسَى رِدْءًا سورة القصص آية 34 كَيْ يُصَدِّقَنِي وَيُقَالُ مُغِيثًا أَوْ مُعِينًا يَبْطُشُ وَيَبْطِشُ يَأْتَمِرُونَ سورة القصص آية 20 يَتَشَاوَرُونَ وَالْجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنَ الْخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ سَنَشُدُّ سورة القصص آية 35 سَنُعِينُكَ كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا وَقَالَ غَيْرُهُ كُلَّمَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ أَزْرِي سورة طه آية 31 ظَهْرِي فَيُسْحِتَكُمْ سورة طه آية 61 فَيُهْلِكَكُمْ الْمُثْلَى سورة طه آية 63 تَأْنِيثُ الْأَمْثَلِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ بِدِينِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا سورة طه آية 64 يُقَالُ:‏‏‏‏ هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ فَأَوْجَسَ سورة طه آية 67 أَضْمَرَ خَوْفًا فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً سورة طه آية 67 لِكَسْرَةِ الْخَاءِ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ سورة طه آية 71 عَلَى جُذُوعِ خَطْبُكَ سورة طه آية 95 بَالُكَ مِسَاسَ سورة طه آية 97 مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا لَنَنْسِفَنَّهُ سورة طه آية 97 لَنُذْرِيَنَّهُ الضَّحَاءُ الْحَرُّ قُصِّيهِ سورة القصص آية 11 اتَّبِعِي أَثَرَهُ وَقَدْ يَكُونُ أَنْ تَقُصَّ الْكَلَامَنَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ سورة يوسف آية 3 عَنْ جُنُبٍ سورة القصص آية 11 عَنْ بُعْدٍ وَعَنْ جَنَابَةٍ وَعَنِ اجْتِنَابٍ وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُجَاهِدٌ:‏‏‏‏ عَلَى قَدَرٍ سورة طه آية 40مَوْعِدٌ وَلا تَنِيَا سورة طه آية 42 لَا تَضْعُفَا يَبَسًا سورة طه آية 77 يَابِسَا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ سورة طه آية 87 الْحُلِيِّ الَّذِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ فَقَذَفْتُهَا أَلْقَيْتَهَا أَلْقَى سورة طه آية 87 صَنَعَ فَنَسِيَ سورة طه آية 88 مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ:‏‏‏‏ أَخْطَأَ الرَّبَّ أَنْ لَا يَرْجِعَ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَوْلًا:‏‏‏‏ فِي الْعِجْلِ.
«آنست‏»
کا معنی میں نے آگ دیکھی (تم یہاں ٹھہرو) میں اس میں سے ایک چنگاری تمہارے پاس لے آؤں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ‘ «مقدس» کا معنی مبارک۔ «طوى‏» اس وادی کا نام تھا جہاں اللہ پاک نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ «سيرتها‏» یعنی پہلی حالت پر۔ «النهى‏» یعنی پرہیزگاری۔ «بملكنا‏» یعنی اپنے اختیار سے۔ «هوى‏» یعنی بدبخت ہوا۔ «فارغا‏» یعنی موسیٰ کے سوا اور کوئی خیال دل میں نہ رہا۔ «ردءا» یعنی فریاد رس یا مددگار۔ «يبطش بضم طا» اور «يبطش بكسر طا» دونوں طرح قرآت ہے۔«يأتمرون‏» یعنی مشورہ کرتے ہیں۔ «جذوة» یعنی لکڑی کا ایک موٹا ٹکڑا جس میں سے آگ کا شعلہ نہ نکلے (صرف اس کے منہ پر آگ روشن ہو)۔ «سنشد‏ عضدك» یعنی تیری مدد کریں گے۔ جب تو کسی چیز کو زور دے گویا تو نے اس کو «عضد» بازو دیا۔ (یہ سب تفسیریں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں) اوروں نے کہا «عقدة» کا معنی یہ ہے کہ زبان سے کوئی حرف یہاں تک کہ ت یا ف بھی نہ نکل سکے۔ «أزري‏» یعنی پیٹھ «فيسحتكم‏» یعنی تم کو ہلاک کرے۔ «المثلى‏» ، «الأمثل» کی مونث ہے، یعنی تمہارا دین خراب کرنا چاہتے ہیں۔ عرب لوگ کہتے ہیں «خذ المثلى،‏‏‏‏ خذ الأمثل‏.‏» یعنی اچھی روش ‘ اچھا طریقہ سنبھال۔ «ثم ائتوا صفا‏»یعنی قطار باندھ کر آؤ۔ عرب لوگ کہتے ہیں آج تو «صف» میں گیا یا نہیں یعنی نماز کے مقام پر۔ «فأوجس‏» یعنی موسیٰ کا دل دھڑکنے لگا«خيفة‏» کی اصل «خوفة‏» تھی واؤ کی بوجہ «كسره ما قبل» کے ی سے بدل دیا گیا۔ «في جذوع النخل‏» یعنی «على جذوع النخل‏» ۔ «خطبك‏» یعنی تیرا حال۔ «مساس‏» مصدر ہے «ماسه» «مساسا» سے۔ «لا مساس‏» یعنی تجھ کو نہ چھوئے ‘ نہ تو کسی کو چھوئے۔ «لننسفنه‏» یعنی ہم اس کو راکھ کر کے دریا میں اڑا دیں گے۔ «لا تضحي» «ضحى» سے ہے، یعنی گرمی۔ «قصيه‏» یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا کبھی «قصص» کا معنی کہنا اور بیان کرنا بھی آتا ہے۔ (سورۃ یوسف میں) اسی سے «نحن نقص عليك‏» ہے۔ لفظ«عن جنب‏» اور «عن جنابة» اور «عن اجتناب» سب کا معنی ایک ہی ہے، یعنی دور سے۔ مجاہد رحمہ اللہ نے کہا «على قدر‏» یعنی وعدے پر۔ «لا تنيا‏» یعنی سستی نہ کرو۔ «يبسا‏» یعنی خشک۔ «من زينة القوم‏» یعنی زیور میں سے جو بنی اسرائیل نے فرعون والوں سے مانگ کر لیے تھے۔ «فقذفتها‏» یعنی میں نے اس کو ڈال دیا۔ «ألقى‏» یعنی بنایا۔ «فنسي‏» اس کا مطلب یہ ہے کہ سامری اور اس کے لوگ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے غلطی کی جو اس بچھڑے کو خدا نہ سمجھ کر دوسری جگہ چل دیا۔ «أن لا يرجع إليهم قولا» یعنی وہ بچھڑا ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔



حدیث نمبر: 3393
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَإِذَا هَارُونُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ ثَابِتٌ وَعَبَّادُ بْنُ أَبِي عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس رات کے متعلق بیان کیا جس میں آپ کو معراج ہوا کہ جب آپ پانچویں آسمان پر تشریف لے گئے تو وہاں ہارون علیہ السلام سے ملے۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون علیہ السلام ہیں ‘ انہیں سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: خوش آمدید ‘ صالح بھائی اور صالح نبی۔ اس حدیث کو قتادہ کے ساتھ ثابت بنانی اور عباد بن ابی علی نے بھی انس رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

24- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى}، {وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا}:
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ طہٰ میں ) فرمان اور کیا تجھ کو موسیٰ کا واقعہ معلوم ہوا ہے اور ( سورۃ نساء میں ) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا
حدیث نمبر: 3394

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رَأَيْتُ مُوسَى وَإِذَا هُوَ رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ وَرَأَيْتُ عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِي الْآخَرِ خَمْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ أَخَذْتَ الْفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی کیفیت بیان کی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا کہ میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبیلہ شنوہ میں سے ہوں اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا ‘ وہ میانہ قد اور نہایت سرخ و سفید رنگ والے تھے۔ ایسے تروتازہ اور پاک و صاف کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل خانہ سے نکلے ہیں اور میں ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد میں سب سے زیادہ مشابہ ہوں۔ پھر دو برتن میرے سامنے لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے۔ میں نے دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودھ آدمی کی پیدائشی غذا ہے) اگر اس کے بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔



حدیث نمبر: 3395
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولَ:‏‏‏‏ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى وَنَسَبَهُ إِلَى أَبِيهِ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوالعالیہ نے بیان کیا اور ان سے تمہارے نبی کے چچا زاد بھائی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کو یوں نہ کہنا چاہئے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ان کے والد کی طرف منسوب کر کے لیا۔



حدیث نمبر: 3396
وَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مُوسَى آدَمُ طُوَالٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ عِيسَى جَعْدٌ مَرْبُوعٌ وَذَكَرَ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَذَكَرَ الدَّجَّالَ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام گندم گوں اور دراز قد تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے قبیلہ شنوہ کے کوئی صاحب ہوں اور فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام گھنگریالے بال والے اور میانہ قد کے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داروغہ جہنم مالک کا بھی ذکر فرمایا اور دجال کا بھی۔



حدیث نمبر: 3397
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا يَعْنِي عَاشُورَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ وَهُوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن جبیر کے صاحبزادے (عبداللہ) نے اپنے والد سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

25- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي} إِلَى قَوْلِهِ: {وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ کیا پھر اس میں دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا اور اس طرح ان کے رب کی میعاد چالیس راتیں پوری کر دیں ۔ اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میری غیر موجودگی میں میری قوم میں میرے خلیفہ رہو ۔ اور ان کے ساتھ نرم رویہ رکھنا اور مفسدوں کے راستے پر مت چلنا ۔ پھر جب موسیٰ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت پر ( ایک چلہ کے ) بعد آئے اور ان کے رب نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے عرض کیا : میرے پروردگار ! مجھے اپنا دیدار کرا کہ میں تجھ کو دیکھ لوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وأنا أول المؤمنين‏» تک

يُقَالُ دَكَّهُ زَلْزَلَهُ فَدُكَّتَا سورة الحاقة آية 14 فَدُكِكْنَ جَعَلَ الْجِبَالَ كَالْوَاحِدَةِ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا سورة الأنبياء آية 30وَلَمْ يَقُلْ كُنَّ رَتْقًا مُلْتَصِقَتَيْنِ وَأُشْرِبُوا سورة البقرة آية 93 ثَوْبٌ مُشَرَّبٌ مَصْبُوغٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَانْبَجَسَتْ سورة الأعراف آية 160 انْفَجَرَتْ وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ سورة الأعراف آية 171 رَفَعْنَا.
عرب لوگ بولتے ہیں «دكه» یعنی اسے ہلا دیا۔ اسی سے ہے (سورۃ الحاقہ میں) «فدكتا‏» «دكه» واحدۃ تثنیہ کا صیغہ اس طرح درست ہوا کہ یہاں پہاڑوں کو ایک چیز فرض کیا اور زمین کو ایک چیز ‘ قاعدے کے موافق یوں ہونا تھا «فدككن» بصیغہ جمع۔ اس کی مثال وہ ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ «أن السموات والأرض كانتا رتقا‏» اور یوں نہیں فرمایا «كن‏.‏ رتقابه» صیغہ جمع (حالانکہ قیاس یہی چاہتا تھا)«رتقا» کے معنی جڑے ہوئے ملے ہوئے۔ «أشربوا‏» (جو سورۃ البقرہ میں ہے) اس «شرب» سے نکلا ہے جو رنگنے کے معنوں میں آتا ہے جیسے عرب لوگ کہتے ہیں «ثوب» «مشرب» یعنی رنگا ہوا کپڑا (سورۃ الاعراف میں) «نتقنا» کا معنی ہم سے اٹھا لیا۔



حدیث نمبر: 3398
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا أَدْرِي أَفَاقَ قَبْلِي أَمْ جُوزِيَ بِصَعْقَةِ الطُّورِ".
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے ان کے والد یحییٰ بن عمارہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگ بیہوش ہو جائیں گے ‘ پھر سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا اور دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں گے یا (بیہوش ہی نہیں کئے گئے ہوں گے بلکہ) انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کا بدلہ ملا ہو گا۔



حدیث نمبر: 3399
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَوْلَا بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزْ اللَّحْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا الدَّهْرَ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے (سلویٰ کا گوشت جمع کر کے نہ رکھتے) تو گوشت کبھی نہ سڑتا۔ اور اگر حوا نہ ہوتیں (یعنی آدم علیہ السلام سے دغا نہ کرتیں) تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت کبھی نہ کرتی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

26- بَابُ طُوفَانٍ مِنَ السَّيْلِ:
باب: ( سورۃ الاعراف میں ) طوفان سے مراد سیلاب کا طوفان ہے

يُقَالُ لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ طُوفَانٌ الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ حَقِيقٌ سورة الأعراف آية 105 حَقٌّ سُقِطَ سورة الأعراف آية 149 كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ.
بکثرت اموات کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ «القمل» اس چیچڑی کو کہتے ہیں جو چھوٹی جوں کے مشابہ ہوتی ہے۔ «حقيق‏» بمعنی «حق‏» لازم۔«سقط‏» بمعنی نادم ہوا۔ جو شخص شرمندہ ہوتا ہے اس کے لیے عرب لوگ کہتے ہیں «سقط في يده‏.‏» تو (گویا) وہ اپنے ہاتھ میں گر پڑا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

27- بَابُ حَدِيثِ الْخَضِرِ مَعَ مُوسَى- عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ-:
باب: خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعات
حدیث نمبر: 3400

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ تَمَارَى هُوَ وَالْحُرُّ بْنُ قَيْسٍ الْفَزَارِيُّ فِي صَاحِبِ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ هُوَ خَضِرٌ فَمَرَّ بِهِمَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي تَمَارَيْتُ أَنَا وَصَاحِبِي هَذَا فِي صَاحِبِ مُوسَى الَّذِي سَأَلَ السَّبِيلَ إِلَى لُقِيِّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ شَأْنَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا مُوسَى فِي مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ تَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى مُوسَى بَلَى عَبْدُنَا خَضِرٌ فَسَأَلَ مُوسَى السَّبِيلَ إِلَيْهِ فَجُعِلَ لَهُ الْحُوتُ آيَةً، ‏‏‏‏‏‏وَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِذَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَارْجِعْ فَإِنَّكَ سَتَلْقَاهُ فَكَانَ يَتْبَعُ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لِمُوسَى فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَوَجَدَا خَضِرًا فَكَانَ مِنْ شَأْنِهِمَا الَّذِي قَصَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ".
ہم سے عمر بن محمد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ حر بن قیس فزاری رضی اللہ عنہ سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کا اختلاف ہوا۔ پھر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلایا اور کہا کہ میرا اپنے ان ساتھی سے صاحب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے موسیٰ علیہ السلام نے راستہ پوچھا تھا ‘ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا ‘ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس تمام زمین پر آپ سے زیادہ علم رکھنے والا ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ کیوں نہیں ‘ ہمارا بندہ خضر ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان تک پہنچنے کا راستہ پوچھا تو انہیں مچھلی کو اس کی نشانی کے طور پر بتایا گیا اور کہا گیا کہ جب مچھلی گم ہو جائے (تو جہاں گم ہوئی ہو وہاں) واپس آ جانا وہیں ان سے ملاقات ہو گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام دریا میں (سفر کے دوران) مچھلی کی برابر نگرانی کرتے رہے۔ پھر ان سے ان کے رفیق سفر نے کہا کہ آپ نے خیال نہیں کیا جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تو میں مچھلی کے متعلق آپ کو بتانا بھول گیا تھا اور مجھے شیطان نے اسے یاد رکھنے سے غافل رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی کی تو ہمیں تلاش ہے چنانچہ یہ بزرگ اسی راستے سے پیچھے کی طرف لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان دونوں کے ہی وہ حالات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔



حدیث نمبر: 3401
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ بَلَى لِي عَبْدٌ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْ رَبِّ وَمَنْ لِي بِهِ وَرُبَّمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ أَيْ رَبِّ وَكَيْفَ لِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَأْخُذُ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ حَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ وَرُبَّمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُوَ ثَمَّهْ وَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَرَقَدَ مُوسَى وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فَخَرَجَ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنِ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ مِثْلَ الطَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا مِثْلُ الطَّاقِ فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ حَيْثُ أَمَرَهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلَهُمَا عَجَبًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَهُ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ مُوسَى فَرَدَّ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ أَتَّبِعُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا إِلَى قَوْلِهِ إِمْرًا سورة الكهف آية 68 - 71 فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ كَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ جَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ الْخَضِرُ يَا مُوسَى مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ بِمِنْقَارِهِ مِنَ الْبَحْرِ إِذْ أَخَذَ الْفَأْسَ فَنَزَعَ لَوْحًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِلَّا وَقَدْ قَلَعَ لَوْحًا بِالْقَدُّومِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَهُ مُوسَى مَا صَنَعْتَ قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 72، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا سورة الكهف آية 73 فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا فَلَمَّا خَرَجَا مِنَ الْبَحْرِ مَرُّوا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَلَعَهُ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَوْمَأَ سُفْيَانُ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ كَأَنَّهُ يَقْطِفُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا سورة الكهف آية 75، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا ‏‏‏‏ 76 ‏‏‏‏ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75-76 مَائِلًا أَوْمَأَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَأَشَارَ سُفْيَانُ كَأَنَّهُ يَمْسَحُ شَيْئًا إِلَى فَوْقُ فَلَمْ أَسْمَعْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ مَائِلًا إِلَّا مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا عَمَدْتَ إِلَى حَائِطِهِمْ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا سورة الكهف آية 78، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ فَقَصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوْ كَانَ صَبَرَ لَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ 0 مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ 0، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِي سُفْيَانُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ لِسُفْيَانَ حَفِظْتَهُ قَبْلَ أَنْ تَسْمَعَهُ مِنْ عَمْرٍو أَوْ تَحَفَّظْتَهُ مِنْ إِنْسَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مِمَّنْ أَتَحَفَّظُهُ وَرَوَاهُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو غَيْرِي سَمِعْتُهُ مِنْهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے رب العالمین! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا؟ سفیان نے (اپنی روایت میں یہ الفاظ) بیان کئے کہ اے رب! «وكيف لي به» اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا۔ بعض دفعہ راوی نے (بجائے«فهو ثم» کے) «فهو ثمه» کہا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی (کے متعلق کہنا) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں (چٹان کے قریب) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إمرا‏» تک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لیے بغیر ان کو سوار کر لیا۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (یہ بے صبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لیے) آپ اس چیز کا مجھ سے مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی بات موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے (دھڑ سے) جدا کر دیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے (جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لیے) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا۔ سفیان نے (کیفیت بتانے کے لیے) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں۔ میں نے سفیان سے «مائلا» کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لیے بیان کرتا۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے (مزید واقعات) ہمیں معلوم ہوتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (جمہور کی قرآت«ودرائهم» کے بجائے) «أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» پڑھا ہے۔ اور وہ بچہ (جس کی خضر علیہ السلام نے جان لی تھی) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔ پھر مجھ سے سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی اور انہیں سے (سن کر) یاد کی تھی۔ سفیان نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا یہ حدیث آپ نے عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص سے سن کر (جس نے عمرو بن دینار سے سنی ہو) یاد کی تھی؟ یا (اس کے بجائے یہ جملہ کہا) «تحفظته من إنسان» دو مرتبہ (شک علی بن عبداللہ کو تھا) تو سفیان نے کہا کہ دوسرے کسی شخص سے سن کر میں یاد کرتا ‘ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے؟ میں نے ان سے یہ حدیث دو یا تین مرتبہ سنی اور انہیں سے سن کر یاد کی۔



حدیث نمبر: 3402
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَصْبِهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرَ أَنَّهُ جَلَسَ عَلَى فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَإِذَا هِيَ تَهْتَزُّ مِنْ خَلْفِهِ خَضْرَاءَ".
ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خضر علیہ السلام کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین(جہاں سبزی کا نام بھی نہ تھا) پر بیٹھے۔ لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

28- بَابٌ:
باب: ۔۔۔
حدیث نمبر: 3403

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ وَقَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ و رکوع کرتے ہوئے داخل ہوں اور یہ کہتے ہوئے کہ یا اللہ! ہم کو بخش دے۔ لیکن انہوں نے اس کو الٹا کیا اور اپنے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے «حبة في شعرة» (یعنی بالیوں میں دانے خوب ہوں) داخل ہوئے۔



حدیث نمبر: 3404
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ وَخِلَاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سِتِّيرًا لَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا لِمُوسَى:‏‏‏‏ فَخَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ فَجَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ وَأَبْرَأَهُ مِمَّا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُونَ:‏‏‏‏ وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69".
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ‘ ان سے عوف بن ابوجمیلہ نے بیان کیا ‘ ان سے امام حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دیدے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برات کر دی۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها‏» تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے۔ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔



حدیث نمبر: 3405
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَجُلٌ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَغَضِبَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "يَرْحَمُ اللَّهَ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابووائل سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مال تقسیم کیا ‘ ایک شخص نے کہا کہ یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا جوئی کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ‘ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی تھی مگر انہوں نے صبر کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

29- بَابُ: {يَعْكِفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ}:
باب: وہ اپنے کچھ بتوں پر جمے بیٹھے تھے

مُتَبَّرٌ سورة الأعراف آية 139 خُسْرَانٌ وَلِيُتَبِّرُوا سورة الإسراء آية 7 يُدَمِّرُوا مَا عَلَوْا سورة الإسراء آية 7 مَا غَلَبُوا.
اور اسی سورت میں «متبر» کے معنی تباہی ‘ نقصان۔ سورۃ بنی اسرائیل میں «وليتبروا» کا معنی خراب کریں۔ «ما علوا» کا معنی جس جگہ حکومت پائیں ‘ غالب ہوں۔



حدیث نمبر: 3406
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَجْنِي الْكَبَاثَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "عَلَيْكُمْ بِالْأَسْوَدِ مِنْهُ فَإِنَّهُ أَطْيَبُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَكُنْتَ تَرْعَى الْغَنَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَلْ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ رَعَاهَا".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر میں) پیلو کے پھل توڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سیاہ ہوں انہیں توڑو ‘ کیونکہ وہ زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: کیا آپ نے کبھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

30- بَابُ: {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً} الآيَةَ:
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ البقرہ میں فرمانا ) وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو آخر آیت تک

قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ:‏‏‏‏ الْعَوَانُ النَّصَفُ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالْهَرِمَةِ فَاقِعٌ سورة البقرة آية 69 صَافٍ لا ذَلُولٌ سورة البقرة آية 71 لَمْ يُذِلَّهَا الْعَمَلُ تُثِيرُ الأَرْضَ سورة البقرة آية 71 لَيْسَتْ بِذَلُولٍ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَعْمَلُ فِي الْحَرْثِ مُسَلَّمَةٌ سورة البقرة آية 71 مِنَ الْعُيُوبِ لا شِيَةَ سورة البقرة آية 71 بَيَاضٌ صَفْرَاءُ سورة البقرة آية 69 إِنْ شِئْتَ سَوْدَاءُ وَيُقَالُ صَفْرَاءُ كَقَوْلِهِ جِمَالَتٌ صُفْرٌ سورة المرسلات آية 33 فَادَّارَأْتُمْ سورة البقرة آية 72 اخْتَلَفْتُمْ.
ابوالعالیہ نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «العوان» نوجوان اور بوڑھے کے درمیان کے معنی میں ہے۔ «فاقع‏» بمعنی صاف۔ «لا ذلول‏»یعنی جسے کام نے نڈھال اور لاغر نہ کر دیا ہو۔ «تثير الأرض‏» یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین نہ جوت سکے اور نہ کھیتی باڑی کے کام کی ہو۔ «مسلمة‏» یعنی صحیح سالم اور عیوب سے پاک ہو۔ «لا شية‏» یعنی داغی (نہ ہو)۔ «صفراء‏» اگر تم چاہو تو اس کے معنی سیاہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور زرد کے بھی جیسے «جمالة صفر‏» میں ہے۔ «فادارأتم‏» بمعنی «فاختلفتم‏» تم نے اختلاف کیا۔ (مزید معلومات کے لیے ان مقامات قرآن کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ الفاظ آئے ہیں۔)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

31- بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ:
باب: موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان
حدیث نمبر: 3407

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ الْمَوْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَالْآنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏نَحْوَهُ.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا۔ جب ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی (ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا) موسیٰ علیہ السلام بولے: اے رب! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔



حدیث نمبر: 3408
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّأَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اسْتَبَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَرَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْمُسْلِمُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَالَمِينَ فِي قَسَمٍ يُقْسِمُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْيَهُودِيُّ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْعَالَمِينَ فَرَفَعَ الْمُسْلِمُ عِنْدَ ذَلِكَ يَدَهُ فَلَطَمَ الْيَهُودِيَّ فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِهِ وَأَمْرِ الْمُسْلِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کے ایک آدمی اور یہودیوں میں سے ایک شخص کا جھگڑا ہوا۔ مسلمان نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا میں برگذیدہ بنایا ‘ قسم کھاتے ہوئے انہوں نے یہ کہا۔ اس پر یہودی نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو ساری دنیا میں برگزیدہ بنایا۔ اس پر مسلمان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ وہ یہودی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اپنے اور مسلمان کے جھگڑے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر فرمایا کہ مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دئیے جائیں گے اور سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا پھر دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بھی بیہوش ہونے والوں میں تھے اور مجھ سے پہلے ہی ہوش میں آ گئے یا انہیں اللہ تعالیٰ نے بیہوش ہونے والوں میں ہی نہیں رکھا تھا۔



حدیث نمبر: 3409
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ مُوسَى:‏‏‏‏ أَنْتَ آدَمُ الَّذِي أَخْرَجَتْكَ خَطِيئَتُكَ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ آدَمُ:‏‏‏‏ أَنْتَ مُوسَى الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قُدِّرَ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى مَرَّتَيْنِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ اور آدم علیہم السلام نے آپس میں بحث کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔ آدم علیہ السلام بولے اور آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے نوازا ‘ پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے معاملے پر ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چنانچہ آدم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا۔



حدیث نمبر: 3410
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ وَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ هَذَا مُوسَى فِي قَوْمِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حصین بن نمیر نے بیان کیا ‘ ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میرے سامنے تمام امتیں لائی گئیں اور میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی جماعت آسمان کے کناروں پر چھائی ہوئی ہے۔ پھر بتایا گیا کہ یہ اپنی قوم کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔
 
Top