پھر شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ:
طواغیت (طاغوت کی جمع ہے) بہت ہیں جن میں سے بڑے بڑےپانچ یہ ہیں:
1- ابلیس(لعنۃ اللہ علیہ)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"ابلیس" وہ شیطان ہے جو راندہٴ درگاہ ہوا۔ جس پر لعنت کی گئی اور جس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ) (ص: ۷۸)
(بے شک تم پر قیامت کے روز تک میری لعنت ہے)
"ابلیس" فرشتوں کے ساتھ ان کی صحبت میں رہ کر انہیں کی طرح عمل کرتا تھا۔ جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو جو خباثت ،انکار اور غرور اس میں تھا ظاہر ہوگیا۔ چنانچہ اس نے انکار کر یا، تکبر کا شکار ہوا اور کافر بن گیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کر دیا گیا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ) (البقرۃ: ۳۴)
(اور جس وقت ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے لئے سجدہ میں گر جاؤ تو سب سجدہ میں گر گئے بجز ابلیس کے اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا ،اور کافروں میں سے ہوگیا)
2- وہ جس کی عبادت کی جاتی ہو اور وہ اس کو پسند کرتا ہو
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی عبادت کی جارہی ہو اور اسے پسند ہو کہ وہ اللہ کے علاوہ پوجا جائے، ایساشخص بھی(نعوذ باللہ) ایک بڑا طاغوت ہے۔ چاہے وہ اپنی زندگی میں پوجا جا رہا ہو یا اپنی موت کے بعد، اور وہ جب مرا تو وہ اس بات سے راضی تھا۔
3- وہ جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہو
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی وہ جو دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا ہو اگرچہ لوگ اس کی عبادت نہ کرتے ہوں، تو وہ بھی سردارانِ طاغوت میں سے ہے۔ چاہے اس کی دعوت قبول کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔
4- وہ جو علم غیب کا ذرا سا بھی دعویٰ کرتا ہو
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو چیز انسان کے علم و ادراک سے غائب اور اوجھل ہو وہ"غیب" ہے۔ غیب کی دو قسمیں ہیں:
حال اور مستقبل : "غیب حال" ایک نسبتی علم ہے، کسی کو معلوم ہوتا ہے کسی کو نہیں، اور غیب مستقبل حقیقی علم ہے جو اللہ وحدہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، لیکن ان رسولوں کو معلوم ہو جاتا ہے جنہیں کہ اللہ تعالیٰ اطلاع دے دیتا ہے۔ لہٰذا جو غیب مستقبل کے علم کا دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے۔ کیوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ) (النمل: 65)
(آپ کہہ دیجئے کہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب دوبارہ زندہ کئے جائیں گے)
جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد ﷺ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرعام اس بات کا اعلان کر دیں کہ آسمان اور زمین میں رہنے والا کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب نہیں جانتا تو جو علمِ غیب کا دعوی کرے وہ اس قرآنی خبر میں اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلاتا ہے۔
ہم ان سے کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم تو غیب جانو اور نبی ﷺ غیب نہ جانیں؟ کیا تم زیادہ شرف والے ہو یا رسول اللہ ﷺ؟ اگر کہتے ہیں کہ ہم رسول سے زیادہ شرف والے ہیں تو ایسے کفریہ قول کی وجہ سے وہ کافر ہیں۔ اور اگر کہتے ہیں کہ رسول زیادہ شرف والے ہیں، تو ہم کہیں گے کہ تب غیب ان سے کیوں پوشیدہ رہا اور تم اسے جان گئے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایاہے:
(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا.إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنرَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا) (الجن: ۲۶-۲۷)
(غیب کا جاننے والا وہی ہے سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ ہاں مگر اپنے کسی برگزیدہ پیغمبر کو۔ تو اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے)
5- جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید ربوبیت میں سے ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا نفاذ ہے جو اس کی ربوبیت ،اس کی مکمل ملکیت اور تصرف کا مقتضی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اتباع کرنے والوں کا رب کہا ہے، جن کی اتباع اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کے خلاف کی جاتی ہے۔ فرمایا:
(اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ) (التوبۃ: ۳۱)
(انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب بنا رکھا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو صرف یہ حکم کیا گیا ہے کہ فقط ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود ِحقیقی نہیں ،وہ ان کے شرک سے پاک ہے)
اللہ تعالیٰ نے متبوعین کو رب کا نام دیا کیوں کہ متبعین نے انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ قانون ساز بنا لیا تھا، اور متبعین کو پجاری کا نام دیا ہے کیوں کہ انہوں نے متبوعین کے سامنے ذلت کا اظہار کیا اور اللہ کے حکم کے خلاف ان کی اطاعت کی۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا:"حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی تھی"۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا تھا:" کیوں نہیں، انہوں نے ان کے لئے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور لوگوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی طرف سے ان کی عبادت تھی"
(رواه الترمذي وحسنه، كتاب التفسير سورة التوبة، 5/262.)