كتاب الزكاة
کتاب زکوۃ کے مسائل کا بیان
1- بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ سورة البقرة آية 43، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ حَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَالصِّلَةِ، وَالْعَفَافِ.
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ' انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ' زکوٰۃ ' صلہ رحمی ' ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث نمبر: 1395
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ".
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا ' ان سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا ' ان سے یحییٰ بن عبداللہ بن صیفی نے بیان کیا، ان سے ابومعبد نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کا حاکم بنا کر) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 1396
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ ابْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: مَا لَهُ، مَا لَهُ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَا لَهُ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ"، وَقَالَ بَهْزٌ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ وَأَبُوهُ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُمَا سَمِعَا مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، بِهَذَا، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: أَخْشَى أَنْ يَكُونَ مُحَمَّدٌ غَيْرَ مَحْفُوظٍ إِنَّمَا هُوَ عَمْرٌو.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ' کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ہے ' ان سے موسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراو۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اور بہز نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اور ان کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور انہوں نے ابوایوب سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کی طرح (سنا) ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمرو بن عثمان سے (محفوظ ہے)۔
حدیث نمبر: 1397
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ ؟، قَالَ: تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ' کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ' کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے ' ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ' اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ' فرض نماز قائم کر ' فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ' ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو زُرْعَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ' ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے ' ان سے ابوحیان نے ' انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔
حدیث نمبر: 1398
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: "قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ قَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ، وَلَسْنَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا ؟ قَالَ: آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ، وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، الْإِيمَانِ بِاللَّهِ، وَشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَعَقَدَ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ، وَالنَّقِيرِ، وَالْمُزَفَّتِ"، وَقَالَ سُلَيْمَانُ وَأَبُو النُّعْمَانِ ، عَنْ حَمَّادٍ ، الْإِيمَانِ بِاللَّهِ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی ' کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ' کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا ' کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ' آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم قبیلہ ربیعہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے درمیان پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں (کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہو جاتی ہیں اور راستے پرامن ہو جاتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلا دیجئیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا (یہ کہتے ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نماز قائم کرنا ' پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے (کا حکم دیتا ہوں) اور میں تمہیں کدو کے تونبی سے اور حنتم (سبز رنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا) فقیر (کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن) اور زفت لگا ہوا برتن (زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا) کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے۔
«الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله» یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب
«لا إله إلا الله» کی گواہی دینا۔
حدیث نمبر: 1399
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ، وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ.
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ' کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ' ان سے زہری نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہو گئے (اور کچھ نے زکوٰۃ سے انکار کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کر سکتے ہیں مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ
«لا إله إلا الله» کی شہادت نہ دیدیں اور جو شخص اس کی شہادت دیدے تو میری طرف سے اس کا مال و جان محفوظ ہو جائے گا۔ سوا اسی کے حق کے (یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا۔
حدیث نمبر: 1400
فَقَالَ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَرَفْتُ، أَنَّهُ الْحَقُّ".
اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ (یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کر دے) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی(بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا یہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں، میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔