• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم یونیکوڈ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
وَإِنَّمَا أَلْزَمُوا أَنْفُسَهُمُ الْكَشْفَ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَاقِلِي الأَخْبَارِ وَأَفْتَوْا بِذَلِكَ حِينَ سُئِلُوا لِمَا فِيهِ مِنْ عَظِيمِ الْخَطَرِ إِذِ الأَخْبَارُ فِي أَمْرِ الدِّينِ إِنَّمَا تَأْتِي بِتَحْلِيلٍ أَوْ تَحْرِيمٍ أَوْ أَمْرٍ أَوْ نَهْىٍ أَوْ تَرْغِيبٍ أَوْ تَرْهِيبٍ فَإِذَا كَانَ الرَّاوِي لَهَا لَيْسَ بِمَعْدِنٍ لِلصِّدْقِ وَالأَمَانَةِ ثُمَّ أَقْدَمَ عَلَى الرِّوَايَةِ عَنْهُ مَنْ قَدْ عَرَفَهُ وَلَمْ يُبَيِّنْ مَا فِيهِ لِغَيْرِهِ مِمَّنْ جَهِلَ مَعْرِفَتَهُ كَانَ آثِمًا بِفِعْلِهِ ذَلِكَ غَاشًّا لِعَوَامِّ الْمُسْلِمِينَ إِذْ لاَ يُؤْمَنُ عَلَى بَعْضِ مَنْ سَمِعَ تِلْكَ الأَخْبَارَ أَنْ يَسْتَعْمِلَهَا أَوْ يَسْتَعْمِلَ بَعْضَهَا وَلَعَلَّهَا أَوْ أَكْثَرَهَا أَكَاذِيبُ لاَ أَصْلَ لَهَا مَعَ أَنَّ الأَخْبَارَ الصِّحَاحَ مِنْ رِوَايَةِ الثِّقَاتِ وَأَهْلِ الْقَنَاعَةِ أَكْثَرُ مِنْ أَنْ يُضْطَرَّ إِلَى نَقْلِ مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ وَلاَ مَقْنَعٍ

ان لوگوں(محدثین) نے اپنے لیے حدیث کے راویوں اور اخبار (وآثار) کے ناقلین کی خامیاں واضح کرنے کو لازم رکھا اور جب ان سے پوچھا گیا تو اس کے حق میں فتوے دیے کیونکہ اس میں حظ وافر ہے۔ چونکہ اخبار (واحادیث) دین کے امور میں حلال کرنے کے کیے وارد ہوتی ہیں یا حرام کرنے کے لیے، حکم دینے کے لیے وارد ہوتی ہیں یا روکنے کے لیے، کسی چیز کی رغبت دلانے کے لیے ہوتی ہیں یا کسی چیز سے ڈرانے کے لیے،اس لیے جب ان کا روایت کرنے والا بنیادی اور حقیقی طور پر صدق وامانت کا حامل نہ ہو، پھر اس سے ایسا آدمی روایت کرے جو اس کے بارے میں (خود تو سب کچھ جانتا ) ہو لیکن دوسرے کے سامنے جو اس کی پہچان سے آگاہ نہیں، اسے واضح نہ کرے تو اس عمل کی بنا پر وہ گناہگار ہو گا اور عام مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ٹھہرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو سننے والے بعض لوگ اس بات سے محفوظ نہ رہ سکیں گے کہ وہ ان (اخبار و احادیث) پر عمل کر لیں، حالانکہ امکان یہ ہے کہ یہ (روایات) یا ان کا اکثر حصہ اکاذیب پر مشتمل جن کی کوئی بنیاد نہ تھی جبکہ (دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) ثقہ اور انتہائی قابل اعتماد لوگوں کی روایت کرردہ احادیث اتنی زیادہ تعداد میں موجود ہیں کہ (کسی کو) غیر ثقہ اور ناقابل اعتماد راویوں کی نقل کردہ چیزوں کی طرف رجوع کرنے کی مجبوری لاحق نہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
وَلاَ أَحْسِبُ كَثِيرًا مِمَّنْ يُعَرِّجُ مِنَ النَّاسِ عَلَى مَا وَصَفْنَا مِنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ الضِّعَافِ وَالأَسَانِيدِ الْمَجْهُولَةِ وَيَعْتَدُّ بِرِوَايَتِهَا بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ بِمَا فِيهَا مِنَ التَّوَهُّنِ وَالضَّعْفِ إِلاَّ أَنَّ الَّذِي يَحْمِلُهُ عَلَى رِوَايَتِهَا وَالاِعْتِدَادِ بِهَا إِرَادَةُ التَّكَثُّرِ بِذَلِكَ عِنْدَ الْعَوَامِّ وَلأَنْ يُقَالَ مَا أَكْثَرَ مَا جَمَعَ فُلاَنٌ مِنَ الْحَدِيثِ وَأَلَّفَ مِنَ الْعَدَدِ

وَمَنْ ذَهَبَ فِي الْعِلْمِ هَذَا الْمَذْهَبَ وَسَلَكَ هَذَا الطَّرِيقَ فَلاَ نَصِيبَ لَهُ فِيهِ وَكَانَ بِأَنْ يُسَمَّى جَاهِلاً أَوْلَى مِنْ أَنْ يُنْسَبَ إِلَى عِلْمٍ


جن ضعیف حدیثوں اور مجہول اسناد کے بارے میں ہم نے تفصیل سے بیان کیا ہے ان کے انبار لگانے اور ان کی خامی اور کمزوری جاننے کے باوجود ان کی روایت کا اہتمام کرنے والوں کے متعلق
میں اس کے سوا کچھ نہیں سمجھتا کہ جو چیز انہیں ان (کمزور احادیث) کی روایت اور ان کے بارے میں اہتمام پر آمادہ کرتی ہے وہ عام لوگوں کے سامنے زیادہ حدیث بیان کرے کی خواہش ہے اور یہ بات
کہ کہا جا سکے کہ (دیکھو) فلان نے کتنی احادیث جمع کر لی ہیں کتنی تعداد میں ان کی تالیف کر لی ہے۔


جو شخص علم میں اس راہ پر چلتا ہے اور یہ طریق اختیار کرتا ہے تو (اس کا دراصل) اس (علم) میں کوئی حصہ نہیں۔ ایسے شخص کو جاہل کا نام دینا اس کی طرف علم کی نسبت کرنے سے بہتر ہے
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
فوائد ومسائل از پروفیسر یحییٰ:

امام مسلم رحمہ اللہ نے راویوں پر نقد و جرح کے حوالے سے کثیر تعداد میں مختلف نوع کی مثالیں دینے کے بعد جو نتائج نکالے ہیں وہ انہوں نے اس بحث کے آخر میں اجمالی طور پر پیش کر دیے ہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جو محدثین کے طریق کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان میں اولیت اس بات کو حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے ذریعے سے حلال و حرام کا تعین ہوتا ہے اور دین کے اوامر ونواہی کی وضاحت ہوتی ہے۔صحیح اسلامی شخصیت کی تربیت کے لیے کچھ باتیں ہیں جن کی حکیمانہ انداز میں ترغیب دینا ضروری ہے، کچھ رذائل وخبائث ایسے ہیں جن سے دور رہنے کی موثر طور پر تلقین ناگزیر ہے۔ یہ سارا نظام تربیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بات کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ حدیث کے راویوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور آپ کے اسوہ حسنہ کے ناقلین کے بارے میں انتہائی باریک بینی سے چھان پھٹک کی جائے۔ اگر راوی ساقط الاعتبار ہیں، امت مسلمہ کے اجتماعی شعور کی نفی کرتے ہوئے غیر متوازن افکارونظریات کے متعصب داعی ہیں، مکمل دیانت اور غیر جانب داری کے بجائے اپنی اپنی پسند کے لوگوں،گروہوں اور فرقوں کی حمایت کے لیے باتیں بناتے اور اقوال وآثار گھڑتے ہیں یا قبول اخبار میں حزم واحتیاط سے عاری ہیں، فہم وادراک میں اختلاط کا شکار ہیں، سادہ لوحی کی بنا پر دھوکہ کھا جاتے ہیں یا پھر سوئے حفظ میں مبتلا ہیں تو ان کی حقیقت کو آشکارہ کیا جائے، ان کی مرویات کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کی بیان کردہ باتوں میں جو مصائب پوشیدہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے، اس لیے راوایان حدیث کی نقدوجرح فرض ہے۔ اس میں کوتاہی بہت بڑے فتنے کا سبب ہے، اس لیے جان بوجھ کر اس میں کوتاہی بہت بڑا گناہ ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86

امام مسلم نے واضح کیا کہ جن لوگوں نے اپنی مصلحتوں کے پیش نظر نقد رواۃ کے اس عمل کو غیبت سے ملانے کی کوشش کی ہے وہ گمراہی کا شکار ہیں۔ خبر لانے والوں کے بارے میں تحقیق و تفتیش کا حکم خود اللہ تبارک تعالیٰ نے دیا ہے اور ہم اسے ماننے اور عمل کرنے کے مکّلف ہیں۔ یہ بات غیبت کیسے ہو سکتی ہے؟
محدثین کرام چونکہ امت کے محتاط ترین لوگ ہیں، اس لیے انہوں نے نقدو جرحِ رواۃ کو ایک منضبط علم کی حیثیت دی ہے۔ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ نقد وجرح کا موضوع کوئی اور شخص نہیں ہو سکتا، صرف اس کے بارے میں چھان پھٹک کی جائے گی جو حدیث و سنت کا راوی ہے۔

اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ جرح کرنے والا خود انتہائی محتاط ہو،تقویٰ سے متصف ہو،کسی راوی کی طرف کوئی مثبت یا منفی بات منسوب کرتے ہوئے کسی تساہل کا شکار نہ ہو نہ کسی عدم اعتماد کا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا پورا احساس ہو۔ اسے پتا ہو کہ اس یے مکمل دیانت سے کام نہ لیا یا پوری احتیاط نہ کی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی احادیث کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ہو گا۔اس کی بے احتیاطی یا غفلت و تساہل سے کوئی ضعیف حدیث صحیح قرار دے دی جائے گی یا کسی صحیح حدیث کو ضعیف سمجھ لیا جائے گا۔


 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86

اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اگر جرح کرنے والا غیر محتاط ہے تو ماہرین حدیث کا فرض ہے کہ اس کی جرح کو قبول نہ کریں نہ ہی اسے آگے بیان کریں۔ جرح کرنے والا
اگر سچ کہے تو قبول ہو گا، اگر جان بوجھ کر غلط بیانی کرے تو خود مجروح ہو گا۔اس کی اصل حیثیت خبر دینے والے کی ہے، اس لیے اگر وہ سچا ہے تو اس اکیلے کی دی ہوئی خبر قابلِ قبول ہو گی۔


اس بات میں اختلاف ہے کہ جرح کا سبب تفصیل سے ذکر کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک ضروری ہے۔قاضی ابو بکر باقلانی اسے شرط قرار نہیں دیتے۔ بعض علماء کا موقف یہ ہے کہ اسباب ضعف میں جس کی مہارت مسّلم ہے اس کے لیے شرط نہیں، دوسروں کے لیے شرط ہے۔ اسباب بیان کیے بغیر اس مطلق جرح کا فائدہ یہ ہے کہ ایسی روایت سے استدلال اور استنباط روک کر پہلے اس کی تحقیق کر لی جائے۔ بعض علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے۔

یہ نقطہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صحیحین کے بعض راویوں پر متقدمین نے جرح کی ہے لیکن بعد ازاں ثابت یہی ہوا ہے کہ عام صحیح علمی پیمانوں کے مطابق پرکھنے کے بعد ان کی جرح صحیح ثابت نہیں ہوئی۔

اگر جرح وتعدیل میں اختلاف ہو تو ترجیح کا دارومدار مزید تحقیق اور جرح و تعدیل کے زیادہ محتاط ماہرین کی رائے کے ساتھ موافقت پر ہو گا۔ فیصلہ نہ ہو سکے تو احتیاط یہی ہے کہ جرح کو تعدیل پر ترجیح دی جائے۔

امام مسلم نے امام شعبی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ انہوں نے کسی راوی کو کاذب یا متہم کہنے کے بعد بھی اس سے روایت بیان کی۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟


ایسی روایات کبھی تو اس لیے بیان کی جاتی ہیں کہ ان کی حیثیت اور وجہ ضعف کو ریکارڈ پر لایا جا سکے اور آئندہ التباس نہ ہو۔ بعض کم درجے کی ضعیف روایات تائید وغیرہ کے کام آتی ہیں، اکیلی ایسی کسی روایت سے استدلال نہیں کیا جا تا۔

کئی ایسے بھی راوی ضعیف راوی ہوتے ہیں جن کی بعض لوگوں سے یا عمر کے کسی خاص حصے تک روایات صحیح ہوتی ہیں، ان کی تمام روایات قلم بند کر لی جاتی ہیں، پھر تحقیق کے بعد صحیح اور ضعیف کی نشاندہی کر دی جاتی ہے۔ بعض محدثین ترغیب و ترہیب اور فضائل کے حوالے سے نرمی کے قائل ہیں ۔موضوع یا شدید ضعیف روایات کی کوئی اجازت نہیں دیتا۔ کہا جاتا ہے کہ مثلا: جن اعمال کا ثبوت صحیح احادیث میں موجود ہے ان کے ایسے فضائل جو ہر طرح کی شناعت سے پاک ہوں،بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس بات پر سب محدثین کا اتفاق ہے کہ ایسی احادیث سے فقہی معاملات پر کسی طرح کا فقہی استدلال جائز نہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
امام مسلم نے جو مثالیں دی ہیں ان کے ذریعے سے انہوں نے وضع حدیث،کذب اور دوسری قسم کے ضعف کی نوعیتیں بیان کر دی ہیں، کچھ راوی جان بوجھ کر جھوٹ گھڑتے ہیں، ان میں دین کے دشمن زندیق،اپنے نظریات اور پسندیدہ اعمال کی ترویج کے شائق گمراہ یا سادہ لوح صالحین، اپنے علم کا رعب گانٹھنے والے دنیا داروں سے منفعت حاصل کرنے والے فاسق شامل ہیں۔

کچھ متن میں جھوٹ بولتے یا شامل کرتے ہیں، کچھ سندوں میں اور کچھ دونوں میں وضع،کذب و افتراء سے کام لیتے ہیں، ایسے لوگوں کی حدیث قابل قبول نہیں بلکہ محتاط محدثین کے نزدیک توبہ کے بعد بھی ان کی روایات ناقابل قبول رہیں گی۔

ضعیف راویوں کی ایک قسم وہ بھی ہے کہ اگرچہ ان سے حدیث کے معاملے میں کوئی جھوٹ ثابت نہیں ہوا لیکن زندگی کے دوسرے عام معاملات میں جھوٹ بولتے ہیں، اس لیے ان کی روایات بھی ناقابل قبول ہیں، البتہ جن لوگوں سے شاذ و نادر بشری کمزوری کی بنا پر کبھی جھوٹ کا ارتکاب ثابت ہوا، بعض محدثین کے نزدیک ان کی سچی توبہ کے بعد ین سے حدیث لی جا سکتی ہے۔

امام مسلم نے اس بحث کے آخر میں ضعیف روایات کے انبار لگانے والے جن لوگوں کی تردید کی ہے ان سے مراد وہی لوگ ہیں جو محض اپنے علم و فضل کا رعب جمانے کے لیے صحیح و ضعیف کا امتیاز ظاہر کیے بغیر رطب و یابس کو بیان کر دیتے ہیں اور لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بولے گئے جھٹ پھیلانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ العیاذ با للہ
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
باب- 6 لفظ عن کے ذریعے سے روایت کردہ حدیث حجت ہے بشرطیکہ راویوں کی ملاقات ممکن ہو اور ان میں سے کوئی راوی مدلس نہ ہو۔

وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ مُنْتَحِلِي الْحَدِيثِ مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا فِي تَصْحِيحِ الأَسَانِيدِ وَتَسْقِيمِهَا بِقَوْلٍ لَوْ ضَرَبْنَا عَنْ حِكَايَتِهِ وَذِكْرِ فَسَادِهِ صَفْحًا لَكَانَ رَأْيًا مَتِينًا وَمَذْهَبًا صَحِيحًا. إِذِ الإِعْرَاضُ عَنِ الْقَوْلِ الْمُطَّرَحِ أَحْرَى لإِمَاتَتِهِ وَإِخْمَالِ ذِكْرِ قَائِلِهِ وَأَجْدَرُ أَنْ لاَ يَكُونَ ذَلِكَ تَنْبِيهًا لِلْجُهَّالِ عَلَيْهِ غَيْرَ أَنَّا لَمَّا تَخَوَّفْنَا مِنْ شُرُورِ الْعَوَاقِبِ وَاغْتِرَارِ الْجَهَلَةِ بِمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ وَإِسْرَاعِهِمْ إِلَى اعْتِقَادِ خَطَإِ الْمُخْطِئِينَ وَالأَقْوَالِ السَّاقِطَةِ عِنْدَ الْعُلَمَاءِ رَأَيْنَا الْكَشْفَ عَنْ فَسَادِ قَوْلِهِ وَرَدَّ مَقَالَتِهِ بِقَدْرِ مَا يَلِيقُ بِهَا مِنَ الرَّدِّ أَجْدَى عَلَى الأَنَامِ وَأَحْمَدَ لِلْعَاقِبَةِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.

علم حدیث سے انتساب کا دعویٰ کرنے والے ہمارے ایک ہم عصر نے اسناد کو صحیح اور ضعیف ٹھہرانے کے معاملے میں ایسی باتیں کہی ہیں کہ اگر ہم انہیں نقل کرنے اور ان کے غلط ہونے کے ذکر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیں تو یہ (بذات خود) ایک مضبوط رائے اور صحیح موقف ہو گا۔وجہ یہ ہے کہ ناقابل قبول بات سے مکمل اعراض کرنا اس رائے کو اس کی موت کے حوالے کر دینے اور اس کے کہنے والے کی گمنامی کے لیے زیادہ مناسب (لائحہ عمل ہے) اور اس (مقصد کے حصول کے لیے) زیادہ مفید ہے کہ (اس کا ذکر کرنا) جاہلوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا سبب نہ بنے۔ اس کے بر عکس کب ہمیں اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اس کے نتائج برے ہو سکتے ہیں ، حقائق سے لاعلم لوگ نئی نکالی گئی باتوں کے دھوکے میں آ سکتے ہیں اور وہ جلد بازی میں غلط باتیں کرنے والوں کی غلطیوں اور ایسے اقوال کے معتقد ہو سکتے ہیں گو اہل علم کے ہاں ساقط الاعتبار ہیں تو ہم نے رائے اپنائی کہ ایسے انسان کی بات کی خرابی کو ظاہر کرنا اور اس کی اتنی تردید جتنی ضروری ہے، لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ بخش اور نتائج کے اعتبار سے (زیادہ) قابلِ تعریف ہو گی۔ ان شا ء اللہ
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
وَزَعَمَ الْقَائِلُ الَّذِي افْتَتَحْنَا الْكَلاَمَ عَلَى الْحِكَايَةِ عَنْ قَوْلِهِ وَالإِخْبَارِ عَنْ سُوءِ رَوِيَّتِهِ أَنَّ كُلَّ إِسْنَادٍ لِحَدِيثٍ فِيهِ فُلاَنٌ عَنْ فُلاَنٍ وَقَدْ أَحَاطَ الْعِلْمُ بِأَنَّهُمَا قَدْ كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ وَجَائِزٌ أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَى الرَّاوِي عَمَّنْ رَوَى عَنْهُ قَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ وَشَافَهَهُ بِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لاَ نَعْلَمُ لَهُ مِنْهُ سَمَاعًا وَلَمْ نَجِدْ فِي شيء مِنَ الرِّوَايَاتِ أَنَّهُمَا الْتَقَيَا قَطُّ أَوْ تَشَافَهَا بِحَدِيثٍ- أَنَّ الْحُجَّةَ لاَ تَقُومُ عِنْدَهُ بِكُلِّ خَبَرٍ جَاءَ هَذَا الْمَجِيءَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَهُ الْعِلْمُ- بِأَنَّهُمَا قَدِ اجْتَمَعَا مِنْ دَهْرِهِمَا مَرَّةً فَصَاعِدًا أَوْ تَشَافَهَا بِالْحَدِيثِ بَيْنَهُمَا أَوْ يَرِدَ خَبَرٌ فِيهِ بَيَانُ اجْتِمَاعِهِمَا وَتَلاَقِيهِمَا مَرَّةً مِنْ دَهْرِهِمَا فَمَا فَوْقَهَا. فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ عِلْمُ ذَلِكَ وَلَمْ تَأْتِ رِوَايَةٌ صَحِيحَةٌ تُخْبِرُ أَنَّ هَذَا الرَّاوِيَ عَنْ صَاحِبِهِ قَدْ لَقِيَهُ مَرَّةً وَسَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا- لَمْ يَكُنْ فِي نَقْلِهِ الْخَبَرَ عَمَّنْ رَوَى عَنْهُ ذَلِكَ وَالأَمْرُ كَمَا وَصَفْنَا حُجَّةٌ وَكَانَ الْخَبَرُ عِنْدَهُ مَوْقُوفًا حَتَّى يَرِدَ عَلَيْهِ سَمَاعُهُ مِنْهُ لِشَيْءٍ مِنَ الْحَدِيثِ. قَلَّ أَوْ كَثُرَ فِي رِوَايَةٍ مِثْلِ مَا وَرَدَ

ان صاحبِ قول کا، جن کا قول نقل کرکے اور جن کے غلط نقطہ نظر کی خبر دے کر ہم نے گفتگو کا آغاز کیا، خیال یہ ہے کہ حدیث کی ہر سند جس میں فلان عن فلان
(فلان نے فلان) سے کہہ کر روایت (کی گئی ) ہے اور یہ بات (بھی) احاطہ علم میں آچکی ہے کہ وہ دونوں ایک ہی زمانے میں تھے اور اس بات کا (بھی پورا) امکان ہے کہ روایت کرنے والے نے جس سے روایت سنی ہو گی اس سے روبرو ملاقات کی ہوگی لیکن ہم (قطیعت کے ساتھ) نہیں جانتے کہ اس نے (واقعتا اس روایت کو) اس سے سنا تھااور کسی روایت میں ہمیں یہ بھی نہیں ملا کہ وہ (دونوں واقعتا) کبھی آپس میں ملے تھے یا ایک دوسرے کو حدیث سے حدیث سنی سنائی تھی، تو اس صورت میں پہنچنے والی روایت سے اس کے لیے (جس تک وہ روایت پہینچی) حجت نہ قائم ہو گی یہاں تک کہ اس کے علم میں آ جائے کہ وہ دونوں اپنی پوری زندگی میں ایک یا زیادہ بار آپس میں ملے یا دونوں نے روبرو ایک دوسرے سے حدیث سنی اور سنائی یا (پھر کوئی ایسی) خبر مل جائے جس میں پوری زندگی میں ایک یا زیادہ بار دونوں کے ایک جگہ ہونے یا آپس میں ملنے کا ذکر ہو۔ اگر اسے اس بات کا علم نہ ہو اور کوئی صحیح روایت اس بات کی خبر دینے (اس تک) نہ پہنچی ہو کہ یہ راوی اپنے صاحب (استاد) سے (کم از کم) ایک بار ملا تھا اور اس سے کچھ سنا تھا، تو وہ اس شخص سے، جس سے اس نے روایت کی، خبر نقل کرنےمیں حجت نہ ہو گا (یعنی ایسا راوی یا ناقل اس قابل نہ ہو گا کہ اس طرح روایت کردہ حدیث کو حجت تسلیم کیا جا سکے)۔ (یہ) حدیث اس روایت کرنے والے تک موقوف ہو گی یہاں تک کہ اس کے پاس راوی کے (اپنے) استاد سے روایت میں سماع، کم ہو یا زیادہ، کی خبر نہ پہہنچ جائے، جس طرح بیان ہو چکا۔

فوائد و مسائل :
یہ قول جس کی امام مسلم تردید کر رہے ہیں، امام بخاری کے استاد علی بن مدینی کا ہے۔ امام نووی کے مطابق اس کی بنیاد یہ ہے کہ غیر مدلس راوی نے لفظ عن استعمال کرتے ہوئے، جس میں سماع کی تصریح نہیں، کوئی روایت بیان کی ہے اور اس بات کا ثبوت بھی مل گیا ہے کہ وہ دونوں ملے تھے تو اسے متصل روایت قرار دیا جائے گا کیونکہ جو راوی مدلس نہیں وہ لفظ عن سے جو حدیث روایت کرتے ہیں وہ سماع ہی کے ذریعہ سے حاصل کی گئی ہوتی ہے۔ یہی معمول ہے کہ غیر مدلس راوی سماع کی تعبیر عن سے کرتے ہیں، البتہ مدلسین لفظ عن استعمال کرتے ہوئے اپنا سماع مراد نہیں لیتے، اسی لیے محدثین نے شرط لگائی کہ مدلس راوی عن استعمال کرے تو یہ سند متصل نہیں سمجھی جائے گی۔ غیر مدلس کے بارے میں اگر ملاقات کا ثبوت مل جائے تو ظن غالب یہی ہو گا کہ سند متصل ہے۔ اس کے بر خلاف اگر ملاقات کا امکان موجود ہے لیکن ملاقات ثابت نہیں تو ظن غالب اتصال کا نہ ہو گا بلکہ یہ ایک ایسی سند ہو گی جس میں اتصال اور عدم اتصال دونوں کا یکساں گمان ہو گا۔ ایسی روایت غلط بیانی یا ضعف کی بنیاد پر نہیں بلکہ شک کی بنا پر ناقابل قبول ہو گی۔
(شرح صحیح مسلم للنووی:
1/183
امام مسلم نے اپنی صحیح کے لیے احادیث منتخب کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر ملحوظ رکھا ہے جس کے لیے انہوں نے بھرپور طریقے سے دلائل دیے ہیں۔ امام بخاری نے اگرچہ اپنے استاد
علی بن مدینی کی طرح غیر مدلس راویوں کے لیے ملاقات کے ثبوت کو شرط قرار نہیں دیا لیکن اپنی صحیح کے لیے معیار مقرر کرتے ہوئے اسے اپنے انتخاب کی شرط قرار دیا ہے۔ یہ
شرط احتیاط مزید کے زمرے میں آتی ہے۔ امام بخاری نے چونکہ اسے شرط قرار نہیں دیا ، اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ امام مسلم نے امام بخاری کے نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بنایا
ہے غلط ہے۔ امت نے امام مسلم کے معیار کو بھی قبول کیا، ان کی منتخب کردہ تمام احادیث کو صحیح گردانا اور امام بخاری کی شرط کو بھی، جنہوں نے اپنے استاد کی شرط صحت کو شرط
احتیاط کے طور پر اپنایا، کماحقہ وقعت دی اور بخاری کے معیار صحت کو بلند تر قرار دیا۔

 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
وَهَذَا الْقَوْلُ- يَرْحَمُكَ اللَّهُ- فِي الطَّعْنِ فِي الأَسَانِيدِ قَوْلٌ مُخْتَرَعٌ مُسْتَحْدَثٌ غَيْرُ مَسْبُوقٍ صَاحِبُهُ إِلَيْهِ وَلاَ مُسَاعِدَ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَيْهِ وَذَلِكَ أَنَّ الْقَوْلَ الشَّائِعَ الْمُتَّفَقَ عَلَيْهِ بَيْنَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالأَخْبَارِ وَالرِّوَايَاتِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا أَنَّ كُلَّ رَجُلٍ ثِقَةٍ رَوَى عَنْ مِثْلِهِ حَدِيثًا وَجَائِزٌ مُمْكِنٌ لَهُ لِقَاؤُهُ وَالسَّمَاعُ مِنْهُ لِكَوْنِهِمَا جَمِيعًا كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فِي خَبَرٍ قَطُّ أَنَّهُمَا اجْتَمَعَا وَلاَ تَشَافَهَا بِكَلاَمٍ فَالرِّوَايَةُ ثَابِتَةٌ وَالْحُجَّةُ بِهَا لاَزِمَةٌ إِلاَّ أَنْ يَكُونَ هُنَاكَ دَلاَلَةٌ بَيِّنَةٌ أَنَّ هَذَا الرَّاوِيَ لَمْ يَلْقَ مَنْ رَوَى عَنْهُ أَوْ لَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ شَيْئًا فَأَمَّا وَالأَمْرُ مُبْهَمٌ عَلَى الإِمْكَانِ الَّذِي فَسَّرْنَا فَالرِّوَايَةُ عَلَى السَّمَاعِ أَبَدًا حَتَّى تَكُونَ الدَّلاَلَةُ الَّتِي بَيَّنَّا.

اسانید (حدیث) میں طعن (اعتراض) کے بارے میں یہ قول، اللہ آپ پر رحم فرمائے، ایک من گھڑت (اور) نیا قول ہے۔ اس کے قائل سے پہلے یہ بات نہیں کہی گئی، اہل علم میں سے اس کی تائید نہیں کی گئی۔ (اصل) معاملہ یہ ہے کہ اخبار و روایات کے ماہر قدیم و جدید اہل علم کے درمیان مشہور اور متفق قول یہی ہے کہ ہر ثقہ انسان جس نے اپنے جیسے ثقہ سے روایت کی جن کا آپس میں ملنا اور ایک دوسرے سے سننا ممکن تھا اور وہ اس وجہ سے کہ دونوں ایک ہی عہد میں تھے، چاہے ہم تک اس بات کی حتمی خبر نہ پہنچی ہو کہ وہ ملے تھے اور رو برو گفتگو کی تھی تو (ان کی) روایت ثابت شدہ (متصور) ہو گی، حجت مانتے ہوئے اس سے استدلال کرنا لازمی ہو گا، سوائے اس کے کہ ایسی کوئی واضح دلیل موجود ہو کہ روایت کرنے والا اس سے نہیں ملا جس سے اس نے ورایت کی ہے یا اس سے کوئی حدیث نہیں سنی لیکن (معاملے میں ابہام کے باوجود) اس امکان کے مطابق جس کی وضاحت ہمیشہ سماع پر محمول ہو گی، سوائے اس کے کہ (نہ ملنے کی) ایسی دلیل میسر آجائے جس کی ہم نے وضاحت کی۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
فَيُقَالُ لِمُخْتَرِعِ هَذَا الْقَوْلِ الَّذِي وَصَفْنَا مَقَالَتَهُ أَوْ لِلذَّابِّ عَنْهُ قَدْ أَعْطَيْتَ فِي جُمْلَةِ قَوْلِكَ أَنَّ خَبَرَ الْوَاحِدِ الثِّقَةِ عَنِ الْوَاحِدِ الثِّقَةِ حُجَّةٌ يَلْزَمُ بِهِ الْعَمَلُ ثُمَّ أَدْخَلْتَ فِيهِ الشَّرْطَ بَعْدُ فَقُلْتَ حَتَّى نَعْلَمَ أَنَّهُمَا قَدْ كَانَا الْتَقَيَا مَرَّةً فَصَاعِدًا أَوْ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا فَهَلْ تَجِدُ هَذَا الشَّرْطَ الَّذِي اشْتَرَطْتَهُ عَنْ أَحَدٍ يَلْزَمُ قَوْلُهُ وَإِلاَّ فَهَلُمَّ دَلِيلاً عَلَى مَا زَعَمْتَ.

فَإِنِ ادَّعَى قَوْلَ أَحَدٍ مِنْ عُلَمَاءِ السَّلَفِ بِمَا زَعَمَ مِنْ إِدْخَالِ الشَّرِيطَةِ فِي تَثْبِيتِ الْخَبَرِ طُولِبَ بِهِ وَلَنْ يَجِدَ هُوَ وَلاَ غَيْرُهُ إِلَى إِيجَادِهِ سَبِيلاً وَإِنْ هُوَ ادَّعَى فِيمَا زَعَمَ دَلِيلاً يَحْتَجُّ بِهِ قِيلَ لَهُ وَمَا ذَاكَ الدَّلِيلُ فَإِنْ قَالَ قُلْتُهُ لأَنِّي وَجَدْتُ رُوَاةَ الأَخْبَارِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا يَرْوِي أَحَدُهُمْ عَنِ الآخَرِ الْحَدِيثَ وَلَمَّا يُعَايِنْهُ وَلاَ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا قَطُّ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمُ اسْتَجَازُوا رِوَايَةَ الْحَدِيثِ بَيْنَهُمْ هَكَذَا عَلَى الإِرْسَالِ مِنْ غَيْرِ سَمَاعٍ- وَالْمُرْسَلُ مِنَ الرِّوَايَاتِ فِي أَصْلِ قَوْلِنَا وَقَوْلِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالأَخْبَارِ لَيْسَ بِحُجَّةٍ- احْتَجْتُ لِمَا وَصَفْتُ مِنَ الْعِلَّةِ إِلَى الْبَحْثِ عَنْ سَمَاعِ رَاوِي كُلِّ خَبَرٍ عَنْ رَاوِيهِ فَإِذَا أَنَا هَجَمْتُ عَلَى سَمَاعِهِ مِنْهُ لأَدْنَى شيء ثَبَتَ عِنْدِي بِذَلِكَ جَمِيعُ مَا يَرْوِي عَنْهُ بَعْدُ فَإِنْ عَزَبَ عَنِّي مَعْرِفَةُ ذَلِكَ أَوْقَفْتُ الْخَبَرَ وَلَمْ يَكُنْ عِنْدِي مَوْضِعَ حُجَّةٍ لإِمْكَانِ الإِرْسَالِ فِيهِ.

جس قول کو ہم نے نقل کیا اس کے ایجاد کرنے والےیا اس کا دفاع کرنے والے سے یہ کہا جائے گا کہ آپ نے بھی مجموعی طور پر اپنی بات میں یہ تسلیم کر لیا کہ اکیلے ثقہ کی (دوسرے) اکیلے ثقہ سے روایت حجت ہے جس پر عمل کرنا لازمی ہے، اس کے بعد اسی بات میں آپ نے یہ شرط ڈال دی اور کہا کہ یہ اس وقت ہوگا جب معلوم ہو جائے کہ وہ دونوں ایک یا زیادہ بار ملے تھے اور اس (روایت کرنے والے) نے اس سے کچھ سنا تھا، تو کیا یہ شرط جو آپ نے لگائی ہے کسی ایسی ہستی کی طرف سے ملتی ہے جس کی بات ماننا لازمی ہو؟ اگر نہیں تو اپنے خیال کے بارے میں دلیل لائیے۔

اگروہ خبر (حدیث یا اثر) کے ثبوت کے لیے اپنے خیال کے مطابق شروط عائد کرنے کے بارے میں علمائے سلف میں سے کسی کے قول کا دعویٰ کریں تو ان سے یہ قول (پیش کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔وہ یا کوئی دوسرا ایسا قول پیش کرنے کی کوئی سبیل نہیں نکال سکے گا اور اگر اوہ اپنے خیال کے حق میں کسی دلیل کا دعویٰ کریں جس سے انہوں نے حجت پکڑی ہے تو (ان سے) کہا جائے گا: وہ دلیل کیا ہے؟ اگر وہ کہیں: میں یہ اس لیے کہتا ہوں کہ میں نے گزشتہ اور موجودہ زمانے اخبار (واحادیث) روایت کرنے والوں کو دیکھا ہے کہ ان میں کوئی راوی دوسرے سے اسے دیکھے یا کبھی اس سے (براہ راست) سنے بغیر روایت کرتا ہے، اس لیے جب میں نے دیکھا کہ ان لوگوں نے سماع کے بغیر ارسال کی شکل میں ایک دوسرے سے حدیث روایت کرنے کو جائز قرار دے رکھا ہے اور روایتوں میں (ایسی ) مرسل روایتیں ہمارے اور اہل علم کے قول کے مطابق حجت نہیں، تو اس سے میں نے اس علت کی بنا پر جو میں نے بیان کی، استدلال کیا ہے کہ ہر روایت کرنے والے کا اس سے سماع تلاش کیا جائے جس سے وہ روایت کرتا ہے۔ اگر میں اس کے اس (استاد) سے کسی کم از کم چیز کے سماع (کے ثبوت) کو پانے میں کامیاب ہو جاؤں تو اس کے بعد میرے نزدیک اس کی اس (اپنے استاد) سے کی گئی تمام روایات ثابت ہو جائیں گی۔ اگر اس (کم از کم سماع) کی معرفت مجھے حاصل نہ ہو سکی تو میں اس خبر ( کو قبول کرنے ) سے توقف کروں گا اور ارسال کے امکان کی وجہ سے یہ (روایات) میرے لیے قابل حجت نہیں ہوں گی۔
 
Top