السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
سب سے قبل تو میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس پوسٹ میں الفاظ کا انتخاب بعض لوگوں کی فہم کی مناسبت سے کیا ہے، کیوں کہ کئی بار انہیں بتلایا گیا ہے کہ ان کے مقلد امام ہمارے نزدیک معتبر نہیں ہے، پھر بھی وہ انہیں معتبر علماء و امام کہہ کر ہمیں ان کی بات منوانا چاہتے ہیں۔ اس تحریر کے بعد انہیں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے مقلد علماء اور امام ہمارے ہاں قطعی قابل اعتبار نہیں!اور تا کہ یہ خواہ مخواہ آئندہ
"تعجب " میں مبتلا نہ ہوں!
تعجب ہے کہ جوبات میں کافی پہلے بیان کرچکاہوں۔ اسی کو محترم ابوالحسن علوی صاحب نے دوہرایاہے۔ اگرآپ اس کی نظر میں امام نسفی کی وضاحت قابل اعتبار ہے تو جس طورپر انہوں نے وضاحت کی ہے کیااس میں کوئی قابل اعتراض بات ملتی ہے۔
فقہ حنفی عجبی، اصول حنفی عجبی
اصول کرخی عجبی، اصول نسفی عجبی
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہم کئی بار بتلا چکے ہیں کہ امام نسفی کی وضاحت تو کجا وہ بذات خود قابل اعتبار نہیں۔ مگر پھر بھی یہ سوال کرنا کہ
" اگرآپ اس کی نظر میں امام نسفی کی وضاحت قابل اعتبار ہے تو جس طورپر انہوں نے وضاحت کی ہے کیااس میں کوئی قابل اعتراض بات ملتی ہے۔"
اور وہ قابل اعتراض بات آپ کو درس فقہ حنفی میں پڑھا بھی دی ہے۔ مگر جمشید میاں اور باقی تمام حنفی مقلدین بہت کند ذہن واقع ہوئے ہیں۔ ایک پر پھر آپ کو وہ نکتہ بیان کر دیتے ہیں!
تنبیہ: نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی نے اس اصول کے حاشیہ میں فقہ الاسلامی کے حوالے سے ناسخ و منسوخ کی امثال ذکر کیں ہیں، جس میں وحی سے وحی کا نسخ بتلایا گیا ہے۔ یہ امثال فقہ االسلامی والوں کو بتلانے کے لئے لکھیں گئیں ہیں کہ فقہ السلامی میں بھی ناسخ و منسوخ ہے۔ تا کہ اس طرح فقہ الاسلامی کے پیروکار کو اس مسئلہ میں ٹال دیا جائے، کہ ناسخ و منسوخ تو کوئی اختلافی مسئلہ نہیں، اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ فقہ حنفیہ بھی فقہ السلامی کی طرح ناسخ و منسوخ کے قائل ہیں۔ فقہ حنفیہ کے طالب علمو!آپ امام نجم الدین ابی حفص عمر بن احمد النسفی رحمۃاللہ علیہ آپ لوگوں کے لئے آئیڈیل بنائیں، دیکھیں کس طرح وہ اس بات کو گول کر گئے کہ فقہ الاسلامی میں قرآن و حدیث کا نسخ قرآن و حدیث کی بنیاد پر ہوتا ہے، جبکہ فقہ حنفیہ کے اس اصول میں قرآن میں نسخ کی بنیاد فقہا حنفیہ کے اقوال ہیں۔
اب ذرا ہمارے جمشید میاں نے علم الکلام میں جو جھک ماری ہے اس کا جائزہ لے لیتے ہیں:
ویسے میں نے اپنے مضمون میں بھی اسی بات کو دوہرایاتھا جس کو ندوی صاحب نے
ذکر کیاہے۔
یہ واضح رہے کہ امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔امام بزدوی کی اصول البزدوی ہو،یاپھر جصاص رازی کی الفصول فی اصول الفقہ ہویاپھر امام سرخسی کی اصول السرخی ہو یاپھر امام سمرقندی کی میزان الااصول فی نتائج العقول فی اصول الفقہ ہو،ابن ہمام کی التحریر ہو ،ملامحب اللہ بہاری کی سلم ہویاپھراس کی شرح مسلم الثبوت ہوپھراصول شاشی ہویاپھرنورالانوار ۔کسی بھی فقہ حنفی کی کتاب میں امام کرخی کے اس اصول کا ذکر نہیں ملے گا۔
اب ان جہلا سے کوئی پوچھے کہ ان کے بقول
" امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔"
تو یہ امام نسفی نے اس کی شرح کے نام پر جو دجل کیا ہے، یہ جھک انہوں نے کیوں ماری؟ اور پھر ہمارے طحاوی دوراں نے اس اصول کے دفاع میں اوراس کو حق ثابت کرنے کے لیئے ایک پورا تھریڈ لکھ کر جھک کیوں ماری؟اور اگر فقہ حنفیہ میں یہ قول معتبر نہیں تو اس کی نکیر کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ حنفیوں کے امام نسفی سے لے کر آج کے طحاوی دوراں میں علم الکلام میں جھک مارتے ہوئےاس کفریہ شرکیہ اصول کو حق اور صحیح ثابت کرنے کی لاحاصل سعی کی ہے!! جو تحریر جمشید میاں نےلکھ کر اصول کرخی کو صحیح ثابت کرنا چاہا ہے، اب اگر ان کے بقول یہ صحیح ہے تو
" امام کرخی کے اس قول کی دیگر ائمہ احناف نے کبھی تائید نہیں کی ہے بلکہ سرے سے اس کو ذکر ہی نہیں کیاہے۔" تو اس صحیح اصول کو قبول کیوں نہیں کیا!
خیر حقیقت یہ ہی ہے کہ یہ فقہ حنفی کا جھوٹ کا پلندہ کھڑا نہیں ہو سکتا، گو کہ تمام حنفی مقلدیں سر جوڑ کر علم الکلام کی سرتوڑ جھک بھی مارلیں!!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔