یہ بات بھی پہلی باتوں کی مانند ثابت نہیں آپ نے نقل کیا احمد بن حنبل ان احمد بن حنبل تاول اوپر ترجمہ کیا احمد بن حنبل کے بھتیجے سے روایت ہے
بھتیجے کا نام حنبل بن اسحاق ہے احمد بن حنبل نہیں اور حنبل کے بارے امام ذھبی کہتے ہیں یتفرد و یغرب امام احمد سے اکیلا ہی غیر معروف روایات ذکر کرتا ہے
http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?idfrom=2435&idto=2435&bk_no=60&ID=2298
لہذا حنبل کی روایت یہاں درست نہیں کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ کا منھج صفات میں معروف ہے وہ تاول نہیں کرتے تھے
دوسری بات امام بیھقی کی اصل کتاب پیش کی جائے جہاں سے ابن کثیر نے نقل کی ہے روایت
رہا یہ کہنا
ایسے ہی
تو عرض ہے کہ جناب ھمیں تو لوگ طعنے دے دے کے تھک گئے نرے جاھل بدھو نہ فقہ کا پتا نہ اصول فقہ کا نہ منطق کا نہ نحو کا نہ ،،،،،،،،،،
بس آپ ذرا تاویل اور تحریف کی تعریف کر دیں ساتھ میں یہ بھی بتا دیں کہ ظاھر اللفظ کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟؟؟
تاویل کہتے ہیں صرف اللفظ عن ظاھرہ لدلیل دل علیہ او قرینۃ (کسی دلیل یا قرینہ کی بناء پر لفظ کے ظاھری معنی کی بجائے دوسرا معنی اختیار کرنا)
تحریف کہتے ہیں صرف اللفظ عن ظاھرہ بغیر دلیل (بغیر کسی دلیل کے ظاھری معنی سے اعراض کرنا )
اور ظاھر اللفظ کہتے ہیں ما یتبادر الی الذھن (وہ معنی جس کا سب سے پہلے ذھن میں تصور پیدا ہو)
اب دیکھیں کہ پہلی آیت میں فورا ذھن میں کیا آتا ہے (ان سے پہلے لوگوں نے بھی فریب کیا تو اللہ آ گیا ان کے منصوبوں کی عمارتوں کی بنیادوں میں )
یہاں متبادر الی الذھن معنی ہی یہ ہے کہ اللہ کا حکم آیا
اور متبادر الی الذھن معنی ظاھر اللفظ ہے جبکہ تاویل کہتے ہیں ظاھر اللفظ کی بجائے کوئی اور معنی لینا
لہذا یہاں پر تاویل نہیں ہے تاویل تب ہو گی جب ھم متبادر الی الذھن معنی مراد نہ لیں گے
ایسا ہی دوسری آیت میں ہے اور اشاعرہ جو حرکت کرتے ہیں وہ تحریف ہوتی ہے جسے تاویل کا نام دے دیا جاتا ہے یاد رہے تاویل کے ایک سے زائد معنی ہیں
اگر یہاں تک کوئی شبہ ہے تو بتائیے نہیں تو آگے چلتے ہیں