بَابٌ : فِيْ فَتْحِ مَكَّةَ، وَ دُخُوْلِهَا بِالْقِتَالِ عَنْوَةً وَ مَنِّهِ عَلَيْهِمْ
فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ والوں پراحسان
(1182) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنٍ رِبَاحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ ذَلِكَ فِي رَمَضَانَ فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ فَقُلْتُ أَلاَ أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الْعَشِيِّ فَقُلْتُ الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ فَقَالَ سَبَقْتَنِي ؟ قُلْتُ نَعَمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلاَ أُعَلِّمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ؟ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ فَقَالَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ وَ بَعَثَ خَالِدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الأُخْرَى وَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْحُسَّرِ فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي كَتِيبَةٍ قَالَ فَنَظَرَ فَرَآنِي فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ لاَ يَأْتِينِي إِلاَّ أَنْصَارِيٌّ زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ فَقَالَ اهْتِفْ لِي بِالأَنْصَارِ قَالَ فَأَطَافُوا بِهِ وَ وَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَ أَتْبَاعًا فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلاَئِ فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْئٌ كُنَّا مَعَهُمْ وَ إِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَ أَتْبَاعِهِمْ ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى ثُمَّ قَالَ حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَائَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلاَّ قَتَلَهُ وَ مَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا قَالَ فَجَائَ أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أُبِيحَتْ خَضْرَائُ قُرَيْشٍ لاَ قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ ثُمَّ قَالَ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ آمِنٌ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ جَائَ الْوَحْيُ وَ كَانَ إِذَا جَائَ الْوَحْيُ لاَ يَخْفَى عَلَيْنَا فَإِذَا جَائَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ قَالُوا قَدْ كَانَ ذَاكَ قَالَ كَلاَّ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَ رَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ وَ يَقُولُونَ وَ اللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلاَّ الضَّنَّ بِاللَّهِ وَ بِرَسُولِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَ يَعْذِرَانِكُمْ قَالَ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ قَالَ وَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ قَالَ فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ قَالَ وَ فِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَوْسٌ وَ هُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ وَ يَقُولُ { جَائَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ } (الاسراء:81) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلاَ عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَ يَدْعُو بِمَا شَائَ أَنْ يَدْعُوَ
سیدنا عبداللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہ میں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر دعوت دوں ،تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تونے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)؟ میں نے کہا کہ ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار بنایا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے سے گروہ میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا :’’ کیا ابوہریرہ؟‘‘ میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میرے پاس انصاری اور شیبان کے علاوہ کوئی نہ آئے ‘‘ دوسرے راوی نے یہ روایت کیا :’’ انصار کو میرے لیے آواز دو۔‘‘ ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دل رکھنا مناسب جانا) پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کیے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دے دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا:’’ تم مجھ سے صفا پر ملو۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آیا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے۔‘‘ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کوفرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی محبت آگئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہ میں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھایہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے انصار کے لوگو!۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت غالب ہوگئی؟‘‘ انہوں نے کہا کہ بے شک یہ تو ہم نے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا ،نصاریٰ نے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لیے ) ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو بوسہ دیا ، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے ،جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے : ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔‘‘ (الاسراء:۸۱) جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔