• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح حدیث کے بالمقابل کسی امام کے قول پر اعتماد؟ (انتظامیہ)

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم،
میں زیادہ نہیں جانتا لیکن حنفی مذہب میں قول امام کے خلاف حدیث قبول نہ کرنے پر تمام حنفیوں کا متفق ہونا میرے نزدیک محل نظر ہے۔ دیوبندیوں کے ایک معتبر اور بڑے عالم مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں:
"متبحر عالم سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رتبہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس اور تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کی زیر نگرانی عرصہ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں اور وہ کسی مسئلے میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہو اور ان کے طرز تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشتر علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایسے "متبحر فی المذہب" نے مسئلے کے تمام پہلوؤں اور دلائل کا پوری طرح احاطہ کرنے کی کوشش کر لی ہو تو ایسی صورت میں وہ حدیث صحیح کی بناء پر اپنے امام کے قول کو چھوڑ سکتا ہے۔۔ ۔ "
(تقلید کی شرعی حیثیت ص 94 تا 108 کی بحث ملاحظہ ہو)
آپ کے ایک تھریڈ " جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں" میں اس کتاب کا حوالہ دیکھنے کے بعد میں نے اس کا مطالعہ کیا تھا اور سچی بات ہے دیوبندیوں کا موقف سمجھنے میں مجھے اس سے بڑی مدد ملی ہے۔
یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ مسلکا میں دیوبندی نہیں ہوں لیکن جب سلفیت کا کوئی پیروکار اس قسم کے الزامات فریق مخالف پر لگائے تو اسے سمجھائے بغیر رہا نہیں جاتا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (135)
عبداللہ حیدر بھائی! آپ کی بات ایک لحاظ سے درست ہے، اگر کوئی سلفی مذکورہ اصول پر " تمام حنفیوں کا متفق" ہونا قرار دیتا ہے تو یہ یا تو اس کی خطا ہے، یا بیان میں کرنے میں خفلت کا شکار ہے۔
عبداللہ حیدر بھائی! ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ "مقلدین احناف" کا متفقہ اصول ہے۔ اور آج تک کسی حنفی مقلد نے اس اصول کی تردید نہیں کی!!
اور باقی رہی "متبحر عالم" کی بحث تو اس پر ان شاء اللہ آپ طالب نور بھائی سے گفتگو جاری رکھیں، ان شاء اللہ !
ویسے ایک بات عرض کر دیتا ہوں کہ یہ جو بات مولانا تقی عثمانی صاحب نے لکھی ہے، وہ بھی ایک لطیفہ ہی ہے۔ کیا مولانا صاحب یہ بھی بتلا سکتے ہیں کہ ایسا "متبحر عالم" حنفی کوئی دنیا میں موجود ہے بھی، یا اب تک کون کون سے حنفی اس منزل عالی شان تک رسائی حاصل کر چکے ہیں؟ اور مزید یہ کہ کون سا مقلد یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مقلد کو یہ اجازۃ دے کہ " آج سے آپ " متبحر عالم" بن چکے ہو، اب آپ حدیث کے مخالف امام کے قول کو رد کر سکتے ہو" لیکن یہ اجازۃ دینے والا خود یہ نہیں کر سکے گا، کیوں کہ وہ خود اس منزل عالی شان تک نہیں پہنچ سکا!! اور یہ نہ جانے کون سا دین ہےجس میں عوام پر واجب ہے کہ حدیث کی مخالفت کریں! اور بس صرف معدوم لوگ ہی حدیث کے مقابلے میں امام کے قول کو رد کر سکتے ہیں!
خیر مختصر یہ کہ یہ صرف لوگوں کو دھوکا دینا ہے، اور غالباً آپ بھی مولانا تقی عثمانی صاحب کے اس فریب میں آ گئے! مجھے وہ مثال یاد آتی ہے کہ
نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انسان کوکسی بات کو تول کربولناچاہئے۔ جذباتیت اشتعال اورعجلت میں اکثراسی طرح کی غلطی ہوتی ہے کسی چیز کو کسی ایک جماعت کی جانب منسوب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس جماعت کے ارکان اس کا عمومی طورپر اعتراف کرتے ہوں۔ ورنہ اس کی جانب نسبت کرنا غلط بات ہوگی۔
جب آپ اپنے بارے میں یہ بات پسند نہیں کرتے کہ کسی ایک عالم کے خیال کو جس کو دیگر علماء نے قبول نہیں کیا ہو اپنی جماعت کی جانب عمومی طورپر منسوب کیاجائے تویہی طرز عمل دوسروں کے ساتھ بھی ہوناچاہئے ۔عدل وانصاف اورشرافت کا یہی تقاضاہوتاہے۔
آپ نے اس اصول کو فقہ حنفیہ کا معروف قاعدہ قراردیاہے جب کہ میرے علم کے مطابق یہ صرف حضرت ابوالحسن الکرخی کی ذاتی رائے ہے۔
محترم! آپ گوگل میں أهمية أصول الكرخي عند الحنفية لکھ کر جس ویب سائٹ کا بھی جائزہ لیں تو آپ کو ملے گا کہ اصولِ کرخی فقہ حنفی کی معروف ترین کتاب ہے۔
پھر نہ جانے آپ اس سے براءت کا اظہار کیوں فرما رہے ہیں؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دیوبندیوں کے ایک معتبر اور بڑے عالم مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں:
"متبحر عالم سے ہماری مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ رتبہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو لیکن اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرنے کے بعد انہی علوم کی تدریس اور تصنیف کی خدمت میں اکابر علماء کی زیر نگرانی عرصہ دراز تک مشغول رہا ہو، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان کے اصول اسے مستحضر ہوں اور وہ کسی مسئلے میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہو اور ان کے طرز تصنیف و استدلال کا مزاج شناس ہونے کی بناء پر ان کی صحیح مراد تک پہنچ سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشتر علماء کا کہنا یہ ہے کہ اگر ایسے "متبحر فی المذہب" نے مسئلے کے تمام پہلوؤں اور دلائل کا پوری طرح احاطہ کرنے کی کوشش کر لی ہو تو ایسی صورت میں وہ حدیث صحیح کی بناء پر اپنے امام کے قول کو چھوڑ سکتا ہے۔۔ ۔ "
(تقلید کی شرعی حیثیت ص 94 تا 108 کی بحث ملاحظہ ہو)
اب ذرا یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں :


الحق والإنصاف: أن الترجيح للشافعي في هذه المسألة، ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة


اس طرح کی عبارات کن سے ثابت ہیں جن کے بارے میں یہ خود ہی کہتے ہیں :


الشيخ العلامة الحبر ألفهامة مولانا أُستاذنا سيدي محمد أنورشاه كان الله مولاه ، أنا الشيخ محمود الدهر وفريد العصر مولانا محمود حسن ( مقدمۃ العرف الشذی )


اب پتہ نہیں مولانا تقی عثمانی صاحب کی بیان کردہ شرائط محمود الدہر و فرید العصر میں پائی جاتی ہیں کہ نہیں ؟؟؟

تقی عثمانی صاحب کی عبارت کو ذرا ایک نظر پھر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا محمود الحسن رحمہ اللہ :


رتبہ اجتہاد پر پہنچے تھے کہ نہیں ؟ اور اسلامی علوم کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کیا تھا کہ نہیں ؟
اس کی تدریس اور تصنیف میں اکابر علماء کی زیر نگرانی عرصہ دراز تک مشغول رہے ہیں کہ نہیں ؟
تفسیر ، حدیث ، فقہ اور ان کے اصول ان کو مستحضر تھے کہ نہیں ؟
مسائل میں اسلاف کے افادات سے بخوبی فائدہ اٹھا سکتے تھے کہ نہیں ؟
اسلاف کے طرز تصنیف و استدلال کے مزاج شناس ہونے کی بنا پر صحیح مراد تک پہنچنے کی اہلیت رکھتے تھے کہ نہیں ؟
اور کیا وہ متبحر فی المذہب تھے کہ نہیں ؟
اگر سب کا جواب ’’ ہاں ‘‘ میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟

تو پھر آپ خوامخواہ کیوں عمل بالحدیث کے دعوے کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ بلکہ وہی کام کریں جو مشائخ سے توارث عملی کے ذریعے آپ تک منتقل ہوا ہے ۔۔۔۔
اور اگر واقعہ ہی حدیث پر عمل کرنے کی ’’ خواہش ‘‘ انگڑائیاں لینے لگی ہے تو پھر ایسے لوگوں کی طرف رجوع کریں جو دن رات قال اللہ و قال الرسول کی صدائین بلند کرتے ہیں اور ایسے لوگوں سے جان چھڑائیں جو یہ راگ الاپتے ہوئے فخر کرتے ہیں کہ :
کل ما یخالف أصحابنا فہو مؤول أو منسوخ (بالمعنی )
اور ان رجال باصفا سے درس لیں جو

اطیعو اللہ و اطیعو الرسول اور اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم و لا تتبعوا من دونہ أولیاء
کا درس دیتے ہیں ۔۔۔

اللم أرنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ و أرنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
جس شخص کے بارے میں مجتہد فی المذہب کا دعویٰ کیا جا رہا ہو گا کیا وہ پیدا ہوتے ہی اس درجہ پر تھا یا پہلے مقلد تھا بعد میں اس درجہ کو پہنچا؟
جب تک وہ صرف مقلد تھا تو خود احناف کے بلکہ تقی عثمانی صاحب کے بقول بھی اس پر امام کے خلاف حدیث پر عمل ممنوع تھا، گمراہی کا باعث تھا۔ وہ کون سا ایسا کورس تھا جس کے کرنے کے بعد اچانک اس مقلد کو یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ مجتہد فی المذہب ہے اور وہ حدیث کے مقابلے میں امام کے قول کو چھوڑ بھی دے تو صحیح ہے؟کیا کوئی امتیازی لکیر ایسی بتائی جائے گی جس کے پیچھے امام کے مقابل حدیث ماننا گمراہی اور جس کے آگے حدیث چھوڑنا گمراہی ہے؟
اسی کو کہتے ہیں کہ بال کی کھال نکالنا۔
اگردوسرااسی طرز پر سوال کردے کہ بچہ پیداہوتاہے والدین کی نقل کرتے ہوئے بڑاہوتاہے۔ ان کو نماز پڑھتے دیکھ ان کی طرح ہی نماز کی حرکتیں دوہراتاہے ۔پھر دینی علم حاصل کرتاہے۔ دینی علم حاصل کرنے میں بھی ایک طویل عرصہ تک اس کی یہ حیثیت نہیں ہوتی کہ وہ مسائل کا استنباط یادلائل کی بناء پر کسی ایک جہت کو ترجیح دے۔ اگرآپ ہی اس کورس کا نام بتادیں جس کے بعد انسان کو اجتہاد کا منصب حاصل ہوجاتاہے توراقم الحروف ممنون اورمشکور ہوگا۔
ویسے ہمیں اپنے ائمہ اجتہاد حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورمحدث شہیر البانی صاحب کے تعلق سے ہی بتادیں کہ ان کی زندگی میں وہ کون سالمحہ آیا تھا جب وہ درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے تھے۔ توراقم الحروف نہایت مشکور ہوگا۔
یہ اوراس طرح کی زبانی مناظرہ نہ راقم الحروف کا مشغلہ رہاہے اورنہ ہی خواہش ہے۔ انسان کو صحیح اورسیدھی بات کرنی چاہئے۔ نہ بات کو گھمانے کی کوشش کرنی چاہئے اورنہ ہی ایچ پیچ ڈالنے کی۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
میں نے ایک بات کہی تھی کہ اصول کرخی کے بعد بھی علماء احناف نے اصول فقہ پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں اگروہ اس کواحناف کا معروف قاعدہ اورمتفقہ قاعدہ سمجھتے ہیں تواس پر دوچار دیگر اصول فقہ کی کتابوں سے استشہاد کیوں نہیں پیش کرتے لیکن اس کاسیدھا جواب کسی نے نہیں دیا ہرایک نے ادھر ادھرکی بات کی ہے۔
میں اب بھی منتظر ہوں کہ کوئی صاحب اس سوال کا براہ راست جواب دیں کہ اصول فقہ میں حنفیہ کی وہ کون سی دوسری کتابیں ہیں جس میں اصول کرخی کی اس عبارت کو ذکر کیاگیاہے۔
میں نے پہلے بھی تین طریقوں کی نشاندہی کی تھی اورافسوس ہے کہ لوگوں نے تیسرا راستہ ہی اختیار کیاہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ویسے ہمیں اپنے ائمہ اجتہاد حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورمحدث شہیر البانی صاحب کے تعلق سے ہی بتادیں کہ ان کی زندگی میں وہ کون سالمحہ آیا تھا جب وہ درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے تھے۔ توراقم الحروف نہایت مشکور ہوگا۔
امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی زندگی میں جس دن وہ لمحہ آیا تھا کہ وہ ایک طالب علم سے مجتہد کے درجہ پر فائز ہو گئے تھے، اس سے تقریبا ٢٤ سال پہلے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زندگی میں وہ لمحہ آیا کہ وہ درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ اب آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے والے سال، مہینے، دن منٹ اور سیکنڈ کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ الاسلام کی زندگی میں ان کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کے لمحہ کو معلوم کر سکتے ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اسی کو کہتے ہیں کہ بال کی کھال نکالنا۔
اگردوسرااسی طرز پر سوال کردے کہ بچہ پیداہوتاہے والدین کی نقل کرتے ہوئے بڑاہوتاہے۔ ان کو نماز پڑھتے دیکھ ان کی طرح ہی نماز کی حرکتیں دوہراتاہے ۔پھر دینی علم حاصل کرتاہے۔ دینی علم حاصل کرنے میں بھی ایک طویل عرصہ تک اس کی یہ حیثیت نہیں ہوتی کہ وہ مسائل کا استنباط یادلائل کی بناء پر کسی ایک جہت کو ترجیح دے۔ اگرآپ ہی اس کورس کا نام بتادیں جس کے بعد انسان کو اجتہاد کا منصب حاصل ہوجاتاہے توراقم الحروف ممنون اورمشکور ہوگا۔
ویسے ہمیں اپنے ائمہ اجتہاد حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اورمحدث شہیر البانی صاحب کے تعلق سے ہی بتادیں کہ ان کی زندگی میں وہ کون سالمحہ آیا تھا جب وہ درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے تھے۔ توراقم الحروف نہایت مشکور ہوگا۔
یہ اوراس طرح کی زبانی مناظرہ نہ راقم الحروف کا مشغلہ رہاہے اورنہ ہی خواہش ہے۔ انسان کو صحیح اورسیدھی بات کرنی چاہئے۔ نہ بات کو گھمانے کی کوشش کرنی چاہئے اورنہ ہی ایچ پیچ ڈالنے کی۔
جناب اس کو بال کی کھال نکالنا ہرگز نہیں کہتے کیونکہ ہمارے نزدیک تو ایسا کوئی مقام ہے ہی نہیں جہاں پر ایک شخص حدیث کے مقابل میں اگر امام کا قول چھوڑ دے تو گمراہ قرار پائے اور یہی شخص کچھ عرصہ بعد جب حدیث مان کر قول امام چھوڑ دے تو اجر و ثواب کا مستحق قرار پائے۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو ہر شخص پر واجب ہے کہ ایک حکم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے اور وہ اسے حق اور انصاف بھی مانتا ہو اور پھر اس کے باوجود اس حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قول امام کی وجہ سے رد کر دے تو اس شخص کی گمراہی میں کوئی شک نہیں۔ اس حکم میں فقیہ و غیرفقیہ اور مجتہد و غیرمجتہد کا ہرگز کوئی فرق کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔
یہ لکیر کھینچنے کے دعویدار آپ ہیں کہ لکیر کے اس طرف امام کو قول مانو اور حدیث کو رد کر دو اور لکیر کی دوسری طرف پہنچنے پر قول امام ترک کر دو اور حدیث لے لو۔ لہٰذا یہ سوال آپ سے پوچھا جانا بالکل صحیح ہے کہ ایک شخص کے بارے میں کس طرح پتا چلے گا کہ اس نے کب حدیث کو قول امام کے سامنے چھوڑ کر ہدایت پائی اور کب گمراہی اور کب قول امام کو چھوڑ کر گمراہی پائی اور کب ہدایت؟
اپنے اس من گھڑت اصول کا ہرگز بھی کوئی جواب ممکن نہیں اور یہی اس اصول کے باطل ہونے کی واضح نشانی ہے۔ اپنے حنفی جب کسی جگہ ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا اپنے ہی کسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے حدیث کو قول امام کے مقابلے ترجیح دے دیں تو بدستور ہدایت یافتہ قرار پائیں اور یہی کام جب دوسرے اسی ایمانی غیرت کے تحت کریں تو گمراہی کے سرٹیفیکیٹ جاری کئے جائیں۔ کیا خوب لینے اور دینے کے اصول ہیں؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میں اب بھی منتظر ہوں کہ کوئی صاحب اس سوال کا براہ راست جواب دیں کہ اصول فقہ میں حنفیہ کی وہ کون سی دوسری کتابیں ہیں جس میں اصول کرخی کی اس عبارت کو ذکر کیاگیاہے۔
یہ تو کوئی شرط نہ ہوئی کہ اگر دوسری کتابوں میں بھی اصول کرخی کا اصول موجود ہوگا تو ہی قابل قبول ہوگا۔ عرض کیا جاچکا ہے کہ حنفیوں کا قرآن و حدیث کے خلاف روا رکھا جانے والا عمل خود بتاتا ہے کہ امام کرخی کے قرآن وحدیث کے متعلق وضع کئے گئے اصول احناف کے ہاں معتبر اور قابل عمل ہیں۔ اصول کرخی حنفی مذہب کے اصول کی کتاب ہے اور یہ ایک ہی کتاب حنفیوں پر حجت ہے الا یہ کہ حنفی اس کتاب اور اس کے اصولوں سے بےزاری اور براءت کا اظہار کردیں۔

میں نے پہلے بھی تین طریقوں کی نشاندہی کی تھی اورافسوس ہے کہ لوگوں نے تیسرا راستہ ہی اختیار کیاہے۔
میں نے بھی چار طریقوں کی نشاندہی کی تھی جس میں سے آپ نے چوتھا راستہ یعنی میں نہ مانوں ہی اختیار کیا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی زندگی میں جس دن وہ لمحہ آیا تھا کہ وہ ایک طالب علم سے مجتہد کے درجہ پر فائز ہو گئے تھے
حق تو یہ ہے کہ احناف نے مجتہد کے لئے جو شرائط ذکر کی ہیں وہ امام ابوحنیفہ میں سرے سے پائی ہی نہیں جاتیں لہذا امام صاحب کبھی بھی مجتہد نہیں تھے بلکہ ٹھیٹ مقلد تھے۔ شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں: یعنی امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کو لازم پکڑتے تھے اور بہت ہی کم ان سے تجاوز کرتے۔(حجتہ اللہ البالغہ، ص١٤٦،جلد١ بحوالہ تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث، ص٢٢٤)
پس ثابت ہوا کہ موجودہ مقلدین خود ایک مقلد کے مقلد ہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
یہ لکیر کھینچنے کے دعویدار آپ ہیں کہ لکیر کے اس طرف امام کو قول مانو اور حدیث کو رد کر دو اور لکیر کی دوسری طرف پہنچنے پر قول امام ترک کر دو اور حدیث لے لو۔ لہٰذا یہ سوال آپ سے پوچھا جانا بالکل صحیح ہے کہ ایک شخص کے بارے میں کس طرح پتا چلے گا کہ اس نے کب حدیث کو قول امام کے سامنے چھوڑ کر ہدایت پائی اور کب گمراہی اور کب قول امام کو چھوڑ کر گمراہی پائی اور کب ہدایت؟
جب آپ پوچھتے ہیں کہ متبحر فی المذہب کیلئے کون ساکورس ہے اور وہ کون سالمحہ ہے جب وہ متبحر فی المذہب ہوجاتاہے تواسی وقت آنجناب نے اگرذراسنجیدگی اورمتانت کا مظاہرہ کیاہوتااوریہ سوال پوچھنے سے قبل ایک بار اس پر نظرثانی کی ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی۔
آپ اگر وہ حد اورلکیر پوچھنے کاحق رکھتے ہیں تودوسرابھی اسی قسم کے سوال پوچھنے کا حق رکھتاہے۔
آپ کے جواب سے معلوم ہوتاہے کہ ہراہل حدیث مجتہد وقت ہے اورجس کو جب جون سی حدیث نظر آجائے وہ اسی پر عمل کرلے گا۔ چاہے اس کو معلوم ہو یانہ ہو کہ یہ حدیث ناسخ ہے یامنسوخ ہے مقید ہے یامطلق ہے۔عام یاخاص ہے۔
اگرآنجناب کا یہی مفہوم ہے کہ ہرشخص ہرحدیث پر بغیر پوری معلومات کے عمل کرنے کامجاز ہے تو آنجناب خود کہہ دیں کہ ایک شخص کو حدیث ملتی ہے الماء من الماء اوروہ اس پر عمل کرنااورفتوی دیناشروع کردیتاہے تو کیاوہ گمراہ نہیں ہوگا۔
اس طرح کی بلامبالغہ سینکڑوں باتیں پیش کی جاسکتی ہے جب کہ بغیر علم اورمعلومات کے محض حدیث پر عمل کرنا گمراہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔ اوراسی کو علماء احناف نے بھی گمراہی میں شمار کیاہے لیکن شرط یہ ہے کہ جو وسعت ذہنی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تفردات اورمحدث شہیر البانی صاحب کے شذوذات اوردیگر ہم مسلک علماء کے فرمودات میں روارکھی جاتی ہے وہ ہی احناف کی کتابوں اورعبارتوں کو سمجھنے میں روارکھیں۔ ورنہ اسی ضیق فکر اورتنگی ذہن کے ساتھ احناف کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے توایسے اشکالات ایک نہیں ہزاروں پیش آئیں گے ۔
گزارش ہے کہ تھوڑی سی وسعت ذہنی کو راہ دیں ورنہ بقول غالب عالم یہ ہوگا
صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا۔
 
Top