• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قِصَّةُ الحُدَيْبِيَةِ وَ صُلْحِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَ قُرَيْشٍ
حدیبیہ کا واقعہ اور قریش سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح کا بیان​

(1178) عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال لَمَّا أُحْصِرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عِنْدَ الْبَيْتِ صَالَحَهُ أَهْلُ مَكَّةَ عَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا فَيُقِيمَ بِهَا ثَلاَثًا وَ لاَ يَدْخُلَهَا إِلاَّ بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ السَّيْفِ وَ قِرَابِهِ وَ لاَ يَخْرُجَ بِأَحَدٍ مَعَهُ مِنْ أَهْلِهَا وَ لاَ يَمْنَعَ أَحَدًا يَمْكُثُ بِهَا مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اكْتُبِ الشَّرْطَ بَيْنَنَا بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ لَهُ الْمُشْرِكُونَ لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ تَابَعْنَاكَ وَ لَكِنِ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَمَرَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَمْحَاهَا فَقَالَ عَلِيٌّ لاَ وَاللَّهِ لاَ أَمْحَاهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَرِنِي مَكَانَهَا فَأَرَاهُ مَكَانَهَا فَمَحَاهَا وَ كَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَأَقَامَ بِهَا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا أَنْ كَانَ اليَوْمُ الثَّالِثُ قَالُوا لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَذَا آخِرُ يَوْمٍ مِنْ شَرْطِ صَاحِبِكَ فَأْمُرْهُ فَلْيَخْرُجْ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ نَعَمْ فَخَرَجَ
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب (وہاں جانے سے) روکے گئے اور مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پرصلح کی کہ (آئندہ سال) آئیں اور تین دن تک مکہ میں رہیں اور ہتھیاروں کو غلاف میں رکھ کر لائیں اور کسی مکے والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ والوں میں سے جو (مشرکوں کاساتھ قبول کر کے) رہ جائے تو اس کو منع نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اچھا ! اس شرط کو لکھو کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا۔‘‘ تو مشرک بولے کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی کر لیتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لیتے بلکہ یہ لکھیے کہ محمد بن عبداللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فیصلہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مٹانے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اچھا مجھے اس لفظ کی جگہ بتاؤ۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بتا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ(وا) دیا۔ (جب دوسرا سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے)۔ پھر تین روز تک مکہ معظمہ میں رہے۔ جب تیسرا دن ہوا، تو مشرکوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے، اب ان سے جانے کو کہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ٹھیک ہے۔‘‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکل آئے۔

(1179) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ }إِلَى قَوْلِهِ {فَوْزًا عَظِيمًا} (الفتح: 1-5) مَرْجِعَهُ مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ وَ هُمْ يُخَالِطُهُمُ الْحُزْنُ وَالْكَآبَةُ وَ قَدْ نَحَرَ الْهَدْيَ بِالْحُدَيْبِيَةِ فَقَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ:’’ یقینا ہم نے آپ کو واضح فتح سے ہمکنار کیا تاکہ اﷲ تعالیٰ آپ کو معاف فرمادے… بہت بڑی کامیابی۔‘‘(الفتح:۱۔۵) آخرتک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹ کر آ رہے تھے اور صحابہ کو بہت غم اور رنج تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں قربانی کے جانوروں کو ذبح و نحر کر دیا تھا (کیونکہ کافروں نے مکہ میں آنے نہ دیا)، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کہ میرے اوپر ایک آیت اتری ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ پسند ہے۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : غَزْوَةُ خَيْبَرَ
غزوۂ خیبر کا بیان​

(1180) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى خَيْبَرَ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَ لاَ وَرِقًا غَنِمْنَا الْمَتَاعَ وَالطَّعَامَ وَ الثِّيَابَ ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَى الْوَادِي وَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَبْدٌ لَهُ وَهَبَهُ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُذَامٍ يُدْعَى رِفَاعَةَ بْنَ زَيْدٍ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ فَلَمَّا نَزَلْنَا الْوَادِي قَامَ عَبْدُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَحُلُّ رَحْلَهُ فَرُمِيَ بِسَهْمٍ فَكَانَ فِيهِ حَتْفُهُ فَقُلْنَا هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَلاَّ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ لَتَلْتَهِبُ عَلَيْهِ نَارًا أَخَذَهَا مِنَ الْغَنَائِمِ يَوْمَ خَيْبَرَ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ قَالَ فَفَزِعَ النَّاسُ فَجَائَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ أَوْ شِرَاكَيْنِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَصَبْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہ میں فتح دی تو ہم نے سونا اور چاندی نہیں لوٹا (یعنی چاندی اور سونا ہاتھ نہیں آیا) بلکہ ہم نے اسباب، اناج اور کپڑے کا مال غنیمت حاصل کیا۔ پھر ہم وادی کی طرف چلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام تھا (جس کانام مدغم تھا) جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جذام میں سے ایک شخص جس کا نام رفاعہ بن زید تھا، نے ہبہ کیا تھا اور وہ بنی ضبیب میں سے تھا، جب ہم وادی میں اترے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ کھول رہا تھا کہ اتنے میں ایک (غیبی) تیر اس کو لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ۔ہم لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مبارک ہو وہ شہید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہرگز نہیں! قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ وہ چادر اس پر آگ کی طرح سلگ رہی ہے جو اس نے مال غنیمت میں سے خیبر کے دن لے لی تھی اور اس وقت تک غنیمت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ یہ سن کر لوگ ڈر گئے اور ایک شخص ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے خیبر کے دن ان کو پایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ تسمہ یا تسمے آگ کے ہیں۔‘‘ (یعنی اگر تو ان کو واپس نہ کرتا تو یہ تسمہ انگارہ ہو کر قیامت کے دن تجھ پر لپٹتا یا تجھے ان تسموں کی وجہ سے عذاب ہوتا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : رَدُّ الْمُهَاجِرِيْنَ عَلَى الأَنْصَارِ الْمَنَائحَ بَعْدَ الْفَتْحِ عَلَيْهِمْ
فتح کے بعد مہاجرین کا انصار کو عطیہ میں دی ہوئی چیزیں واپس کرنا​

(1181) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ مِنْ مَكَّةَ الْمَدِينَةَ قَدِمُوا وَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ وَ كَانَ الأَنْصَارُ أَهْلَ الأَرْضِ وَالْعَقَارِ فَقَاسَمَهُمُ الأَنْصَارُ عَلَى أَنْ أَعْطَوْهُمْ أَنْصَافَ ثِمَارِ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ وَ يَكْفُونَهُمُ الْعَمَلَ وَ الْمَئُونَةَ وَ كَانَتْ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ هِيَ تُدْعَى أُمَّ سُلَيْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَ كَانَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَ أَخًا لِأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِأُمِّهِ وَ كَانَتْ أَعْطَتْ أُمُّ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عِذَاقًا لَهَا فَأَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُمَّ أَيْمَنَ مَوْلاَتَهُ أُمَّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا فَرَغَ مِنْ قِتَالِ أَهْلِ خَيْبَرَ وَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ رَدَّ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى الأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِي كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ قَالَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى أُمِّي عِذَاقَهَا وَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُمَّ أَيْمَنَ مَكَانَهُنَّ مِنْ حَائِطِهِ ۔ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَ كَانَ مِنْ شَأْنِ أُمِّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أُمِّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا كَانَتْ وَصِيفَةً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ كَانَتْ مِنَ الْحَبَشَةِ فَلَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ أَبُوهُ فَكَانَتْ أُمُّ أَيْمَنَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَحْضُنُهُ حَتَّى كَبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَعْتَقَهَا ثُمَّ أَنْكَحَهَا زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ تُوُفِّيَتْ بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِخَمْسَةِ أَشْهُرٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مہاجرین مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کو خالی ہاتھ آئے تھے اور انصار کے پاس زمین تھی اور درخت تھے (یعنی کھیت بھی تھے اور باغ بھی) تو انصارنے مہاجرین کو اپنا مال اس طور سے بانٹ دیا کہ آدھا میوہ ہر سال ان کو دیتے اور وہ کام اور محنت کرتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ جن کا نام ام سلیم تھا اور وہ عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کی ماں بھی تھیں جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کا ایک باغیچہ دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت اپنی آزاد کردہ لونڈی ام ایمن کو دے دیا جو کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کی والدہ تھیں (اس سے معلوم ہوا کہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے وہ درخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کے طور پر دیا تھا اور وہ صرف میوہ کھانے کو دیتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام ایمن کو کس طرح دیتے)۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوئے کر مدینہ لوٹے، تو مہاجرین نے انصار کو ان کی دی ہوئی چیزیں بھی لوٹا دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میری ماں کو ان کا باغیچہ لوٹا دیا اور ام ایمن رضی اللہ عنھا کو اس کی جگہ اپنے باغ سے دیدیا۔ ابن شہاب نے کہا کہ ام ایمن جو اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کی والدہ تھیں وہ عبداللہ بن عبدالمطلب کی (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد تھے) لونڈی تھیں اور وہ حبشہ کی تھیں۔ جب آمنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی وفات کے بعد جنا، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے ہو کر ان کو آزاد کر دیا پھر ان کا نکاح زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے پڑھا دیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ مہینے بعد فوت ہو گئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ فَتْحِ مَكَّةَ، وَ دُخُوْلِهَا بِالْقِتَالِ عَنْوَةً وَ مَنِّهِ عَلَيْهِمْ
فتح مکہ کے بیان میں اور مکہ میں داخلہ قتال کے ساتھ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ والوں پراحسان​

(1182) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنٍ رِبَاحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ ذَلِكَ فِي رَمَضَانَ فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ فَقُلْتُ أَلاَ أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الْعَشِيِّ فَقُلْتُ الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ فَقَالَ سَبَقْتَنِي ؟ قُلْتُ نَعَمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلاَ أُعَلِّمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ ؟ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ فَقَالَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ وَ بَعَثَ خَالِدًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الأُخْرَى وَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْحُسَّرِ فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي كَتِيبَةٍ قَالَ فَنَظَرَ فَرَآنِي فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَقَالَ لاَ يَأْتِينِي إِلاَّ أَنْصَارِيٌّ زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ فَقَالَ اهْتِفْ لِي بِالأَنْصَارِ قَالَ فَأَطَافُوا بِهِ وَ وَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَ أَتْبَاعًا فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلاَئِ فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْئٌ كُنَّا مَعَهُمْ وَ إِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَ أَتْبَاعِهِمْ ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى ثُمَّ قَالَ حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا قَالَ فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَائَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلاَّ قَتَلَهُ وَ مَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا قَالَ فَجَائَ أَبُو سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أُبِيحَتْ خَضْرَائُ قُرَيْشٍ لاَ قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ ثُمَّ قَالَ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ آمِنٌ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ جَائَ الْوَحْيُ وَ كَانَ إِذَا جَائَ الْوَحْيُ لاَ يَخْفَى عَلَيْنَا فَإِذَا جَائَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ قَالُوا قَدْ كَانَ ذَاكَ قَالَ كَلاَّ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَ رَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ وَ يَقُولُونَ وَ اللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلاَّ الضَّنَّ بِاللَّهِ وَ بِرَسُولِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَ يَعْذِرَانِكُمْ قَالَ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ أَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ قَالَ وَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ قَالَ فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ قَالَ وَ فِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَوْسٌ وَ هُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ وَ يَقُولُ { جَائَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ } (الاسراء:81) فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلاَ عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَ يَدْعُو بِمَا شَائَ أَنْ يَدْعُوَ
سیدنا عبداللہ بن رباح سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان کے مہینہ میں گئیں۔ عبداللہ بن رباح نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے یعنی ایک دوسرے کی دعوت کرتے تھے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہ میں اپنے مقام پر بلاتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر دعوت دوں ،تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تونے مجھ سے پہلے کہہ دیا (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا)؟ میں نے کہا کہ ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے انصار کے گروہ ! میں تمہارے بارے میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے اور ایک جانب پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسری جانب پر سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف) اور سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار بنایا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے سے گروہ میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا :’’ کیا ابوہریرہ؟‘‘ میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میرے پاس انصاری اور شیبان کے علاوہ کوئی نہ آئے ‘‘ دوسرے راوی نے یہ روایت کیا :’’ انصار کو میرے لیے آواز دو۔‘‘ ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دل رکھنا مناسب جانا) پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھے کیے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا ہم دے دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو دیکھتے ہو۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا (یعنی مکہ کے لڑنے والے کافروں کو مارو اور ان میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑو) اور فرمایا:’’ تم مجھ سے صفا پر ملو۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم چلے ہم میں سے جو کوئی کسی (کافر) کو مارنا چاہتا وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آیا اور کہنے لگا کہ یارسول اللہ ! قریش کا گروہ تباہ ہو گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے۔‘‘ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی درخواست پر اس کو عزت دینے کوفرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی محبت آگئی ہے اور اپنے کنبہ والوں پر نرم ہو گئے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہ میں معلوم ہو جاتا تھا اور جب تک وحی اترتی رہتی تھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ نہ اٹھاتا تھایہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی۔ غرض جب وحی ختم ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے انصار کے لوگو!۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم نے یہ کہا کہ اس شخص کو اپنے گاؤں کی محبت غالب ہوگئی؟‘‘ انہوں نے کہا کہ بے شک یہ تو ہم نے کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھے معلوم ہو گیا لیکن مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا ،نصاریٰ نے جیسے عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی، اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ اور مرنا بھی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ یہ سن کر انصار روتے ہوئے دوڑے اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہم نے جو کہا محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص کر کے کہا (یعنی ہمارا مطلب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر ہی میں رہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ (جان بچانے کے لیے ) ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو چلے گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو بوسہ دیا ، پھر خانہ کعبہ کا طواف کیا (اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کی ایک طرف رکھا تھا اور لوگ اس کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے ،جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے : ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔‘‘ (الاسراء:۸۱) جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا اللہ نے چاہی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
َبابٌ : إِخْرَاجُ الأَصْنَامِ مِنْ حَوْلِ الْكَعْبَةِ
کعبہ کے اردگرد سے (موجود) بتوں کو نکالنا​

(1183) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَكَّةَ وَ حَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلاثُ مِائَةٍ وَ سِتُّونَ نُصُبًا فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ كَانَ بِيَدِهِ وَ يَقُولُ { جَائَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا }(الاسراء:81) { جَائَ الْحَقُّ وَ مَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا يُعِيدُ } (سبأ: 49) زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ يَوْمَ الْفَتْحِ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور وہاں کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ہاتھ میں موجود لکڑی چبھوتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے: ’’حق آ گیا اور جھوٹ مٹ گیا اور جھوٹ مٹنے ہی والا ہے۔‘‘ (الاسراء:۸۱ ) ’’حق آ گیا اور جھوٹ نہ بناتا ہے کسی کو نہ لوٹاتا ہے (بلکہ دونوں اللہ جل جلالہ کے کام ہیں)۔ابن ابی عمر نے اتنا زیادہ کیا کہ ’’یوم فتح (مکہ) کے دن (ایسا کیا)۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : لاَ يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ الْفَتْحِ
فتح کے بعد کوئی قریشی باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا​

(1184) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لاَ يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
سیدنا عبداللہ بن مطیع اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:’’ آج کے بعد قیامت تک کوئی قریشی آدمی باندھ کر قتل نہ کیا جائے گا۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : الْمُبَايَعَةُ بَعْدَ الْفَتْحِ عَلَى الإِسْلاَمِ وَالْجِهَادِ وَالْخَيْرِ
فتح کے بعد اسلام، جہاداور خیر (نیکی) پر بیعت​

(1185) عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ السُّلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جِئْتُ بِأَخِي أَبِي مَعْبَدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ الْفَتْحِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! بَايِعْهُ عَلَى الْهِجْرَةِ قَالَ قَدْ مَضَتِ الْهِجْرَةُ بِأَهْلِهَا قُلْتُ فَبِأَيِّ شَيْئٍ تُبَايِعُهُ ؟ قَالَ عَلَى الإِسْلامِ وَالْجِهَادِ وَالْخَيْرِ قَالَ أَبُو عُثْمَانَ فَلَقِيتُ أَبَا مَعْبَدٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِ مُجَاشِعٍ فَقَالَ صَدَقَ
سیدنامجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی ابو معبدکو فتح (مکہ) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور میں نے کہا کہ یارسول اللہ ! اس سے ہجرت پر بیعت لیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہجرت مہاجرین کے ساتھ ہو چکی۔‘‘ میں نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اسلام، جہاد پر اور نیکی پر۔‘‘ ابوعثمان نے کہا کہ میں ابو معبد سے ملا اور ان سے مجاشع کا کہنا بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ مجاشع نے سچ کہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَ لَكِنْ جِهَادٌ وَ نِيَّةٌ
فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت (جہاد) باقی ہے​

(1186) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْهِجْرَةِ فَقَالَ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَ لَكِنْ جِهَادٌ وَ نِيَّةٌ وَ إِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تم سے جہاد کو نکلنے کے لیے کہا جائے تو نکلو۔ ‘‘
وضاحت:فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت کرنا موقوف ہوا تھا نہ کہ ہر جگہ سے ہجرت کرنا۔ آج بھی دار الکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا جائز ہے اور ایسا کرنے والے کو ہجرت کا پورا ثواب ملے گا۔ مکہ مکرمہ چونکہ خود دارالسلام بن چکا تھا اس لیے وہاں ہجرت کرنا موقوف کردیا گیا۔ واﷲ اعلم(محمود الحسن اسد)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلأَمْرُ بِعَمَلِ الْخَيْرِ مَنِ اشْتَدَّتْ عَلَيْهِ الْهِجْرَةُ
جس پر ہجرت سخت محسوس ہو، اس کو عمل خیر (نیکی کرنے) کا حکم کرنا​

(1187) عَنْ أَبِيْ سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْهِجْرَةِ ؟ فَقَالَ وَيْحَكَ إِنَّ شَأْنَ الْهِجْرَةِ لَشَدِيدٌ فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَهَلْ تُؤْتِي صَدَقَتَهَا ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاعْمَلْ مِنْ وَرَائِ الْبِحَارِ فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہجرت بہت مشکل ہے (یعنی اپنا وطن چھوڑنا اور مدینہ میں میرے ساتھ رہنا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا:’’ کہیں اس سے نہ ہو سکے تو پھر ہجرت توڑنا پڑے) تیرے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ وہ بولا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا:’’ تو ان کی زکوٰۃ دیتا ہے؟‘‘ وہ بولا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو سمندروں کے اس پار سے عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے کسی عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ ‘‘
 
Top