• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف اور موضوع احادیث !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہم ضعیف اور موضوع احادیث سے صحیح کوکیسے معلوم کريں !!!

آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ ہم پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے ، لیکن آج ہم یہ یقین کیسے کریں کہ موجودہ احادیث تبدیل شدہ یا جھوٹی نہیں ؟

گزارش ہے کہ آپ یہ ذھن میں رکھیں میں احادیث نہ توصحیح کہتا ہوں اورنہ ہی کسی حال میں غلط کہتا ہوں ، لیکن کچھ مسلمانوں نے جتنی احادیث بھی مجھے بیان کی ہیں وہ سب کی سب موضوع اورضعیف تھیں ، میں حسب استطاعت احادیث پرعمل کرتا ہوں آّپ سے گزارش ہے کہ اس موضوع میں معلومات دے کرتعاون کریں ۔

الحمد للہ:

1 - اللہ تعالی نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اوراسی میں کتاب اللہ کی حفاظت بھی ایک معجزہ ہے ، اوراس کے ساتھ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے جوکہ قرآن مجید کوسمجھنے میں معاون ہے ، اللہ تبارک وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :{ بلاشبہ ہم نے ہی قرآن کونازل فرمایا اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } اوراس آيت میں ذکر سے مراد قرآن وسنت ہیں کیونکہ یہ دونوں کوشامل ہوتا ہے ۔

2 - بہت سے لوگوں نے ماضی اورحاضرمیں یہ کوشش کی کہ شرعیت مطہرہ اوراحادیث نبویہ میں ضعیف اورموضوع احادیث داخل کی جائيں لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی اورایسے اسباب مہیا کردیے جس سے اپنے دین کی حفاظت فرمائ انہیں اسباب میں سے ثقہ علماء کرام کی جماعت ہے جنہوں نے روایات احادیث کی چھان پھٹک کی اوران کے مصادر کا پیچھا کیا اورراویوں کے حالات کا پتہ چلایا ۔

حتی کہ انہوں نے یہ بھی ذکرکیا کہ راوی کواختلاط کب ہوا اوراختلاط سے قبل ان سے کس نے روایت کی اوراختلاط کے بعد کس نے روایت بیان کی ، اوروہ یہ بھی جانتے ہیں کہ راوی نے سفرکہاں اورکتنے سفر کیے اورکس کس ملک اور شہر میں داخل ہوۓ اوروہاں کس کس سے احادیث حاصل کیں ، تواس طرح یہ ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے جس کا شمار ممکن نہیں ، یہ سب کچھ اس پردلالت کرتا ہے کہ دشمنان اسلام جتنی بھی تحریف اورتبدیل کی کوشش کرلیں پھر بھی یہ امت اپنے دین کی حفاظت کرتی ہے اوردین محفوظ ہے ۔

سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
فرشتے آسمان کے پہریدار اور اہل حدیث زمین کے پہریدار ہیں ۔
حا‌فظ ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ :
ھارون رشید ایک زندیق کوقتل کرنے لگا تواس بے دین نے کہا : اس ایک ہزار حدیث کا کیا کرو گے جومیں نے وضع کی ہیں ، توھارون رشید کہنے لگا : اے اللہ تعالی کے دشمن توکہاں پھررہا ہے ابواسحاق فزاری اورعبداللہ بن مبارک رحمہمااللہ اس کی چھان پھٹک کرکے حرف حرف نکال دینگے ۔

طالب علم احادیث کی اسانیداورکتب رجال اورجرح وتعدیل سےراویوں کےحالات دیکھتے ہوۓ باآسانی وسہولت ضعیف اور موضوع احادیث کوپہچان سکتا ہے ۔

3 - بہت سارے علماء نے ضعیف اورموضوع احادیث کوایک جگہ پربھی جمع کردیا ہے تاکہ انسان کواس کی پہچان میں آسانی رہے اوروہ احادیث ضعیفہ اورموضوعہ سے خود بھی بچے اوردوسروں کوبھی بچنے کی تلقین کرے ،ان کتابوں میں جواحادیث ضعیفہ اورموضوعہ کے لیے خاص ہيں :
ابن جوزي رحمہ اللہ تعالی کی " العلل المتناھیۃ " اور ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی " المنارالمنیف " اور امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کی " اللآلئ المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ " اور امام شوکانی رحمہ اللہ تعالی کی " الفوائد المجموعۃ " اور ابن عراق رحمہ اللہ کی " الاسرارالمرفوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ " اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی کی " ضعیف الجامع الصغیر " اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ " کی شامل ہیں ۔

4 - اورجس طرح کہ سائل کا یہ کہنا ہے کہ وہ ضعیف اورموضوع احادیث سنتا ہے ، توالحمدللہ اس سے یہ بات عیاں ہوتي ہے کہ وہ صحیح اورضعیف اورموضوع میں تمیز کرتا ہے ، یہ اللہ تعالی کا فضل ہے جو کہ اس بات پردلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالی اس دین کی حفاظت کرتا ہے ، اس کے متعلق اوپر بیان کیا جا چکا ہے ۔

5 - ہم سائل کویہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ جرح وتعدیل اور مصطلح الحدیث کی کتب کا مطالعہ کرے تا کہ اسے سنت نبویہ میں کی گئ خدمت کی معرفت ہو ، اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیاسب احادیث پروثوق ممکن ہے ؟

کیاسب احادیث پروثوق ممکن ہے ؟

الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردہ احادیث میں سے جو صحیح احادیث ہیں ، انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنےمیں کوئ شک نہیں ، اور جواحادیث ضعیف ہیں انہیں نبی صلی اللہ کی طرف منسوب کرنے میں شک ہے ۔اہل علم پرصحیح اور ضعیف احادیث کوئی مخفی نہیں ہیں ، ایسی کتب بھی تصنیف کی گئ ہیں جو کہ صرف احادیث صحیحہ پر مشتمل ہیں مثلا صحیح بخاری اور صحیح مسلم ، اور کچھ ایسی کتب بھی ہیں جن میں صحیح اورغیر صحیح دونوں پائی جاتی ہیں جیسا کہ باقی کتب احادیث ہیں ۔

احاديث صحیحہ کی تمییز اور پہچان کے سلسلے میں علماء کرام کی بہت ساری کوششیں اورکاوشیں ہیں جیسا کہ یہ معاملہ علوم حدیث کےماہر علماء کوچھوڑکرابتدائ طلاب پر بھی مخفی نہیں ۔ .

الشیخ عبدالکریم الخضیر
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كيا درج ذيل حديث صحيح ہے ؟ " جس نے نماز ميں حقارت اختيار كى اسے اللہ تعالى پندرہ سزائيں دے گا "


ميرا سوال درج ذيل حديث كے متعلق ہے كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں؟ تا كہ ميں اسے تقسيم كر سكوں.
" نماز كے منكر يا تارك نماز كو اللہ تعالى پندرہ قسم كى سزائيں دے گا چھ تو اس كى زندگى ميں اور تين اس كى موت كے وقت، اور تين قبر ميں اور تين قيامت كے روز:
دنيا ميں سزا:
1 - اللہ تعالى اس كى عمر سے بركت مٹا ڈالتا ہے.
2 - اللہ تعالى اس كى دعاء قبول نہيں كرتا.
3 - اس كى چہرے سے نيكى اور اصلاح كى علامتيں ختم ہو جاتى ہيں.
4 - زمين پر سارى مخلوق اس سے ناراض ہو تى ہے.
5 - اللہ تعالى اس كے كسى بھى نيك عمل كا اجر و ثواب نہيں ديتا.
6 - اللہ تعالى اسے مومنوں كى دعاء ميں شامل نہيں كرتا.
موت كے وقت سزائيں:
1 - وہ ذليل ہو كر مرتا ہے.
2 - وہ بھوكا مرتا ہے.
3 - چاہے وہ سمند كا پانى بھى پى لے وہ پياسا ہى مرتا ہے.
قبر ميں سزائيں:
1 - اللہ تعالى اس كى قبر كو اتنا تنگ كرتا ہے كہ اس كى پسلياں آپس ميں مل جاتى ہيں.
2 - اللہ تعالى اس پر انگاروں كى آگ جلاتا ہے.
3 - اللہ تعالى اس پر ايك ازدھا مسلط كرتا ہے جسے شجاع اور اقرع كہتے ہيں، وہ فجر كى نماز ترك كرنے كى بنا پر فجر سے ليكر ظہر تك اسے ڈستا رہتا ہے، اور ظہر كى نماز ترك كرنے كى وجہ سے ظہر سے ليكر عصر تك اور عصر كى نماز ترك كرنے كى بنا پر عصر سے ليكر مغرب تك، اور مغرب كى نماز ترك كرنے كى وجہ سے مغرب سے ليكر عشاء تك، اور عشاء كى نماز ترك كرنے كى وجہ سے عشاء سے ليكر فجر تك ڈستا رہتا ہے، اور ہر ڈسنے كى وجہ سے وہ زمين ميں ستر ہاتھ دھنس جاتا ہے.
قيامت كے روز سزائيں:
1 - اللہ تعالى اس كے پاس اسے روانہ كرينگے جو اسے چہرے كے بل كھينچے گا.
2 - اللہ تعالى اس كى جانب غضب اور ناراضگى كى نظر سے ديكھيں گے جس كى بنا پر اس كے چہرے كا گوشت گر جائيگا.
3 - اللہ تعالى اس كا حساب سختى كے ساتھ كر كے اسے جہنم ميں پھينكے گا.

الحمد للہ :

اول:
درج ذيل حديث:
" جس نے بھى نمازميں سستى اور حقارت سے كام ليا، اللہ تعالى اسے پندرہ قسم كى سزائيں دے گا، چھ دنيا ميں، اور تين موت كے وقت، اور تين قبر ميں، اور تين قبر سے نكلتے وقت .... "
يہ حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا گيا ہے.

فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے متعلق مجلۃ " البحوث الاسلاميۃ " ميں كہتے ہيں:
اس پملفٹ والے نے تارك نماز كے متعلق جس حديث كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب كيا ہے كہ:

" تارك نماز كو پندرہ قسم كى سزائيں دى جائينگى الخ "
يہ باطل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ باندھى جانے والى احاديث ميں شامل ہوتى ہے.
جيسا كہ علماء كرام ميں سے حفاظ كرام نے مثلا حافظ ذھبى رحمہ اللہ تعالى نے " لسان الميزان " ميں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى وغيرہ نے بيان كيا ہے.
ديكھيں مجلۃ: البحوث الاسلاميۃ ( 22 / 329 ).

اور اسى طرح مستقل فتوى كميٹى نے بھى اس حديث كےباطل ہونے كے متعلق فتوى جارى كيا ہے:
يہاں فتوى كميٹى كے علماء كرام كا قول ذكر كرنا بہتر معلوم ہے، مستقل فتوى اور اسلامى ريسرچ كميٹى كے فتوى نمبر ( 8689 ) ميں ہے:

" ..... اور نماز اور تارك نماز كى سزا كے متعلق جو كچھ اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے وہ كافى اور شافى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ يقينا مومنوں پر نماز وقت مقررہ پر ادا كرنى فرض كى گئى ہے ﴾ النساء ( 103 ).
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے جہنميوں كے متعلق فرمايا:
﴿ تمہيں جہنم ميں كس چيز نے پھينكا؟ وہ كہينگے ہم نماز ادا نہيں كرتے تھے ... ﴾المدثر ( 42 - 43 ).
چنانچہ اللہ تعالى نے جہنميوں كى صفات ميں نماز كا ترك كرنا بھى ذكر كيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كا ارتكاب كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1079 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2113 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اس موضوع كے متعلق بہت سى آيات ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى بہت سى احاديث ميں ترك نماز كو كفر قرار ديا ہے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ ہے، كسى شخص كے ليے بھى اسے نشر كرنا اور لوگوں ميں پھيلانا حلال نہيں، ليكن اگر كوئى شخص اس كى موضوعيت اور من گھڑت ہونا بيان كرنا چاہے تو وہ نشر كر سكتا ہے، تا كہ لوگ اس كے متعلق جان سكيں اور انہيں بصيرت حاصل ہو.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين جارى كردہ مركز الدعوۃ والارشاد عنيزہ قصيم سعودى عرب ( 1 / 6 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنے بھائيوں كو دعوت دينے اور ان كى اصلاح كرنے كى حرص ركھنے پر اجروثواب سے نوازے، ليكن يہ ضرور ہے كہ جو شخص بھى لوگوں ميں خير و بھلائى پھيلانے كى رغبت اور حرص ركھتا ہے، اور انہيں برائى اور شر سے بچانا اور ڈرانا چاہتا ہے، وہ اس چيز كے ساتھ كرے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور صحيح احاديث ميں كفائت اور ضعيف احاديث سے استغناء پايا جاتا ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كى كوششوں كو كاميابى سے نوازے، اور جنہيں آپ دعوت دينا چاہتے ہيں، اللہ تعالى انہيں اور سب مسلمانوں كو طريق مستقيم كى طرف چلائے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز فجر كى چاليس نمازيں تكبير تحريمہ كے ساتھ مداومت كرنے والى حديث كى صحت كيسى ہے ؟


كيا كوئى ايسى حديث ہے جس ميں ہو كہ جو شخص فجر كى چاليس نمازيں تكبير تحريمہ كے ساتھ ادا كرنے كى مدوامت كرے وہ نفاق اور كفر سے برى ہے، ايك حديث ميں چاليس يوم تك تكبير تحريمہ كے ساتھ نماز كى محافظت كرنے كا بيان ملتا ہے.

الحمد للہ :

بيھقى رحمہ تعالى نے شعب الايمان ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كى نبى صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع حديث بيان كى ہے كہ:
" جس نے صبح اور عشاء كى آخرى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور اس كى كوئى ركعت نہ رہے تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھ دى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات "
ديكھيں: شعب الايمان للبيھقى ( 3 / 62 ).
" العلل المتناھيۃ " ميں ہے كہ:
" يہ حديث صحيح نہيں، بكر بن يعقوب جو يعقوب بن تحيۃ سے بيان كرتے ہيں ان كے علاوہ كسى بھى راوى كا علم نہيں، اور يہ دونوں راوى بھى مجھول الحال ہيں.
ديكھيں: العلل المتناھيۃ ( 1 / 432 ).

ليكن سنن ترمذى ميں يہ الفاظ آئے ہيں:
" جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 241 ) ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن كہا ہے.

اس حديث كو متقدمين علماء كرام كى ايك جماعت نے بھى ضعيف كہا اور اس كى علت بيان كرتے ہوئے اسے مرسل كہا ہے، ليكن بعض متاخرين نے اسے حسن كہا ہے.

ديكھيں: التلخيص الحبير ( 2 / 27 ).
اور پھر حديث صرف نماز فجر پر ہى مقتصر نہيں، بلكہ حديث ميں تو اس كا اجر بيان ہوا ہے كہ جو شخص نماز پنجگانہ كو تكبير تحريمہ كے ساتھ ادا كرنے كى محافظت كرے.

اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ اس مدت ميں كے دوران تكبير تحريمہ پا لينا اس شخص كے دين ميں قوى ہونے كى دليل ہے.

جب حديث صحيح ہونے كى محتمل ہے تو اميد ہے كہ جو شخص بھى اس كى حرص ركھے گا اس كے ليے يہ فضل عظيم اور اجر جزيل لكھ ديا جائے گا، اس حرص سے انسان كو كم از كم اس عظيم شعار اسلام كى محافظت كى تربيت حاصل ہو گى.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے ليے نفاق اور آگ سے برات لكھ دے، يقينا اللہ تعالى سننے اور قبول كرنے والا ہے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
يكونُ في آخِرِ الزمانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ . يأتونَكم من الأحاديثِ بما لم تَسْمَعُوا أنتم ولا آباؤُكم . فإيَّاكم وإيَّاهم . لا يُضِلُّونَكم ولا يَفْتِنُونَكم
الراوي: أبو هريرة المحدث:مسلم - المصدر: صحيح مسلم [المقدمة] - الصفحة أو الرقم: 7
خلاصة حكم المحدث: [أورده مسلم في مقدمة الصحيح]


http://mohaddis.com/View/Muslim/15

http://www.hadithportal.com/hadith-6&book=2
 
Top