کہتے ہیں کہ نائی دیگ کے چند چاول چکھ کے بتا دیتا ہے کہ چاول پک گئے کہ نہیں
اس کی تفیسر طبری میں ایک بھی صحیح تو کجا حسن درجہ کی سند بھی نہیں ہے ابن جریر رحمہ اللہ نے اگلی آیت کا بیان شروع کرنے سے قبل لکھا ہے و ذکر صیغہ مجھول کے ساتھ
بہر کیف جسے آل دیوبند سند صحیح سمجھتے ہیں ان سے گزارش کیجیئے کہ اس کا تعین کریں کہ وہاں ایک سے زائد سندیں ہیں لیکن ہیں سب ضعیف ہیں
سائنس کی حدود:
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾
تفسیر
آیت کریمہ میں لفظ”ثم“ ترتیب اور تقدیم وتاخیر ظاہر کرنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ صرف فرق زمانی ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، البقرة تحت آیة رقم:29)
”اسْتَوَی“ کے صلے میں جب ”إلی“ استعمال ہو تو اس کا معنی قصد اور توجہ ہوتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرة تحت آیة رقم:29)
لہٰذا آیت کریمہ کا معنی ہوا کہ الله تعالیٰ نے آسمان کی تخلیق کا قصد فرمایا۔ ( تفسیر المدارک، البقرة تحت آیة، رقم:29)
آسمان سے کیا مراد ہے؟
اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ ”السَّمَاء“ کا لفظ قرآن کریم میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، مثلاً چھت کے لیے﴿ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاء﴾ (الحج:15) یعنی إلی سقف البیت․
بادلوں کے معنی میں﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً﴾ (المؤمنون:18)
یعنی من السحاب․ ( الوجوہ والنظائر لکتاب الله العزیز، باب السین، ص:272، بیروت)
لیکن آیت کریمہ ﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾میں سات آسمانوں سے کیا مراد ہے؟ آسمان کوئی وجود رکھتا ہے یا صرف خلا کا نام آسمان ہے؟ آسمان کے بارے میں کتنی آرا ہیں؟ اور ان کی علمی اور شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہاں اسی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پہلی رائے: کائنات کے حقائق کو صرف سائنس کی نظر سے دیکھنے والے سائنس دان او ران کے ہم نواؤں کی رائے یہ ہے کہ آسمان اسی خلا کا نام ہے جو تاحد نظر پھیلا ہوا ہے، اس طبقے کے مفسر سرسید اسی رائے کو درست قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” اس مقام پر سماء کے لفظ سے وہ وسعت مراد ہے جو ہر شخص اپنے سر کے اوپر دیکھتا ہے ، پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس وسعت کی طرف متوجہ ہوا جو انسان کے سر پر بلند دکھائی دیتی ہے اور ٹھیک اس کو سات بلندیاں کر دیں ۔ “( تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، البقرہ تحت آیة رقم:29)
اس رائے پہ اشکال ہوا کہ اس وسعت پر سات کے عدد کا اطلاق کس ضرورت کے پیش نظر ہوا ؟ سر سید اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”اس زمانے کے لوگ جو بلحاظ سبع سیارات یہ سمجھتے تھے کہ آسماں سات ہیں ، انہیں لوگوں کے خیال کے مطابق سات کے لفظ کا اطلاق ہوا ہے۔“ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان: البقرہ تحت آیة رقم:29)
دوسری رائے: یہ ہے کہ آسمان سے اجرام علویہ ( ستارے کواکب) مراد ہیں، اس تفسیر پر بھی اشکال ہوا کہ اجرام علویہ ( ستارے وغیرہ) کی تعداد تو اس قدر زیادہ ہے کہ انہیں شمار میں نہیں لایا جاسکتا ، پھر قرآن کریم میں﴿فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾ فرماکر انہیں سات کے عدد کے اند ر کیوں محدود کر دیا ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ سات کا عدد تحدید کے لیے نہیں،بلکہ ستاروں کی کثرت ظاہر کرنے کے لیے لایا گیا ہے ، جس طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر سات سمندروں سے کثرت سمندر مراد لیے گئے ہیں ۔ ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِیْ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ﴾․ (لقمان:27)
ترجمہ: ”او راگر جتنے درخت ہیں زمین میں قلم ہوں اور سمندر ہو اس کی سیاہی، اس کے پیچھے ہوں سات سمندر، نہ تمام ہوں باتیں الله کی۔“
تیسری رائے: علمائے ہیئت اور حکمائے یونان کی ہے کہ افلاک کی تعداد نو ہے یونانی حکمت کی کتابیں جب عربی میں ترجمہ ہو کر آئیں تو علمائے ہیئت نے نہ صرف انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، بلکہ اسلامی علوم اور یونانی حکمت میں موافقت پیدا کرنے کی غرض سے یہ دعوی بھی کر ڈلا کہ آسمان کی تعداد نو ہے ، چناں چہ ہماری حکمت کی کتابوں ( شرح چغمینی وغیرہ) میں یہ قول ایک مسلم دعوی کے طور پر مذکور ہے، سات آسمان تو وہی جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے باقی دو عرش اور کرسی ہیں ، جنہیں آسمان قرارا دے کر آسمان کی تعداد نو کر دی گئی ، علمائے ہیئت آسمان او رافلاک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں۔
اس رائے پر بھی اشکال ہوا کہ قرآن کریم میں تو آسمانوں کی تعداد سات بتائی گئی ہے پھر آسمان نو کیسے ہوئے ؟ علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمہ الله نے اس کا جواب دیا کہ گو قرآن کریم میں سات کے عدد کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، لیکن اس سے زائد عدد کی نفی کہاں ثابت ہوئی؟
پہلی رائے پر ایک نظر: سائنس صرف اس چیز کو تسلیم کرتی ہے جو مشاہدات، تجربات اور عقلی دلائل سے اپنا وجود منواسکے، سائنسی عقائد میں ایمان بالغیب کی حیثیت ایک لطیفے سے زیادہ نہیں(اس کی تفصیلی بحث مقدمے میں دیکھیے) اور اسلام نے جس آسماں کا تصور دیا ہے وہ تاحال مشاہدے میں نہیں آیا اس لیے سائنس دانوں نے خلاء ہی کو آسمان قرار دیا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سائنس کے ظنی فنون کو وحی الہٰی میں دخل اندازی کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟ سائنس کی محدود معلومات ومشاہدات کا عالم تو یہ ہے کہ خود ان کے بیان کے مطابق ”ان کی نظر دیوقامت عظیم ترین دور بینوں کے ذریعے بھی صرف دس کھرب میل نوری سال کے فاصلے تک پہنچ سکی ہے ۔“ (خلاصہ تفسیر القرآن، باب اول:101/1)
اور اجرام فلکی اس سے بھی آگے ہیں او رساتوں آسمان تو ان سے بھی بلند وبالا ہیں ، اگر سائنس اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود آسمان کا مشاہدہ نہ کر سکی تو اس میں قصور اور عاجزی سائنس کی ہے ؟ یا وحی کی ؟
البتہ جو لوگ وحی پر ایمان ویقین ہی نہ رکھتے ہوں ان سے اس بات پر گفتگو کرنا بے سود ہے۔
دوسری رائے پر ایک نظر: آسمان سے اجرام فلکیہ (سیارے) مراد لینا دو وجہ سے درست نہیں۔
1...قرآن کریم نے اجرام فلکیہ کو پہلے آسماں کی زینت قرار دیا ہے ﴿ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾․ (الملک:5)
ترجمہ:” اور ہم نے رونق دی سب سے ورلے آسماں کو چراغوں سے۔“
2...﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾․ (الصف:6)
ترجمہ:” ہم نے رونق دی ( سب سے) ورلے آسماں کو ایک رونق جوتارے ہیں۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اجرام فلکیہ (ستارے وغیرہ) اور آسماں دو جدا جدا چیزیں ہیں، انہیں ایک قرار دینا درست نہیں۔اجرام فلکیہ لاتعداد اور بے شمار ہیں اور آسمانوں کے بارے میں قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ وہ سات ہیں﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَات﴾․
”پھر قصد کیا آسماں کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان“
﴿فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِیْ یَوْمَیْْن﴾․(فصلت:12)
”پھر کر دیے وہ سات آسمان دو دن میں ۔“
﴿اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُن﴾․ (الطلاق:12)
ترجمہ:”الله وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان او رزمینیں بھی اتنی ہیں۔“
﴿الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً﴾․(الملک:3)
ترجمہ: ”جس نے بنائے سات آسماں تہ پر تہ۔“
مذکورہ آیات میں جس قدر تکرار او راہتمام کے ساتھ آسمانوں کی تعداد بیان کی گئی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں عدد بیان کرنے کا مقصد آسمانوں کی محدود تعداد کااظہار ہے ، نیز اہل زبان نے بھی یہی مطلب سمجھا، لہٰذا صرف ایک عقلی احتمال کی بنا پر ”عدد“ کو کثرت آسمان کی دلیل بنانا کس طرح درست ہو گا؟
تیسری رائے پر ایک نظر: تیسری رائے ان علمائے ہئیت کی تھی جو یونانی حکمت سے حدر درجہ متاثر تھے، فلسفہ اور شریعت کے کلام میں موافقت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے آسمان اورافلاک کو ایک ہی چیز شمارکرکے آسمانوں کی تعداد نو قرار دی، چناں چہ علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِمَصَابِیْح﴾ (الملک:5) کی تفسیر میں علمائے ہئیت کے اس موقف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
”وکون السماء، ھی الفلک، خلاف المعروف عن السلف، وانما ھو قول قالہ من أراد الجمع بین کلام الفلاسفة الأولی وکلام الشریعة، فشاع فی ما بین الاسلام، واعتقدہ من اعتقدہ․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
ترجمہ:” آسماں کو ہی فلک قرار دینا سلفِ صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ، یہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جنہوں نے متقدمین فلاسفہ اور شریعت کے کلام میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی، پھر یہی قول اہل اسلام میں پھیل گیا او رجس نے چاہا اسے عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا۔“
اب ذیل میں فلک کا مفہوم ذکر کیا جاتا ہے، جو آسمان کے مفہوم سے قطعی طور پر مختلف ہے۔
فلک کا مفہوم آسمان سے مختلف ہے۔
اصطلاح شریعت میں فلک ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں، چناں چہ علامہ راغب اصفہانی رحمہ الله لکھتے ہیں
”الفلک مجری الکواکب وتسمیتہ بذلک لکونہ کالفلک“․ ( مفردات القرآن للراغب، فلک: ص:432)
” فلک سے ستاروں کا مدار مراد ہے اور فلک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کشتی کی طرح گول ہے۔“
علامہ فخر الدین رازی رحمہ الله﴿وکل فی فلک یسبحون﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”الفلک فی کلام العرب کل شئيء دائرة، جمعہ أفلاک، واختلف العقلاء فیہ فقال بعضہم: الفلک لیس بجسم، وانما ھو مدار النجوم، وھو قول ضحاک“ ․ (التفسیر الکبیر، الانبیاء تحت آیة رقم:33)
اہل عرب کے محاورے میں ہر گول چیز کو فلک کہتے ہیں، اس کی جمع افلاک ہے ، فلاسفہ کا اس میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہفلک کوئی جسم نہیں رکھتا، درحقیقت یہ ستاروں کے مدار کو کہتے ہیں اور یہی ضحاک کا قول ہے۔ تفسیر کبیر کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ فلک ستاروں کا مدار ہے ۔
کمالین حاشیہ جلالین میں ہے۔
”… ان الفلک غیر السماء، قال الجمہور: الفلک موج مکفوف تحت السماء تجری فیہ الشمس والقمر والنجوم․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الأیة 33، حاشیہ:13)
فلک آسمان کے علاوہ ایک چیز ہے، جمہور علماء فرماتے ہیں کہ فلک آسمان کے نیچے ایک ٹھہری ہوئی موج کا نام ہے، جس میں سورج اور چاند ستارے تیرتے رہتے ہیں۔
مذکورہ عبارت سے صاف معلوم ہوا کہ فلک او رآسمان دو جدا جدا چیزیں ہیں ، نیز فلک آسمان کے نیچے ہے اور ستاروں کا مدار ہے ۔
حاشیہ کمالین میں علامہ عسقلانی رحمہ الله نے صاف لفظوں میں فرمایا:” السمٰوت السبع عند اہل الشرع غیر الأفلاک․“ (کمالین حاشیہ جلالین، الانبیاء، الایة 33، حاشیہ:13)
یعنی اہل شرع کے نزدیک سات آسمانوں سے افلاک مراد نہیں ہیں۔
علامہ آلوسی رحمہ الله ﴿إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنْیَا بِزِیْنَةٍ الْکَوَاکِب﴾ کی تفسیر میں فلک اور آسمان کی بحث کرتے ہوئے ان لوگوں کو خطاوار اور سلف صالحین کے موقف کا مخالف گردانا ہے جو آسمان اور فلک کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں ، چناں چہ لکھتے ہیں۔
” وقد اخطئوا فی ذلک، وخالفوا سلف الأمة فیہ، فالفلک غیر السماء“․ (روح المعانی، الصف، تحت آیة رقم:6)
” یہ آسمان اور فلک کوایک ہی چیز سمجھنے والے سر اسر غلط فہمی کا شکار ہیں او ران کا موقف سلف صالحین کے موقف سے میل نہیں کھاتا، فلک اور آسمان جدا جدا چیزیں ہیں۔“
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا علمائے ہیئت کا موقف کہ آسمان اور فلک ایک ہی چیز ہے ا وران کی تعداد نو ہے ، غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ علامہ آلوسی رحمہ الله تعالی نے ایسے لوگوں پر بہترین الفاظ میں تبصرہ کیا ہے ۔
”ان من تصدی لتطبیق الآیات والاخبار علی ما قالہ الفلاسفة مطلقاً فقد تصدی لأمر لایکاد یتم لہ، والله تعالیٰ ورسولہ أحق بالاتباع․“ (روح المعانی، الملک، تحت آیة رقم:5)
”آیات واحادیث اور فلاسفہ کے اقوال میں موافقت پیدا کرنے والا شخص کبھی اپنے مقصد میں بامراد نہیں ہوسکتا، اتباع کے لائق تو صرف الله تعالیٰ اور اس کے رسول ہی ہیں۔“
آسمان کا اسلامی تصور
آسمانوں کے اسلامی تصور کو اجاگر کرتے ہوئے علامہ عبدالحق حقانی دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”الہامی کتابوں بالخصوص قرآن مجید سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آسمان کوئی مجسم چیز ہے، جو قیامت کو پھٹ جائے گی، عام ہے کہ وہ کوئی جسم اور کسی قسم کا ہو، قال الله تعالی: ﴿إذا السماء انفطرت﴾ وقال: ﴿إذا السماء کشطت…﴾ کیوں کہ اگر آسمان فضا یا بُعد موہوم کا نام ہے، جیسا کہ بعض مقلدین یورپ کا قول ہے تو وہ ایک عدمی چیز ہے ، اس کا پھٹنا او راس کے چھلکوں یعنی طبقات کا اکھڑنا اور ا س کو پیدا کرنا او ربنانا جس طرح کہ زمین او راس کی چیزیں بنائیں یا اس کی کھڑکیاں کھلنا جس کا توراة میں ذکر ہے اوراس کو سقف محفوظ ( چھت) کہنا چہ معنی دارد؟۔ “( تفسیر حقانی، البقرہ: تحت آیة رقم:29)
خلاصہ کلام یہ ہے:
فلک اور آسمان دو مختلف چیزیں ہیں۔
فلک ، شمس وقمر اور سیاروں کا مدار ہے۔
فلک سے آسمان مراد لینا سلف صالحین کے معروف مسلک کے خلاف ہے ۔
سیاروں کے مدار فلک کو آسمان قرار دینے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یعنی فلک قمر کو آسمان اول ، فلک عطارد کو آسمان دوم، فلک زہراء کو آسمان سوم، فلک شمس کو آسمان چہارم ، فلک مریخ کو آسمان پنجم، فلک مشتری کو آسمان ششم اور فلک زحل کو آسمان ہفتم، فلک الثوابت کو آسمان ہشتم (عرش الہی) فلک الأفلاک کو آسمان نہم ( کرسی) قرار دینا شرعاً شدید ترین غلطی ہے ، کیوں کہ ساتوں آسمان تمام سیاروں، ستاروں او راجرام فلکی کے اوپر واقع ہیں۔
آسمانوں کی تعداد سات ہے۔
صفات متشابہات کی بحث:
﴿ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء﴾ کے ذیل میں بعض علماء نے صفات متشابہات کی بحث چھیڑی ہے، اس مناسبت سے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ اختصار کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے، اس موضوع پر تفصیلی مباحث اور سلف صالحین کا تفصیلی موقف جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں۔”القول التمام بإثبات التفویض مذھباً للسّلف الکرام“ مؤلف سیف بن علی․
﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․
اہل سنت والجماعت کا اجتماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ زمان ومکان کی حدود سے اور سمت وجہت کی قیود سے پاک اور منزّہ ہے (ولا محدود ولا معدود، ولا یوصف بالماھیة ولا بالکیفیة، ولا یتمکن فی مکان (إذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھة، لاعلو ولاسفل ولا غیرھما) ولا یجری علیہ زمان، العقائد النسفیة، ص:43، مع شرح التفتازانی)
وہ عرش کا محتاج ہے نہ فرش کا، عرش وکرسی کے وجود میں آنے سے پہلے وہ جس شان میں تھا اب بھی اسی شان میں ہے ۔
البتہ جہاں تک بحث قرآن وحدیث کے ان الفاظ کے متعلق ہے جو الله تعالیٰ کے لیے عرش پر قرار پکڑنے:﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش﴾․ (الاعراف، آیت:54)اور چہرہ:﴿وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّک﴾․ (الرحمن، آیت:27)ہاتھ:﴿ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ﴾․ (الفتح، آیت:10)آنکھ: ﴿وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِی﴾․ (طہ، آیت:39)پنڈلی:﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَن سَاق﴾․(القلم:42) وغیرہ ہونے پر دلالت کناں ہیں ، تو انہیں اسلاف نے صفات متشابہات قرار دے دیا ہے۔ کیوں کہ اگر انہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو تجسیم وتشبیہ کی راہیں کھلتی ہیں اور اگر صرف تنزیہ وتجرید کے تقاضے ملحوظ رکھے جائیں تو انکارِ صفات کے پہلو نکلتے ہیں۔
فرقہ مجسمہ اور مشبہہ نے تو ان صفات کے حقیقی معنی مراد لے کر تجسیم وتشبیہ کی تمام منزلیں طے کر ڈالیں اور برملا یہ دعویٰ کر دیا کہ الله تعالیٰ بھی اس طرح ہاتھ ، پاؤں رکھتے ہیں جس طرح ایک مخلوق رکھتی ہے۔ (شرح المقاصد، المقصد الخامس، 37/3)
اور آسمان وزمین کی تخلیق کے بعد اسی طرح عرش پر بیٹھے ہیں، جس طرح ایک بادشاہ ملکی امور کی انجام دہی کے بعد تختِ شاہی پر فروکش ہوتا ہے۔
دوسری طرف تنزیہ وتجرید کے علم بردار معتزلہ، معطلہ جہمیہ نے مذکورہ صفات کو توحید باری تعالیٰ کے منافی قرار دے کر انہیں مجازی معنی پر محمول کیا اورپھر اسی کو حرف آخر اور حتمی بھی قرار دیا ہے۔ ( التمہید لابن عبدالبر،145/7)
افراط وتفریط کی اس کش مکش میں اہل سنت والجماعت ہی ایسا گروہ تھا جو اعتدال کی راہ پر گام زن رہا اور سلف صالحین کے نقش قدم پہ چل کر تعبیر وتشریح کے اس پیچیدہ مقام سے باسلامت گزر گیا۔
اہل سنت والجماعت کا مسلک
متقدمین سلف صالحین کا موقف: متقدمین سلفِ صالحین کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات متشابہات قرآن وحدیث او راجماع امت سے ثابت ہیں ان کے متعلق بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ :
جو لفظ صفت باری پر دلالت کناں ہے اس کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ثابت ہے۔
اس لفظ سے اس کا ظاہری اور حقیقی معنی ہر گز مراد نہیں ۔
نیز ذات بار ی مخلوق کی مشابہات سے پاک ہے۔ (” نؤمن بأن الاستواء ثابت لہ تعالی( بمعنی یلیق بہ ھو سبحانہ اعلم بہ) کماجری علیہ السلف رضوان الله تعالیٰ علیہم فی المتشابہ من التنزیہ عمالا یلیق بجلال الله تعالیٰ مع تفویض علم معناہ إلیہ سبحانہ․“ المسایرہ شرح المسامرہ لابن الہمام، ص:45)․
” وانما یسلک فی ھذا المقام مذھب السلف الصالح، الأوزاعي والثوری واللیث بن سعد والشافعی وأحمد بن حنبل واسحاق بن راھویہ وغیرہم من أئمة المسلمین، قدیماً وحدیثاً، وھو إمرار،کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل، والظاہر المتبادر إلی اذھان المشبھین منفی عن الله، فإن الله لا یشبہہ شيء من خلقہ․“ ( تفسیر ابن کثیر، الاعراف، تحت آیت: رقم:54)
یہ اہل سنت کا مسلمہ موقف ہے جس پر چندد لائل پیش خدمت ہیں۔
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے ﴿الرحمن عَلَی الْعَرْش اسْتَوَی﴾ کی تلاوت کرکے یہی سوال اٹھایا کہ الله تعالیٰ کا استوا کیسا ہے ؟ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے ایک لمحہ سوچ کر ارشاد فرمایا یہ استوا ایسا ہی ہے جیسا الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اپنے بارے میں بیان فرما دیا ہے ۔ الرحمن ( یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے) اس کی کوئی کیفیت نہیں ( کیوں کہ یہ جسم کی خصوصیت ہے) اس لیے یہاں کیفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (”فقال: (الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ․ ولا یقال کیف، وکیف عنہ مرفوع․“(الدرالمنثور، لابن الجوزی، الاعراف، تحت آیة رقم:54) (ھکذا فی کتاب الاسماء والصفات للإمام البیہقی، ص:408)
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے اپنے جواب میں اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے کہ استوی بار ی تعالیٰ کی متشابہہ المعنی صفت ہے، لہٰذا صفت استویٰ کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اس کے معنی ومراد پر لب کشائی سے گریز کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے اہل سنت استوی کی تشریح مایلیق بہ ( ایسا استوی جو اس کے شایان شان ہے) سے کر دیتے ہیں۔
امام ترمذی رحمہ الله اپنی سنن میں صفات متشابہات کے متعلق جمہور اہل سنت کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان صفات پر صدق دل سے ایمان لاکر اس کی کوئی تفسیر نہ کی جائے، بلکہ ایسا وہم بھی نہ لایا جائے جس سے تجسیم وتشبیہ کا اشارہ نکلتا ہو ، ائمہ اہل سنت سفیان الثوری، مالک بن انس، عبدالله بن المبارک وغیرہ سب کا یہی مسلک ہے ۔ (”والمذھب فی ھذا عند اھل العلم من الأئمة مثل سفیان الثوری ومالک ابن انس، وابن المبارک، وابن عینیة ووکیع وغیرہ… وھذا الذی اختارہ أھل الحدیث أن تروی ھذہ الأشیاء کما جاء ت ویؤمن بھا، ولا تفسر، ولا تتوھم، ولا یقال کیف…“․ (”سنن الترمذی، تحت حدیث، رقم:2557: مزید کتاب التفسیر سورہ المائدہ، رقم الحدیث:3045، باب ماجاء فی خلود)
قرآن وحدیث میں بارہا ید (ہاتھ) کا لفظ الله تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، جس پر علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فرمایا کہ اس (ید) سے وہ ہاتھ ہر گز مراد نہیں جس کا ذکر ہوتے ہی ہمارے دل ودماغ میں ایک جسمانی عضو کا تصور دوڑنے لگتا ہے ، بلکہ یہ ایک صفت باری تعالیٰ ہے ( جس کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ) لہٰذا اس صفت پر ایمان لا کر توقف اختیار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے ۔ (”ولیس الید عندنا الجارحة، إنما ھی صفة جاء بہ التوقیف، فنحن نطلقھا علی ماجاء ت، ولا نکیفھا، وھذا مذھب أھل السنة والجماعة․“ (فتح الباری لابن حجر، تحت حدیث رقم باب قول الله تعالیٰ: (تعرج الملٰئکة والروح إلیہ) رقم الحدیث:6993) امرارھا علی ماجاء ت مفوضا معناہ إلی الله تعالی… قال الطیبی: ھذا ھو المذھب المعتمد، وبہ یقول السلف الصالح․“ ( فتح الباری لابن حجر باب قول الله تعالیٰ ولتصنع علی عینی، رقم الحدیث:6972)
دیکھیے علامہ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ نے صفات متشابہات کے متعلق واضح فرما دیا ہے کہ یہ متشابہہ المعنی صفت ہے ، لہٰذا اس کی تلاوت پر اکتفا کرکے اس کے معنی ومراد کے درپے نہیں ہونا چاہیے۔
علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله اور سفیان بن عینیہ رحمہ الله کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :” کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ صفاتِ متشابہات کی تفسیر عربی یا عجمی زبان میں کرتا پھرے ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر ان سے گزر جانا ہی بس ان کی تفسیر ہے۔“ ( ”ما وصف الله تبارک وتعالیٰ بنفسہ فی کتابہ فقرأتہ تفسیرہ، لیس لأحد أن یفسرہ بالعربیة ولابالفارسیة․“(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی مع الھامش، ص:314)
علامہ بیہقی رحمہ الله فرماتے ہیں:متقدمین سلف صالحین استواء اوراسی جیسی تمام صفاتِ متشابہات کی کوئی تفسیر نہیں کرتے تھے۔“ ( ”فأما الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا کانوا لایفسرونہ، ویتکلمون فیہ کنحو مذھبہم فی أمثال ذلک․“ (کتاب الأسماء والصفات للبیہقی، ص:407)
قال مطرف سے پہلے کہ راوی ذکر کیوں نہیں کیئے اس لیئے کہ وہاں چور بیٹھا تھا
محمد بن علی الجبلی اور جامع بن سوادہ دونوں پر ہی جرح ہے اول الذکر کے بارے تو کہا گیا کہ وہ رافضی تھا شیعہ نہیں رافضی ثانی الذخر کے بارے کہا کہ لگتا ہے اس نے یہ روایت خود گھڑی ضعیف ہیں دونوں
التمھید کا لنک
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?indexstartno=0&hflag=&pid=347337&bk_no=692&startno=92
یہ کس کو کس لیئے حوالہ دیا جا رہا ہے ؟؟؟ العرف الشذی بیروت سے چھپے تو حجت ہوتی ہے ؟؟؟
یہ القلم نہیں الذاریات ہے ابن عباس رضی اللہ عنھما تک سند صحیح نہیں
اگرچہ ہمیں بھی یہاں اید سے مراد قوت لینے پر اعتراض نہیں ہے کیونکہ ہر جگہ اید کا معنی ہاتھ نہیں ہوتا