• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف حدیث اورمجروح راوی

شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ضعیف اور مجروح راوی کی کچھ اقسام ہیں ،
جیسی وجہ ضعف اور جرح ہوگی ویسا ہی ضعیف ہوگا ۔

اسباب الطعن

وہ اسباب جن کی بنا پر کسی راوی کی حدیث ضعیف بن جاتی ہے دس ہیں۔

۱۔ الکذب ۲۔ تہمۃ الکذب

۳۔ فحش الغلط ۴۔ شدہ الغفلۃ

۵۔ الفسق ۶۔ الوہم

۷۔ مخالفتہ الثقات ۸۔ الجہال

۹۔ البدعۃ ۱۰۔ سوء الحفظ

۱۔ الکذب:

جس حدیث کا راوی کذاب ہو کذاب اس راوی کو کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو۔

۲۔ تہمۃ الکذب:

جس حدیث کا راوی مہتم بالکذب ہو متہم بالکذب اسے کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں تو جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو لیکن عام گفتگو میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو یا ایسی حدیث کو وہی اکیلا بیان کرے جو اصول دین کے خلاف ہو۔
۔

۳۔ فحش الغلط: راوی کی غلطیوں کا اصابت سے زیادہ ہونا۔

۴۔ شدۃ الغفلۃ: روایت کے سننے اور سنانے میں غفلت سے کام لینا۔

۵۔الفسق: فسق خواہ قولی ہو یا فعلی۔

۶۔ الوہم: روایت بیان کرتے وقت اوہام میں مبتلا ہونا۔

۷۔ مخالفتۃ الثقات: جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں ثقات کا شریک ہو تو عام طور پر ان کا موافق نہ رہ سکے۔

۸۔ الجہالتہ: کسی راوی کی ذات یا اس کے حالات متعلقہ جرح و تعدیل کا معلوم نہ ہونا۔ صاحب جہالتہ کی تین قسمیں ہیں۔

(الف) المبہم: جس راوی کا نام و نسب ذکر نہ کیا گیا ہو جیسے اخبرنی الثقۃ۔

(ب) مجہول العین: جس سے روایت لینے والا صرف ایک ہی شخص ہو۔

(ج) مجہول الحال: جس سے روایت لینے والے تو کئی ہوں مگر اس کے بارہ میں جرح و تعدیل معلوم نہ ہو اسے مستور بھی کہتے ہیں۔

۹۔ البدعۃ: راوی کا اس چیز کے خلاف اعتقاد رکھنا جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت اور متواتر ہو اور یہ مخالفت بطریق عناد بھی نہ ہو

۱۰۔ سوء الحفظ: راوی کی قوت حافظہ کا خراب ہو نا اس کی دو قسمیں ہیں۔

سوء الحفظ اصلی: جو فطری ہو۔ ایسے راوی کی کوئی بھی روایت جس کے بیان کرنے میں وہ منفرد ہو مقبول نہیں۔

سوء الحفظ طاری: جو کسی حادثہ یا بوڑھاپے کے سبب سے عارض ہو۔ اسے اختلاط کہتے ہیں اور ایسے راوی کو مختلط ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منقول از (اصطلاحات المحدثین ) مولانا سلطان محمودؒ
جس راوی میں ان میں سے کوئی عیب پایا جائے تو اس سے ثقہ راوی کا روایت کرنا کیسا ہے اور محدث کا اس کو اپنی کتاب میں لکھنا؟
جبکہ پہلے لکھا جاچکا کہ کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا جب کہ وہ صحیح نا ہو اس پر وعید ہے۔
بلکہ بعض احادیث لکھ کر محدث یہ تک لکھتا ہے کہ حدیث ضعیف ہے مگر عمل اس پر ہے۔
بڑا عجیب لگتا ہے کہ حدیث ضعیف بھی اور اس پر عمل بھی؟
کچھ وضاحت فرمادیں کہ بات سمجھ آسکے اور اس مخمصہ سے نکل سکوں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جس راوی میں ان میں سے کوئی عیب پایا جائے تو اس سے ثقہ راوی کا روایت کرنا کیسا ہے اور محدث کا اس کو اپنی کتاب میں لکھنا؟
اس کا جواب ہمارے محترم بھائی شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے یوں دیا ہے :
ـــــــــــــــــــــــ
ثقہ راوی اگر کسی سے روایت کرے تو محض روایت کرنا توثیق نہیں ہے یہ بات عام طلباء بھی جانتے ہیں۔
اس سلسلے میں غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے ’’روایت حدیث‘‘ کو ’’تبلیغ حدیث‘‘ سمجھ رکھا ہے۔
یعنی یہ باور کرلیا گیا کہ کوئی محدث اگر کوئی حدیث روایت کرے تو اس کا مقصد اس حدیث کی نشر واشاعت اور اس پر ایمان لانے کی دعوت ہی ہے ۔
اورظاہر ہے کہ جب ایک داعی ومبلغ کو خود معلوم ہو کہ فلاں چیز درست نہیں تو وہ بھلا اس کی تبلیغ کیونکر کرسکتاہے؟؟

دراصل معاملہ ایسا نہیں ہے اور کسی حدیث کی روایت اور کسی حدیث کی تبلیغ میں فرق ہے۔

تبلیغ حدیث میں یہ ضروری ہے کہ صحیح وثابت شدہ حدیث ہی پیش کی جائیں۔
لیکن محض روایت حدیث میں اس چیز کی پابندی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کیوں روایت حدیث کا میدان ، تبلیغ حدیث کے میدان سے الگ ہے ۔

روایت حدیث میں محدثین ثقہ رواۃ کے ساتھ ساتھ ضعیف رواۃ سے بھی نقل کرتے ہیں اسی طرح صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ ضعیف احادیث کی بھی روایت کرتے ہیں۔

ضعیف حدیث کی روایت یا ضعیف رواۃ سے روایت میں محدثین کے کئی مقاصد ہوتے ہیں جن میں سے چند ذکر کئے جاتے ہیں:

1: سند عالی کاحصول:
سند عالی اچھی سند مانی جاتی ہے لیکن کبھی کبھی کسی محدث کے پاس ضعیف سند عالی ہوتی ہے تو وہ ضعیف سند عالی بھی اس امید پردرج کردیتاہے کہ اگر اس کی تائید مل گئی تو یہ سند عالی معتبر ہوجائے گی اور علو کے اعتبار سے اس کا الگ مقام ہوگا۔

2: شواہد ومتابعات:
کبھی کبھی ایک ضعیف روایت بذات خود تو ضعیف ہوتی ہے لیکن شواہد ومتابعات کے ساتھ مل کر صحیح ہوجاتی ہے ، تو محدثین وہ ضعیف روایات اس لئے درج کردیتے ہیں تاکہ شواہد ومتابعات ملنے پر یہ ضعیف ہونے کے بعد بھی معتبر قرار پائیں گی۔

3: مقام ضعف کی تعیین:
کبھی کبھی کسی حدیث میں مخفی علت ہوتی ہے جسے خاص خاص محدث ہی پکڑ پاتے ہیں۔ کیونکہ ثقہ رواۃ کی غلطی سے سند بظاہر صحیح ہوجاتی ہے جبکہ اصلا وہ حدیث ضعیف ہی ہوتی ہے تو اگر اصلی شکل میں وہ ضعیف روایت کہیں اور بھی محفوظ ہوگی تو دوسرا ثقہ راوی اگر اس کے بیان میں غلطی کرے گا تو اس کی غلطی پکڑنے میں آسانی ہوگی۔

4 : ضعف کے درجہ کا تعین:
ضعیف رواۃ بھی ایک درجہ کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ کوئی زیادہ ضعیف ہوتا اور کوئی کم ضعیف ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس بات کا پتہ کیسے چلے گا ؟؟ اس کا تو صرف یہی ہے کہ ان کی مرویات نوٹ کی جائیں اور ایک ساتھ انہیں دیکھا جائے پھر فیصلہ کیا جائے کہ کون کس درجہ کا ضعیف ہے ، اور ایسا کرنے کے لئے ان کی مرویات لکھنا ضروری ہے۔

5 :مدلس کے ذریعہ حذف شدہ راوی کا تعین:
بعض مدلسین ضعیف رواۃ کو سند سے ساقط کردیتے ہیں اب اگر ان ضعیف رواۃ کی مرویات اصلی حالت میں نہ لکھی جائیں تو کیسے پتہ چلے گا کون راوی کہاں سے ساقط ہے ۔ پھر یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کون مدلس ضعیف کو ساقط کرتاہے؟؟


اس کے علاوہ اور بھی متعدد اسباب ہیں جن کی خاطر محدثین ضعیف رواۃ سے روایت کرتے تھے ۔
اور یہ ساری باتیں محض روایت تک محدود ہوتی تھیں ، رہا تبلیغ واشاعت کا مرحلہ تو اس کے لئے وہ صرف صحیح حدیث ہی سے احتجاج کرتے تھے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اس کا جواب ہمارے محترم بھائی شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے یوں دیا ہے :
ـــــــــــــــــــــــ
بھائی کہنے کا مقصد یہ تھا کہ مجروح سے روایت لینے والا اور محدث قابل اعتبار کیوں کر رہے؟
کیونکہ ثقہ اگر مجروح سے روایت لے رہا ہے تو وہ اس بات کا خیال نہیں رکھ رہا کہ اس سے بات لی جاسکتی ہے یا نہیں اور ایک غلط بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنے میں معاون بن رہا ہے اور یہی محدث کے لئے بھی۔
اس پر روشنی ڈالیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بھائی جان ! کچھ مطالعہ کیا ہو، پھر سوال جواب سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ سرے سے کسی چیز کے بارے میں علم ہی نہ ہو، تو بحث و مباحثہ اشکال ختم کرنے نہیں، مزید پیدا کرنے کا سبب بھی بن سکتاہے۔
اصول حدیث کی کوئی بھی کتاب پڑھیں۔
ضعیف
حدیث
مجروح
راوی
یہ سب چیزیں علیحدہ علیحدہ ، اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مستقل اصطلاحات ہیں، اور جس فن کی یہ اصطلاحات ہیں، جب تک اس کے بارے میں بنیادی معلومات نہ ہوں گی، سمجھ نہیں آئیں گی۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
سیکھنے کے لئے ہی تو سوال جواب ہو رہے ہیں۔
کیا یہاں سیکھنا سکھانا نہیں ہوتا؟
یہ کتابیں انسانوں کی لکھی ہوئی ہیں۔
وحی اور وحی کی رہنمائی والی باتیں ہی حتمی اور اٹل ہیں۔
جارحین میں سے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تقلیداً جرح کی ہوتی ہے تحقیقاً نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سیکھنے کے لئے ہی تو سوال جواب ہو رہے ہیں۔
کیا یہاں سیکھنا سکھانا نہیں ہوتا؟
ٹھیک ہی بھائی جیسے آپ بہتر سمجھیں ،
آپ کے درج ذیل جملہ کی سمجھ نہیں آئی !
جارحین میں سے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ تقلیداً جرح کی ہوتی ہے تحقیقاً نہیں۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اکثر لکھا ہوتا ہے کہ اس کو فلاں نے ضعیف کہا ہے۔
جو یہ لکھ رہا ہوتا ہے اس کو بھی جارحین کی فہرست میں شمار کیا ہؤا ہوتا ہے۔
راوی کا ضعف حفظ حدیث کے سبب ہے تو اس پر قوی دلیل ہو۔
راوی کا جھوٹا ہونا قوی دلیل سے ہو اور اس پر شاہد ہوں۔
ثقہ راوی کی تدلیس پر کوئی اعتراض نا ہونا چاہیئے۔ اگر اعتراض ہے تو اس پر قوی دلیل ہو۔
وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل ہیں۔
وجہ اس کی یہ کہ جو حدیث مرفوع ہے اس سے صرف ’’ضعیف‘‘ کہہ کر چھٹکارا نہیں ہوسکتا۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
بہت سے محدثین حدیث پر کمنٹ کرتے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے مگر عمل اس پر ہے۔ اس کی کیاوجہ؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
بہت سے محدثین لکھتے ہیں کہ حدیث ضعیف متن صحیح۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بہت سے محدثین حدیث پر کمنٹ کرتے ہیں کہ حدیث ضعیف ہے مگر عمل اس پر ہے۔ اس کی کیاوجہ؟
بہت سے محدثین لکھتے ہیں کہ حدیث ضعیف متن صحیح۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
حسن لغیرہ کے لیے عموما یہ لفظ بولے جاتے ہیں۔
یا پھر ایسی ضعیف جو باقاعدہ حسن لغیرہ کے درجہ میں تو نہیں ہوتی لیکن دیگر دلائل و نصوص سے اس کے معنی کی تائیدہوتی ہو۔
 
Top