• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قِتَالُ جِبْرِيْلَ وَمِيْكَائِيْلَ عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ أُحُدٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے احد کے دن جبریل اور میکائیل علیہما السلام کا لڑنا​

(1164) عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ عَنْ شِمَالِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابُ بَيَاضٍ مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَ لاَ بَعْدُ يَعْنِي جِبْرِيلَ وَ مِيكَائِيلَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
فاتح ایران سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے (اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے) اس سے پہلے اور اسکے بعد میں نے ان کو نہیں دیکھا، وہ جبرئیل اورمیکائیل علیہما السلام تھے (اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فرشتوں کے ساتھ عزت دی اور اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا صرف بدر میں لڑنا خاص نہ تھا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اِشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ رَسُوْلُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ تعالیٰ کا غصہ اس پر بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیا ہو​

(1165) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا هَذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ حِينَئِذٍ يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فِي سَبِيلِ اللَّهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کا غصہ ان لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے ایسا کیا ۔‘‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دانت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر (بھی) بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کریں۔‘‘ (یعنی جہاد میں جس کو ماریں کیونکہ اس مردود نے پیغمبرکو مارنے کا قصد کیا ہو گا اور اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم حد یا قصاص میں ماریں)ـ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : مَا لَقِيَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ أَذَى قَوْمِهِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تکلیف پہنچی، اس کا بیان​

(1166) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ ؟ فَقَالَ لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ وَ كَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ وَ أَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلاَّ بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ فَنَادَانِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَ مَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَ قَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ قَالَ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ وَ سَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ ! إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَ أَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَ قَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرِكَ فَمَا شِئْتَ ؟ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ پر احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں نے تیری قوم سے بہت آفت اٹھائی ہے (یعنی قریش کی قوم سے) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا، جب میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے آپ کو پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنانہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر (بہت زیادہ) رنج و غم تھا۔ پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلتا گیا) مگر جب (مقام) قرن الثعالب میں پہنچا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا تو ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے اور اس میں جبرئیل علیہ السلام تھے، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ نے آپ کی قوم کا کہنا سنا جو انہوں نے آپ کو جواب دیا، سن لیا ہے اور پہاڑوں کے فرشتے کو اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم کریں۔ پھر اس فرشے نے مجھے پکارا اور سلام کیا اورکہا کہ اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا کہنا سن لیا ہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ آپ جو حکم دیں میں کر دوں۔ پھر آپ جو چاہیں کہیں؟ اگر آپ کہیں تو میں دونوں پہاڑ (یعنی ابوقبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے) ان پر ملا دوں (اور ان کو کچل دوں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ( میں یہ نہیں چاہتا) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے گا جو خاص اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔‘‘ (سبحان اللہ! کیا شفقت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پر۔ وہ رنج دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تکلیف گوارا کرتے)۔

(1167) عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَمِيَتْ إِصْبَعُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَشَاهِدِ فَقَالَ:
هَلْ أَنْتِ إِلاَّ إِصْبَعٌ دَمِيتِ
وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ

سیدنا جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی اور خون نکل آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں ہے تو مگرایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی (مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بے حقیقت ہے)۔ ‘‘

(1168) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَ أَبُو جَهْلٍ وَ أَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ وَ قَدْ نُحِرَتْ جَزُورٌ بِالأَمْسِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى سَلا جَزُورِ بَنِي فُلانٍ فَيَأْخُذُهُ فَيَضَعُهُ فِي كَتِفَيْ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَأَخَذَهُ فَلَمَّا سَجَدَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ قَالَ فَاسْتَضْحَكُوا وَ جَعَلَ بَعْضُهُمْ يَمِيلُ عَلَى بَعْضٍ وَ أَنَا قَائِمٌ أَنْظُرُ لَوْ كَانَتْ لِي مَنَعَةٌ طَرَحْتُهُ عَنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَاجِدٌ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى انْطَلَقَ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَجَائَتْ وَ هِيَ جُوَيْرِيَةٌ فَطَرَحَتْهُ عَنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَشْتِمُهُمْ فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلاَتَهُ رَفَعَ صَوْتَهُ ثُمَّ دَعَا عَلَيْهِمْ وَ كَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلاَثًا وَ إِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلاَثًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا سَمِعُوا صَوْتَهُ ذَهَبَ عَنْهُمُ الضِّحْكُ وَ خَافُوا دَعْوَتَهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ وَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَ شَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ وَ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ وَ عُقْبَةَ ابْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَ ذَكَرَ السَّابِعَ وَ لَمْ أَحْفَظْهُ فَوَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًاصلی اللہ علیہ وسلم بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ سَمَّى صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ غَلَطٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اپنے دوستوں سمیت بیٹھا تھا اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ ابوجہل نے کہا کہ تم میں سے کون جا کر اس کی بچہ دانی لاتا ہے اور اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان میں رکھ دیتاہے جب کہ وہ سجدے میں جائیں؟ یہ سن کر ان کا بدبخت شقی (عقبہ بن ابی معیط ملعون) اٹھا اور لا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان وہ بچہ دانی رکھ دی۔ پھر ان لوگوں نے ہنسی شروع کی اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے کے اوپر گرنے لگے۔ میں کھڑا ہوا دیکھتا تھا، میں اگر زور آور ہوتا (یعنی میرے مددگار لوگ ہوتے) تو میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے پھینک دیتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے ہی میں رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر نہیں اٹھایا، یہاں تک کہ ایک آدمی گیا اور اس نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو خبر کی ،تو وہ آئیں اور اس وقت وہ (چھوٹی عمر کی )لڑکی تھیں اور اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے اتارا اور پھر ان لوگوں کی طرف آئیں اور ان کو برا بھلا کہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، تو بلند آواز سے ان پر بددعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاکرتے تو تین بار دعا کرتے اور جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! قریش کو سزا دے۔‘‘ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا سے ڈر گئے اور ان کی ہنسی جاتی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ! تو ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو برباد کر دے۔‘‘ اور ساتویں کا نام مجھے یاد نہیں رہا (بخاری کی روایت میں اس کا نام عمارہ بن ولید مذکور ہے)۔ پھر قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا کہ میں نے ان سب لوگوں کو جن کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا، بدر کے دن مقتول پڑے ہوئے دیکھا کہ ان کی لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈالی گئیں (جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں) ابواسحاق نے کہا کہ ولید بن عقبہ کا نام اس حدیث میں غلط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : صَبْرُ الأَنْبِيَائِ عَلَى أَذَى قَوْمِهِمْ
انبیاء کا اپنی قوم کی طرف سے تکلیف پر صبر کرنا​

(1169) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَائِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ وَ هُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ وَ يَقُولُ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا کہ میں (اب بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پیغمبر کا حال بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے ان کو مارا تھا اور وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:’’ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ (سبحان اللہ نبوت کے حوصلے کا کیاکہنا)۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قَتْلُ أَبِيْ جَهْلٍ
ابو جہل کا قتل​

(1170) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ يَنْظُرُ لَنَا مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَائَ حَتَّى بَرَكَ قَالَ فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ فَقَالَ آنْتَ أَبُو جَهْلٍ ؟ فَقَالَ وَ هَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ ؟ أَوْ قَالَ قَتَلَهُ قَوْمُهُ ؟ قَالَ وَ قَالَ أَبُو مِجْلَزٍ قَالَ أَبُو جَهْلٍ فَلَوْ غَيْرُ أَكَّارٍ قَتَلَنِي
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ابوجہل کی خبر کون لاتاہے؟ یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ گئے تو دیکھاکہ عفراء کے بیٹوں نے اسے ایسا مارا تھا کہ وہ زمین پر گرا ہوا تھا (یعنی قریب المرگ تھا)۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ڈاڑھی پکڑی اور کہا کہ تو ابوجہل ہے؟ وہ بولا کہ کیا تم نے اس شخص (ابو جہل) سے زیادہ مرتبے والے شخص کو قتل کیا ہے ؟ (یعنی مجھ سے زیادہ قریش میں کوئی بڑے درجے کا نہیں) یا اس نے کہا کسی بڑے آدمی کو اس کی قوم نے قتل کیا ہے جو مجھ سے بڑا ہو؟(یعنی اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میری کوئی ذلت نہیں) ابومجلز نے کہا کہ ابو جہل نے کہا کہ کاش ! کاشتکار (کسان) کے سوا اور کوئی مجھے مارتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قَتْلُ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ
کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ​

(1171) عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ ائْذَنْ لِي فَلْأَقُلْ قَالَ قُلْ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ وَ ذَكَرَ مَا بَيْنَهُمَا وَ قَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَرَادَ صَدَقَةً وَ قَدْ عَنَّانَا فَلَمَّا سَمِعَهُ قَالَ وَ أَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ الآنَ وَ نَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْئٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ قَالَ وَ قَدْ أَرَدْتُ أَنْ تُسْلِفَنِي سَلَفًا قَالَ فَمَا تَرْهَنُنِي ؟ قَالَ مَا تُرِيدُ ؟ قَالَ تَرْهَنُنِي نِسَائَكُمْ قَالَ أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ أَ نَرْهَنُكَ نِسَائَنَا ؟ قَالَ لَهُ تَرْهَنُونِي أَوْلادَكُمْ قَالَ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَيُقَالُ رُهِنَ فِي وَسْقَيْنِ مِنْ تَمْرٍ وَ لَكِنْ نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ يَعْنِي السِّلاَحَ قَالَ فَنَعَمْ وَ وَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ بِالْحَارِثِ وَ أَبِي عَبْسِ بْنِ جَبْرٍ وَ عَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَجَائُوا فَدَعَوْهُ لَيْلاً فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ إِنِّي لَأَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ صَوْتُ دَمٍ قَالَ إِنَّمَا هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَ رَضِيعُهُ وَ أَبُو نَائِلَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ لَيْلاً لَاَجَابَ قَالَ مُحَمَّدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي إِذَا جَائَ فَسَوْفَ أَمُدُّ يَدِي إِلَى رَأْسِهِ فَإِذَا اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَدُونَكُمْ قَالَ فَلَمَّا نَزَلَ نَزَلَ وَ هُوَ مُتَوَشِّحٌ فَقَالُوا نَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الطِّيبِ قَالَ نَعَمْ تَحْتِي فُلاَنَةُ هِيَ أَعْطَرُ نِسَائِ الْعَرَبِ قَالَ فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ ؟ مِنْهُ قَالَ نَعَمْ فَشُمَّ فَتَنَاوَلَ فَشَمَّ ثُمَّ قَالَ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَعُودَ ؟ قَالَ فَاسْتَمْكَنَ مِنْ رَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ دُونَكُمْ قَالَ فَقَتَلُوهُ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔‘‘ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہاں!۔‘‘ تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تجھے اختیار ہے۔‘‘ چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہ میں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم !آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم ا س کا اتباع کر چکے ہیں ،اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا، لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابو عبس بن جبیر اور عباد بن بشرy کو بھی ساتھ لائیں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ قلعہ سے نیچے اتر کران کے پاس آنے لگا۔ ا س کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں)۔ عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ )اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ( رضی اللہ عنہ ) ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔کعب نے جواب دیا کہ ہاں میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : غَزْوَةُ ذَاتِ الرِّقَاعِ
غزوۂ الرقاع کا بیان​

(1172) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزَاةٍ وَ نَحْنُ سِتَّةُ نَفَرٍ بَيْنَنَا بَعِيرٌ نَعْتَقِبُهُ قَالَ فَنَقِبَتْ أَقْدَامُنَا فَنَقِبَتْ قَدَمَايَ وَ سَقَطَتْ أَظْفَارِي فَكُنَّا نَلُفُّ عَلَى أَرْجُلِنَا الْخِرَقَ فَسُمِّيَتْ غَزْوَةَ ذَاتِ الرِّقَاعِ لِمَا كُنَّا نُعَصِّبُ عَلَى أَرْجُلِنَا مِنَ الْخِرَقِ قَالَ أَبُو بُرْدَةَ فَحَدَّثَ أَبُو مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ثُمَّ كَرِهَ ذَلِكَ قَالَ كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَكُونَ شَيْئًا مِنْ عَمَلِهِ أَفْشَاهُ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ وَ زَادَنِي غَيْرُ بُرَيْدٍ وَاللَّهُ يُجْزِي بِهِ
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک لڑائی میں نکلے اور ہم چھ آدمیوں کے پاس صرف ایک اونٹ تھا۔ ہم باری باری اس پر سوار ہوتے تھے۔ ہمارے قدم چھلنی ہو گئے تھے اور میرے دونوں پاؤں پھٹ گئے اور ناخن بھی گر پڑے، تو ہم نے اپنے پاؤں پر پٹیاں باندھ لیں۔ اس لڑائی کا نام ذات الرقاع بھی اسی وجہ سے رکھا گیا (یعنی پٹیوں دھجیوں والی لڑائی) کیونکہ ہم پاؤں پھٹ جانے کی وجہ سے ان پر پٹیاں باندھتے تھے۔ ابوبردہ (راوی) نے کہا کہ یہ حدیث ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سنائی پھر (ریا کاری کے خوف سے) بیان نہیں کرتے تھے اور ابو اسامہ نے کہا کہ برید کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے یہ زیادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ غَزْوَةِ الأَحْزَابِ، وَ هِيَ الْخَنْدَقُ
غزوۂ احزاب جو جنگ خندق کے نام سے مشہور ہے، کے متعلق​

(1173) عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ رَجُلٌ لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَاتَلْتُ مَعَهُ وَ أَبْلَيْتُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْتَ كُنْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ ؟ لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَيْلَةَ الأَحْزَابِ وَ أَخَذَتْنَا رِيحٌ شَدِيدَةٌ وَقَرٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَلاَ رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ ثُمَّ قَالَ أَلا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ ثُمَّ قَالَ أَلاَ رَجُلٌ يَأْتِيْنِى بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ فَقَالَ قُمْ يَا حُذَيْفَةُ ! فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِي بِاسْمِي أَنْ أَقُومَ قَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَ لاَ تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ فَلَمَّا وَلَّيْتُ مِنْ عِنْدِهِ جَعَلْتُ كَأَنَّمَا أَمْشِي فِي حَمَّامٍ حَتَّى أَتَيْتُهُمْ فَرَأَيْتُ أَبَا سُفْيَانَ يَصْلِي ظَهْرَهُ بِالنَّارِ فَوَضَعْتُ سَهْمًا فِي كَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِيَهُ فَذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ وَ لَوْ رَمَيْتُهُ لَأَصَبْتُهُ فَرَجَعْتُ وَ أَنَا أَمْشِي فِي مِثْلِ الْحَمَّامِ فَلَمَّا أَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَ فَرَغْتُ قُرِرْتُ فَأَلْبَسَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ فَضْلِ عَبَائَةٍ كَانَتْ عَلَيْهِ يُصَلِّي فِيهَا فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحْتُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ قَالَ قُمْ يَا نَوْمَانُ
سیدنا ابراہیم التیمی اپنے والد (یزید بن شریک تیمی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص بولا، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہوتا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتا اور لڑنے میں لڑنے میں جان لڑاتا۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تو ایسا کرتا؟ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا، کرنا اور ہے اور کہنا اور ہے۔ صحابہ کرام نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا تھا) میں اپنے آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ ہم غزوۂ احزاب کی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی شخص ہے جو جا کر کافروں کی خبر لائے؟ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔‘‘ یہ سن کرہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ نصیب کرے گا؟ ‘‘کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش رہے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔‘‘ اب کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر جانے کا حکم دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جا اور کافروں کی خبر لے کر آ اور ان کو مجھ پر مت اکسانا۔‘‘ (یعنی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ان کو مجھ پر غصہ آئے اور وہ تجھے ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں)۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پہلے تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کرے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے) یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ ابوسفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے تو میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور مارنے کا قصد کیا۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یا د آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو۔ اگر میں مار دیتاتو بے شک ابوسفیان کو مار لیتا۔ آخر میں لوٹا پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حمام کے اندر چل رہا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا ، اس وقت سردی معلوم ہوئی۔ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا، جس کو اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سویا رہا۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اٹھ اے بہت زیادہ سونے والے! ‘‘

(1174) عَنِ الْبَرَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ الأَحْزَابِ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ وَ لَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ وَ هُوَ يَقُولُ
وَاللَّهِ لَوْلا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا
وَ لاَ تَصَدَّقْنَا وَ لاَ صَلَّيْنَا
فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا
إِنَّ الأُلَى قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا
قَالَ وَ رُبَّمَا قَالَ :
إِنَّ الْمَلاَ قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا
إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا
وَ يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ

سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احزاب کے دن ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے (جب مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی)اور مٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کی سفیدی کو چھپا لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے:
’’قسم اللہ تعالیٰ کی! اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔ تو ہم پر اپنی رحمت کو اتار ، ان لوگوں (یعنی مکہ والوں) نے ہمارا کہنا نہ مانا (یعنی ایمان نہ لائے )اور ایک روایت میں ہے :’’سرداروں نے ہمارا کہنا نہ مانا۔ جب وہ فساد کی بات کرنا چاہتے ہیں (یعنی شرک اور کفروغیرہ) تو ہم ان کے شریک نہیں ہوتے ۔‘‘
اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرماتے تھے۔

(1175) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم كَانُوا يَقُولُونَ : يَوْمَ الْخَنْدَقِ
نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا
عَلَى الإِسْلامِ مَا بَقِينَا أَبَدًا
أَوْ قَالَ عَلَى الْجِهَادِ شَكَّ حَمَّادٌ وَالنَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ :
اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الآخِرَهْ
فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خندق کے دن یہ رجز پڑھ رہے تھے:
’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر یا جہاد پر بیعت کی ہے (اس وقت تک) جب تک ہم زندہ رہیں۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رجز پڑھ رہے تھے:
’’ اے اللہ! بھلائی توآخرت کی بھلائی ہے۔ پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : ذِكْرُ بِنَيْ قُرَيْظَةَ
بنی قریظہ کا بیان​

(1176) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَادَى فِينَا رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ انْصَرَفَ عَنِ الأَحْزَابِ أَنْ لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الظُّهْرَ إِلاَّ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَتَخَوَّفَ نَاسٌ فَوْتَ الْوَقْتِ فَصَلَّوْا دُونَ بَنِي قُرَيْظَةَ وَ قَالَ آخَرُونَ لاَ نُصَلِّي إِلاَّ حَيْثُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ إِنْ فَاتَنَا الْوَقْتُ قَالَ فَمَا عَنَّفَ وَاحِدًا مِنَ الْفَرِيقَيْنِ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احزاب سے لوٹے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کی: ’’کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے محلہ میں ۔‘‘بعض لوگ ڈرے کہ ایسا نہ ہو کہ نماز قضا ہو جائے۔ انہوں نے وہاں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم نہیں پڑھیں گے مگر جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اگرچہ نماز قضا ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں گروہوں میں سے کسی گروہ پر خفا نہیں ہوئے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ غَزْوَةِ ذِيْ قَرَدٍ
غزوہ ذی قرد کا بیان​

(1177) عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ نَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَ عَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لاَ تُرْوِيهَا قَالَ فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى جَبَا الرَّكِيَّةِ فَإِمَّا دَعَا وَ إِمَّا بَصَقَ فِيهَا قَالَ فَجَاشَتْ فَسَقَيْنَا وَاسْتَقَيْنَا قَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم دَعَانَا لِلْبَيْعَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ قَالَ فَبَايَعْتُهُ أَوَّلَ النَّاسِ ثُمَّ بَايَعَ وَ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ قَالَ بَايِعْ يَا سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي أَوَّلِ النَّاسِ قَالَ وَ أَيْضًا قَالَ وَ رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَزِلاً يَعْنِي لَيْسَ مَعَهُ سِلاَحٌ قَالَ فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَجَفَةً أَوْ دَرَقَةً ثُمَّ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ النَّاسِ قَالَ أَلاَ تُبَايِعُنِي يَا سَلَمَةُ ! قَالَ قُلْتُ قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فِي أَوَّلِ النَّاسِ وَ فِي أَوْسَطِ النَّاسِ قَالَ وَ أَيْضًا قَالَ فَبَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ ثُمَّ قَالَ لِي يَا سَلَمَةُ ! أَيْنَ حَجَفَتُكَ أَوْ دَرَقَتُكَ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! لَقِيَنِي عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَزِلاً فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ إِنَّكَ كَالَّذِي قَالَ الأَوَّلُ اللَّهُمَّ أَبْغِنِي حَبِيبًا هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتَّى مَشَى بَعْضُنَا فِي بَعْضٍ وَاصْطَلَحْنَا قَالَ وَ كُنْتُ تَبِيعًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَسْقِي فَرَسَهُ وَ أَحُسُّهُ وَ أَخْدِمُهُ وَ آكُلُ مِنْ طَعَامِهِ وَ تَرَكْتُ أَهْلِي وَ مَالِي مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَ أَهْلُ مَكَّةَ وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ أَتَيْتُ شَجَرَةً فَكَسَحْتُ شَوْكَهَا فَاضْطَجَعْتُ فِي أَصْلِهَا قَالَ فَأَتَانِي أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَجَعَلُوا يَقَعُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَبْغَضْتُهُمْ فَتَحَوَّلْتُ إِلَى شَجَرَةٍ أُخْرَى وَ عَلَّقُوا سِلاَحَهُمْ وَ اضْطَجَعُوا فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِي يَا لَلْمُهَاجِرِينَ قُتِلَ ابْنُ زُنَيْمٍ قَالَ فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَى أُولَئِكَ الأَرْبَعَةِ وَ هُمْ رُقُودٌ فَأَخَذْتُ سِلاَحَهُمْ فَجَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي قَالَ ثُمَّ قُلْتُ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لاَ يَرْفَعُ أَحَدٌ مِنْكُمْ رَأْسَهُ إِلاَّ ضَرَبْتُ الَّذِي فِيهِ عَيْنَاهُ قَالَ ثُمَّ جِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ جَائَ عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِرَجُلٍ مِنَ الْعَبَلاَتِ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزٌ يَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى فَرَسٍ مُجَفَّفٍ فِي سَبْعِينَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ دَعُوهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْئُ الْفُجُورِ وَ ثِنَاهُ فَعَفَا عَنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنْزَلَ اللَّهُ { وَ هُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ } الآيَةَ كُلَّهَا قَالَ ثُمَّ خَرَجْنَا رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَزَلْنَا مَنْزِلاً بَيْنَنَا وَ بَيْنَ بَنِي لِحْيَانَ جَبَلٌ وَ هُمُ الْمُشْرِكُونَ فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِمَنْ رَقِيَ هَذَا الْجَبَلَ اللَّيْلَةَ كَأَنَّهُ طَلِيعَةٌ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابِهِ قَالَ سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَقِيتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلامِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنَا مَعَهُ وَ خَرَجْتُ مَعَهُ بِفَرَسِ طَلْحَةَ أُنَدِّيهِ مَعَ الظَّهْرِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْفَزَارِيُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتَاقَهُ أَجْمَعَ وَ قَتَلَ رَاعِيَهُ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ خُذْ هَذَا الْفَرَسَ فَأَبْلِغْهُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ وَ أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِ قَالَ ثُمَّ قُمْتُ عَلَى أَكَمَةٍ فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِينَةَ فَنَادَيْتُ ثَلاثًا يَا صَبَاحَاهْ ثُمَّ خَرَجْتُ فِي آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِيهِمْ بِالنَّبْلِ وَ أَرْتَجِزُ أَقُولُ :
أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ
وَ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ
فَأَلْحَقُ رَجُلاً مِنْهُمْ فَأَصُكُّ سَهْمًا فِي رَحْلِهِ حَتَّى خَلَصَ نَصْلُ السَّهْمِ إِلَى كَتِفِهِ قَالَ قُلْتُ خُذْهَا
وَ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ
وَ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ
قَالَ فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ أَرْمِيهِمْ وَ أَعْقِرُ بِهِمْ فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ أَتَيْتُ شَجَرَةً فَجَلَسْتُ فِي أَصْلِهَا ثُمَّ رَمَيْتُهُ فَعَقَرْتُ بِهِ حَتَّى إِذَا تَضَايَقَ الْجَبَلُ فَدَخَلُوا فِي تَضَايُقِهِ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَجَعَلْتُ أُرَدِّيهِمْ بِالْحِجَارَةِ قَالَ فَمَا زِلْتُ كَذَلِكَ أَتْبَعُهُمْ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ بَعِيرٍ مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلاَّ خَلَّفْتُهُ وَرَائَ ظَهْرِي وَ خَلَّوْا بَيْنِي وَ بَيْنَهُ ثُمَّ اتَّبَعْتُهُمْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثِينَ بُرْدَةً وَ ثَلاَثِينَ رُمْحًا يَسْتَخِفُّونَ وَ لاَ يَطْرَحُونَ شَيْئًا إِلاَّ جَعَلْتُ عَلَيْهِ آرَامًا مِنَ الْحِجَارَةِ يَعْرِفُهَا رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابُهُ حَتَّى أَتَوْا مُتَضَايِقًا مِنْ ثَنِيَّةٍ فَإِذَا هُمْ قَدْ أَتَاهُمْ فُلانُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ فَجَلَسُوا يَتَضَحَّوْنَ يَعْنِي يَتَغَدَّوْنَ وَ جَلَسْتُ عَلَى رَأْسِ قَرْنٍ قَالَ الْفَزَارِيُّ مَا هَذَا الَّذِي أَرَى ؟ قَالُوا لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ وَاللَّهِ مَا فَارَقَنَا مُنْذُ غَلَسٍ يَرْمِينَا حَتَّى انْتَزَعَ كُلَّ شَيْئٍ فِي أَيْدِينَا قَالَ فَلْيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ أَرْبَعَةٌ قَالَ فَصَعِدَ إِلَيَّ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فِي الْجَبَلِ قَالَ فَلَمَّا أَمْكَنُونِي مِنَ الْكَلامِ قَالَ قُلْتُ هَلْ تَعْرِفُونِي ؟ قَالُوا لاَ وَ مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ قُلْتُ أَنَا سَلَمَةُ ابْنُ الأَكْوَعِ وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ أَطْلُبُ رَجُلاً مِنْكُمْ إِلاَّ أَدْرَكْتُهُ وَ لاَ يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكَنِي قَالَ أَحَدُهُمْ أَنَا أَظُنُّ قَالَ فَرَجَعُوا فَمَا بَرِحْتُ مَكَانِي حَتَّى رَأَيْتُ فَوَارِسَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ قَالَ فَإِذَا أَوَّلُهُمُ الأَخْرَمُ الأَسَدِيُّ عَلَى إِثْرِهِ أَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ وَ عَلَى إِثْرِهِ الْمِقْدَادُ بْنُ الأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَأَخَذْتُ بِعِنَانِ الأَخْرَمِ قَالَ فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ قُلْتُ يَا أَخْرَمُ احْذَرْهُمْ لاَ يَقْتَطِعُوكَ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابُهُ قَالَ يَا سَلَمَةُ ! إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَ تَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ فَلاَ تَحُلْ بَيْنِي وَ بَيْنَ الشَّهَادَةِ قَالَ فَخَلَّيْتُهُ فَالْتَقَى هُوَ وَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ فَعَقَرَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَرَسَهُ وَ طَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ وَ تَحَوَّلَ عَلَى فَرَسِهِ وَ لَحِقَ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ فَوَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم لَتَبِعْتُهُمْ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ حَتَّى مَا أَرَى وَرَائِي مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ غُبَارِهِمْ شَيْئًا حَتَّى يَعْدِلُوا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَائٌ يُقَالُ لَهُ ذُو قَرَدٍ لِيَشْرَبُوا مِنْهُ وَ هُمْ عِطَاشٌ قَالَ فَنَظَرُوا إِلَيَّ أَعْدُو وَرَائَهُمْ فَخَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ يَعْنِي أَجْلَيْتُهُمْ عَنْهُ فَمَا ذَاقُوا مِنْهُ قَطْرَةً قَالَ وَ يَخْرُجُونَ فَيَشْتَدُّونَ فِي ثَنِيَّةٍ قَالَ فَأَعْدُو فَأَلْحَقُ رَجُلاً مِنْهُمْ فَأَصُكُّهُ بِسَهْمٍ فِي نُغْضِ كَتِفِهِ قَالَ قُلْتُ خُذْهَا :
وَ أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ
وَ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ
قَالَ يَا ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ أَكْوَعُهُ بُكْرَةَ ؟ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ يَا عَدُوَّ نَفْسِهِ أَكْوَعُكَ بُكْرَةَ قَالَ وَ أَرْدَوْا فَرَسَيْنِ عَلَى ثَنِيَّةٍ قَالَ فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَ لَحِقَنِي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِسَطِيحَةٍ فِيهَا مَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ وَ سَطِيحَةٍ فِيهَا مَائٌ فَتَوَضَّأْتُ وَ شَرِبْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ هُوَ عَلَى الْمَائِ الَّذِي حَلَّأْتُهُمْ عَنْهُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ أَخَذَ تِلْكَ الإِبِلَ وَ كُلَّ شَيْئٍ اسْتَنْقَذْتُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَ كُلَّ رُمْحٍ وَ بُرْدَةٍ وَ إِذَا بِلاَلٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ وَ إِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ كَبِدِهَا وَ سَنَامِهَا قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! خَلِّنِي فَأَنْتَخِبُ مِنَ الْقَوْمِ مِائَةَ رَجُلٍ فَأَتَّبِعُ الْقَوْمَ فَلاَ يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلاَّ قَتَلْتُهُ قَالَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ فِي ضَوْئِ النَّارِ فَقَالَ يَا سَلَمَةُ ! أَتُرَاكَ كُنْتَ فَاعِلاً ؟ قُلْتُ نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ فَقَالَ إِنَّهُمُ الآنَ لَيُقْرَوْنَ فِي أَرْضِ غَطَفَانَ ۔ قَالَ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ فَقَالَ نَحَرَ لَهُمْ فُلاَنٌ جَزُورًا فَلَمَّا كَشَفُوا جِلْدَهَا رَأَوْا غُبَارًا فَقَالُوا أَتَاكُمُ الْقَوْمُ فَخَرَجُوا هَارِبِينَ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ خَيْرَ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ خَيْرَ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ ثُمَّ أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَهْمَيْنِ سَهْمَ الْفَارِسِ وَ سَهْمَ الرَّاجِلِ فَجَمَعَهُمَا لِي جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَرَائَهُ عَلَى الْعَضْبَائِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ ؟ قَالَ فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ قَالَ وَ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ لاَ يُسْبَقُ شَدًّا قَالَ فَجَعَلَ يَقُولُ أَلاَ مُسَابِقٌ إِلَى الْمَدِينَةِ ؟ هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ ؟ فَجَعَلَ يُعِيدُ ذَلِكَ قَالَ فَلَمَّا سَمِعْتُ كَلامَهُ قُلْتُ أَمَا تُكْرِمُ كَرِيْمًا وَ لاَ تَهَابُ شَرِيفًا ؟ قَالَ لاَ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي ذَرْنِي فَلِأُسَابِقَ الرَّجُلَ قَالَ إِنْ شِئْتَ قَالَ قُلْتُ اذْهَبْ إِلَيْكَ وَ ثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ فَعَدَوْتُ قَالَ فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ أَسْتَبْقِي نَفَسِي ثُمَّ عَدَوْتُ فِي إِثْرِهِ فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ ثُمَّ إِنِّي رَفَعْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ قَالَ فَأَصُكُّهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ قَالَ قُلْتُ قَدْ سُبِقْتَ وَاللَّهِ قَالَ أَنَا أَظُنُّ قَالَ فَسَبَقْتُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا لَبِثْنَا إِلاَّ ثَلاَثَ لَيَالٍ حَتَّى خَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَجَعَلَ عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْتَجِزُ بِالْقَوْمِ :
تَاللَّهِ لَوْ لاَ اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا
وَ لاَ تَصَدَّقْنَا وَ لاَ صَلَّيْنَا
وَ نَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا
فَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاقَيْنَا
وَ أَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ هَذَا قَالَ أَنَا عَامِرٌ قَالَ غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ قَالَ وَ مَا اسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِإِنْسَانٍ يَخُصُّهُ إِلاَّ اسْتُشْهِدَ قَالَ فَنَادَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ عَلَى جَمَلٍ لَهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْلا مَا مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا خَيْبَرَ قَالَ خَرَجَ مَلِكُهُمْ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ وَ يَقُولُ :
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاكِي السِّلاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ
قَالَ وَ بَرَزَ لَهُ عَمِّي عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرٌ
شَاكِي السِّلاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ
قَالَ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ ذَهَبَ عَامِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْفُلُ لَهُ فَرَجَعَ سَيْفُهُ عَلَى نَفْسِهِ فَقَطَعَ أَكْحَلَهُ فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ قَالَ سَلَمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُونَ بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَهُ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنَا أَبْكِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ قَالَ ذَلِكَ قَالَ قُلْتُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ قَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هُوَ أَرْمَدُ فَقَالَ لَاُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ قَالَ فَأَتَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ وَ هُوَ أَرْمَدُ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبَسَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ وَ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَ خَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ :
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاكِي السِّلاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ
فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ
كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ
أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ
قَالَ فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ ثُمَّ كَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ

سیدنا ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد (سیدنا سلمہ ابن اکوع) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں پہنچے تو ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہور روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنویں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی اتناکم پانی تھا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر یا تو دعا کی یا کنویں میں لعاب مبارک ڈالا تووہ اسی وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے خود بھی پانی پیا اور جانوروں کو پانی پلایا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں بیعت کے لیے درخت کی جڑ میں بلایا (اسی درخت کو شجرئہ رضوان کہتے ہیں اور اسی درخت کا ذکر قرآن پاک میں ہے) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے رہے، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے، تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے سلمہ! بیعت کر۔‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میں تو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پھر دوبارہ ہی سہی ۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا (بے ہتھیار دیکھا) تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لینے لگے، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا؟‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے لوگوں میں بیعت کر چکا ہوں پھر درمیان کے لوگوں میں بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ چلو پھر سہی۔‘‘ غرض میں نے تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے سلمہ! تیری وہ بڑی یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی؟ ‘‘ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! میرا چچا عامر رضی اللہ عنہ مجھے ملا اور وہ نہتا تھا میں نے وہ پھر اس کو دے دی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تیری مثال تو ماضی کے ایسے شخص کی سی ہے جس نے دعا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔‘‘ پھر مشرکوں نے صلح کے پیغام بھیجے، یہاں تک کہ طرفین کے آدمی ایک دوسرے کی طرف آنے جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا ، اس کی پیٹھ کھجاتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا اور انہی کے ساتھ کھانا کھاتا اور میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے اپنا گھر بار ،دھن دولت سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا، تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے، صاف کیے اور جڑ کے پاس لیٹ گیا کہ اتنے میں مکہ کے چار آدمی مشرکوں میں سے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے لگے۔ مجھے غصہ آیا اور (مصلحت کی بنا پر) میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا۔ انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی کہ دوڑو اے مہاجرین : ابن زنیم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا، جو سو رہے تھے۔ ان کے ہتھیار میں نے لے لیے اور ایک گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے، پھر میں نے کہا کہ قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت دی تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں اس کا وہ عضو کہ جس میں اس کی آنکھیں ہیں (یعنی سر) تن سے جدا کر دوں گا۔ پھر میں ان کو ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور میرا چچا عامر عبلات (جو کہ قریش کی ایک شاخ ہے) میں سے مشرکوں کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایک ایسے شخص کو بھی لایا جس کو مکرز کہتے تھے وہ اس کو ایسے گھوڑے پر کھینچتا ہوا لایا جو تیار کیا گیا تھا (یعنی جس پر جھول پڑی تھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایاکہ ان کو چھوڑ دو، مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو، پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہدشکنی ایک بار نہیں دوبار ہو تو ہ میں بدلا لینا برانہیں)۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف کر دیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ’’اور اس اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے (لڑائی سے) روکا، مکہ کی سرحد میں جب تم کو ان پر فتح دے چکا تھا …۔‘‘ (الفتح:۲۴) پھر ہم مدینہ کو لوٹے راستے میں ایک منزل پر اترے جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے دعا کی جو رات کو اس پہاڑ پر چڑھ جائے اور آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لیے پہرا دے۔ میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرا دیتا رہا) پھر ہم مدینہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے غلام رباح کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا اور میں اس کے ساتھ طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیے ہوئے انہیں پانی پلانے کے لیے ندی پر لانے کے لیے نکلا۔ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا کہ اے رباح ! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروںنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ لی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اورمدینہ کی طرف منہ کر کے میں نے تین بار آواز دی کہ یا صباحاہ، یا صباحاہ ! (یہ الفاظ حملہ کے وقت اپنے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں)۔ اس کے بعد میں ان لٹیروں کے پیچھے تیر مارتا اور رجز پڑھتا ہوا روانہ ہوا۔ (رجز یہ تھا کہ)’’ میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔‘‘ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو (کاٹھی کو چیر کر) اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا اور کہتا:’’یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔‘‘ پھر اللہ کی قسم میں ان کو برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا۔ جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا، تو میں درخت کے نیچے آکر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مار کر سوار یا گھوڑے کو زخمی کر دیتا یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کر دیے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا، یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا، نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا ہو اور لٹیروں نے اس کو چھوڑ نہ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے چھین لئے)۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں ان کے پیچھے تیر مارتاہوا چلا، یہاں تک کہ (انہوں نے) تیس سے زیادہ چادریں اور نیزے اپنے آپ کو ہلکا کرنے کے لیے پھینک دیے اور جو چیز وہ پھینکتے اس پر میں پتھر کا ایک نشان رکھ دیتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اس کو لے لیں)، یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا اور وہ سب دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھ گئے اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھ گیا۔ فزاری نے کہا کہ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولے کہ اس شخص نے تو ہ میں تنگ کر چھوڑا ہے۔ اللہ کی قسم! اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے، برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا کہ تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے، جب وہ اتنی دور آگئے کہ میری بات سن سکیں تو میں نے کہا کہ تم مجھے جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ میں سلمہ ہوں ( رضی اللہ عنہ ) اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن اپنے آپ کو بوجہ شہرت کے دادا کی طرف منسوب کیا) قسم اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں گا (تیر سے) مار ڈالوں گا اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہ سب لوٹے اور میں وہاں سے چلا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے۔ سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے، ان کے پیچھے سیدنا ابوقتادہ ، ان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی۔ میں نے سیدنا اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں نے کہا کہ اے اخرم !جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آجائیں، تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اے سلمہ! اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کا اور آخرت کے دن کا یقین ہے اور تو جانتا ہے کہ جنت اور جہنم حق ہیں، تو مجھ کو شہادت سے مت روک (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ سے شہید ہوجاؤں گا تو اس سے بہتر کیا ہے؟) میں نے ان کو چھوڑ دیا ، ان کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا ۔اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمن نے برچھی سے اخرم کو شہید کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا کہ اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمن کو برچھا مار کر قتل کر دیا۔ تو قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی کہ میں ان کے پیچھے گیا۔ میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی دکھلائی دیا نہ ان کا غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا، وہ پیاسے تھے اور پانی پینے کو اترے۔ پھر مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا، تو آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا کہ وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے۔ اب وہ کسی گھاٹی کی طرف دوڑے تو میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پا کر ایک تیر اس کے شانے کی ہڈی میں مارا اور میں نے کہا :’’ یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔‘‘ وہ بولا اس کی ماں اس پر روئے (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے) کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا؟ میں نے کہا کہ ہاں اے اپنی جان کے دشمن ! وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان لٹیروں کے دو گھوڑے (دوڑتے دوڑتے تھک گئے) تو انہوں نے ان کوچھوڑ دیا۔ تو میں ان گھوڑوں کو ہانکتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گھاٹی میں لایا۔ وہاں مجھے عامر رضی اللہ عنہ ملے جن کے پاس ایک برتن میں دودھ اور ایک میں پانی تھا۔ میں نے وضو کیا اور اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ کی ہمت کہ صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے، مال رہ گئے لیکن سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا۔ یہ اللہ جل جلالہ کی خاص مدد تھی جو اس کی راہ میں ہمت و استقامت کے ساتھ چلنے والوں کو ملتی ہے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اونٹ لے لیے ہیں اور وہ سب چیزیں (بھی) جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں اور وہ نیزے اور چادریں بھی اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ نحر (ذبح) کیا جو میں نے چھینے تھے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی تلی اور کوہان کا گوشت بھون رہے تھے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! مجھے لشکر میں سے سو آدمی لینے کی اجازت دیجیے میں ان لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے گا جو (اپنی قوم کو) جا کر خبر سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں آگ کی روشنی میں ظاہر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے سلمہ! تو یہ کر سکتا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ہاں اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بزرگی دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ تو اب قبیلہ غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے اور وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔‘‘ اتنے میں غطفان میں سے ایک شخص آیا اور وہ بولا کہ فلاں شخص نے ان کے لیے ایک اونٹ کاٹا تھا اور وہ اس کی کھال نکال رہے تھے کہ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی، تو وہ کہنے لگے کہ لوگ آگئے اور وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر ابوقتادہ ( رضی اللہ عنہ ) ہیں اور پیادوں (پیدل فوج) میں سب سے بڑھ کر سلمہ ابن اکوع ( رضی اللہ عنہ ) ہیں۔‘‘ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو حصے دیے،ایک حصہ سوار کا اور ایک پیادے (پیدل) کا اور دونوں میرے لیے جمع کر دیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو لوٹتے وقت مجھے اپنے ساتھ عضباء پر بٹھا لیا۔ (یعنی اپنے ساتھ سوار کر لیا۔ ایک تو اس لیے کہ ان کے پاس سواری نہیں تھی، دوسرے ان کی قدردانی کے لیے کہ پا پیادہ اور تن تنہا انہوں نے اتنا بڑا کام کیا تھا۔ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنے ساتھ سوار کر لیا) ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کہ کوئی ہے جومدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور وہ بار بار یہی کہتا تھا جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا کہ تو بزرگ کی بزرگی کا خیال نہیں کرتا اور بزرگ سے نہیں ڈرتا؟ اس نے کہا نہیں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی کا خیال کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں مجھے چھوڑ دیجیے میں اس مرد سے دوڑ میں آگے بڑھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اچھا اگر تیرا جی چاہے۔‘‘ تب میں نے کہا کہ میں تیری طرف آتا ہوں اور میں اپنا پاؤں ٹیڑھا کر کے کود پڑا، پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہے تو میں نے اپنے دم کو روکا پھر اس کے پیچھے دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہ گئے تو سانس بحال کرنے کو ذرا دم لیا۔ پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک گھونسا مارا اور کہا کہ اللہ کی قسم ! اب میں آگے بڑھا۔ پھر اس سے آگے مدینہ کو پہنچا ( معلوم ہوا کہ بغیر کسی لالچ و انعام کے مقابلہ بازی درست ہے اور انعام وغیرہ کی شکل میں اختلاف ہے۔ اکثر انعام وغیرہ کی شکل میں دھوکے بازی، سٹے بازی وغیرہ کا معمول بن چکا ہے) پھر اللہ کی قسم! ہم صرف تین رات ٹھہرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے اور میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ ’’اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ یاب نہ ہوتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پروا نہیں ہوئے ،تو ہمارے پاؤں کو جمائے رکھ ،اگر ہم کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسکین ہمارے اوپر نازل فرما۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ عامر رضی اللہ عنہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ تجھ کو بخشے۔‘‘ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لیے خاص طور پر استغفار کرتے، تو وہ ضرور شہید ہوتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے کہ اے اللہ کے نبی ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں عامر سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار لہراتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھ رہا تھا : ’’خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، پورا ہتھیار بند بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں۔‘‘ یہ سن کر میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ اس سے مقابلے کو نکلے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا کہ ’’ میں عامر ہوں پورا ہتھیار بند، لڑائی میں کود پڑنے والا۔‘‘ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر رضی اللہ عنہ نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اور وہ اسی سے شہید ہو گئے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نکلا اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ عامر ( رضی اللہ عنہ ) کا عمل ضائع ہو گیا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! عامر ( رضی اللہ عنہ ) کا عمل ضائع ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کون کہتاہے؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کہا جھوٹ کہا، نہیں بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہے یا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دوست رکھتے ہیں۔‘‘ (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کے ہاتھوں پر فتح دے گا اوروہ بھاگنے والا نہیں ہے)۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کو کھینچتا ہوا لایا ،ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا دیا۔ مرحب وہی رجز پڑھتے ہوئے نکلا: ’’خیبرکو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں پورا ہتھیار بند، بہادر، آزمودہ کار، جب لڑائیاں شعلے اڑاتی ہوئی آئیں۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا کہ ’’ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا، مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے، نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو)، میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ا ن کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں)۔‘‘ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور اسے جہنم رسید کر دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر فتح دی۔
 
Top