السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
وہ لوگ جو تقلید کے خلاف شمشیر بکف ہیں۔ اورتحقیق کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنے کسی عالم کی لکھی گئی بات کی اس طرح تقلید کریں گے ۔دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کسی نے بغیرتحقیق کے یہ حوالہ دے دیاہوگا۔ اب سب مل کر اسی لکیر کو پیٹتے چلے جارہے ہیں۔ میں یہاں لکیر کے فقیر والی کہانت نہیں دوہراناچاہتا لیکن بات وہی ہے۔
ندوی میاں! یہ آپ نے کہاں کی ہانکی ہے!
" کسی نے بغیرتحقیق کے یہ حوالہ دے دیاہوگا۔"
ارے میاں ندوی صاحب! ہم حنفی مقلد نہیں جن کا دین و مذہب ہی اس
"ہوگا" پر قائم ہے!! جسے امام صاحب جو مدت رضاعت ڈھائی سال بتلاتے ہیں تو ان کے پاس کوئی دلیل
"ہوگی"، کیا فرق پڑتا ہے مقلد حنفیوں کو اس سے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ دو سال بتلاتا ہے!قبل از فرض عشاء 4 رکعت سنت غیر مؤکدہ کی کوئی دلیل
"ہوگی"، شاید ان کتابوں میں جو حنفی فقہا نے دریا میں غرق دیں!! لیکن
"ہوگی" !!
ندوی میاں! آپ کو امام غزالی کی کتاب کا حوالہ دیا ہے، کسی اور کی کتاب کا نہیں کہ آپ کہہ سکتے کہ
"کسی نے بغیرتحقیق کے یہ حوالہ دے دیاہوگا۔" اور میاں ندوی صاحب! یہ کہاوت لکیر کے فقیر والی کہاوت آپ پر بلکل صادق آتی ہے، کہ آپ کے مقلدین علماءاحناف نے پٹی پڑھا دی ہے کہ اہل الحدیث اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں تو اسی کو آپ پیٹے جا رہے ہو!! آپ کو حوالہ امام غزالی کی کتاب کا دیا ہے!!
ویسے میں مقلدین حنفیہ کے عذر شریف سے واقف ہوں ، کہ ایسی بے سروپا باتیں کیونکر کرتے ہیں! آپ کو بھی آپ کے عذر شریف سے آگاہ کیئے دیتا ہوں ، ان شاءاللہ آپ اپنے اس عذر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے!
آپ کا عذر شریف یہ ہے کہ مقلد جاہل ہوا کرتا ہے، اور علم کے بغیر خرد بھی کام نہیں کیا کرتی ! لہذا وہ بے چارہ عقل و خرد سے بھی عاری رہتا ہے!! ہاں مگر اپنی عقل کے اٹکل پچھو بہت لڑاتا ہے!!
ندوی صاحب! لہذا اس تقلید سے چھٹکارا حاصل کریں اور علم حاصل کریں!! آہستہ آہستہ انشاءاللہ عقل بھی ٹھکانے آ جائے گی!!
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے
اور ایک مشورہ مفت دیئے دیتا ہوں! یہ کہاوت کی کہانی کہیں اور شروع کیجئے گا! ہم اہل زبان ہیں!!!
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی بیش قیمت تالیف "الغزالی" میں تفصیل کے ساتھ امام غزالی کے کلام پر بحث کیاہے اورکہاہے کہ یہ کتاب ان کے ابتدائے شباب کی تصنیف تھی جب خون گرم تھا ۔
پھر خود محقق شافعی علماء میں سے بعض نے مثلاعلامہ سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اور ابن حجر مکی نے الخیرات الحسان میں امام غزالی کی اس کتاب میں اس عبارت کو ملحقہ اورزبردستی کا داخل کیاہوابتایاہے۔
ارے ندوی میاں! اب پہلے تو آپ اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ ان دو میں سے کون سی بات صحیح ہے؟ کہ" یہ امام غزالی ابتدائے شباب کی تصنیف تھی جب خون گرم تھا ۔"؟ یا "امام غزالی کی اس کتاب میں اس عبارت کو ملحقہ اورزبردستی کا داخل کیاہوابتایاہے۔ " یعنی الحاق ہے؟
اس کا جواب ضرور دیجئے گا!!
"معرفت" اور"نابلد"میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ معرفت کسی چیز کو گہرائی وگیرائی سے جاننے اورپہچاننے کے معنی میں آتاہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ یہود رسول اکرم کو ایسے ہی جانتے تھے جیسے کہ اپنے بیٹوںکو جانتے تھے۔ یعرفونہ کمایعرفون ابنائ ھم
اورنابلد کسی چیز سے بالکلیہ ناواقفیت کیلئے استعمال کیاجاتاہے۔شتان فرق مابینھما
ماشاءاللہ! ہمارے ندوی صاحب کی سمجھ میں آگئی کہ اصل مدعا کیا ہے! ویسے یہ معرفت اور نابلد میں کتنا فرق ہے اس سے قطع نظر، معرفت کے معنی ندوی صاحب جانتے ہیں!
امام غزالی بھی یہی فرما رہے ہیں کہ آپ کے امام اعظم کو عربی کی معرفت نہیں تھی یعنی کہ وہ عربی زبان کی گہرائی و گیرائی نہیں جانتے تھے!! ایسا نہیں کہ عربی زبان میں کپڑوں کا کاروبار نہیں کر سکتے تھے۔نہیں جناب! جس طرح بہت سے پاکستانی اور انڈین، اور افغانی سعودیہ میں کپڑوں کی دکان میں کپڑوں کا سودا عربی زبان میں کر لیا کرتے ہیں، آپ کے امام اعظم اس سے کافی اچھی طرح کر لیا کرتے تھے!! مگر آپ کے امام اعظم کو عربی کی معرفت حاصل نہیں تھی! یعنی کہ عربی زبان کی گہرائی اور گیرائی نہیں جانتے تھے!!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔