• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفات کے نصوص کو ظاهرمعنی میں لینے کی دلیل چاهئے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
هاتھ, پنڈلی اورچهره جسم کے اجزاء هیں. الله عزوجل کیلئے ظاهری هاتھ,پنڈلی اور چهره ماننا محال هے (1)اس لیے که
ا- الله جل شانه جسم سے پاک هے(2)
ب- الله پاک اجزاء سے مرکب نهیں

اس کے باوجود ظاهر پر اصرار ... اسی لئے دلیل درکار هے وه بھی قرآن و حدیث سے ناکے زید و بکر سے
(1) آپ کی عقل کے لحاظ سے محال ہے اور عقل جب قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
(2) اگر جسم سے مراد آپ ایسا جسم ہے جو مخلوق کے مشابہ تو یہ بالکل بات ٹھیک ہے ۔ لیکن اگر اس سے وہ مراد لیا جائے جو اللہ کی ذات کے لائق ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔

یہ آپ کی ساری خرابی آپ کے سوء فہم کا نتیجہ ہے کہ آپ خالق کو مخلوق کے مشابہ سمجھ رہے ہیں جس کی اللہ نے نفی کی ہے لیس کمثلہ شیء و ہو السمیع البصیر۔ آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے کہ اللہ کے لیے صفات بھی ہیں اور مخلوق سے مشابہت بھی نہیں ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نعم ھنا دلیل یمنع من الظواھر و ھو ان اللہ لیس کمثلہ شیء (١)

صوفی صاحب میں آپکے اس عقیدے میں متفق ہوں مگر دلیلوں میں نہیں کیوںکہ اگر اپکے ہاں منابع حدیثی وہی ہیں جو اھل حدیث کے ہیں اپکے عقاید بلا دلیل ہیں لھذا آپ اپنے عقیدے کو اھل سنت کے کتب کے مطابق کبھی ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ کتب کی روایات نص ہیں جسم خدا پر۔۔۔(٢)

ذلكم اللّه ربّكم فاعبدوه لااله الّاهوخالق كلّ شيي‏ء فاعبدوه وهو علي كلّ شيي‏ء وكيل لاتدركه الأبصاروهو يدرك الأبصاروهو اللطيف الخبير (٣)
انعام /102 و 103
(١) سبحانك هذا بهتان عظيم ۔ بل آية ( ليس كمثله شيء و هو السميع البصير ) تدل دلالة واضحة على بطلان تشبيه المشبهين و تعطيل المعطلين ۔
(٢) إنما الحق الذي ينص عليه القرآن أو السنة على رغم أنف المبتدعة ۔
(٣) الحمد لله في هذه الآية أكثر من أربعة من الصفات الإلهية مما يدل على بطلان قول من شابه صفات الله بمخلوقه أو أنكر ها مخافة هذا التشبيه ۔ والله المستعان
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
(١) سبحانك هذا بهتان عظيم ۔ بل آية ( ليس كمثله شيء و هو السميع البصير ) تدل دلالة واضحة على بطلان تشبيه المشبهين و تعطيل المعطلين ۔
(٢) إنما الحق الذي ينص عليه القرآن أو السنة على رغم أنف المبتدعة ۔
(٣) الحمد لله في هذه الآية أكثر من أربعة من الصفات الإلهية مما يدل على بطلان قول من شابه صفات الله بمخلوقه أو أنكر ها مخافة هذا التشبيه ۔ والله المستعان
١ـ نعم هذا هو الحق ولکنکم تشبهون الله بالبدر و غيره ۔
2ـ تناقض قولک الاول بان الله ليس له شبيه و هنا تقرّ بالتشبيه!!!!!!
3ـ هذا هو قولنا و ليس قولکم لانکم تشابهون الله بمالخلوق۔۔۔۔ اليس القمر مخلوقا؟ فلماذا تشبّهون الله بالقمر؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
١ـ نعم هذا هو الحق ولکنکم تشبهون الله بالبدر و غيره ۔
2ـ تناقض قولک الاول بان الله ليس له شبيه و هنا تقرّ بالتشبيه!!!!!!
3ـ هذا هو قولنا و ليس قولکم لانکم تشابهون الله بمالخلوق۔۔۔۔ اليس القمر مخلوقا؟ فلماذا تشبّهون الله بالقمر؟
(١) سبحانك هذا بهتان عظيم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هاتوا برهانكم إن كنتم صدقين
(٢) هل القرآن و السنة يدلان على التشبيه ؟ التشبيه معنى باطل و لا يمكن - والله - أن يكون في القرآن والسنة شيء باطل ۔۔۔۔۔ من اعتقد هذا فلا شك في كفره ۔۔۔۔
(٣) الكذب يهلك يا شيخ ! ۔۔۔۔۔۔ من شبه الله بالقمر ؟؟؟ بل نقول : إن لله صفات كما تليق بذاته ولا تشبه ذوات المخلوقين قمرا حقيقيا كان أو مجازيا أو غيرهما من خلق الله
۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل علم گفتگو میں محدث فورم کے ان قارئین کا خیال کریں، جو عربی نہیں جانتے۔ یہ خالص اردو فورم ہے۔اور یہاں کے قارئین اکثر تعداد میں عربی نہیں جانتے ہونگے۔اس لیے عربی کے بجائے اردو میں بات کرنا تمام کےلیے فائدہ مند رہے گا۔ ان شاء اللہ
جزاکم اللہ خیرا
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
(1) آپ کی عقل کے لحاظ سے محال ہے اور عقل جب قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے
شفقت سے سمجھاکر هماری حوصله کیجئے


(2) اگر جسم سے مراد آپ ایسا جسم ہے جو مخلوق کے مشابہ تو یہ بالکل بات ٹھیک ہے ۔ لیکن اگر اس سے وہ مراد لیا جائے جو اللہ کی ذات کے لائق ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔‎ ‎
اس کا مطلب تو یه هوا که آپ الله عزوجل کیلئے جسم تسلیم کررهے هیں اس فرق کیساتھ که وه مخلوق کے مشابه نهیں.



یہ آپ کی ساری خرابی آپ کے سوء فہم کا نتیجہ ہے کہ آپ خالق کو مخلوق کے مشابہ سمجھ رہے ہیں جس کی اللہ نے نفی کی ہے لیس کمثلہ شیء و ہو السمیع البصیر۔ آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے کہ اللہ کے لیے صفات بھی ہیں اور مخلوق سے مشابہت بھی نہیں ہے ۔‎ ‎

یه بھی بتادیں که هاتھ اور چهره صفات هیں یا ظاهری هاتھ اور چهره هی مراد هے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شفقت سے سمجھاکر هماری حوصله کیجئے (1)

اس کا مطلب تو یه هوا که آپ الله عزوجل کیلئے جسم تسلیم کررهے هیں اس فرق کیساتھ که وه مخلوق کے مشابه نهیں. (2)

یه بھی بتادیں که هاتھ اور چهره صفات هیں یا ظاهری هاتھ اور چهره هی مراد هے(٣)
( 1) ان شاء اللہ حسب استطاعت کوشش کروں گا ۔
(2) اللہ کی صفات مثلا ہاتھ ، چہرہ وغیرہ کے ثبوت سے لازمی نتیجہ آپ خود نکال چکے ہیں کہ اس سے اللہ کا جسم ماننا پڑے گا ۔ آپ نے جسم کاانکار اس وجہ سے کیا کہ اس سے اللہ پاک کی شان مین تنقیص ہوتی ہے یعنی اللہ کی مخلوق سے مشابہت ہوتی ہے ۔
مین نے یہ وضاحت کی تھی کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ تشابہ فی الأسماء سے تشابہ فی المسمیات ضروری نہیں ہے ۔ مخلوق کا ایک جسم ہے جب کہ خالق کا وجود (کما یلیق بجلالہ ) بھی ثابت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ خالق و مخلوق میں مشابہت ہے ۔
البتہ اس سلسلے میں منصوص الفاظ پر اکتفا کرنا بہتر ہے ۔
(٣) ہاتھ اور چہرہ وغیرہ یہ سب اللہ کی صفات ہیں ۔ اگر ظاہری سے آپ کی مراد مخلوق سے مشابہ تو یہ قطعا نہیں اور اگر یہ مراد ہے کہ نصوص کے ظاہر سے ثابت ہیں تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اللہ تعالی کے حق میں ہم لفظ ’’ جسم ‘‘ کے استعمال کے بارے میں اہل سنت کا کیا موقف ہے اس کی وضاحت درج ذیل اقتباس سے سمجھ آ سکتی ہے ۔
لفظ " الجسد " لم يرِد في حق الله تعالى ، لا إثباتا ولا نفيا ، وقاعدة أهل السنة فيما كان كذلك : أنه لا يجوز نسبته إلى الله تعالى وإضافته إليه ، لأن وصف الله تعالى بشيء ونسبته إليه لا يجوز إلا بدليل صحيح ، من كتاب الله تعالى أو سنة نبيه صلى الله عليه وسلم . وكذلك لا يجوز نفيه عنه لمجرد عدم ثبوته ؛ بل يستفصل عنه : فإن كان معناه باطلا في الشرع ، جزمنا بنفي المعنى الباطل ، واللفظ المبتدع ، وإن كان معناه صحيحا ، أثبتنا له المعنى الصحيح ، واستعملنا له اللفظ الشرعي الدال عليه ، إلا عند الحاجة إلى استعمال لفظ محدث ، مع بيان معناه الصحيح .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
" الواجب أن ينظر في هذا الباب ؛ فما أثبته الله ورسوله أثبتناه ، وما نفاه الله ورسوله نفيناه ، والألفاظ التي ورد بها النص يُعتصم بها في الإثبات والنفي ؛ فنثبت ما أثبتته النصوص من الألفاظ والمعاني ، وننفى ما نفته النصوص من الألفاظ والمعاني ، وأما الألفاظ التي تنازع فيها من ابتدعها من المتأخرين ، مثل لفظ الجسم والجوهر والمتحيز والجهة ونحو ذلك ، فلا تطلق نفيا ولا إثباتا حتى ينظر في مقصود قائلها ؛ فإن كان قد أراد بالنفي والإثبات معنى صحيحا موافقا لما أخبر به الرسول : صُوِّب المعنى الذي قصده بلفظه ، ولكن ينبغي أن يعبر عنه بألفاظ النصوص لا يعدل إلى هذه الألفاظ المبتدعة المجملة إلا عند الحاجة ، مع قرائن تبين المراد بها ، والحاجة مثل أن يكون الخطاب مع من لا يتم المقصود معه إن لم يخاطب بها .
وأما إن أريد بها معنى باطل : نُفي ذلك المعنى ، وإن جمع بين حق وباطل : أثبت الحق ، وأبطل الباطل " انتهى .
"منهاج السنة النبوية" (2/554-555) وقد طول في هذا الموضع في الكلام على لفظ الجسم ، فليراجع فإنه مهم .
وقال الشيخ محمد بن صالح العثيمين – رحمه الله - :
مسألة الجسمية لم ترد لا في القرآن ولا في السنَّة إثباتاً ولا نفياً ، ولكن نقول بالنسبة للفظ : لا ننفي ولا نثبت ، لا نقول : جسم وغير جسم ، لكن بالنسبة للمعنى نفصِّل ونستفصل ، ونقول للقائل : ماذا تعني بالجسم ؟ هل تعني أنه الشيء القائم بنفسه المتصف بما يليق به ، الفاعل بالاختيار ، القابض الباسط ؟ إن أردت هذا : فهو حق ومعنى صحيح ، فالله تعالى قائم بنفسه فعَّال لما يريد ، متصف بالصفات اللائقة به ، يأخذ ويقبض ويبسط ، يقبض السماوات بيمينه ويهزها ، وإن أردت بالجسم الشيء الذي يفتقر بعضه إلى بعض ولا يتم إلا بتمام أجزائه : فهذا ممتنع على الله ؛ لأن هذا المعنى يستلزم الحدوث والتركيب ، وهذا شيء ممتنع على الله عز وجل .
" شرح العقيدة السفارينية " ( ص 18 ، 19 ) .

حوالہ
کوشش کرتا ہوں کہ اردو میں بھی مل جائے ۔
اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو اس میں بیان کردہ دلائل کا رد اور اپنا موقف دلائل سے واضح کردے ۔ اس اقتباس میں موجود دلائل ہماری لیے قابل حجت ہیں نہ کہ بذات خود یہ شخصیات بطور دلیل کے پیش کی گئی ہیں ۔
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
( 1) ان شاء
(2) اللہ کی صفات مثلا ہاتھ ، چہرہ وغیرہ کے ثبوت سے لازمی نتیجہ آپ خود نکال چکے ہیں کہ اس سے اللہ کا جسم ماننا پڑے گا ۔ آپ نے جسم کاانکار اس وجہ سے کیا کہ اس سے اللہ پاک کی شان مین تنقیص ہوتی ہے یعنی اللہ کی مخلوق سے مشابہت ہوتی ہے ۔
مین نے یہ وضاحت کی تھی کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ تشابہ فی الأسماء سے تشابہ فی المسمیات ضروری نہیں ہے ۔ مخلوق کا ایک جسم ہے جب کہ خالق کا وجود (کما یلیق بجلالہ ) بھی ثابت ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ خالق و مخلوق میں مشابہت ہے ۔
البتہ اس سلسلے میں منصوص الفاظ پر اکتفا کرنا بہتر ہے ۔
متفق

‎(٣) ہاتھ اور چہرہ وغیرہ یہ سب اللہ کی صفات ہیں ۔ اگر ظاہری سے آپ کی مراد مخلوق سے مشابہ تو یہ قطعا نہیں اور اگر یہ مراد ہے کہ نصوص کے ظاہر سے ثابت ہیں تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے ۔
دیکھنا صفت ھے آنکھ کی ـ لیکن آنکھ خود صفت نھیں
پکڑنا صفت ھے هاتھ کی ـ لیکن ھاتھ خود صفت نھیں

آپ نصوص کے ظاهر سے هاتھ کو صفت سمجھ رھے هیں ـ میں اسے تاویل سمجھوں یا تعطیل ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
الحمد لله ايک بنيادی بات پر آپ نے اتفاق کا اظہار فرماديا ہے ۔

اس کے بعد جو آپ کا اشکال ہے اس کے حل سے پہلے توحيد أسماء و صفات کا مفہوم ذہن ميں رکھيں :

إفراد الله سبحانه وتعالى بما سمى به نفسه، ووصف به نفسه؛ في كتابه، أو على لسان رسوله صلى الله عليه وسلم، نفيا وإثباتا؛ فيثبت له ما أثبته لنفسه، وينفي عنه ما نفاه عن نفسه؛ من غير تحريف ولا تعطيل، ومن غير تكييف ولا تمثيل

مطلب :
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ صلی اللہ عليہ و سلم نے اللہ کے جو اسماء بيان کيے ہيں اور جن صفات سے متصف ٹھہرايا ہے ان پر بغير کسي تحريف ، تعطيل ، تکييف اور تمثيل کے ايمان لانا ۔
يعنی دو ہی چيزيں ہيں اسماء اللہ اور صفات اللہ

اب آپ خود فيصلہ کر ليں کہ قرآن و سنت ميں وارد عين ( آنکھ ) اور يد ( ہاتھ ) اسماء اللہ ميں سے ہيں يا صفات اللہ ميں سے ہيں ؟ يقينا آپ العين و اليد کو أسما اللہ ميں سے نہيں سمجھتے ہوں گے ۔

دیکھنا صفت ھے آنکھ کی ـ لیکن آنکھ خود صفت نھیں
پکڑنا صفت ھے هاتھ کی ـ لیکن ھاتھ خود صفت نھیں
دونوں چیزیں ہی صفات میں سے ہیں ۔

اگر آپ مزيد اس بحث کو آگے بڑھانا چاہتے ہيں تو درج ذيل چيزوں کي وضاحت کرديں تاکہ بحث زيادہ سے زيادہ مفيد ہو سکے ۔

صفت کی کيا تعريف ہے ؟

کيا افعال صفات نہيں ہوتے ؟

آنکھ ، ہاتھ وغيرہ صفات نہيں ہيں تو پھر کيا ہيں ؟

نصوص ميں وارد عين ، وجہ اور يد وغيرہ سے ان کا حقیقی معنی( ہاتھ اور چہرہ اور آنکھ ) مراد لينا کيوں غلط ہے ؟

سابق سوال کی اگلی شق يہ ہے کہ

کيا آپ کے نزديک اللہ کی آنکھيں ، ہاتھ ، چہرہ نہيں ہيں ؟ اگر ہيں تو اس کی دليل کيا ہے ؟
 
Top