• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف حدیث اورمجروح راوی

شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
موضوع کی مناسبت سے مراسلے یہاں منتقل کر دیئے گئے ہیں۔۔۔ انتظامیہ

درج بالا حدیث ضعیف ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تصحیح سے رجوع کرلیا ہے۔
محترم ایک بات بڑی خلش پیدا کرتی ہے کہ حدیث ضعیف کسی راوی کے مجروح ہونے کے سبب بتائی جاتی ہے۔
حدیث کا متن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات قول یا فعل پر مبنی ہو تو اس کو جھوٹی بات کہیں گے یا کچھ اور؟
بات ذرا وضاحت سے سمجھا دیں جو عام فہم ہو۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم ایک بات بڑی خلش پیدا کرتی ہے کہ حدیث ضعیف کسی راوی کے مجروح ہونے کے سبب بتائی جاتی ہے۔
حدیث کا متن اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات قول یا فعل پر مبنی ہو تو اس کو جھوٹی بات کہیں گے یا کچھ اور؟
بات ذرا وضاحت سے سمجھا دیں جو عام فہم ہو۔
کسی حدیث کو ضعیف صرف اس لئے کہا جاتا ہے کہ :
اس کی اسناد میں کوئی علت (خرابی ،کمزوری ) ہوتی ہے ، یہ علت کبھی راوی کا ضعیف ہونا ،کبھی سلسلہ اسناد میں کسی کڑی کا نہ ہونا (منقطع روایت ) یا ایسے ہی سلسلہ اسناد میں کوئی خرابی جو متن حدیث کی صحت مشکوک کردے ،
مثلاً ۔:
سنن ابی داود میں رفع یدین نہ کرنے کی ایک ضعیف روایت ہے ؛

امام ابوداودؒ فرماتے ہیں :​
"حدثنا محمد بن الصباح البزاز، ‏‏‏‏‏‏حدثنا شريك، ‏‏‏‏‏‏عن يزيد بن ابي زياد، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، ‏‏‏‏‏‏عن البراء، ‏‏‏‏‏‏"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه إلى قريب من اذنيه ثم لا يعود".
امام ابوداود فرماتے ہیں : ہم سے محمد بن صباح نے حدیث بیان کی ،وہ کہتے ہیں ہم سے شریک نے حدیث بیان کی ،وہ کہتے ہیں ہمیں یزید بن ابی زیاد نے حدیث سنائی ،یزید بن ابی زیاد ۔۔عبدالرحمن سے نقل کرتا ہے کہ :
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کے قریب تک اٹھاتے تھے پھر دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی یزید بن ابی زیاد کوفی انتہائی ضعیف راوی ہے، جمہور محدثین اسے ضعیف کہتے ہیں ،کیونکہ وہ مدلس تھااور حافظہ کی خرابی کا شکار بھی تھا ،

حافظہ میں خرابی کے سبب اس نے متن حدیث میں گڑبڑ کردی ،جس کے سبب اس حدیث کو ضعیف کہا گیا ،دوسرے لفظوں میں اسے ضعیف کہنے کامطلب یہ ہے کہ "اس فعل کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت صحیح ثابت نہیں ،راوی کو غلطی لگی ،یا اس نے عمداً ایسا کیا ہے ،لہذا اسے پیغمبر کا فعل ماننا غلط ہے
مشہور محقق عالم شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ يزيد بن أبي زياد ضعيف ، مدلس مختلط (انظر التقريب:7717،وطبقات المدلسين:3/112) وقال البوصيري : وضعفه الجمھور (زوائد ابن ماجه:2116) ا وانظر ح 1966 وحدث به بعد اختلاطه وعنعن في ھذا اللفظ وقال الحافظ ابن حجر : والجمھور على تضعيف حديثه (ھدي الساري ص 459)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی یزید بن ابی زیاد کوفی انتہائی ضعیف راوی ہے، جمہور محدثین اسے ضعیف کہتے ہیں ،کیونکہ وہ مدلس تھااور حافظہ کی خرابی کا شکار بھی تھا ،
حافظہ میں خرابی کے سبب اس نے متن حدیث میں گڑبڑ کردی ،جس کے سبب اس حدیث کو ضعیف کہا گیا
حافظہ کی خرابی تو واقعی ایسا سقم ہے کہ ایسے راوی سے حدیث لی ہی نا جائے۔
لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہؤا۔ کیا یہ بات صحٰح ہے؟
اگر ایسا ہی ہے تو ان کی وہ احادیث جو حفظہ کی خرابی سے پہلے کی ہوں وہ قابل قبول ہونی چاہیئیں۔
کیا مذکورہ حدیث حافظہ کی خرابی کے بعد لی گئی یا پہلے؟
ثبوت کے ساتھ لکھ دیجئے گا۔
شکریہ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اس کے بعد اصل بات کی طرف کہ راوی ضعی اگر کوئیبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کر رہا ہو تو کیا وہ صرف ’’ضعیف‘‘ ہی کہلائے گا؟
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس پر سخت وعید وارد ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
"مدلس" نظر نہیں آیا یا تدلیس جیسے فعل پر کوئی وعید نظر نہیں آئی ؟ ویسے جمہور محدثین نا کیا اثر رکہتا هے ؟کا مدلس کہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حافظہ کی خرابی تو واقعی ایسا سقم ہے کہ ایسے راوی سے حدیث لی ہی نا جائے۔
لیکن کہا جاتا ہے کہ ان کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہؤا۔ کیا یہ بات صحٰح ہے؟
اگر ایسا ہی ہے تو ان کی وہ احادیث جو حفظہ کی خرابی سے پہلے کی ہوں وہ قابل قبول ہونی چاہیئیں۔
کیا مذکورہ حدیث حافظہ کی خرابی کے بعد لی گئی یا پہلے؟
ثبوت کے ساتھ لکھ دیجئے گا۔
شکریہ
ان سارے سوالوں کے جواب کیلئے کافی وقت چاہیئے ،
اس لئے اس راوی کا ترجمہ تہذیب التہذیب سے نقل کرتا ہوں :

قال علي بن المنذر عن بن فضيل كان من أئمة الشيعة الكبار وقال عبد الله بن أحمد عن أبيه: ليس حديثه بذاك وقال مرة: ليس بالحافظ وقال عثمان الدارمي عن بن معين: ليس بالقوي وقال أبو يعلى الموصلي عن بن معين ضعيف قيل له أيما أحب إليك هو أو عطاء بن السائب فقال ما أقربهما وقال عثمان بن أبي شيبة عن جرير كان أحسن حفظا من عطاء وقال العجلي جائز الحديث وكان بآخره يلقن وأخوه برد بن أبي زياد ثقة وهو أرفع من أخيه يزيد وقال أحمد بن سنان القطان عن بن مهدي ليث بن أبي سليم وعطاء بن السائب ويزيد بن أبي زياد ليث أحسنهم حالا عندي وقال أبو زرعة لين يكتب حديثه ولا يحتج به وقال أبو حاتم: ليس بالقوي وقال الجوزجاني سمعتهم يضعفون حديثه وقال الآجري عن أبي داود لا أعلم أحدا ترك حديثه وغيره أحب إلي منه وقال بن عدي هو من شيعة الكوفة ومع ضعفه يكتب حديثه وقال جرير عن يزيد قتل الحسين بن علي وأنا بن أربع عشرة أو خمس عشرة سنة وقال مطين مات سنة سبع وثلاثين ومائة
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام الذہبی سیر اعلام النبلاء میں ۔۔یزید بن ابی زیاد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

وقال ابن فضيل: كان من أئمة الشيعة الكبار.
وقال أحمد بن حنبل: لم يكن بالحافظ.
وروى: عباس، عن يحيى: لا يحتج بحديثه.
روى: عثمان الدارمي، عن يحيى: ليس بالقوي.
وروى: أبو يعلى، عن يحيى: ضعيف الحديث.
وقال العجلي: جائز الحديث.
كان بأخرة يلقن، وأخوه برد: ثقة.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
راوی ضعیف اگر کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر رہا ہو تو کیا وہ صرف ’’ضعیف‘‘ ہی کہلائے گا؟
ضعیف اور مجروح راوی کی کچھ اقسام ہیں ،
جیسی وجہ ضعف اور جرح ہوگی ویسا ہی ضعیف ہوگا ۔

اسباب الطعن

وہ اسباب جن کی بنا پر کسی راوی کی حدیث ضعیف بن جاتی ہے دس ہیں۔

۱۔ الکذب ۲۔ تہمۃ الکذب

۳۔ فحش الغلط ۴۔ شدہ الغفلۃ

۵۔ الفسق ۶۔ الوہم

۷۔ مخالفتہ الثقات ۸۔ الجہال

۹۔ البدعۃ ۱۰۔ سوء الحفظ

۱۔ الکذب:

جس حدیث کا راوی کذاب ہو کذاب اس راوی کو کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو۔

۲۔ تہمۃ الکذب:

جس حدیث کا راوی مہتم بالکذب ہو متہم بالکذب اسے کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں تو جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو لیکن عام گفتگو میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو یا ایسی حدیث کو وہی اکیلا بیان کرے جو اصول دین کے خلاف ہو۔
۔

۳۔ فحش الغلط: راوی کی غلطیوں کا اصابت سے زیادہ ہونا۔

۴۔ شدۃ الغفلۃ: روایت کے سننے اور سنانے میں غفلت سے کام لینا۔

۵۔الفسق: فسق خواہ قولی ہو یا فعلی۔

۶۔ الوہم: روایت بیان کرتے وقت اوہام میں مبتلا ہونا۔

۷۔ مخالفتۃ الثقات: جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں ثقات کا شریک ہو تو عام طور پر ان کا موافق نہ رہ سکے۔

۸۔ الجہالتہ: کسی راوی کی ذات یا اس کے حالات متعلقہ جرح و تعدیل کا معلوم نہ ہونا۔ صاحب جہالتہ کی تین قسمیں ہیں۔

(الف) المبہم: جس راوی کا نام و نسب ذکر نہ کیا گیا ہو جیسے اخبرنی الثقۃ۔

(ب) مجہول العین: جس سے روایت لینے والا صرف ایک ہی شخص ہو۔

(ج) مجہول الحال: جس سے روایت لینے والے تو کئی ہوں مگر اس کے بارہ میں جرح و تعدیل معلوم نہ ہو اسے مستور بھی کہتے ہیں۔

۹۔ البدعۃ: راوی کا اس چیز کے خلاف اعتقاد رکھنا جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت اور متواتر ہو اور یہ مخالفت بطریق عناد بھی نہ ہو

۱۰۔ سوء الحفظ: راوی کی قوت حافظہ کا خراب ہو نا اس کی دو قسمیں ہیں۔

سوء الحفظ اصلی: جو فطری ہو۔ ایسے راوی کی کوئی بھی روایت جس کے بیان کرنے میں وہ منفرد ہو مقبول نہیں۔

سوء الحفظ طاری: جو کسی حادثہ یا بوڑھاپے کے سبب سے عارض ہو۔ اسے اختلاط کہتے ہیں اور ایسے راوی کو مختلط ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منقول از (اصطلاحات المحدثین ) مولانا سلطان محمودؒ
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ان سارے سوالوں کے جواب کیلئے کافی وقت چاہیئے ،
اس لئے اس راوی کا ترجمہ تہذیب التہذیب سے نقل کرتا ہوں :

قال علي بن المنذر عن بن فضيل كان من أئمة الشيعة الكبار وقال عبد الله بن أحمد عن أبيه: ليس حديثه بذاك وقال مرة: ليس بالحافظ وقال عثمان الدارمي عن بن معين: ليس بالقوي وقال أبو يعلى الموصلي عن بن معين ضعيف قيل له أيما أحب إليك هو أو عطاء بن السائب فقال ما أقربهما وقال عثمان بن أبي شيبة عن جرير كان أحسن حفظا من عطاء وقال العجلي جائز الحديث وكان بآخره يلقن وأخوه برد بن أبي زياد ثقة وهو أرفع من أخيه يزيد وقال أحمد بن سنان القطان عن بن مهدي ليث بن أبي سليم وعطاء بن السائب ويزيد بن أبي زياد ليث أحسنهم حالا عندي وقال أبو زرعة لين يكتب حديثه ولا يحتج به وقال أبو حاتم: ليس بالقوي وقال الجوزجاني سمعتهم يضعفون حديثه وقال الآجري عن أبي داود لا أعلم أحدا ترك حديثه وغيره أحب إلي منه وقال بن عدي هو من شيعة الكوفة ومع ضعفه يكتب حديثه وقال جرير عن يزيد قتل الحسين بن علي وأنا بن أربع عشرة أو خمس عشرة سنة وقال مطين مات سنة سبع وثلاثين ومائة
اس حدیث کے بارے کچھ فرمانا پسند کریں گے؟
سنن أبي داود:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ، وَيَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ»
[حكم الألباني] : صحيح
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
امام الذہبی سیر اعلام النبلاء میں ۔۔یزید بن ابی زیاد کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

وقال ابن فضيل: كان من أئمة الشيعة الكبار.
وقال أحمد بن حنبل: لم يكن بالحافظ.
وروى: عباس، عن يحيى: لا يحتج بحديثه.
روى: عثمان الدارمي، عن يحيى: ليس بالقوي.
وروى: أبو يعلى، عن يحيى: ضعيف الحديث.
وقال العجلي: جائز الحديث.
كان بأخرة يلقن، وأخوه برد: ثقة.
ان کی بات کیا صحیح ہے یا غلط؛
الكواكب النيرات (1 / 509):
12 - يزيد بن أبي زياد القرشي الهاشمي أبو عبد الله الكوفي
روى عن إبراهيم النخعي وعبد الرحمن بن أبي ليلى ومجاهد وعكرمة وغيرهم
وعنه زائدة وشعبة وزهير بن معاوية وآخرون
قال ابن سعد كان ثقة في نفسه إلا أنه اختلط في آخر عمره
 
Top