خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 86
فَيُقَالُ لَهُ فَإِنْ كَانَتِ الْعِلَّةُ فِي تَضْعِيفِكَ الْخَبَرَ وَتَرْكِكَ الاِحْتِجَاجَ بِهِ إِمْكَانَ الإِرْسَالِ فِيهِ لَزِمَكَ أَنْ لاَ تُثْبِتَ إِسْنَادًا مُعَنْعَنًا حَتَّى تَرَى فِيهِ السَّمَاعَ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ?
تو (اس کے جواب میں) یہ کہا جائے گا: اگر آپ کی طرف سے (ایسی ) روایت کو ضعیف قرار دینے اور اس کو بطور حجت قبول نہ کرنے کی علت (یہ ہے کہ) اس میں ارسال کا امکان ہے تو پھر آپ پر لازم ہے کہ آپ لفظ عن سے بیان کردہ (کسی بھی) سند کو اول سے آخر تک سماع (کا ثبوت) دیکھے بغیر ثابت شدہ قرار نہ دیں۔
وَذَلِكَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْوَارِدَ عَلَيْنَا بِإِسْنَادِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ فَبِيَقِينٍ نَعْلَمُ أَنَّ هِشَامًا قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ وَأَنَّ أَبَاهُ قَدْ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ كَمَا نَعْلَمُ أَنَّ عَائِشَةَ قَدْ سَمِعَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ يَجُوزُ إِذَا لَمْ يَقُلْ هِشَامٌ فِي رِوَايَةٍ يَرْوِيهَا عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتُ أَوْ أَخْبَرَنِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَبِيهِ فِي تِلْكَ الرِّوَايَةِ إِنْسَانٌ آخَرُ أَخْبَرَهُ بِهَا عَنْ أَبِيهِ وَلَمْ يَسْمَعْهَا هُوَ مِنْ أَبِيهِ لَمَّا أَحَبَّ أَنْ يَرْوِيَهَا مُرْسَلاً وَلاَ يُسْنِدَهَا إِلَى مَنْ سَمِعَهَا مِنْهُ
وَكَمَا يُمْكِنُ ذَلِكَ فِي هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ أَيْضًا مُمْكِنٌ فِي أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ. وَكَذَلِكَ كُلُّ إِسْنَادٍ لِحَدِيثٍ لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ سَمَاعِ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ
اور وہ اس طرح ہے کہ ہمارے سامنے جو حدیث ہشام بن عروہ کی اپنے والد سے (اور ان کی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آئے تو ہم یقین سے جانتے ہیں کہ ہشام نے اپنے والد سے (احادیث) کا سماع کیا اور یہ کہ ان کے والد نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے احادیث سنیں جس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ سیدہ عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ اور کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے (خصوصا اس وقت) جب ہشام نے (اپنے والد سے بیان کی گئی روایت میں) "میں نے سنا" یا "انہوں نے مجھے خبر دی" (کے الفاظ) نہ کہے ہوں کہ اس کے اور اس کے والد کے درمیان کوئی اور انسان (بطور راوی) موجود ہو جس نے اس کے والد سے (سن کر) اسے خبر دی ہو اور اس نے خود وہ روایت اپنے والد سے نہ سنی ہو۔ (ایسا اس وقت ہوا ہو) جب اس (ہشام) نے اسے مرسل ہی روایت کرنا پسند کیا ہو اور اس کا اسناد اس شخص کی طرف نہ کیا ہو جس سے (اصل میں) اس نے روایت سنی تھی اور جیسے یہ ہشام کی اپنے والد سے روایت میں ممکن ہے اسی طرح اس کے والد کی سیدہ عائشہ سے روایت میں بھی (ایسا) ممکن ہے، اسی طرح ہر حدیث کی سند میں جہاں ایک کے دوسرے سے سماع کا ذکر نہ ہو (یہ احتمال موجود ہے)
تو (اس کے جواب میں) یہ کہا جائے گا: اگر آپ کی طرف سے (ایسی ) روایت کو ضعیف قرار دینے اور اس کو بطور حجت قبول نہ کرنے کی علت (یہ ہے کہ) اس میں ارسال کا امکان ہے تو پھر آپ پر لازم ہے کہ آپ لفظ عن سے بیان کردہ (کسی بھی) سند کو اول سے آخر تک سماع (کا ثبوت) دیکھے بغیر ثابت شدہ قرار نہ دیں۔
وَذَلِكَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْوَارِدَ عَلَيْنَا بِإِسْنَادِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ فَبِيَقِينٍ نَعْلَمُ أَنَّ هِشَامًا قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ وَأَنَّ أَبَاهُ قَدْ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ كَمَا نَعْلَمُ أَنَّ عَائِشَةَ قَدْ سَمِعَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ يَجُوزُ إِذَا لَمْ يَقُلْ هِشَامٌ فِي رِوَايَةٍ يَرْوِيهَا عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتُ أَوْ أَخْبَرَنِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَبِيهِ فِي تِلْكَ الرِّوَايَةِ إِنْسَانٌ آخَرُ أَخْبَرَهُ بِهَا عَنْ أَبِيهِ وَلَمْ يَسْمَعْهَا هُوَ مِنْ أَبِيهِ لَمَّا أَحَبَّ أَنْ يَرْوِيَهَا مُرْسَلاً وَلاَ يُسْنِدَهَا إِلَى مَنْ سَمِعَهَا مِنْهُ
وَكَمَا يُمْكِنُ ذَلِكَ فِي هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ أَيْضًا مُمْكِنٌ فِي أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ. وَكَذَلِكَ كُلُّ إِسْنَادٍ لِحَدِيثٍ لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ سَمَاعِ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ
اور وہ اس طرح ہے کہ ہمارے سامنے جو حدیث ہشام بن عروہ کی اپنے والد سے (اور ان کی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آئے تو ہم یقین سے جانتے ہیں کہ ہشام نے اپنے والد سے (احادیث) کا سماع کیا اور یہ کہ ان کے والد نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے احادیث سنیں جس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ سیدہ عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ اور کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے (خصوصا اس وقت) جب ہشام نے (اپنے والد سے بیان کی گئی روایت میں) "میں نے سنا" یا "انہوں نے مجھے خبر دی" (کے الفاظ) نہ کہے ہوں کہ اس کے اور اس کے والد کے درمیان کوئی اور انسان (بطور راوی) موجود ہو جس نے اس کے والد سے (سن کر) اسے خبر دی ہو اور اس نے خود وہ روایت اپنے والد سے نہ سنی ہو۔ (ایسا اس وقت ہوا ہو) جب اس (ہشام) نے اسے مرسل ہی روایت کرنا پسند کیا ہو اور اس کا اسناد اس شخص کی طرف نہ کیا ہو جس سے (اصل میں) اس نے روایت سنی تھی اور جیسے یہ ہشام کی اپنے والد سے روایت میں ممکن ہے اسی طرح اس کے والد کی سیدہ عائشہ سے روایت میں بھی (ایسا) ممکن ہے، اسی طرح ہر حدیث کی سند میں جہاں ایک کے دوسرے سے سماع کا ذکر نہ ہو (یہ احتمال موجود ہے)