بَابٌ : التَّطْبِيْقُ فِيْ الرُّكُوْعِ
رکوع میں تطبیق کرنا
(293) عَنِ الأَسْوَدِ وَ عَلْقَمَةَ قَالاَ أَتَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي دَارِهِ فَقَالَ أَصَلَّى هَؤُلاَئِ خَلْفَكُمْ ؟فَقُلْنَا لاَ قَالَ فَقُومُوا فَصَلُّوا فَلَمْ يَأْمُرْنَا بِأَذَانٍ وَ لاَ إِقَامَةٍ قَالَ وَ ذَهَبْنَا لِنَقُومَ خَلْفَهُ فَأَخَذَ بِأَيْدِينَا فَجَعَلَ أَحَدَنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرَ عَنْ شِمَالِهِ قَالَ فَلَمَّا رَكَعَ وَضَعْنَا أَيْدِيَنَا عَلَى رُكَبِنَا قَالَ فَضَرَبَ أَيْدِيَنَا وَ طَبَّقَ بَيْنَ كَفَّيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ قَالَ فَلَمَّا صَلَّى قَالَ إِنَّهُ سَتَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَائُ يُؤَخِّرُونَ الصَّلاَةَ عَنْ مِيقَاتِهَا وَ يَخْنُقُونَهَا إِلَى شَرَقِ الْمَوْتَى فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ قَدْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَصَلُّوا الصَّلاَةَ لِمِيقَاتِهَا وَاجْعَلُوا صَلاَتَكُمْ مَعَهُمْ سُبْحَةً وَ إِذَا كُنْتُمْ ثَلاَثَةً فَصَلُّوا جَمِيعًا وَ إِذَا كُنْتُمْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ وَ إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْرِشْ ذِرَاعَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَلْيَجْنَأْ وَلْيُطَبِّقْ بَيْنَ كَفَّيْهِ فَلَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى اخْتِلاَفِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَرَاهُمْ
اسود اور علقمہ سے روایت ہے کہ ہم دونوں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر میں آئے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان لوگوں (یعنی اس دور کے نوابوں او رامیروں) نے تمہارے پیچھے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اٹھو نماز پڑھ لو، کیونکہ نماز کا وقت ہو گیا اور امیروں اور نوابوں کے انتظار میں اپنی نماز میں دیر کرنا ضروری نہیں۔ پھر ہمیں نہ اذان دینے کا حکم کیا اور نہ اقامت کا۔ ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو داہنی طرف کیا اوردوسرے کو بائیں جانب۔ جب رکوع کیا تو ہم نے ہاتھ گھٹنوں پر رکھے۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر مارا اور ہتھیلیوں کو جوڑ کر رانوں کے بیچ میں رکھا۔ جب نما ز پڑھ چکے تو کہا کہ اب تمہارے نواب اور امیر ایسے پیدا ہوں گے، جونماز میں اس کے وقت سے دیر کریں گے اور نماز کو تنگ کریں گے، یہاں تک کہ آفتاب ڈوبنے کے قریب ہو گا (یعنی عصر کی نماز میں اتنی دیر کریںگے) جب تم ان کو ایسا کرتے دیکھو تو اپنی نماز وقت پر پڑھ لو (یعنی افضل وقت پر) پھر ان کے ساتھ دوبارہ نفل کے طور پر پڑھ لو اور جب تم تین آدمی ہو تو سب مل کر نماز پڑھو (یعنی برابرکھڑے ہو اور امام بیچ میں رہے) اور جب تین سے زیادہ ہوں تو ایک آدمی امام بنے اور وہ آگے کھڑا ہواور جب رکوع کرے تو اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور جھکے اور دونوں ہتھیلیاں جوڑ کر رانوں میں رکھ لے گویا کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے مختلف ہونے کو دیکھ رہا ہوں۔
وضاحت: اس حدیث میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو جمہور کے نظریہ کے خلاف ہیں۔ کچھ تو ابتدا میں تھیں بعد میں منسوخ ہو گئیں اور نسخ والی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو نہیں پہنچی جیسے رکوع میں دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں میں کر لینا اور تین آدمیوں کی جماعت کی شکل میں امام کا درمیان میں کھڑا ہونا بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف تھا جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ علیھم اجمعین جن کا موقف یہ تھا کہ تین آدمیوں کی جماعت میں امام کو آگے کھڑا ہونا چاہیے جیسے کہ آگے حدیث آ رہی ہے)۔ ''