اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے
الانبیاء : 105
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اگر مقصود دوسروں کو مغالطہ دینا ہی ہو اور ظاہری الفاظ کو غلط مقاصد اور غلط مفاہیم کا لباس پہنا کر مطلب برآوری مقصود ہو تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے جو بہرام صاحب نکال رہے ہیں۔
اگر ہر جگہ وارث کا معنیٰ وہی ہے جو ’اللہ وارث‘ کا معنیٰ ہے تو پھر بہرام کے مطابق حدیث مبارکہ
العلماء ورثة الأنبياء کا معنیٰ ہوگا کہ جس طرح اللہ تمام لوگوں کے نگہبان، حاجت روا ہیں، اس طرح
علماء انبیاء کے نگہبان، مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ کیا بہرام صاحب کے نزدیک یہ معنیٰ صحیح ہے؟؟؟
حقیقت یہ ہے کہ لفظ وارث کے کئی معنی ہیں، جن میں بعض حسبِ ذیل ہیں:
1. ایک چیز ہے کہ اللہ وارث، نبی وارث، وغیرہ وغیرہ اس سے مراد نگہبان، مدد گار، مشکل کشا ہونا، خدائی اختیارات کے مطابق حامی وناصر ہونا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کیلئے ثابت کرنا شرک اکبر ہے۔
2. دوسری چیز ہے کہ کسی کو فوت شدہ سے کوئی مال، صلاحیت یا منصب منتقل ہوجائے۔ جیسے اولاد ماں باپ سے مال وراثت میں لیتی ہے اور کئی مرتبہ اچھی عادات اور صلاحتیں بھی۔
وورث سليمان داؤد سے مراد نبوی وراثت ہے۔
العلماء ورثة الأنبياء سے مراد دعوتی فریضہ اور فریضۂ امر بالمعروف اور نہی المنکر کی وراثت ہے۔ وغیرہ وغیرہ
3. اس کا ایک تیسرا معنیٰ زمین کا وارث ہونا بمعنیٰ کسی جگہ پر غالب ہونا، فتح حاصل کرنا ہے۔ آيت کریمہ
﴿ ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصلحون ﴾ میں یہ اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ اسی معنیٰ میں اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات بھی ہیں:
﴿ كتب الله لأغلبن أنا ورسلي ﴾، ﴿ فأوحى إليهم ربهم لنهلكن الظلمين * ولنسكننكم الأرض من بعدهم ﴾ ، ﴿ وعد الله ءامنوا منكم وعملوا الصلحت ليستخلفنهم في الأرض كما استخلف الذين من قبلهم ... ﴾ وغيرها من الآيات