یہ تقریب سو فیصد منعقد ہوئی ہے اور اس کا انکار تاشفین صاحب کر ہی نہیں سکتے۔ ایک دوسرے فورم پر ان کے ڈیپارٹمنٹ کے فواد صاحب اس کا اقرار کر چکے ہیں۔ اور اس کو
يہ محض امريکی حکومت کی عوامی سطح پر جاری سفارتی کوششوں کا حصہ تھی جس کا مقصد معاشرے کے ہر فرقے اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے انسانوں پر اثر انداز ہونے والی بنيادی انسانی قدروں اور اصولوں کی پاسداری کے ضمن میں ہمارے مصمم ارادوں کا اعادہ کرنا تھا۔
کے الفاظ سے بالکل جائز و درست کا سرٹیفکیٹ بھی عنایت کر چکے ہیں۔
ایسے لوگ جو اسلامی معاشروں میں بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اور اس فروغ کو دل سے پسند بھی کرتے ہیں تو دنیا و آخرت میں دردناک عذاب الہی کے مستحق بن جاتے ہیں اور ان کے نفاق میں کوئی کلام نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿١٩﴾
اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمان معاشروں میں بےحیائی پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ایمان اور نفاق میں فرق یہ ہو گا کہ ایک مسلمان سے اس کا امکان تو ہے کہ وہ بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہوں لیکن جب تک وہ اپنے اس عمل پر دل سے راضی نہیں ہے اور اسے اپنے اس فعل پر کڑھن اور احساس ندامت ہے تو یہ گناہ گاروں کی فہرست میں شامل ہے لیکن جب وہ برائی اور بے حیائی کے ارتکاب اور فروغ پر نہ صرف اپنے دل سے مطمئن ہو بلکہ اسے ایک مشن یا فریضہ کے طور سر انجام دے رہا ہو تو کھلم کھلا نفاق ہے کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی پایا جاتا ہے اور ایسے ہی اہل نفاق کے بارے قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی تھیں جو مدنی معاشرے میں بے حیائی کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا جب بھی یہ سبب پایا جائے گا تو ان آیات کا اطلاق اس سبب پر ہو گا۔
باقی رہی ایسے لوگوں کی تہذیب کلام یا گفتگو کی شائستگی یا چرب زبانی یا بات چیت کی نرمی یا زبان کی لوچ کہ جو بظاہر کلمہ گو ہوں لیکن دل ان کے مسلمانوں سے زیادہ اہل کفر کے قریب ہوں تو ان کے بارے ارشاد باری تعالی ہے:
إِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿٤﴾
اور جب تم ان (کے تناسب اعضا) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں (کیا ہی) اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تقریر کو توجہ سے سنتے ہو (مگر فہم وادراک سے خالی) گویا لکڑیاں ہیں جو دیواروں سے لگائی گئی ہیں۔ (بزدل ایسے کہ) ہر زور کی آواز کو سمجھیں (کہ) ان پر بلا آئی۔ یہ (تمہارے) دشمن ہیں ان سے بےخوف نہ رہنا۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّـهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ﴿٢٠٤﴾ وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّـهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ﴿٢٠٦﴾
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی مانی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تاکہ اس میں فتنہ انگیزی کرے اور کھیتی کو (برباد) اور (انسانوں اور حیوانوں کی) نسل کو نابود کردے اور خدا فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے۔ سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے۔ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔