قرآن کی رو سے پہلی دلیل
’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ‘‘(البقرۃ :۲۲۹)
’’طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو خوبی کے ساتھ رجعت کر لی جائے ورنہ شرافت کے ساتھ چھوڑ دیا جائے‘‘
اس آیت کو بغور پڑھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ طلاق ایک ہی مرتبہ یک بیک واقع نہیں ہو سکتی بلکہ ایک کے بعد دوسری واقع ہوگی۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دو طلاقیں ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ دو مرتبہ کر کے دو ہیں۔ پس اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے ،تجھے دو طلاقیں ہیں یا دس یا ہزار ہیں تو یہ طلاق ایک ہی مانی جائے گی‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیہ ،ج۳،ص۴۷،قدیم مصر)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لغت عربی اور دنیا کی تمام زبانوں میں مرتان سے مراد مرۃ بعد مرۃ ہے(یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ نہ کہ محض لفظی تکرار) اس کی تائید قرآن مجید اور حدیث شریف اور کلام عرب سے ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَیْنِ (التوبہ:۱۰۱)اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ(البقرۃ:۱۲۶)یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ(النور: ۵۸) لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ (بنی اسرائیل:۴)
ان سب آیتوں میں ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ (ایک مرتبہ کے بعد دوسرے مرتبہ) مراد ہے۔جس کا الگ الگ مجلسوں میں ہونا ضروری ہے ۔اور ’’ثلاث مرات‘‘کا مطلب الگ الگ تین اوقات ہیں نہ کہ ایک ہی زمانے میں تین اوقات کا اجتماع جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’مرتان‘‘ میں تفریق کا مفہوم شامل ہے۔
اسی طرح حدیث شریف میں نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘،۳۳ مرتبہ’’ الحمدللہ‘‘ اور۳۴ مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا مشروع ہے۔اگر کوئی شخص ’’سبحان اللہ ،الحمدللہ ،اللہ اکبر‘‘ ایک ساتھ پڑھ کر کہے کہ ’’سو بار‘‘ تو تب بھی ایک ہی تسبیح شمار کی جائے گی۔ اسے الگ الگ ہر ایک تسبیح کو شمار کرنا ہوگا۔ یہ عربی زبان کا محاورہ، طرز گفتگو اور زبان کی ادائیگی کا طریقہ ہے جو ہر زبان میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔
تفسیر خازن طبع مصر میں ہے:
’’ان التطلیق الشرعی یجب ان یکون تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال دفعۃ واحدۃ‘‘
’’یعنی شرعی طلاق میں یہ ضروری ہے کہ متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق ہونی چاہیئے نہ کہ اکھٹی ایک ہی بار میں‘‘
علامہ ابو بکر حصاص حنفی کا قول بھی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے آیت ’’ الطلاق مرتان‘‘ کے تحت لکھا ہے۔
’’تضمنت الامر بایقاع الاثنتین فی مرتین فمن اوقع الاثنتین فی مرۃ فھو مخالف لحکمھا‘‘ (احکام القرآن ج۱، ص۳۸۰ طبع مصر)
یعنی’’ الطلاق مرتان‘‘ دو طلاقوں کو دو مرتبہ میں واقع کرنے کے حکم کو شامل ہے تو جس شخص نے دو طلاق ایک ہی دفعہ میں ایک طہر میں دے دیں اس نے حکم الٰہی کی مخالفت کی۔
علامہ سندھی حنفی فرماتے ہیں:
’’قولہ تعالیٰ: الطلاق مرتان الیٰ قولہ ولا تتخذوا اٰیت اللہ ھزواً فان معناہ التطلیق الشرعی تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال مرۃ واحدۃ ولم یرد بالمرتین التثنیۃ ومثلہ قولہ تعالیٰ ثم ارجع البصر کرتین ای کرۃ بعد کرۃ لا کرتین اثنتین‘‘(حاشیہ سنن نسائی ج۲،ص۲۹، طبع انصاری دھلی)
’’یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ شرعی طلاق متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق ہونی چاہیئے نہ کہ ایک ہی بار اکھٹی اور مرتان سے تثنیہ مراد نہیں ہے۔ اسی طرح آیت ’’ثم ارجع البصر کرتین‘‘ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھنے کا حکم ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے استاذ مولانا شیخ محمد تھانوی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں تقریباً یہی لکھا ہے اور اس کے معنی کی تعیین و تائید کی ہے۔
’’ان قولہ تعالی: الطلاق مرتان، معناہ مرۃ بعد مرۃ فالتطلیق الشرعی علی التفریق دون الجمع والارسال ‘‘ (حاشیہ سنن نسائی ج۲، ص۲۹، طبع انصاری دھلی)
’’یعنی آیت کا یہ مطلب ہے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق دی جائے۔ اس لئے کہ شرعی طلاق وہ ہے جو متفرق طور پر متفرق طہروں میں دی جائے نہ کہ بیک وقت ایک مجلس میں‘‘۔
- لفظ ’’مرتان‘‘ کی یہی تفسیر علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی حنفی نے ’’مداک التنزیل‘‘ ج۲،ص۱۷۷ طبع مصر میں کی ہے۔
- اور علامہ اثیر الدین ابو عبداللہ محمد بن یوسف المعروف بابن حیان نے’’ البحرالمحیط ‘‘ ج۲،ص۱۹۲ طبع مصر میں۔
- اور امام رازی نے ’’تفسیر کبیر‘‘ج۲،ص۲۷۳ طبع مصر میں۔
- اور مولانا عبدالحق صاحب نے ’’اکلیل علی مدارک التنزیل‘‘ ج۲ ،ص۱۷۱ طبع منشی نول کشور لکھنوء میں۔
- اور بیضاوی نے اپنی تفسیر ج۱، ص۱۵۰ میں۔
- قاضی ثناء اللہ پانی پتی میں’’تفسیر مظہری‘‘ج۲،ص۲۳۵،طبع قدیم دھلی ۱۲۷۳ھ میں۔
نیز علامہ محمد آلوسی حنفی نے’’روح المعانی‘‘ ج۲، ص۳۷ طبع مصر میں اس آیت کے تحت تین قول ذکر کئے ہیں۔ اور تیسرے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ جس میں مرتان کے معنی تفریق کے ہیں:
’’واذا کان معنی مرتین التفریق مع تثنیۃ کما قال بہ المحققون بناء علی انہ حقیقۃ فی الثانی ظاہر فی الاول اذلا یقال لمن دفع الی اخر درھمین مرۃ واحدۃ انہ اعطا،مرتین حتی یفرق بینھما وکذا لمن طلق زوجتہ ثنتین دفعۃ انہ طلق مرتین ،الخ‘‘
’’مرتین کے معنی تثنیہ کے ساتھ تفریق کے ہیں جیسا کہ محققین کہتے ہیں، اس بنا پر کہ دوسرے میں حقیقت ہے اور پہلے میں ظاہر ہے۔ لہٰذا اس شخص سے یہ نہیں کہا جائے گا جو دوسرے کو ایک مرتبہ میں دو درھم دے کہ اس نے دو مرتبہ دیئے یہاں تک کہ الگ الگ دے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عورت کو ایک ہی مرتبہ میں دو طلاق دے اسے نہیں کہا جائے گا کہ اس نے دو مرتبہ طلاق دی‘‘۔
اس کے بعد علامہ آلوسی نے ایک مجلس میں تین طلاق کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام بھی لیا ہے اور ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے ایک مجلس میں تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے۔
مولانا انور شاہ کشمیری مرحوم (استاذ دارالعلوم دیوبند) کی صراحت بھی ملاحظہ فرمایئے۔
’’قلت الایۃ: الطلاق مرتان حجۃ علیہ لا لہ فانہ لیس معنی قولہ تعالیٰ مرتان اثنتان بل معناہ مرۃ وذلک لان التثنیۃ علی نحوین الاول نحو زید ان تثنیۃ زید والثانی تثنیۃ ما فی التاء الوحدۃ ویسمی تثنیۃ التکریر کما فی قولہ تعالیٰ :فارجع البصر کرتین کالمرۃوالمرتان معناہ مرۃ بعد مرۃ فیہ معنی التثنیۃ مع مراعاۃ الواحدۃ ‘‘ (فیض الباری ج۴،ص۳۱۱،طبع مصر)
’’میں کہتا ہوں کہ ’’الطلاق مرتان‘‘ آیت ان پر حجت ہے نہ کہ ان کے لئے حجت کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا قول’’مرتان، اثنتان‘‘ کے معنی میں نہیں بلکہ اس کے معنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ کے ہیں۔ کیوں کہ تثنیہ دو طرح کا ہوتا ہے اول: جیسے زیدان ،زید کا تثنیہ ہوا، دوسرا جس میں تائے وحدت ہوتی ہے۔ اسے تثنیہ تکرار کہتے ہیں جیسے ’’فارجع البصر کرتین‘‘ مانند’’ مرۃ ومرتان‘‘ کے۔ اس کے معنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ کے ہیں۔ اس میں واحد کی رعایت کے ساتھ تثنیہ کے معنی ہیں‘‘۔
ان سب صراحتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’مرتان‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ یعنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ متفرق طور پر طلاق دی جائے۔
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی آیت’’ الطلاق مرتان‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’وکان القیاس ان لا تکون الطلقتان المجتمعتان معتبرۃ شرعا واذا لم یکن الطلقتان المجتمعتان معتبرۃ لم یکن الثلاث المجتمعۃ معتبرۃ بالطریق الاولیٰ لوجودھما فیھا مع زیادۃ‘‘(تفسیر مظہری ج۱، ص۲۳۵،طبع قیدم دھلی۱۲۶۹ھ)
’’قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ دو مجموعی طلاقیں شرعا معتبر نہ ہوں اور جب اکھٹی دی گئی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں گی تو تین اکھٹی بدرجہ اولی معتبر نہ ہوں گی۔ کیوں کہ وہ دونوں ایک زائد کے ساتھ تین کے اندر موجود ہیں‘‘۔
آیت طلاق پر غور کرنے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکھٹی نہیں دینی چاہئیں۔ کیوں کہ مجموعی تین طلاق نص قرآنی کے خلاف ہیں۔ اس لئے نص قرآنی کی طرف لوٹا کر ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کیا جائے۔ کیوں کہ طلاق تین بار نہیں دی گئی اس لئے آیت کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا اورحق رجعت باقی رہتا ہے فیصلہ نبوی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ حدیثیں آ رہی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا کہ تین طلاق ایک مجلس میں ہوں یا متعدد مجالس میں ایک بار میں ہوں یا کئی بار میں ، متفرق ہوں یا اکھٹی ہر حالت میں عورت مرد پر حرام ہو جائے گی تو آیت کے الفاظ یہ نہ ہوتے:
’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
بلکہ اس طرح ہوتے:
’’الطَّلاَقُ ’’اِثْنَتَانِ‘‘فَإِمْسَ اکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔فَإِن طَلَّقَہَا’’ثَلاَثاً‘‘ فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘
ان الفاظ کا ہونا اور
’’مرتان اور فان طلقھا‘‘ کے الفاظ ہونے کی صورت میں آیت کے صریح معنی ہیں کہ:
’’فان طلقھا فی المرۃ الثالثۃ بعد المرتین‘‘
’’(یعنی اگر دو مرتبہ الگ الگ طلاق دے چکا ہے پھر تیسری مرتبہ طلاق دے تو اس وقت عورت مرد پر حرام ہو گی) جیسا کہ امام ابو بکر حصاص زمخشری ،نسفی، ابو حیان اور دیگرمفسرین نے اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔