محمد جاوید
رکن
- شمولیت
- جون 06، 2012
- پیغامات
- 10
- ری ایکشن اسکور
- 45
- پوائنٹ
- 48
اللہ رب العالمین کی صفات کو اگر آپ بالکل صاف ذہن اور باظل نظریات سے صاف کرکے پڑھیں تو اللہ کی صفات میں بے جا تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ اللہ تعالی کی صفات کو بآسانی سمجھنے کے لئے اگر ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام اور ہمارے برگزیدہ اسلاف کا عقیدہ دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کی صفات کو بلا تاویل ماننا ہی صحابہ کا عقیدہ تھا اسی بنیاد پر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے صفات والی آیتوں کی تلاوت کی تو نہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سوال کیا کہ اللہ کے ہاتھ کیسے ہیں یا ہم انہیں کس طرح مانیں ؟ نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی تاویل کی جب کہ آپ کتاب اللہ کی وضاحت کرنے والے تھے، بلکہ سبھی نے ان آیتوں کو ظاہر پر ہی محمول کیا۔ اگر ہم ظاہر کے علاوہ کوئی اور معنی لیتے ہیں تو اس وجہ سے دو بڑی گمراہیاں لازم آتی ہیں۔ پہلی کہ تاویل کرنے والا گویا یہ کہہ رہا ہے کہ قرآن واضح نہیں ہے، کیونکہ اگر واضح ہوتا تو اللہ رب العالمین اس کی وضاحت کردیتا یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیان فرمادیتے۔ اور دوسرا یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا کہ اسلام کی بنیادی چیز توحید کو ہی اچھے طریقے سے امت تک نہیں پہنچایا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی کوئی تاویل نہیں کی تو ہم کیوں کی تاویل کرے لہذا ظاہر پر ماننا ہی سلف کا طریقہ رہا ہے۔برصغیر کے غیر مقلد اور ابن تیمیه کے مقلد سلفی حضرات صفات رب عزوجل والے نصوص کو ظاهر معنی پر هی حمل کرتے هیں. اس خصوصیت کی خاص دلیل کیا هے؟
اب رہا آپ کا سوال کہ ظاہر پر کیوں محمول کرتے ہیں تو اس کے کئی سارے جواب ہیں
١)اللہ رب العالمین نے ہمیں جو کتاب دیا اس کے ہر لفظ کو ظاہر پر ہی محمول کیا جاتا ہے جب تک کہ کوئی ایسی دلیل نہ آئے جو اصل معنی سے پھیرے لہذا ہم صفات والی آیتوں کو بھی ظاہر پر ہی محمول کریں گے۔ کیونکہ ہمیں ان آیتوں کو اصل معنی سے ہٹانے کے لئے کوئی دلیل چاہیئے۔
جناب صوفی صاحب! میرے اندازے کے مطابق آپ اللہ رب العالمین کے لئے علم، قدرت ، اور حکمت جیسی صفات کو ثابت ہی مانتے ہوں گے، آپ ان صفات کو ظاہر پر محمول پر کرتے ہوئے ان پر ایمان لاتے ہو ان میں کوئی تاویل نہیں کرتے ہو ۔ کیونکہ ان کا صفات کا ذکر قرآن کریم میں ہیں۔ تو پھر ید، اور دیگر صفات کا ذکر بھی تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ہیں تو ان پر ویسا ایمان کیوں نہیں رکھتے ہو جیسا کہ دیگر صفات پر کیا یہ اسی طرح نہیں کہ "أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ"
٢) سب میں بڑی غلطی جو صفات الہیہ کے انکار کی بنتی ہے وہ یہ کہ منکرین ہر صفت کو اپنی عقل کے مطابق سوچتے اور سمجھتے ہیں، ایمان بالغیب کا یقین ان کے اندر نہیں پایا جاتا۔ جب کہ اللہ رب العالمین کی صفات پر اسلاف کرام نے ایمان لایا بالکل ویسے ہی جیسے کہ لفظ کا تقاضہ تھا یعنی ظاہر کے مطابق لیکن بغیر تاویل اور بغیر تمثیل کے۔ اور ہم اللہ کے لئے مثل کیوں قرار دیں جب کہ وہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ اس عظیم کائنات کا خالق ہے ہم اس عظمت والی ذات کے بارے میں یہ اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کیسا ہے؟ تب ہی تو اس نے صاف طور سے بندوں تک یہ بات پہنچا دیا کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ " اس آیت میں غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں اپنے لئے ہر طرح کے مثل کی نفی کی ہے وہیں ان صفات کا بھی ذکر کیا جو نوع کے اعتبار سے بندوں کے اندر بھی ہے لیکن ان صفات میں بھی وہ بندوں کے مثل نہیں بلکہ اللہ تعالی کی صفت ہونے کے اعتبار سے ہم ان کی کیفیت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
ظاہری معنی نہ تسلیم کرنے کی وجہ اور اس کا جواب:
شبہ: در حقیقت لوگ صفات کو ظاہری معنی پر تسلیم کرنے سے اس لئے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس سے تشبیہ اور تمثیل لازم آتی ہے۔۔۔؟
٣) یہ عقل کی کم فہمی ہے، حالانکہ ظاہری معنی تسلیم کرنے سے کوئی تشبیہ لازم نہیں آتی بلکہ جملہ کا سیاق ساری تشبیہات کو ختم کر دیتا ہے۔ کیونکہ جب کسی لفظ کی اضافت ہو جاتی ہے تو اس لفظ کے اندر تخصیص ہو جاتی ہے۔ مثلا: انسانوں کا ہاتھ ہے اور اونٹوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے لیکن کیا ہمارے اور اونٹوں کے ہاتھ ایک جیسے ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔ تو پھر وہ عظیم ذات جس کے جیسا کوئی نہیں، اس کی صفات کو ثابت کرتے وقت تشبیہ کا خوف کیوں آتا ہے؟
٤) اہل السنہ و الجماعہ کا موقف یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے لئے ہر ان صفات کو ثابت کیا جائے گا جو اللہ رب العالمین نے اپنے لئے ثابت کیا ہے اور ہر ان صفات سے نفی کی جائے گی جن کی نفی اللہ رب العالمین نے کی ہیں، اور ان الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں گے جن الفاظ کا استعمال اللہ رب العالمین نے نہیں کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا " وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ" (اسراء: ٣٦) اسی طرح فرمایا "قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ" (بقرۃ: ١٤٠) ان آیتوں میں ان لوگوں کے لئے ڈانٹ اور فٹکار ہے جو بغیر علم کے بات کرتے ہیں یا اللہ نے اپنی جن صفات کو ثابت کیا ہے اس میں اپنی عقل لگا کر بات کرتے ہیں جب کہ اللہ نے اپنے لئے ہاتھ اور پنڈلی اور چہرہ ثابت کیا تو ہمیں بس اتنا ثابت کرنا ہے کیونکہ جس ذات نے اپنے لئے ان الفاظ کا استعمال کیا وہ ہم سے زیادہ اپنے بارے میں جاننے والا ہے۔ اب اجزاء اور مرکب ان جیسے الفاظ کا استعمال جب اللہ نے اپنے لئے نہیں کیا تو ہم کیوں کریں؟ کیا ہم اللہ سے زیادہ جاننے والے ہیں؟هاتھ, پنڈلی اورچهره جسم کے اجزاء هیں. الله عزوجل کیلئے ظاهری هاتھ,پنڈلی اور چهره ماننا محال هے اس لیے که
ا- الله جل شانه جسم سے پاک هے
ب- الله پاک اجزاء سے مرکب نهیں
آپ کا جواب ہوگا: یہ تو اجزاء ہے اور ان کے تسلیم کرنے سے یہ لازم آتا ہے۔ یہ تو ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ تسلیم کرنے سے یہ تو لازم آتا ہے۔ آپ وہ کیوں نہیں کرتے جو سلف نے کیا: یعنی ثابت کو تسلیم کیا، نفی شدہ کی نفی کیا اور جن کے بارے میں شریعت نے خاموشی اختیار کیا ہے ان کے بارے میں خاموشی۔ جیسا کہ عبد العزیز الکنانی رحمہ اللہ نے بشر المعتزلی سے مناظرہ کرتے وقت کہا تھا: " وعلى الخلق جميعا أن يثبتوا ما أثبت الله، وينفوا ما نفى الله، ويمسكوا عما أمسك الله" کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ ان صفات کو تسلیم کریں جنھیں اللہ نے ثابت کیا ہے اور ان کی نفی کریں جن کی نفی اللہ رب العالمین نے کیا ہے اور ان سے رک جائیں جن کا ذکر اللہ رب العالمین نے نہیں کیا۔ (الحیدۃ والاعتذار فی الرد علی من قال بخلق القرآن:ص ٤٦)