بَابٌ : اِسْتِخْلاَفُ الإِمَامِ إِذَا مَرِضَ وَ صَلاَتُهُ بالنَّاسِ
نماز کے لیے امام کا اپنا جانشین مقرر کرنا اور اس کا لوگوں کو نماز پڑھانا
(320) عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْتُ لَهَا أَلاَ تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَتْ بَلَى ثَقُلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ أَ صَلَّى النَّاسُ ؟ قُلْنَا لاَ وَ هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَ صَلَّى النَّاسُ ؟ قُلْنَا لاَ وَ هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَصَلَّى النَّاسُ ؟ قُلْنَا لاَ وَ هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ فَفَعَلْنَا فَاغْتَسَلَ ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوئَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ أَ صَلَّى النَّاسُ ؟ قُلْنَا لاَ وَ هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَتْ وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي قُلْنَا الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِصَلاَةِ الْعِشَائِ الآخِرَةِ قَالَتْ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ رَجُلاً رَقِيقًا يَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَ عُمَرُ أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ قَالَتْ فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تِلْكَ الأَيَّامَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِصَلاَةِ الظُّهْرِ وَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنْ لاَ يَتَأَخَّرَ وَ قَالَ لَهُمَا أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي وَ هُوَ قَائِمٌ بِصَلاَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالنَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَاعِدٌ قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقُلْتُ لَهُ أَلاَ أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ مَرَضِ قَالَ هَاتِ فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ لاَ قَالَ هُوَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
عبیداللہ بن عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے واقعات بتائیے۔ انہوں نے فرمایا:'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو پوچھا :'' کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟'' ہم نے کہا کہ نہیں، بلکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ ارشاد فرمایا:'' ہمارے لیے برتن میں پانی رکھو۔'' ہم نے پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔ اس کے بعد چلنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غش آ گیا اور جب افاقہ ہوا تو پھر پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے؟ ہم نے کہا کہ نہیں یارسول اللہ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہمارے لیے طشت (تھال) میں پانی رکھو۔'' چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر آپ چلنے کے لیے تیار ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ غش آگیا۔ اور پھر ہوش میں آنے کے بعد پوچھا کہ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟ ''میں نے عرض کی کہ نہیں یارسول اللہ! وہ سب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور ادھر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سب نماز عشاء کے لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے مسجد میں منتظر تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہلا بھیجا کہ آپ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ اس آدمی نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت نرم دل تھے (وہ جلد رونے لگتے تھے) اس لیے انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عمر! تم نماز پڑھا دو۔ جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں، آپ ہی امامت کے زیادہ مستحق ہیں اور آپ ہی کو نماز پڑھانے کے لیے حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کئی دن تک نماز پڑھائی۔ اسی دوران ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ذرا ہلکی ہوئی (افاقہ محسوس ہوا)تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نماز ظہر کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے۔ ان دو آدمیوں میں سے ایک سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تھے (جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے) غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اس وقت پہنچے جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بحیثیت امام نماز پڑھا رہے تھے۔ انہوں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا:'' پیچھے نہ ہٹو اور اپنے ساتھ والوں سے کہا کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر میں بٹھا دو۔ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر بٹھا دیا۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھنے لگے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ویسے ہی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پیروی کرنے لگے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقتدی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ علیھم اجمعین حسب سابق اس فرض نماز ظہر میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیروی کر رہے تھے ۔ عبیداللہ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس جاکر کہا کہ میں آپ کو وہ حدیث سناتا ہوں جو ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے مجھے سنائی ہے اور ان کی طلب پہ میں نے پوری حدیث ان سے کہہ سنائی جسے سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ پوری حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر پوچھا کہ دوسرے شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کیا ان کا نام ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے نہیں بتایا؟ میں نے جواب دیا کہ جی نہیں تو انہوں نے کہا کہ دوسرے آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔