• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح حدیث کے بالمقابل کسی امام کے قول پر اعتماد؟ (انتظامیہ)

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
میں نے ایک بات کہی تھی کہ اصول کرخی کے بعد بھی علماء احناف نے اصول فقہ پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں اگروہ اس کواحناف کا معروف قاعدہ اورمتفقہ قاعدہ سمجھتے ہیں تواس پر دوچار دیگر اصول فقہ کی کتابوں سے استشہاد کیوں نہیں پیش کرتے لیکن اس کاسیدھا جواب کسی نے نہیں دیا ہرایک نے ادھر ادھرکی بات کی ہے۔
کرخی کے علاوہ بزدوی اور نسفی رحمہم اللہ نے اس قاعدہ کا ذکر کیا ہے۔
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فإن أصل هذا الكلام منقول عن أبي الحسن عبيد الله بن الحسين الكرخي أحد أجلاء العلماء وأعلام المذهب الحنفي وصفه من ترجم له بأنه انتهت إليه رئاسة الحنفية بعد القاضي أبي حازم القاضي أبي سعيد البردعي وكان من طبقة عالية بين أصحاب أبي حنيفة معدودا من المجتهدين القادرين على حل المسائل حسب أصوله ومقتضى قواعده ففي كنز الوصول إلى معرفة الأصول للمؤلف علي بن محمد البزدوي الحنفي وهو يذكر الأصول التي عليها مدار كتب الأحناف من طريق أبي الحسن الكرخي والتي ذكر أمثلتها ونظائرها وشواهدها أبو حفص عمر بن احمد النسفي صاحب تفسير التيسير ما نصه : الأصل أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح و الأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق. انتهى.

وقد ذكر البزدوي أمثلة تبين المعنى المراد من هذا الكلام ونص كلامه كما في كتابه الأصول:

(قال من مسائله (يعني النسفي) أن من تحرى عند الاشتباه واستدبر الكعبة جاز عندنا لأن تأويل قوله تعالى (فولوا وجوهكم شطره) إذا علمتم به وإلى حيث وقع تحريكم عند الاشتباه، أو يحمل على النسخ كقوله تعالى (ولرسوله ولذي القربى) في الآية ثبوت سهم ذوي القربى في الغنيمة، ونحن نقول انتسخ ذلك بإجماع الصحابة رضي الله تعالى عنهم أو على الترجيح كقوله تعالى:( وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً) {البقرة: من الآية234} ظاهره يقتضي أن الحامل المتوفى عنها زوجها لا تنقضي عدتها بوضع الحمل قبل مضي أربعة أشهر وعشرة أيام لأن الآية عامة في كل متوفى عنها زوجها حاملا أو غيرها ، وقوله تعالى:( وَأُولاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ) {الطلاق: 4} يقتضي انقضاء العدة بوضع الحمل قبل مضي الأشهر لأنها عامة في المتوفى عنها زوجها وغيرها لكنا رجحنا هذه الآية بقول ابن عباس رضي الله عنهما أنها نزلت بعد نزول تلك الآية فنسختها ، وعلي رضي الله عنه جمع بين الأجلين احتياطا لاشتباه التاريخ . الأصل أن كل خبر يجيء بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل على النسخ أو دليل آخر أو ترجيح فيه بما يحتج به أصحابنا من وجوه الترجيح أو يحمل على التوفيق، وإنما يفعل ذلك على حسب قيام الدليل، فإن قامت دلالة النسخ يحمل عليه وإن قامت الدلالة على غيره صرنا إليه.

والله أعلم.
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
http://www.kitabosunnat.com/forum/حنفی-مکتب-فکر-155/امام-ابوالحسن-کرخی-کے-ایک-اصول-پر-اعتراض-کا-جواب-2883/#post16754

تعجب ہے کہ جوبات میں کافی پہلے بیان کرچکاہوں۔ اسی کو محترم ابوالحسن علوی صاحب نے دوہرایاہے۔ اگرآپ اس کی نظر میں امام نسفی کی وضاحت قابل اعتبار ہے تو جس طورپر انہوں نے وضاحت کی ہے کیااس میں کوئی قابل اعتراض بات ملتی ہے۔

امام کرخی کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفی ہیں جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ان کا انتقال 537ہجری میں ہوا۔انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں کی تشریح کی ہے وہ کیاکہتے ہیں۔اسے بھی دیکھیں۔ وہ پہلے اصول ان کل آیتہ کی تشریح اور مثال میں لکھتے ہیں۔

قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ ،والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ،اویحمل علی النسخ،کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ۔(المصدرالسابق)
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابناالخ کی شرح میں وہ لکھتے ہیں۔اس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل فولواوجوھکم شطرہ کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو،اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو،یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ولرسولہ ولذی القربی الخ آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے اجماع سے منسوخ ہے ۔ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہو اس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباسؓ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت پہلی آٰت والذین یتوفون منکم کے بعد نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر۔

قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض(المصدرالسابق)

اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت حضرت عیسی سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاک نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کو سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے ۔معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا۔
اورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو ۔امام ابوحنیفہؓ سے منقول ہے کہ وہ فماتے تھے جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے۔

امام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ


1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔
2:
یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔
3:ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔
میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔

امام کرخی کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے،یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔
اوراگرآپ امام نسفی کی وضاحت کو کو قابل اعتبار نہیں مانتے توپھر اس قول کاحوالہ دینے کاکوئی معنی نہیں رہ جاتاہے۔
ویسے میں نے اپنے مضمون میں بھی اسی بات کو دوہرایاتھا جس کو ندوی صاحب نے ذکر کیاہے۔

یہ واضح رہے کہ امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔امام بزدوی کی اصول البزدوی ہو،یاپھر جصاص رازی کی الفصول فی اصول الفقہ ہویاپھر امام سرخسی کی اصول السرخی ہو یاپھر امام سمرقندی کی میزان الااصول فی نتائج العقول فی اصول الفقہ ہو،ابن ہمام کی التحریر ہو ،ملامحب اللہ بہاری کی سلم ہویاپھراس کی شرح مسلم الثبوت ہوپھراصول شاشی ہویاپھرنورالانوار ۔کسی بھی فقہ حنفی کی کتاب میں امام کرخی کے اس اصول کا ذکر نہیں ملے گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فإن أصل هذا الكلام منقول عن أبي الحسن عبيد الله بن الحسين الكرخي أحد أجلاء العلماء وأعلام المذهب الحنفي وصفه من ترجم له بأنه انتهت إليه رئاسة الحنفية بعد القاضي أبي حازم القاضي أبي سعيد البردعي وكان من طبقة عالية بين أصحاب أبي حنيفة معدودا من المجتهدين القادرين على حل المسائل حسب أصوله ومقتضى قواعده ففي كنز الوصول إلى معرفة الأصول للمؤلف علي بن محمد البزدوي الحنفي وهو يذكر الأصول التي عليها مدار كتب الأحناف من طريق أبي الحسن الكرخي والتي ذكر أمثلتها ونظائرها وشواهدها أبو حفص عمر بن احمد النسفي صاحب تفسير التيسير ما نصه : الأصل أن كل آية تخالف قول أصحابنا فإنها تحمل على النسخ أو على الترجيح و الأولى أن تحمل على التأويل من جهة التوفيق. انتهى.
یہاں بھی ابوالحسن علوی صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ امام بزدوی اورکرخی کانام ساتھ دیکھ کر اوریہ دیکھ کرکہ امام بزدوی نے امام ابوالحسن الکرخی کے اصول اپنی کتاب مین ذکر کئے ہیں یہ سمجھ لیاکہ اس کتاب میں بھی شاید اصول کرخی کا تذکرہ موجود ہے۔
اگر وہ ان الفاظ پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے اوردوسروں کو تحقیق اورتقلید کے درمیان نقیضین اورتضاد کےفرمان سنانے کے بجائے اپنے ’’محقق ‘‘ہونے کی لاج رکھتے ہوئے اورکسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے اصل کتاب کی جانب رجوع کرتے تو وہاں دیکھتے یہ اصول اس کتاب میں سرے سے مذکور نہیں ہے۔ بلاشبہ اس کتاب میں انہوں نے امام ابوالحسن الکرخی کی اصول الکرخی سے استفادہ کیاہے لیکن یہ اصل جو متنازعہ(فہم اوراصول کی حیثیت)ہے وہاں اس کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔ میں نے اس کتاب کو دیکھااس میں یہ اصول مذکور نہیں ہے۔ اگرابوالحسن علوی صاحب یاکسی دوسرے اہل حدیث عالم کی نگاہ میں اس کتاب میں وہ اصل موجود ہے توبراہ کرم ہمیں بھی اس سے مطلع کیاجائے۔
جو عبارت ابوالحسن علوی صاحب نے پیش کی ہے اس کا مفاد صرف اتناہے کہ امام بزدوی نے اپنی کتاب امام کرخی کے طریق سے احناف کے اصول پیش کئے ہیں۔ اس سے نہ یہ لازم آتاہے کہ وہ ان کی تمام باتیں ذکر کریں اوردوسری بات یہ کہ کہ امام ابوالحسن الکرخی کی صرف اصول الکرخی ہی تنہاکتاب نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی دوسری کتابیں موجود ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حق تو یہ ہے کہ احناف نے مجتہد کے لئے جو شرائط ذکر کی ہیں وہ امام ابوحنیفہ میں سرے سے پائی ہی نہیں جاتیں لہذا امام صاحب کبھی بھی مجتہد نہیں تھے بلکہ ٹھیٹ مقلد تھے۔ شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں: یعنی امام ابوحنیفہ ابراہیم نخعی اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کو لازم پکڑتے تھے اور بہت ہی کم ان سے تجاوز کرتے۔(حجتہ اللہ البالغہ، ص١٤٦،جلد١ بحوالہ تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث، ص٢٢٤)
پس ثابت ہوا کہ موجودہ مقلدین خود ایک مقلد کے مقلد ہیں۔
شاہدنذیر صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی عبارت سے جو"من بھاتا‘‘مطلب کشید کیاہے اسی کی روشنی میں ہم شاہد صاحب کی ایک بات سے ایک کچھ اخذ کرتے ہیں۔

شاہدنذیر صاحب نے متعدد مرتبہ اعتراف کیاہے کہ ان کو عربی نہیں آتی ۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ نرے جاہل ہیں انہیں کچھ بھی آتاجاتانہیں ہے ۔ فورم پر جوکچھ ان کی تحریریں ہیں وہ کسی دوسرے کا صدقہ اورطفیل ہیں اوران کی کاوش صرف یہیں تک محدود ہے کہ وہ ان کو پوسٹ کردیں ۔
اگرشاہد صاحب کو ہمارے اس معنی کشید کرنے پر اعتراض ہو اور وہ کہیں کہ میری بات کا مطلب یہ نہیں بلکہ وہ ہے اورمیری بات کا وہی مطلب لیناچاہئے جو میں نے سمجھاہے توان سے گزارش ہوگی کہ وہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی عبارت کا بھی وہی مطلب سمجھیں جوانہوں نے لیاہے اوراسی کتاب میں اوردوسری کتاب میں مذکور ہے۔
اگر وہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ نہیں عبارت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی اورمطلب میرااپناہوگا۔
تو ہمیں بھی حق ہے کہ بات شاہد نذیر صاحب اورمطلب ہمارااپناہو۔
امید ہے کہ شاہد نذیر صاحب اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کریں گے اورطیش میں نہیں آئیں گے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
سب سے قبل تو میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس پوسٹ میں الفاظ کا انتخاب بعض لوگوں کی فہم کی مناسبت سے کیا ہے، کیوں کہ کئی بار انہیں بتلایا گیا ہے کہ ان کے مقلد امام ہمارے نزدیک معتبر نہیں ہے، پھر بھی وہ انہیں معتبر علماء و امام کہہ کر ہمیں ان کی بات منوانا چاہتے ہیں۔ اس تحریر کے بعد انہیں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے مقلد علماء اور امام ہمارے ہاں قطعی قابل اعتبار نہیں!اور تا کہ یہ خواہ مخواہ آئندہ "تعجب " میں مبتلا نہ ہوں!
تعجب ہے کہ جوبات میں کافی پہلے بیان کرچکاہوں۔ اسی کو محترم ابوالحسن علوی صاحب نے دوہرایاہے۔ اگرآپ اس کی نظر میں امام نسفی کی وضاحت قابل اعتبار ہے تو جس طورپر انہوں نے وضاحت کی ہے کیااس میں کوئی قابل اعتراض بات ملتی ہے۔
فقہ حنفی عجبی، اصول حنفی عجبی
اصول کرخی عجبی، اصول نسفی عجبی

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم کئی بار بتلا چکے ہیں کہ امام نسفی کی وضاحت تو کجا وہ بذات خود قابل اعتبار نہیں۔ مگر پھر بھی یہ سوال کرنا کہ " اگرآپ اس کی نظر میں امام نسفی کی وضاحت قابل اعتبار ہے تو جس طورپر انہوں نے وضاحت کی ہے کیااس میں کوئی قابل اعتراض بات ملتی ہے۔"
اور وہ قابل اعتراض بات آپ کو درس فقہ حنفی میں پڑھا بھی دی ہے۔ مگر جمشید میاں اور باقی تمام حنفی مقلدین بہت کند ذہن واقع ہوئے ہیں۔ ایک پر پھر آپ کو وہ نکتہ بیان کر دیتے ہیں!
تنبیہ: نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی نے اس اصول کے حاشیہ میں فقہ الاسلامی کے حوالے سے ناسخ و منسوخ کی امثال ذکر کیں ہیں، جس میں وحی سے وحی کا نسخ بتلایا گیا ہے۔ یہ امثال فقہ االسلامی والوں کو بتلانے کے لئے لکھیں گئیں ہیں کہ فقہ السلامی میں بھی ناسخ و منسوخ ہے۔ تا کہ اس طرح فقہ الاسلامی کے پیروکار کو اس مسئلہ میں ٹال دیا جائے، کہ ناسخ و منسوخ تو کوئی اختلافی مسئلہ نہیں، اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ فقہ حنفیہ بھی فقہ السلامی کی طرح ناسخ و منسوخ کے قائل ہیں۔ فقہ حنفیہ کے طالب علمو!آپ امام نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی رحمۃاللہ علیہ آپ لوگوں کے لئے آئیڈیل بنائیں، دیکھیں کس طرح وہ اس بات کو گول کر گئے کہ فقہ الاسلامی میں قرآن و حدیث کا نسخ قرآن و حدیث کی بنیاد پر ہوتا ہے، جبکہ فقہ حنفیہ کے اس اصول میں قرآن میں نسخ کی بنیاد فقہا حنفیہ کے اقوال ہیں۔
اب ذرا ہمارے جمشید میاں نے علم الکلام میں جو جھک ماری ہے اس کا جائزہ لے لیتے ہیں:
ویسے میں نے اپنے مضمون میں بھی اسی بات کو دوہرایاتھا جس کو ندوی صاحب نے
ذکر کیاہے۔
یہ واضح رہے کہ امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔امام بزدوی کی اصول البزدوی ہو،یاپھر جصاص رازی کی الفصول فی اصول الفقہ ہویاپھر امام سرخسی کی اصول السرخی ہو یاپھر امام سمرقندی کی میزان الااصول فی نتائج العقول فی اصول الفقہ ہو،ابن ہمام کی التحریر ہو ،ملامحب اللہ بہاری کی سلم ہویاپھراس کی شرح مسلم الثبوت ہوپھراصول شاشی ہویاپھرنورالانوار ۔کسی بھی فقہ حنفی کی کتاب میں امام کرخی کے اس اصول کا ذکر نہیں ملے گا۔
اب ان جہلا سے کوئی پوچھے کہ ان کے بقول" امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔"
تو یہ امام نسفی نے اس کی شرح کے نام پر جو دجل کیا ہے، یہ جھک انہوں نے کیوں ماری؟ اور پھر ہمارے طحاوی دوراں نے اس اصول کے دفاع میں اوراس کو حق ثابت کرنے کے لیئے ایک پورا تھریڈ لکھ کر جھک کیوں ماری؟اور اگر فقہ حنفیہ میں یہ قول معتبر نہیں تو اس کی نکیر کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ حنفیوں کے امام نسفی سے لے کر آج کے طحاوی دوراں میں علم الکلام میں جھک مارتے ہوئےاس کفریہ شرکیہ اصول کو حق اور صحیح ثابت کرنے کی لاحاصل سعی کی ہے!! جو تحریر جمشید میاں نےلکھ کر اصول کرخی کو صحیح ثابت کرنا چاہا ہے، اب اگر ان کے بقول یہ صحیح ہے تو " امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔" تو اس صحیح اصول کو قبول کیوں نہیں کیا!
خیر حقیقت یہ ہی ہے کہ یہ فقہ حنفی کا جھوٹ کا پلندہ کھڑا نہیں ہو سکتا، گو کہ تمام حنفی مقلدیں سر جوڑ کر علم الکلام کی سرتوڑ جھک بھی مارلیں!!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
شاہدنذیر صاحب نے متعدد مرتبہ اعتراف کیاہے کہ ان کو عربی نہیں آتی ۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ نرے جاہل ہیں انہیں کچھ بھی آتاجاتانہیں ہے ۔ فورم پر جوکچھ ان کی تحریریں ہیں وہ کسی دوسرے کا صدقہ اورطفیل ہیں اوران کی کاوش صرف یہیں تک محدود ہے کہ وہ ان کو پوسٹ کردیں ۔
شاہ ولی اللہ حنفی کی عبارت اس قدر صاف اور واضح ہے کہ اپنی وضاحت آپ کرتی ہے یہ کسی مقلد کی خارجی تشریح کی محتاج نہیں۔ اس کے برخلاف آپ نے ہماری وضاحت سے جو کمزور،لاغر اور لولا لنگڑا معنی کشید کیا ہے ہمارے بیان میں اس کا کوئی واضح قرینہ موجود نہیں ہے۔ بھلا عربی زبان سے ناواقفیت کیا نری جہالت کو ملتزم ہے؟ اگر ہماری خوش قسمتی اور مقلدین کے بدقسمتی کی وجہ سے ایسا ہی ہے تو ہم نے امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم کی پوسٹ نمبر ٤٢ پر ثابت کیا تھا کہ حسن اتفاق سے میری طرح امام صاحب بھی عربی زبان سے نابلد تھے۔ اب اگر عربی زبان نہ جاننے کے جرم کی وجہ سے میں نرا جاہل ہوا تو آپ خود ہی بتادیں کہ اسی جرم کے ارتکاب کی وجہ سے ابوحنیفہ آپکو علم کے پہاڑ کی کون سی چوٹی پر براجمان نظر آرہے ہیں؟! پھر اس کا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ فقہ حنفی کے نام پر جو کچھ موجود ہے وہ علمی نوادرات ابوحنیفہ کے بجائے کسی اور کے دماغی خلل کا شاخسانہ ہیں۔ گستاخی معاف میرے بھائی لیکن اس میں میرا بھلا کیا قصور آپ ہی کو چاہیے کہ دوسروں پر طنز کے تیر چلانے سے پہلے اپنے امام کے علم کے حدود اربعہ پر نظر رکھیں تاکہ جوابی حملے کی وجہ سے آپکو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچے۔ دیکھیں جی ہم نے بالکل بھی برا مانے بغیر آپ کے اخیتار کردہ پسندیدہ معنی قبول کرلئے ہیں اب آپ بھی جوابا ہمارے اختیار کردہ معنی قبول فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔ ویسے اگر آپ نے ہمارے اخیتار کردہ معنی مسترد بھی کردئے تو اس سے شاہ ولی اللہ حنفی کے بیان اور اس کے واضح معنوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حسن اتفاق سے میری طرح امام صاحب بھی عربی زبان سے نابلد تھے۔
کیادنیا میں کوئی بھی صحیح الدماغ شخص اس کی تائید کرے گا۔
شاہد نذیر صاحب خفانہ ہوں اسی مراسلے میں آپ کوجواب دے دیاگیاتھالیکن شاید آنجناب نے عربی سے نابلد ہونے کی بناء پر جواب پڑھنے سے قاصر رہے۔ اس میں توہماراکوئی قصور نہیں ہے۔ فورم پر بہت سارے لوگ عربی جاننے والے ہیں ان سے رجوع کریں اورترجمہ کراکر پڑھ لیں۔
مذکورہ بالاتحریر میں آنجناب سے یہی عرض کیاگیاہے کہ جس کی تحریر لیں اسی کا مفہوم بھی لیں۔ تحریرکسی اورکی اورمفہوم من مانااخذ کیاجائے ۔ اگریہ حق آپ کو پہنچتاہے تودوسرے کوبھی ایساہی حق پہنچتاہے لہذا جولکھیں سنجیدگی سے لکھیں اوراس کے مالہ وماعلیہ پر غورکرکے لکھیں ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مذکورہ بالاتحریر میں آنجناب سے یہی عرض کیاگیاہے کہ جس کی تحریر لیں اسی کا مفہوم بھی لیں۔
بسم اللہ جی! آپ لگے ہاتھوں اس کا آغاز فرمائیں اور موضوع کے عین مطابق اصول کرخی کا وہی مفہوم بیان کریں جو آپکے نام نہاد امام کرخی نے مراد لیا ہے۔ عبارت کرخی صاحب کی اور تشریح غیروں کی یہ بات آپ ہی کی نصیحت کے خلاف ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
حسن اتفاق سے میری طرح امام صاحب بھی عربی زبان سے نابلد تھے۔
کیادنیا میں کوئی بھی صحیح الدماغ شخص اس کی تائید کرے گا۔
جمشید میاں اتنے جذباتی نہ ہوا کریں، کہ آپ جذبات میں باتیں تو لکھ جاتے ہو اور اس کی مد میں بہت سی ہستیاں آجاتی ہیں! اب دیکھیں امام الغزالی نے یہ بات لکھی ہےکہ آپ کے امام اعظم عربی نہیں جانتے تھے!
وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها
صفحہ 581
المنخول من تعليقات الأصول
المؤلف: أبو حامد محمد بن محمد الغزالي
خیر امام غزالی تو آپ کے امام اعظم کو سرے سے مجتہد ہی نہیں مانتے، اور نہ صرف یہ کہ وہ آپ کے امام کو مجتہد نہیں مانتے بلکہ اصول فقہ کی کتاب میں دوسروں کو بھی بتلا رہے ہیں کہ آپ کے امام اعظم مجتہد نہیں تھے۔ اور اس کی دو وجوہات بھی درج کی ہیں ، جس میں سے ایک آپ کے امام کو عربی نہ آنا اور دوسری حدیث کا علم نہ ہونا ہے!!


لہذا آپ اپنی نصحیت پر خود عمل کریں!
لہذا جولکھیں سنجیدگی سے لکھیں اوراس کے مالہ وماعلیہ پر غورکرکے لکھیں ۔
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
وہ لوگ جو تقلید کے خلاف شمشیر بکف ہیں۔ اورتحقیق کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنے کسی عالم کی لکھی گئی بات کی اس طرح تقلید کریں گے ۔دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کسی نے بغیرتحقیق کے یہ حوالہ دے دیاہوگا۔ اب سب مل کر اسی لکیر کو پیٹتے چلے جارہے ہیں۔ میں یہاں لکیر کے فقیر والی کہانت نہیں دوہراناچاہتا لیکن بات وہی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی بیش قیمت تالیف "الغزالی" میں تفصیل کے ساتھ امام غزالی کے کلام پر بحث کیاہے اورکہاہے کہ یہ کتاب ان کے ابتدائے شباب کی تصنیف تھی جب خون گرم تھا ۔ بعد میں جب وہ صوفیت کی اغوش میں آئے ۔ اوران کو ائمہ کرام کے مراتب اورمقام کا علم ہوا تواحیاء العلوم میں امام ابوحنیفہ کی بہت تعریف کی ہے اورایک پوری فصل ان کے بارے میں لکھاہے۔ وہاں دیکھاجاسکتاہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام غزالی نے کہی ہے۔
امام غزالی کی اسی عبارت سے برافروختہ حنفی فقہاء نے جب سلطان سنجر کے دربار میں اس تحریر کی شکایت کی اورامام غزالی کو طلب کرکے اس بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے وہاں بڑی وضاحت سے کہاکہ میں ان کو عظیم الشان فقیہہ مانتاہوں اوران کے متعلق میراخیال وہی ہے جو میں نے احیاء العلوم میں بیان کیاہے۔
پھر خود محقق شافعی علماء میں سے بعض نے مثلاعلامہ سبکی نے طبقات الشافعیہ میں اور ابن حجر مکی نے الخیرات الحسان میں امام غزالی کی اس کتاب میں اس عبارت کو ملحقہ اورزبردستی کا داخل کیاہوابتایاہے۔ ان سب امور کوچھوڑ کر لکیرپیٹتے چلے جانا تحقیق کے خلاف ہے۔
یاتوتحقیق کا دعویٰ غلط ہے یاپھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاپھربادہ ابھی خام ہے۔
 
Top