جس راوی میں ان میں سے کوئی عیب پایا جائے تو اس سے ثقہ راوی کا روایت کرنا کیسا ہے اور محدث کا اس کو اپنی کتاب میں لکھنا؟ضعیف اور مجروح راوی کی کچھ اقسام ہیں ،
جیسی وجہ ضعف اور جرح ہوگی ویسا ہی ضعیف ہوگا ۔
اسباب الطعن
وہ اسباب جن کی بنا پر کسی راوی کی حدیث ضعیف بن جاتی ہے دس ہیں۔
۱۔ الکذب ۲۔ تہمۃ الکذب
۳۔ فحش الغلط ۴۔ شدہ الغفلۃ
۵۔ الفسق ۶۔ الوہم
۷۔ مخالفتہ الثقات ۸۔ الجہال
۹۔ البدعۃ ۱۰۔ سوء الحفظ
۱۔ الکذب:
جس حدیث کا راوی کذاب ہو کذاب اس راوی کو کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو۔
۲۔ تہمۃ الکذب:
جس حدیث کا راوی مہتم بالکذب ہو متہم بالکذب اسے کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں تو جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو لیکن عام گفتگو میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو یا ایسی حدیث کو وہی اکیلا بیان کرے جو اصول دین کے خلاف ہو۔۔
۳۔ فحش الغلط: راوی کی غلطیوں کا اصابت سے زیادہ ہونا۔
۴۔ شدۃ الغفلۃ: روایت کے سننے اور سنانے میں غفلت سے کام لینا۔
۵۔الفسق: فسق خواہ قولی ہو یا فعلی۔
۶۔ الوہم: روایت بیان کرتے وقت اوہام میں مبتلا ہونا۔
۷۔ مخالفتۃ الثقات: جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں ثقات کا شریک ہو تو عام طور پر ان کا موافق نہ رہ سکے۔
۸۔ الجہالتہ: کسی راوی کی ذات یا اس کے حالات متعلقہ جرح و تعدیل کا معلوم نہ ہونا۔ صاحب جہالتہ کی تین قسمیں ہیں۔
(الف) المبہم: جس راوی کا نام و نسب ذکر نہ کیا گیا ہو جیسے اخبرنی الثقۃ۔
(ب) مجہول العین: جس سے روایت لینے والا صرف ایک ہی شخص ہو۔
(ج) مجہول الحال: جس سے روایت لینے والے تو کئی ہوں مگر اس کے بارہ میں جرح و تعدیل معلوم نہ ہو اسے مستور بھی کہتے ہیں۔
۹۔ البدعۃ: راوی کا اس چیز کے خلاف اعتقاد رکھنا جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت اور متواتر ہو اور یہ مخالفت بطریق عناد بھی نہ ہو
۱۰۔ سوء الحفظ: راوی کی قوت حافظہ کا خراب ہو نا اس کی دو قسمیں ہیں۔
سوء الحفظ اصلی: جو فطری ہو۔ ایسے راوی کی کوئی بھی روایت جس کے بیان کرنے میں وہ منفرد ہو مقبول نہیں۔
سوء الحفظ طاری: جو کسی حادثہ یا بوڑھاپے کے سبب سے عارض ہو۔ اسے اختلاط کہتے ہیں اور ایسے راوی کو مختلط ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منقول از (اصطلاحات المحدثین ) مولانا سلطان محمودؒ
جبکہ پہلے لکھا جاچکا کہ کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا جب کہ وہ صحیح نا ہو اس پر وعید ہے۔
بلکہ بعض احادیث لکھ کر محدث یہ تک لکھتا ہے کہ حدیث ضعیف ہے مگر عمل اس پر ہے۔
بڑا عجیب لگتا ہے کہ حدیث ضعیف بھی اور اس پر عمل بھی؟
کچھ وضاحت فرمادیں کہ بات سمجھ آسکے اور اس مخمصہ سے نکل سکوں۔