خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 86
وَإِنَّمَا أَلْزَمُوا أَنْفُسَهُمُ الْكَشْفَ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَاقِلِي الأَخْبَارِ وَأَفْتَوْا بِذَلِكَ حِينَ سُئِلُوا لِمَا فِيهِ مِنْ عَظِيمِ الْخَطَرِ إِذِ الأَخْبَارُ فِي أَمْرِ الدِّينِ إِنَّمَا تَأْتِي بِتَحْلِيلٍ أَوْ تَحْرِيمٍ أَوْ أَمْرٍ أَوْ نَهْىٍ أَوْ تَرْغِيبٍ أَوْ تَرْهِيبٍ فَإِذَا كَانَ الرَّاوِي لَهَا لَيْسَ بِمَعْدِنٍ لِلصِّدْقِ وَالأَمَانَةِ ثُمَّ أَقْدَمَ عَلَى الرِّوَايَةِ عَنْهُ مَنْ قَدْ عَرَفَهُ وَلَمْ يُبَيِّنْ مَا فِيهِ لِغَيْرِهِ مِمَّنْ جَهِلَ مَعْرِفَتَهُ كَانَ آثِمًا بِفِعْلِهِ ذَلِكَ غَاشًّا لِعَوَامِّ الْمُسْلِمِينَ إِذْ لاَ يُؤْمَنُ عَلَى بَعْضِ مَنْ سَمِعَ تِلْكَ الأَخْبَارَ أَنْ يَسْتَعْمِلَهَا أَوْ يَسْتَعْمِلَ بَعْضَهَا وَلَعَلَّهَا أَوْ أَكْثَرَهَا أَكَاذِيبُ لاَ أَصْلَ لَهَا مَعَ أَنَّ الأَخْبَارَ الصِّحَاحَ مِنْ رِوَايَةِ الثِّقَاتِ وَأَهْلِ الْقَنَاعَةِ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى نَقْلِ مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ وَلاَ مَقْنَعٍ
ان لوگوں(محدثین) نے اپنے لیے حدیث کے راویوں اور اخبار (وآثار) کے ناقلین کی خامیاں واضح کرنے کو لازم رکھا اور جب ان سے پوچھا گیا تو اس کے حق میں فتوے دیے کیونکہ اس میں حظ وافر ہے۔ چونکہ اخبار (واحادیث) دین کے امور میں حلال کرنے کے کیے وارد ہوتی ہیں یا حرام کرنے کے لیے، حکم دینے کے لیے وارد ہوتی ہیں یا روکنے کے لیے، کسی چیز کی رغبت دلانے کے لیے ہوتی ہیں یا کسی چیز سے ڈرانے کے لیے،اس لیے جب ان کا روایت کرنے والا بنیادی اور حقیقی طور پر صدق وامانت کا حامل نہ ہو، پھر اس سے ایسا آدمی روایت کرے جو اس کے بارے میں (خود تو سب کچھ جانتا ) ہو لیکن دوسرے کے سامنے جو اس کی پہچان سے آگاہ نہیں، اسے واضح نہ کرے تو اس عمل کی بنا پر وہ گناہگار ہو گا اور عام مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ٹھہرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو سننے والے بعض لوگ اس بات سے محفوظ نہ رہ سکیں گے کہ وہ ان (اخبار و احادیث) پر عمل کر لیں، حالانکہ امکان یہ ہے کہ یہ (روایات) یا ان کا اکثر حصہ اکاذیب پر مشتمل جن کی کوئی بنیاد نہ تھی جبکہ (دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) ثقہ اور انتہائی قابل اعتماد لوگوں کی روایت کرردہ احادیث اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ (کسی کو) غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد راویوں کی نقل کردہ چیزوں کی طرف رجوع کرنے کی مجبوری لاحق نہیں۔
ان لوگوں(محدثین) نے اپنے لیے حدیث کے راویوں اور اخبار (وآثار) کے ناقلین کی خامیاں واضح کرنے کو لازم رکھا اور جب ان سے پوچھا گیا تو اس کے حق میں فتوے دیے کیونکہ اس میں حظ وافر ہے۔ چونکہ اخبار (واحادیث) دین کے امور میں حلال کرنے کے کیے وارد ہوتی ہیں یا حرام کرنے کے لیے، حکم دینے کے لیے وارد ہوتی ہیں یا روکنے کے لیے، کسی چیز کی رغبت دلانے کے لیے ہوتی ہیں یا کسی چیز سے ڈرانے کے لیے،اس لیے جب ان کا روایت کرنے والا بنیادی اور حقیقی طور پر صدق وامانت کا حامل نہ ہو، پھر اس سے ایسا آدمی روایت کرے جو اس کے بارے میں (خود تو سب کچھ جانتا ) ہو لیکن دوسرے کے سامنے جو اس کی پہچان سے آگاہ نہیں، اسے واضح نہ کرے تو اس عمل کی بنا پر وہ گناہگار ہو گا اور عام مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ٹھہرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو سننے والے بعض لوگ اس بات سے محفوظ نہ رہ سکیں گے کہ وہ ان (اخبار و احادیث) پر عمل کر لیں، حالانکہ امکان یہ ہے کہ یہ (روایات) یا ان کا اکثر حصہ اکاذیب پر مشتمل جن کی کوئی بنیاد نہ تھی جبکہ (دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) ثقہ اور انتہائی قابل اعتماد لوگوں کی روایت کرردہ احادیث اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ (کسی کو) غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد راویوں کی نقل کردہ چیزوں کی طرف رجوع کرنے کی مجبوری لاحق نہیں۔