محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
جارحیت بہترین دفاع ہے
یہ حکمت عملی بھی خوب ہے جب کسی کا جواب نہ دینا ہو تو اصل موضوع سے ہٹ کر دائیں بائیں کی باتیں شروع کر دو تاکہ اصل موضوع کی طرف سے توجہ ہٹ جائے
اصل موضوع یہ تھا کہ
طارق علی بروہی کے ویبسائٹ سے علم حاصل کر سکتے کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔
اس موضوع کی مناسبت سے زیادہ سے زیادہ یہ ممکن تھا کہ جس شخص کی ویب سائٹ سے استفادہ کا سوال ہے اس کے عقائد اور نظریات پر بات کی جا تی یا اس کے علمی مصادر و ماخذ پر بات کی جاتی جیسا کہ خضرحیات بھائی حفظہ اللہ کر رہے ہیں یا ایک آدھا سوال میں نے بھی کرنے کی جرات کر لی
لیکن پہلے جماعت الدعوۃ کے تعارف جیسے غیر متعلقہ موضوع پر اصرار کیا گیا
پھر حزبیت وغیرہ جیسے موضوعات پر الجھانے کی کوشش کی (کیونکہ اس کے علاوہ فقہ بخشیہ کے پاس کوئی اور موضوع ہی نہیں کہ ہر جگہ اسی سے آغاز کیا جاتا ہے )
پھر خوارج جیسے غیر متعلقہ موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
کیا ان تینوں موضوعات کا اس عنوان سے کوئی تعلق ہے ؟
یہ تو گویا وہی بات ہو گئی کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ یا گردے میں درد جگر
ایک سادہ سا سوال کیا تھا برصغیر و پاک و ہند کے کن علماء سے علم دین حاصل کیا جا سکتا ہے ؟
اب اگر اس کا جواب ’’نہیں ‘‘ میں ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ محترم ڈاکٹر مرتضی بخش صاحب مجدد ملت و مجتھد مطلق ہیں اور جو کچھ وہ فرمائیں گے وہی حق اور دین ہے اس کے علاوہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے وہ سب باطل ہے
اور اگر اس کا جواب ’’ کسی فہرست ‘‘ کی صورت میں ہے کہ جی ہاں ان علماء سے علم دین حاصل کیا جا سکتا ہے تو ٹھیک ہے جی بات سمجھ میں آتی ہے کہ معصوم عن الخطا کوئی بھی نہیں
زیادہ سے زیادہ اجتھادی خطا گردانی جا سکتی ہے لیکن منھج سے خارج کر دینا یہ غیر معقول و شرعی رویہ و اسلوب ہے
پھر بھی حزبیت پر اگر بات کرنا مراد ہے تو
ایسا کریں کہ جن دو یا تین سعودی علماء کے تزکیہ کی بنیاد پر یہ پوری عمارت تعمیر کی جا رہی ہے ان سے یہ سوال پوچھ لیا جائے کہ کیا ان کے نزدیک برصغیر پاک و ہند میں کوئی عالم دین منھجی ہے یا نہیں ؟
یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ جن مشائخ پر ڈاکٹر صاحب نے سنگ باری کی ہے ان کے نام لے کر ان مذکورہ بالا تین سعودی علماء (جن کے تزکیہ پر ڈاکٹر مرتضی بخش صاحب مجتھد مطلق بن چکے ہیں ) سے فتوی دریافت کیا جائے جس میں یہ لکھا ہو کہ مذکورہ بالا پاکستانی و بھارتی مشائخ کے حزبیت کے حوالے سے غیر اسلامی نظریات ہیں لہذا ان کے بارے میں آپ کا فتوی درکار ہے ؟
وہ جو فتوی دیں وہ یہاں نشر کر دیا جائے
یہ حکمت عملی بھی خوب ہے جب کسی کا جواب نہ دینا ہو تو اصل موضوع سے ہٹ کر دائیں بائیں کی باتیں شروع کر دو تاکہ اصل موضوع کی طرف سے توجہ ہٹ جائے
اصل موضوع یہ تھا کہ
طارق علی بروہی کے ویبسائٹ سے علم حاصل کر سکتے کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔
اس موضوع کی مناسبت سے زیادہ سے زیادہ یہ ممکن تھا کہ جس شخص کی ویب سائٹ سے استفادہ کا سوال ہے اس کے عقائد اور نظریات پر بات کی جا تی یا اس کے علمی مصادر و ماخذ پر بات کی جاتی جیسا کہ خضرحیات بھائی حفظہ اللہ کر رہے ہیں یا ایک آدھا سوال میں نے بھی کرنے کی جرات کر لی
لیکن پہلے جماعت الدعوۃ کے تعارف جیسے غیر متعلقہ موضوع پر اصرار کیا گیا
پھر حزبیت وغیرہ جیسے موضوعات پر الجھانے کی کوشش کی (کیونکہ اس کے علاوہ فقہ بخشیہ کے پاس کوئی اور موضوع ہی نہیں کہ ہر جگہ اسی سے آغاز کیا جاتا ہے )
پھر خوارج جیسے غیر متعلقہ موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
کیا ان تینوں موضوعات کا اس عنوان سے کوئی تعلق ہے ؟
یہ تو گویا وہی بات ہو گئی کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ یا گردے میں درد جگر
ایک سادہ سا سوال کیا تھا برصغیر و پاک و ہند کے کن علماء سے علم دین حاصل کیا جا سکتا ہے ؟
اب اگر اس کا جواب ’’نہیں ‘‘ میں ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ محترم ڈاکٹر مرتضی بخش صاحب مجدد ملت و مجتھد مطلق ہیں اور جو کچھ وہ فرمائیں گے وہی حق اور دین ہے اس کے علاوہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے وہ سب باطل ہے
اور اگر اس کا جواب ’’ کسی فہرست ‘‘ کی صورت میں ہے کہ جی ہاں ان علماء سے علم دین حاصل کیا جا سکتا ہے تو ٹھیک ہے جی بات سمجھ میں آتی ہے کہ معصوم عن الخطا کوئی بھی نہیں
زیادہ سے زیادہ اجتھادی خطا گردانی جا سکتی ہے لیکن منھج سے خارج کر دینا یہ غیر معقول و شرعی رویہ و اسلوب ہے
پھر بھی حزبیت پر اگر بات کرنا مراد ہے تو
ایسا کریں کہ جن دو یا تین سعودی علماء کے تزکیہ کی بنیاد پر یہ پوری عمارت تعمیر کی جا رہی ہے ان سے یہ سوال پوچھ لیا جائے کہ کیا ان کے نزدیک برصغیر پاک و ہند میں کوئی عالم دین منھجی ہے یا نہیں ؟
یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ باقاعدہ جن مشائخ پر ڈاکٹر صاحب نے سنگ باری کی ہے ان کے نام لے کر ان مذکورہ بالا تین سعودی علماء (جن کے تزکیہ پر ڈاکٹر مرتضی بخش صاحب مجتھد مطلق بن چکے ہیں ) سے فتوی دریافت کیا جائے جس میں یہ لکھا ہو کہ مذکورہ بالا پاکستانی و بھارتی مشائخ کے حزبیت کے حوالے سے غیر اسلامی نظریات ہیں لہذا ان کے بارے میں آپ کا فتوی درکار ہے ؟
وہ جو فتوی دیں وہ یہاں نشر کر دیا جائے