Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
حدیث نمبر: 3666
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ يَعْنِي الْجَنَّةَ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ وَبَابِ الرَّيَّانِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا عَلَى هَذَا الَّذِي يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، وَقَالَ: هَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا (مثلاً دو روپے، دو کپڑے، دو گھوڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیے) تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہ دروازہ بہتر ہے پس جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص اہل صدقہ میں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ دار ہو گا اسے صیام اور ریان (سیرابی) کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جس شخص کو ان تمام ہی دروازوں سے بلایا جائے گا پھر تو اسے کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہے گا اور پوچھا کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے اے ابوبکر!۔
حدیث نمبر: 3667
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ، فَقَامَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍفَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ، قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: "أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ"، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ.
مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر رضی اللہ عنہ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھ گئے۔
حدیث نمبر: 3668
فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: "أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ"، وَقَالَ: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، قَالَ: فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، قَالَ: وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقَالُوا: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، فَقَالَ: فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، فَقَالَ: حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا، فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ: قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقَالَ: عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی)«إنك ميت وإنهم ميتون» اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين» محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو گا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔
حدیث نمبر: 3669
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ: عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَخَصَ بَصَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ثَلَاثًا وَقَصَّ الْحَدِيثَ، قَالَتْ: فَمَا كَانَتْ مِنْ خُطْبَتِهِمَا مِنْ خُطْبَةٍ إِلَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهَا لَقَدْ خَوَّفَ عُمَرُ النَّاسَ وَإِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا فَرَدَّهُمُ اللَّهُ بِذَلِكَ.
اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا:اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔
حدیث نمبر: 3670
ثُمَّ لَقَدْ بَصَّرَ أَبُو بَكْرٍ النَّاسَ الْهُدَى وَعَرَّفَهُمُ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ يَتْلُونَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144".
اور بعد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل» محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں «الشاكرين» تک۔
حدیث نمبر: 3671
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي: "أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ: عُثْمَانُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ، قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے جامع بن ابی راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابویعلیٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔
حدیث نمبر: 3672
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: "خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِي، وَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ، فَتَيَمَّمُوا، فَقَالَ: أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جب ہم مقام بیداء یا مقام ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار ٹوٹ کر گر گیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے لیکن نہ اس جگہ پانی تھا اور نہ ان کے پاس پانی تھا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں روک لیا ہے۔ اتنے صحابہ آپ کے ساتھ ہیں۔ نہ تو یہاں پانی ہے اور نہ لوگ اپنے ساتھ (پانی) لیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ وہ کہنے لگے، تمہاری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب لوگوں کو رکنا پڑا۔ اب نہ یہاں کہیں پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے۔ میں ضرور تڑپ اٹھتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے۔ جب صبح ہوئی تو پانی نہیں تھا اور اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا اور سب نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آل ابوبکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جب اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے ہمیں ملا۔
حدیث نمبر: 3673
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ". تَابَعَهُ جَرِيرٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَمُحَاضِرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا میں نے ذکوان سے سنا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللہ بن داود، ابومعاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 3674
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ أَبُو الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقُلْتُ: لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَوَجَّهَ هَا هُنَا فَخَرَجْتُ عَلَى إِثْرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ، فَتَوَضَّأَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟، فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ: لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يُرِيدُ أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَجِئْتُ فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ فَجَاءَ إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟، فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ"، فَجِئْتُهُ فَقُلْتُ: لَهُ ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُكَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُ مِنَ الشَّقِّ الْآخَرِ، قَالَ: شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے شریک بن ابی نمر نے، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے جا چکے ہیں اور آپ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے نکلا اور آخر میں نے دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب) بئراریس میں داخل ہو رہے ہیں، میں دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ قضائے حاجت کر چکے اور آپ نے وضو بھی کر لیا تو میں آپ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئراریس (اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان رہوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہر جائیے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت آپ سے چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں دروازہ پر آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا تھا۔ پھر میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا، کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبر دے دیتا۔ ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی اور انہیں یہاں پہنچا دیتا۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ کہا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ میں پھر دروازے پر آ کر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں (ان کے بھائی) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچا دے گا، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو ان کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر جو انہیں پہنچے گی جنت کی بشارت پہنچا دو۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی۔ وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترہ پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ اسی طرح بنیں گی)۔
حدیث نمبر: 3675
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: "اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
حدیث نمبر: 3676
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَيْنَمَا أَنَا عَلَى بِئْرٍ أَنْزِعُ مِنْهَا جَاءَنِي أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ الدَّلْوَ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ أَخَذَهَا ابْنُ الْخَطَّابِ مِنْ يَدِ أَبِي بَكْرٍ فَاسْتَحَالَتْ فِي يَدِهِ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ، فَنَزَعَ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ"، قَالَ وَهْبٌ: الْعَطَنُ مَبْرَكُ الْإِبِلِ، يَقُولُ: حَتَّى رَوِيَتِ الْإِبِلُ فَأَنَاخَتْ.
مجھ سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے صخر نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک کنویں پر (خواب میں) کھڑا اس سے پانی کھینچ رہا تھا کہ میرے پاس ابوبکر اور عمر بھی پہنچ گئے۔ پھر ابوبکر نے ڈول لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے، ان کے کھینچنے میں ضعف تھا اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے گا۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ سے ڈول عمر نے لے لیا اور ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی وہ ایک بہت بڑے ڈول کی شکل میں ہو گیا۔ میں نے کوئی ہمت والا اور بہادر انسان نہیں دیکھا جو اتنی حسن تدبیر اور مضبوط قوت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو، چنانچہ انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگوں نے اونٹوں کے پانی پلانے کی جگہیں بھر لیں، وہب نے بیان کیا کہ «العطن»اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں، عرب لوگ بولتے ہیں، اونٹ سیراب ہوئے کہ (وہیں) بیٹھ گئے۔
حدیث نمبر: 3677
حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحُسَيْنِ الْمَكِّيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: إِنِّي لَوَاقِفٌ فِي قَوْمٍ فَدَعَوْا اللَّهَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ إِذَا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَهُ عَلَى مَنْكِبِي، يَقُولُ: "رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، لِأَنِّي كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كُنْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَفَعَلْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَإِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَهُمَا، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ".
ہم سے ولید بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن سعید بن ابی الحسین مکی نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے، اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا، اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور (عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہنے لگے اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (دفن) کرائے گا، میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر اور عمر تھے ، میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا ، میں اور ابوبکر اور عمر گئے اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے جو مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔
حدیث نمبر: 3678
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ: رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ".
مجھ سے محمد بن یزید کوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے، ان سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچی جس سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ پھنس گیا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس بدبخت کو دفع کیا اور کہا کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ يَعْنِي الْجَنَّةَ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصِّيَامِ وَبَابِ الرَّيَّانِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا عَلَى هَذَا الَّذِي يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، وَقَالَ: هَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا (مثلاً دو روپے، دو کپڑے، دو گھوڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیے) تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہ دروازہ بہتر ہے پس جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص مجاہد ہو گا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، جو شخص اہل صدقہ میں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ دار ہو گا اسے صیام اور ریان (سیرابی) کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جس شخص کو ان تمام ہی دروازوں سے بلایا جائے گا پھر تو اسے کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہے گا اور پوچھا کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے اے ابوبکر!۔
حدیث نمبر: 3667
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ، فَقَامَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍفَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ، قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: "أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ"، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ.
مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر رضی اللہ عنہ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھ گئے۔
حدیث نمبر: 3668
فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: "أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ"، وَقَالَ: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، قَالَ: فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، قَالَ: وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَقَالُوا: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، فَقَالَ: فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، فَقَالَ: حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا، فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا، وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، فَقَالَ: قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقَالَ: عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الزمر کی یہ آیت پڑھی)«إنك ميت وإنهم ميتون» اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاكرين» محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو گا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کر لی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر رضی اللہ عنہ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔
حدیث نمبر: 3669
وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ: عَنْ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَخَصَ بَصَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى ثَلَاثًا وَقَصَّ الْحَدِيثَ، قَالَتْ: فَمَا كَانَتْ مِنْ خُطْبَتِهِمَا مِنْ خُطْبَةٍ إِلَّا نَفَعَ اللَّهُ بِهَا لَقَدْ خَوَّفَ عُمَرُ النَّاسَ وَإِنَّ فِيهِمْ لَنِفَاقًا فَرَدَّهُمُ اللَّهُ بِذَلِكَ.
اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا:اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔
حدیث نمبر: 3670
ثُمَّ لَقَدْ بَصَّرَ أَبُو بَكْرٍ النَّاسَ الْهُدَى وَعَرَّفَهُمُ الْحَقَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَخَرَجُوا بِهِ يَتْلُونَ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144".
اور بعد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے «وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل» محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں «الشاكرين» تک۔
حدیث نمبر: 3671
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ أَبِي رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي: "أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ: عُثْمَانُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَنْتَ، قَالَ: مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، کہا ہم سے جامع بن ابی راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابویعلیٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حنفیہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب (پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔
حدیث نمبر: 3672
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: "خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِي، وَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ، فَتَيَمَّمُوا، فَقَالَ: أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جب ہم مقام بیداء یا مقام ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار ٹوٹ کر گر گیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے لیکن نہ اس جگہ پانی تھا اور نہ ان کے پاس پانی تھا۔ لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں روک لیا ہے۔ اتنے صحابہ آپ کے ساتھ ہیں۔ نہ تو یہاں پانی ہے اور نہ لوگ اپنے ساتھ (پانی) لیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ وہ کہنے لگے، تمہاری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب لوگوں کو رکنا پڑا۔ اب نہ یہاں کہیں پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے۔ میں ضرور تڑپ اٹھتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے۔ جب صبح ہوئی تو پانی نہیں تھا اور اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا اور سب نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آل ابوبکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جب اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے ہمیں ملا۔
حدیث نمبر: 3673
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ". تَابَعَهُ جَرِيرٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَمُحَاضِرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا میں نے ذکوان سے سنا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللہ بن داود، ابومعاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر: 3674
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ أَبُو الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، أَنَّهُ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ ثُمَّ خَرَجَ، فَقُلْتُ: لَأَلْزَمَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَكُونَنَّ مَعَهُ يَوْمِي هَذَا، قَالَ: فَجَاءَ الْمَسْجِدَ فَسَأَلَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: خَرَجَ وَوَجَّهَ هَا هُنَا فَخَرَجْتُ عَلَى إِثْرِهِ أَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى دَخَلَ بِئْرَ أَرِيسٍ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ وَبَابُهَا مِنْ جَرِيدٍ حَتَّى قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ، فَتَوَضَّأَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى بِئْرِ أَرِيسٍ وَتَوَسَّطَ قُفَّهَا وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ وَدَلَّاهُمَا فِي الْبِئْرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ، فَقُلْتُ: لَأَكُونَنَّ بَوَّابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَوْمَ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَدَفَعَ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟، فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى قُلْتُ: لِأَبِي بَكْرٍ ادْخُلْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُكَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ فِي الْقُفِّ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ كَمَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ وَقَدْ تَرَكْتُ أَخِي يَتَوَضَّأُ وَيَلْحَقُنِي، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يُرِيدُ أَخَاهُ يَأْتِ بِهِ فَإِذَا إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟، فَقَالَ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ ثُمَّ جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَجِئْتُ فَقُلْتُ: ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ، فَدَخَلَ فَجَلَسَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُفِّ عَنْ يَسَارِهِ وَدَلَّى رِجْلَيْهِ فِي الْبِئْرِ ثُمَّ رَجَعْتُ فَجَلَسْتُ، فَقُلْتُ: إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِفُلَانٍ خَيْرًا يَأْتِ بِهِ فَجَاءَ إِنْسَانٌ يُحَرِّكُ الْبَابَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا ؟، فَقَالَ: عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَقُلْتُ: عَلَى رِسْلِكَ فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: "ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ"، فَجِئْتُهُ فَقُلْتُ: لَهُ ادْخُلْ وَبَشَّرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُكَ فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِئَ فَجَلَسَ وِجَاهَهُ مِنَ الشَّقِّ الْآخَرِ، قَالَ: شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ فَأَوَّلْتُهَا قُبُورَهُمْ.
ہم سے ابوالحسن محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے شریک بن ابی نمر نے، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، کہا مجھ کو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے جا چکے ہیں اور آپ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ میں آپ کے متعلق پوچھتا ہوا آپ کے پیچھے پیچھے نکلا اور آخر میں نے دیکھا کہ آپ (قباء کے قریب) بئراریس میں داخل ہو رہے ہیں، میں دروازے پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپ قضائے حاجت کر چکے اور آپ نے وضو بھی کر لیا تو میں آپ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ بئراریس (اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان رہوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہر جائیے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت آپ سے چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں دروازہ پر آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا تھا۔ پھر میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا، کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبر دے دیتا۔ ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی اور انہیں یہاں پہنچا دیتا۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازہ پر دستک دی میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ کہا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ میں پھر دروازے پر آ کر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں (ان کے بھائی) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچا دے گا، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ کو ان کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر جو انہیں پہنچے گی جنت کی بشارت پہنچا دو۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے، ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی۔ وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترہ پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب نے کہا میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ اسی طرح بنیں گی)۔
حدیث نمبر: 3675
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: "اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
حدیث نمبر: 3676
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا صَخْرٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَيْنَمَا أَنَا عَلَى بِئْرٍ أَنْزِعُ مِنْهَا جَاءَنِي أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ الدَّلْوَ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ وَفِي نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَهُ، ثُمَّ أَخَذَهَا ابْنُ الْخَطَّابِ مِنْ يَدِ أَبِي بَكْرٍ فَاسْتَحَالَتْ فِي يَدِهِ غَرْبًا، فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَفْرِي فَرِيَّهُ، فَنَزَعَ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ"، قَالَ وَهْبٌ: الْعَطَنُ مَبْرَكُ الْإِبِلِ، يَقُولُ: حَتَّى رَوِيَتِ الْإِبِلُ فَأَنَاخَتْ.
مجھ سے ابوعبداللہ احمد بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے صخر نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک کنویں پر (خواب میں) کھڑا اس سے پانی کھینچ رہا تھا کہ میرے پاس ابوبکر اور عمر بھی پہنچ گئے۔ پھر ابوبکر نے ڈول لے لیا اور ایک یا دو ڈول کھینچے، ان کے کھینچنے میں ضعف تھا اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے گا۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ سے ڈول عمر نے لے لیا اور ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی وہ ایک بہت بڑے ڈول کی شکل میں ہو گیا۔ میں نے کوئی ہمت والا اور بہادر انسان نہیں دیکھا جو اتنی حسن تدبیر اور مضبوط قوت کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو، چنانچہ انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگوں نے اونٹوں کے پانی پلانے کی جگہیں بھر لیں، وہب نے بیان کیا کہ «العطن»اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں، عرب لوگ بولتے ہیں، اونٹ سیراب ہوئے کہ (وہیں) بیٹھ گئے۔
حدیث نمبر: 3677
حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحُسَيْنِ الْمَكِّيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: إِنِّي لَوَاقِفٌ فِي قَوْمٍ فَدَعَوْا اللَّهَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ إِذَا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَهُ عَلَى مَنْكِبِي، يَقُولُ: "رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ، لِأَنِّي كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كُنْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَفَعَلْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَإِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَكَ اللَّهُ مَعَهُمَا، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ".
ہم سے ولید بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن سعید بن ابی الحسین مکی نے ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے، اس وقت ان کا جنازہ چارپائی پر رکھا ہوا تھا، اتنے میں ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر میرے شانوں پر اپنی کہنیاں رکھ دیں اور (عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے) کہنے لگے اللہ آپ پر رحم کرے۔ مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (دفن) کرائے گا، میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر اور عمر تھے ، میں نے اور ابوبکر اور عمر نے یہ کام کیا ، میں اور ابوبکر اور عمر گئے اس لیے مجھے یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ میں نے جو مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔
حدیث نمبر: 3678
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ: رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ".
مجھ سے محمد بن یزید کوفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، ان سے اوزاعی نے، ان سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچی جس سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ پھنس گیا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس بدبخت کو دفع کیا اور کہا کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے۔