• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے اہم شرعی مسائل

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
خلع کا بیان

اسلام نے جس طرح مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے ۔ اسی طرح عورت کو بھی خلع کا حق عنایت کیا ہے اور یہ مجبورا اسی صورت میں ہے جب کہ میاں بیوی کے درمیان نبھائو نہ ہو سکے اور عورت شوہر سے نفرت کرے اور بغض رکھے اور ان میں ایک ساتھ رہنے میں دیگر بہت سی خرابیاں لاحق ہوں تو ایسی حالت میں عورت کچھ مال یا روپیہ وغیرہ دے کر شوہر سے چھٹکارا حاصل کر لے خواہ رقم مہر ہو یا اس سے کم یا زیادہ ۔ اس صورت کو اصطلاح شریعت میں خلع کہا جاتا ہے۔ خلع کا ذکر قرآن مجید میں آیت طلاق کے ضمن اس طرح آیا ہے:

’’ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ فَلاَ تَعْتَدُوہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الظَّالِمُون‘‘ (البقرۃ: ۲۲۹)
’’پھر اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں کو ادا نہیں کریں گے تو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ عورت کچھ دے کر رخصت لے( چھٹکارا حاصل کرے)‘‘۔
خلع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی ہوا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل حدیث میں ہے:

’’عن ابن عباس ان امراۃ ثابت ابن قیس اتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لااعیب علیہ فی خلق ولا دین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتر دین علیہ حدیقتہ قالت نعم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقبل الحدیقۃ وطلقھا تطلیقۃ‘‘ (بخاری ج۲،ص۷۹۴،طبع رشیدیہ دھلی)
’’سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی دین و اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی۔ لیکن اسلام میں کفر کو نا پسند کرتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو باغ ثابت رضی اللہ عنہ نے( مہر میں) دیا ہے اسے واپس کر دوگی اس نے کہا کہ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت سے فرمایا باغ کو واپس لے لو اور طلاق دے دو‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بلا وجہ خلع کرانے پر وعید

جس طرح طلاق کے معاملہ میں مردوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں بلکہ بہت ہی تدبر کے ساتھ طلاق کے بارے میں فیصلہ کریں ،بالکل اسی طرح عورتوں کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ خلع کے معاملہ میں جلدی نہ کریں اور بغیر کسی معقول وجہ کے خلع کا مطالبہ نہ کریں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ایما امراۃ سألت زوجھا الطلاق من غیر باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ‘‘ (ابو داؤد)
’’جو عورت اپنے شوہر سے ایسی صورت میں طلاق طلب کرتی ہے کہ شوہر کی طرف سے اسے کوئی تکلیف نہ پہنچ رہی ہو تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
عدت خلع

خلع کے بعد عورت جو عدت گذارتی ہے اسے عدت خلع کہتے ہیں ۔ اور وہ ایک حیض ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
’’عن ابی عباس ان امرأۃ ثابت ابن قیس اختلعت من زوجھا علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم فامرھاان تعتد بحیضۃ‘‘
(ترمذی مع تحفۃ الاحوذی،ج۲،ص۱۶،طبع دھلی واخرجہ ابو داؤد وسکت عنہ ھو والمنذری کذا فی تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی ج۲، ص۲۱۶)

’’سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی عورت نے اپنے شوہر سے زمنِ نبوی میں خلع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گذارنے کا ارشاد فرمایا‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مختلعہ عورت کی عدت طلاق والی عورت سے الگ ہے، اور وہ ایک حیض ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
زمانہ جاہلیت کی طلاق

زمانہ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد اور تعداد مقرر نہیں تھی بلکہ تین اور سو اور زیادہ جس طرح چاہتے دے دیا کرتے تھے مگر پھر بھی رجعت کا حق باقی رہتا تھا۔ اسلام نے اس کی اصلاح فرمائی:’’الطلاق مرتان‘‘ اس نے اس غلط طریقے کو ختم کر دیا ۔یہ مضمون دو حدیثوں میں وارد ہوا ہے ۔ایک کو تو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابو دائود اور نسائی نے روایت کیا ہے جس کی سند میں علی بن حسین بن واود ہے۔ جو ضعیف ہے جیسا کہ نیل الاوطار ،جلد ۴ ، ص۲۶۷ میں ہے:۔

’’فی اسنادہ علی ابن الحسین بن واقد وضعفہ معلوم انتھی‘‘

اسی طرح امام منذری فرماتے ہیں جیسا کہ عون المعبود ج ۲ ص۲۲۶ اور زادالمعاد ج۴ ،ص۶۰ میں ہے:
’’فیہ علی ابن الحسین بن واقد وضعہ معلوم ،انتھی‘‘

دوسری روایت کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے ج۲ ص ۲۱۹ پر نقل کیا ہے وہ بھی صحیح نہیں بلکہ مرسل ہے۔
(رواہ الترمذی ورواہ ایضًا عن عروۃ مرسلا وذکرانہ اصحَّ(نیل الاوطار ج۶، ص۱۷۸، طبع مصر))

اگر ان حدیثوں کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تب بھی یہ ہمارے خلاف نہیں کیوں کہ ان میں ہے کہ لوگ جاہلیت میں بہت سی طلاقیں دے ڈالتے تھے۔ تین یا سو یا زیادہ اور بغیر عدد کے مراجعت بھی کر لیا کرتے تھے۔ مگر ’’الطلاق مرتان‘‘ نے اس طریق جاہلی کو منسوخ کر دیا اور حد مقرر کر دی کہ دو طلاق تک حق رجعت ہے اور تیسری کے بعد حق رجعت ختم ۔

1۔ اس میں یہ کہاں ہے کہ اگر مجلس میں تین طلاق دی جائیں تو وہ واقع ہو جائیں گی۔ اگر یہ مطلب ہوتا تو عہد نبوی و صدیقی اور شروع عہد فاروقی میں اس کے خلاف کیوں عمل ہوتا؟

2۔اگر یہی مطلب ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ کیوں فرماتے:
’’ان الناس قد استعجلو فی امر کانت لھم فیہ اناۃ‘‘

یعنی لوگوں نے طلاق کے معاملے میں جلد بازی شروع کر دی حالانکہ ان کے لئے اس میں ڈھیل اور مہلت تھی اور سنن سعید بن منصور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا صریح اعلان موجود ہے کہ جو آدمی ایک مجلس میں تین طلاق دے ڈالے ہم اسے کتاب اللہ کی رو سے ایک ہی قرار دیں گے۔

’’یطلق امرأتہ ثلاثا بکلمۃ واحدۃ لوحملنا ھم علی کتاب اللہ‘‘ (سنن سعید ۳؍۱؍۲۵۹، طبع مجلس علمی ڈابھیل الھند)
’’جب شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے تو میں اسے ایک قرار دوں لیکن لوگوں نے اپنے نفسوں پر جاری کیا تو میں بھی نفس پر اس چیز کو لازم کرتا ہوں جو ہر نفس نے لازم کیا‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اکٹھی تین طلاقوں کی شرعی حیثیت

حقیقت میں شریعت نے جس طلاق کو مغلظہ بائنہ قرار دیا ہے وہ تین مرتبہ تین وقفوں( Periods) کے ساتھ دی جانے والی الگ الگ طلاقیں ہیں نہ کہ ایک وقت میں اور ایک ہی سانس میں دی جانے والی طلاقیں۔

اسلامی شریعت نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ سنن نسائی کتاب الطلاق ج۲، ص ۸۹ میں ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں، تو آپ نے اظہار ناراضگی فرمایا اور فرمایا کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے۔ جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔

احناف کی مشہور کتاب ہدایہ ج۲، ص۳۵۵ باب طلاق السنۃ میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو بدعت کہا گیا ہے۔ اور اس طرح طلاق دینے والے کو عاصی و گنہگار بتایا گیا ہے۔

یہ ہے وہ غیر شرعی اور بدعی طلاق جس کا عام طور پر رواج ہو گیا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم


ایک ہی لفظ میں تینوں طلاقیں کو دے دینا یعنی طہر واحد میں کلمہ واحدہ کے ساتھ تینوں طلاقیں دے دی جائیں۔ مثلاشوہر بیوی سے کہے میں نے تجھے تین طلاقیں دیں، یا دس طلاقیں دی یا یوں کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق ،یا طلاق ،طلاق، طلاق۔ ان سب الفاظ سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو رجعت کا پورا پورا اختیار ہے دور حاضر میں اہل سنت والجماعت کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے اب ہم ان کے دلائل کو مختصر ذکر کرتے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
قرآن کی رو سے پہلی دلیل

’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ‘‘(البقرۃ :۲۲۹)
’’طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو خوبی کے ساتھ رجعت کر لی جائے ورنہ شرافت کے ساتھ چھوڑ دیا جائے‘‘
اس آیت کو بغور پڑھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ طلاق ایک ہی مرتبہ یک بیک واقع نہیں ہو سکتی بلکہ ایک کے بعد دوسری واقع ہوگی۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دو طلاقیں ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ دو مرتبہ کر کے دو ہیں۔ پس اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے ،تجھے دو طلاقیں ہیں یا دس یا ہزار ہیں تو یہ طلاق ایک ہی مانی جائے گی‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ ،ج۳،ص۴۷،قدیم مصر)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لغت عربی اور دنیا کی تمام زبانوں میں مرتان سے مراد مرۃ بعد مرۃ ہے(یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ نہ کہ محض لفظی تکرار) اس کی تائید قرآن مجید اور حدیث شریف اور کلام عرب سے ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَیْنِ (التوبہ:۱۰۱)اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ(البقرۃ:۱۲۶)یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ(النور: ۵۸) لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ (بنی اسرائیل:۴)
ان سب آیتوں میں ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ (ایک مرتبہ کے بعد دوسرے مرتبہ) مراد ہے۔جس کا الگ الگ مجلسوں میں ہونا ضروری ہے ۔اور ’’ثلاث مرات‘‘کا مطلب الگ الگ تین اوقات ہیں نہ کہ ایک ہی زمانے میں تین اوقات کا اجتماع جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’مرتان‘‘ میں تفریق کا مفہوم شامل ہے۔
اسی طرح حدیث شریف میں نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘،۳۳ مرتبہ’’ الحمدللہ‘‘ اور۳۴ مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا مشروع ہے۔اگر کوئی شخص ’’سبحان اللہ ،الحمدللہ ،اللہ اکبر‘‘ ایک ساتھ پڑھ کر کہے کہ ’’سو بار‘‘ تو تب بھی ایک ہی تسبیح شمار کی جائے گی۔ اسے الگ الگ ہر ایک تسبیح کو شمار کرنا ہوگا۔ یہ عربی زبان کا محاورہ، طرز گفتگو اور زبان کی ادائیگی کا طریقہ ہے جو ہر زبان میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔

تفسیر خازن طبع مصر میں ہے:
’’ان التطلیق الشرعی یجب ان یکون تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال دفعۃ واحدۃ‘‘
’’یعنی شرعی طلاق میں یہ ضروری ہے کہ متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق ہونی چاہیئے نہ کہ اکھٹی ایک ہی بار میں‘‘
علامہ ابو بکر حصاص حنفی کا قول بھی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے آیت ’’ الطلاق مرتان‘‘ کے تحت لکھا ہے۔
’’تضمنت الامر بایقاع الاثنتین فی مرتین فمن اوقع الاثنتین فی مرۃ فھو مخالف لحکمھا‘‘ (احکام القرآن ج۱، ص۳۸۰ طبع مصر)
یعنی’’ الطلاق مرتان‘‘ دو طلاقوں کو دو مرتبہ میں واقع کرنے کے حکم کو شامل ہے تو جس شخص نے دو طلاق ایک ہی دفعہ میں ایک طہر میں دے دیں اس نے حکم الٰہی کی مخالفت کی۔
علامہ سندھی حنفی فرماتے ہیں:
’’قولہ تعالیٰ: الطلاق مرتان الیٰ قولہ ولا تتخذوا اٰیت اللہ ھزواً فان معناہ التطلیق الشرعی تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال مرۃ واحدۃ ولم یرد بالمرتین التثنیۃ ومثلہ قولہ تعالیٰ ثم ارجع البصر کرتین ای کرۃ بعد کرۃ لا کرتین اثنتین‘‘(حاشیہ سنن نسائی ج۲،ص۲۹، طبع انصاری دھلی)
’’یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ شرعی طلاق متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق ہونی چاہیئے نہ کہ ایک ہی بار اکھٹی اور مرتان سے تثنیہ مراد نہیں ہے۔ اسی طرح آیت ’’ثم ارجع البصر کرتین‘‘ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھنے کا حکم ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے استاذ مولانا شیخ محمد تھانوی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں تقریباً یہی لکھا ہے اور اس کے معنی کی تعیین و تائید کی ہے۔

’’ان قولہ تعالی: الطلاق مرتان، معناہ مرۃ بعد مرۃ فالتطلیق الشرعی علی التفریق دون الجمع والارسال ‘‘ (حاشیہ سنن نسائی ج۲، ص۲۹، طبع انصاری دھلی)
’’یعنی آیت کا یہ مطلب ہے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق دی جائے۔ اس لئے کہ شرعی طلاق وہ ہے جو متفرق طور پر متفرق طہروں میں دی جائے نہ کہ بیک وقت ایک مجلس میں‘‘۔
  • لفظ ’’مرتان‘‘ کی یہی تفسیر علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی حنفی نے ’’مداک التنزیل‘‘ ج۲،ص۱۷۷ طبع مصر میں کی ہے۔
  • اور علامہ اثیر الدین ابو عبداللہ محمد بن یوسف المعروف بابن حیان نے’’ البحرالمحیط ‘‘ ج۲،ص۱۹۲ طبع مصر میں۔
  • اور امام رازی نے ’’تفسیر کبیر‘‘ج۲،ص۲۷۳ طبع مصر میں۔
  • اور مولانا عبدالحق صاحب نے ’’اکلیل علی مدارک التنزیل‘‘ ج۲ ،ص۱۷۱ طبع منشی نول کشور لکھنوء میں۔
  • اور بیضاوی نے اپنی تفسیر ج۱، ص۱۵۰ میں۔
  • قاضی ثناء اللہ پانی پتی میں’’تفسیر مظہری‘‘ج۲،ص۲۳۵،طبع قدیم دھلی ۱۲۷۳؁ھ میں۔



نیز علامہ محمد آلوسی حنفی نے’’روح المعانی‘‘ ج۲، ص۳۷ طبع مصر میں اس آیت کے تحت تین قول ذکر کئے ہیں۔ اور تیسرے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ جس میں مرتان کے معنی تفریق کے ہیں:’’واذا کان معنی مرتین التفریق مع تثنیۃ کما قال بہ المحققون بناء علی انہ حقیقۃ فی الثانی ظاہر فی الاول اذلا یقال لمن دفع الی اخر درھمین مرۃ واحدۃ انہ اعطا،مرتین حتی یفرق بینھما وکذا لمن طلق زوجتہ ثنتین دفعۃ انہ طلق مرتین ،الخ‘‘

’’مرتین کے معنی تثنیہ کے ساتھ تفریق کے ہیں جیسا کہ محققین کہتے ہیں، اس بنا پر کہ دوسرے میں حقیقت ہے اور پہلے میں ظاہر ہے۔ لہٰذا اس شخص سے یہ نہیں کہا جائے گا جو دوسرے کو ایک مرتبہ میں دو درھم دے کہ اس نے دو مرتبہ دیئے یہاں تک کہ الگ الگ دے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عورت کو ایک ہی مرتبہ میں دو طلاق دے اسے نہیں کہا جائے گا کہ اس نے دو مرتبہ طلاق دی‘‘۔
اس کے بعد علامہ آلوسی نے ایک مجلس میں تین طلاق کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام بھی لیا ہے اور ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے ایک مجلس میں تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے۔

مولانا انور شاہ کشمیری مرحوم (استاذ دارالعلوم دیوبند) کی صراحت بھی ملاحظہ فرمایئے۔
’’قلت الایۃ: الطلاق مرتان حجۃ علیہ لا لہ فانہ لیس معنی قولہ تعالیٰ مرتان اثنتان بل معناہ مرۃ وذلک لان التثنیۃ علی نحوین الاول نحو زید ان تثنیۃ زید والثانی تثنیۃ ما فی التاء الوحدۃ ویسمی تثنیۃ التکریر کما فی قولہ تعالیٰ :فارجع البصر کرتین کالمرۃوالمرتان معناہ مرۃ بعد مرۃ فیہ معنی التثنیۃ مع مراعاۃ الواحدۃ ‘‘ (فیض الباری ج۴،ص۳۱۱،طبع مصر)
’’میں کہتا ہوں کہ ’’الطلاق مرتان‘‘ آیت ان پر حجت ہے نہ کہ ان کے لئے حجت کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا قول’’مرتان، اثنتان‘‘ کے معنی میں نہیں بلکہ اس کے معنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ کے ہیں۔ کیوں کہ تثنیہ دو طرح کا ہوتا ہے اول: جیسے زیدان ،زید کا تثنیہ ہوا، دوسرا جس میں تائے وحدت ہوتی ہے۔ اسے تثنیہ تکرار کہتے ہیں جیسے ’’فارجع البصر کرتین‘‘ مانند’’ مرۃ ومرتان‘‘ کے۔ اس کے معنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ کے ہیں۔ اس میں واحد کی رعایت کے ساتھ تثنیہ کے معنی ہیں‘‘۔
ان سب صراحتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’مرتان‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ یعنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ متفرق طور پر طلاق دی جائے۔

مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی آیت’’ الطلاق مرتان‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’وکان القیاس ان لا تکون الطلقتان المجتمعتان معتبرۃ شرعا واذا لم یکن الطلقتان المجتمعتان معتبرۃ لم یکن الثلاث المجتمعۃ معتبرۃ بالطریق الاولیٰ لوجودھما فیھا مع زیادۃ‘‘(تفسیر مظہری ج۱، ص۲۳۵،طبع قیدم دھلی۱۲۶۹؁ھ)
’’قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ دو مجموعی طلاقیں شرعا معتبر نہ ہوں اور جب اکھٹی دی گئی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں گی تو تین اکھٹی بدرجہ اولی معتبر نہ ہوں گی۔ کیوں کہ وہ دونوں ایک زائد کے ساتھ تین کے اندر موجود ہیں‘‘۔
آیت طلاق پر غور کرنے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکھٹی نہیں دینی چاہئیں۔ کیوں کہ مجموعی تین طلاق نص قرآنی کے خلاف ہیں۔ اس لئے نص قرآنی کی طرف لوٹا کر ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کیا جائے۔ کیوں کہ طلاق تین بار نہیں دی گئی اس لئے آیت کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا اورحق رجعت باقی رہتا ہے فیصلہ نبوی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ حدیثیں آ رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا کہ تین طلاق ایک مجلس میں ہوں یا متعدد مجالس میں ایک بار میں ہوں یا کئی بار میں ، متفرق ہوں یا اکھٹی ہر حالت میں عورت مرد پر حرام ہو جائے گی تو آیت کے الفاظ یہ نہ ہوتے:
’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
بلکہ اس طرح ہوتے:
’’الطَّلاَقُ ’’اِثْنَتَانِ‘‘فَإِمْسَ اکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔فَإِن طَلَّقَہَا’’ثَلاَثاً‘‘ فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
ان الفاظ کا ہونا اور’’مرتان اور فان طلقھا‘‘ کے الفاظ ہونے کی صورت میں آیت کے صریح معنی ہیں کہ:
’’فان طلقھا فی المرۃ الثالثۃ بعد المرتین‘‘
’’(یعنی اگر دو مرتبہ الگ الگ طلاق دے چکا ہے پھر تیسری مرتبہ طلاق دے تو اس وقت عورت مرد پر حرام ہو گی) جیسا کہ امام ابو بکر حصاص زمخشری ،نسفی، ابو حیان اور دیگرمفسرین نے اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
دوسری دلیل

’’ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَن یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْراً ‘‘(الطلاق:۱)
’’اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور ان کی عدت شمار کرو اور اپنے رب سے ڈرو، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تم نہیں جانتے ہو سکتا ہے اللہ اس کے بعد کوئی امر پیدا کر دے‘‘۔
اس آیت میں ’’قد ظلم نفسہ‘‘ کا تعلق مختلف امور سے ہے ، نہ کہ صرف طلاق لغیر العدۃسے۔ اور صحیح مفہوم یہی ہے کہ حدود الٰہی کی خلاف ورزی کرنے والا گنہگار اور عذاب الٰہی کا مستحق ہوگا ظلم نفس کا لفظ قرآن مجید میں عام طور سے اللہ کی نافرمانی کر کے اپنے نفس کی حق تلفی کرنے اور اسے ہلاکت میں ڈالنے کے مفہوم میں آیا ہے اور یہی مفہوم یہاں بھی ہے۔

یہ آیت طلاق رجعی کے بارے میں ہے اور ’’امرا‘‘سے مراد رجعت ہے جیسا کہ مشہور فقیہ صحابیہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ،امام شعبی ،عطائ، قتادہ، ضحاک، مقاتل بن حیان اور ثوری رحمہم اللہ اجمعین کہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۷،ص۳۵، زاد المعاد ج۴ ص،۱۵۸،طبع مصطفیٰ البابی الحلبی مصر فتح الباری ج۹، ص۴۲۴، طبع بیروت)

سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت اس عورت کے متعلق ہے جس سے حق رجعت باقی ہو کیوں کہ طلاق کے بعد تو کوئی نیا امر باقی ہی نہیں رہتا۔(صحیح مسلم ج۱،ص۴۸۴، طبع رشیدیہ دھلی)
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا‘‘
کا مطلب یہ ہے کہ شاید تو شرمندہ ہو جائے اور تیرے لئے رجعت کا راستہ پیدا ہو جائے۔(ابن ابی شیبہ ج۵،ص۲۶۲،۲۶۳،طبع دارالسلفیہ بمبئی)
اور ضحاک کہتے ہیں کہ:
’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا‘‘
سے مراد عورت سے عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یہی قول عطاء ،قتادہ اور حسن رحمہم اللہ کا ہے۔

بہر حال اس آیت سے طلاق رجعی ثابت ہوتی ہے نہ کہ طلاق مغلظہ بائنہ۔ اس آیت میں طلاق سنی کا ذکر ہے جو ہر طہر میں دی جاتی ہے اس کی تائید مؤطا امام مالک کی اس روایت سے ہوتی ہے۔

’’عن عبداللہ بن دینار قال سمعت عبداللہ بن عمر قرأ یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لقبل عدتھن، قال مالک یعنی بذلک ان یطلق فی کل طھر مرۃ‘‘(مؤطا امام مالک باب جامع الطلاق)
’’سیدنا عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پڑھتے ہوئے سنا’’ یا ایھا النبی الایہ‘‘ یعنی اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو آغاز عدت کے لئے دو ۔مالک کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے‘‘
قرآن پاک میں کوئی آیت ایسی نہیں جو یک جائی تین طلاق کے وقوع پر صراحتاً دلالت کرے جن سے استدلال کیا جاتا ہے وہ عام ہیں۔ سنت نے ان کی تخصیص کر دی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’واجیب بان ھذہ عمومات مخصصۃ واطلاقات مقیدۃ بما ثبت من الادلۃ الدالۃ علی المنع من وقوع فوق الواحِدۃ‘‘
(نیل الاوطار ج۶، ص۲۴۶، طبع مصطفے البابی الحلبی مصر)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ایک مجلس کی تین طلاق احادیث کی روشنی میں


صحیح احادیث کی رو سے ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک ہی لفظ : تجھے تین طلاق یا تجھے طلاق، تجھے طلاق ، تجھے طلاق سے دی جائیں۔ ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو عدت کے اندر رجعت کا پورا پورا اختیار ہے۔ اگر عدت کے اندر رجوع کر لیا جائے تو نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ مندرجہ ذیل احادیث سے یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پہلی حدیث

(اخرج مسلم فی صحیحہ ،ج۱،ص۴۷۷، ۴۷۸ ،طبع رشیدیہ دھلی )
من طریق عبداللہ بن طاؤس عن ابیہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیھم فامضاہ علیھم‘‘(رواہ ایضا عبدالرزاق فی المصنف ج۶،ص۳۹۲،طبع بیروت واحمد فی مسندہ ج۱، ص۳۱۴، طبع پاکستان)

’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے پہلے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ طلاق کے معاملے میں جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، حالانکہ اس میں ان کے لئے ڈھیل اور آسانی تھی۔ اس لئے اچھا ہے کہ ان سب کو ان پر جاری کر دیا جائے چانچہ وہ جاری کردیں‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں دو حکم بیان کئے ہیں ایک حکم شرعی اور دوسرا حکم سیاسی۔
پہلا حکم شرعی یہ ہے کہ زمن نبوی اور عہد صدیقی اور دو سال تک عہد فاروقی میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی جس میں کسی ایک صحابی کا اختلاف بھی ثابت نہیں۔
دوسرا حکم اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاقول’’فقال عمر ‘‘ کو بھی بیان کیا ہے اور یہ تین طلاقوں کے جاری کرنے کی علت اور دلیل ہے۔ اس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ ان شاء اللہ۔
 
Top