• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے اہم شرعی مسائل

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
دوسری حدیث

’’عن طاؤس ان ابالصھبا قال لابن عباس اتعلم انما کانت الثلاث تجعل واحدۃ علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وثلاثا من امارۃ عمر فقال ابن عباس نعم ‘‘
(رواہ مسلم ج۱،ص۴۷۸، طبع رشیدیہ و ابو داؤد مع العون ج۲،طبع انصاری دھلی ص۳۳۸ والنسائی ج۲،ص۹۰ طبع پاکستان، وعبدالرزاق ج۶، ص۳۹۲ ،طبع بیروت والدارقطنی ج۴،ص۴۶،۴۷،۵۰،۵۱طبع پاکستان، والطحاوی، ج۲، ص۳۱، دیوبند، والبیھقی،ج۷،ص۳۳۶،طبع حیدر آباد)

’’ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور ابو بکر کے زمانے میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہاں۔‘‘
یہ حدیث پہلی حدیث کی مصدق ہے اور دوسری حدیث بھی ۔پس اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔۔۔۔ اس کے خلاف یہ کہنا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ہوتی ہیں بالکل غلط اور باطل ہے جس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔ کیوں کہ ابو الصہباء کے سوال کے جواب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں فرمایا کہ عہد نبوی و صدیقی میں کبھی تین طلاقیں تین ہوتی تھیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا جواب دلیل ہے کہ ان تمام بابرکت زمانوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
تیسری حدیث

’’عن طاؤس ان ابا الصھباء قال لابن عباس ھات من ھناتک ألم یکن الطلاق الثلاث علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر واحدۃ فقال قد کان ذلک کان فی عہد عمر تتابع الناس فی الطلاق فاجازہٗ علیہم‘‘
(رواہ مسلم ج۱ص۴۷۸طبع رشیدیہ دھلی دارقطنی ج۴ص۴۴طبع اثریہ پاکستان وابن ابی شیبہ ج۵ص۲۶طبع دارالسلفیہ دھلی والبیہقی ج۷ص۳۳۶طبع حیدر آباد)


’’ابو الصہباء نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ لائو جو آپ کے پاس علمی مسائل ہوں۔ کیا تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابو بکر صدیق کے زمانے میں ایک ہی نہ تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا بے شک ایک ہی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں نے پے درپے طلاق دینی شروع کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر جاری کر دیں‘‘۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
چوتھی حدیث

’’عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید اخوبنی المطلب امرأتہ فی مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا قال فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف طلقتھا قال طلقتھا ثلاثا قال فی مجلس واحد قال نعم قال فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت قال فراجعھا وکان ابن عباس یری ان الطلاق عند کل طہر‘‘ (اخرجہ احمد ج۱ص۲۶۵طبع گوجرانوالہ پاکستان، وابو یعلی ج۴ص۳۷۹فی مسندہ طبع دارالمامون للتراث دمشق بیروت وصححہ وکذا فی فتح الباری ج۱ص۳۱۶طبع بیروت)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبدیزید مطلبی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دیں ۔پھر بہت ہی غمگین ہوئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو تین طلاق دے چکا ۔ آپ نے فرمایا ایک ہی مجلس میں؟ کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر وہ ایک ہی ہے اگر چاہو تو رجوع کر لو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ ابن عباس کا یہی خیال تھا کہ ہر طلاق ہر طہر میں ہو‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
’’وھذا الحدیث نص فی المسئلۃ لا یقبل التاویل الذی فی غیرہ من الروایات الاتی ذکرھا‘‘ (فتح الباری ج۹ص۳۱۶طبع بیروت)
’’یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے میں یہ حدیث نص صریح ہے دیگر روایات میں جو تاویلیں کی جاتی ہیں اس حدیث میں وہ تاویلیں بالکل غیر مقبول ہیں‘‘
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ حدیث نص صریح ہونے کے اعتبار سے سارے اختلافات کی فیصلہ کن ہے۔ اور بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح مسلم کی تینوں مذکورہ احادیث اس کی زبردست تائید کرتی ہیں۔
’’ویقوی حدیث ابن اسحاق المذکور ما اخرجہ مسلم‘‘
(فتح الباری ج۹ص۳۱۶طبع بیروت)یعنی ابن اسحاق کی حدیث کو مسلم شریف کی تینوں حدیثوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد تینوں حدیثوں کو نقل کیا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پانچویں حدیث

’’عن محمود بن لبید قال اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم حتی قام رجل وقال یا رسول اللہ الا اقتلہ‘‘ (رواہ النسائی ج۲ص۸۹طبع السلفیہ لاھور، قال ابن القیم واسنادہ علی شرط مسلم، زادالمعاد ج۴ص۵۲وقال ابن کثیر اسنادہ جید وقال الحافظ فی بلوغ المرام رواتہ موثقون وفی الفتح رجالہ ثقات ج۹ص۳۱۵طبع بیروت)
’’محمود بن لبید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکھٹی دے دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟‘‘
اس حدیث میں مذکور نہیں کہ طلاق دینے والے کی یہ تین طلاقیں واقع ہو ئیں یا نہیں۔ لیکن اس سے پہلے والی چارحدیثوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک مجلس کی اکھٹی تین طلاقیں شریعت میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور ان سے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ مبارک میں اور دو سال تک عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی یہی دستور شرعی تھا کہ اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں۔ تو اس حدیث میں مذکور تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوئی ۔ ان کے تین واقع ہونے کا سوال ہی نہیں ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
پہلی مؤید حدیث

’’عن ابن عباس قال طلق رجل علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم امرأتہ ثلاثا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یراجعھا قال انی قد طلقتھا ثلاثا قال قدم علمت وقرأ النبی صلی اللہ علیہ وسلم :یایھاالنبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن الایۃ قال فارتجعھا‘‘ (رواہ عبدالرزاق فی المصنف ج۶ص۳۹۱طبع المکتب الاسلامی بیروت واخرجہ ھو وابو داؤد مطولا، طبع انصاری دھلی)
’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عہد نبوی میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں (اکھٹی )دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رجوع کر لو اس آدمی نے کہا کہ میں تین طلاقیں دے چکا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے معلوم ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت شریفہ:’’یایھا النبی اذا طلقتم النسائ‘‘ آخر تک پڑھ کر ارشاد فرمایا اپنی بیوی سے رجوع کر لو‘‘
یہ حدیث تین طلاق کے ایک ہونے پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے اس حدیث میں ایک راوی مجہول ہے اس لئے ہم نے اس کو اجتماع میں پیش نہیں کیا بلکہ پانچ حدیثوں کی تائید میں نقل کیا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
دوسری مؤید حدیث

قال ابو الجوزاء لابن عباس اتعلم ان الثلاث علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کن یرددن الی الواحدۃوصدر ا من امارۃ عمرؓ قال نعم۔
( رواہ الدار قطنی ج ۴ ص ۵۲ والحا کم ج ۲ ص ۱۹۶ و قال ھذاحدیث صحیح الا سناد طبع حیدر آباد)۔


یعنی ابوالجوزاء نے ابن عباس سے کہا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے لے کر عمر ؓ کی شروع خلافت تک تین طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں تو ابن عباسؓ نے کہا کہ ہاں۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت سے لے کر سیدناعمرؓ کی شروع خلافت تک تین طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں اور یہی قانون شرعی تھا اتنے طویل زمانے تک کسی ایک سے بھی اسکے خلاف عمل ثابت نہیں ، اسی لئے یہ اجماع قدیم پر صریح دلیل ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
تیسری مؤید حدیث

ان طاؤسا اخبرہ قال دخلت علی ابن عباس و معہ مولاہ ابو الصھباء فسالہ ابو الصھباء عن الرجل یطلق امراتہ ثلاثا جمیعھا فقال ابن عباس کانو ا یجعلو نھا واحدۃ علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر و ولایۃ عمر الا اقلھا حتی خطب الناس فقال قد اکثر تم فی ھذا الطلاق فمن قال شیئا فھو علی ماتکلم بہ۔( رواہ عبدالرزاق ج۶ص ۳۹۲ -۳۹۳ طبع بیروت المکتب الاسلامی ،عن عمر بن حوشب قال اخبرنی عمرو بن دینار ان طاؤسا اخبرہ۔۔۔۔۔۔الخ)۔
یعنی ابوالصہباء نے ابن عباسؓ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیدے تو ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ زمن نبوی و عہد صد یقی اور چند سال خلافت فاروقی میں ایک شمار کر تے تھے یہاں تک کہ عمرؓ نے لوگوں سے فرمایا تم بہت طلاق دینے لگے ہو پس جو جیسا کہے گا ویسا ہی ہو گا۔
یہ حدیث بھی ہمارے مدعا پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے مگر اس حدیث کی سند میں عمر بن حوشب واقع ہے جس کو ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مجہول ہے ( میزان ج۲ص ۱۹۲ طبع جدید مصر ، تقریب ص ۱۸۹طبع فاروقی دہلی)۔

نوٹ:۔ ان تینو ں حدیثو ں کی صحت میں کلام ہے۔ اس لئے ہم نے ان کو احتجاج میں پیش نہیں کیا بلکہ پہلی پانچ حدیثوں کی تائید میں نقل کیا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
فقہائے کو فہ کی مہر پر تاجدارمدینہ کی مہر کو ترجیح


ان احادیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوتی ہیں اور اس پر سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ثبت ہے۔ اس لئے ہماری مسلمان بھائیوں سے گذارش ہے کہ وہ فقہاء کی مہر کو چھوڑکر مہر محمدی کو اختیار کر یں اور سکہ فقہاء کو چھوٹ کر سکہ محمدی کو لازم پکڑیں۔ کیو نکہ وہی مسئلہ قابل قبول ہے جس پر مہر محمدی ہو۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

طرد علیھاسکۃنبویۃ ضرب المدینۃاشرف البلدان
(یعنی اس مسئلہ پر ایسی ضرب ہے جو سکہ نبویہ ہے، مدینہ کی ضرب جو افضل شہر ہے)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
عورت صرف شرعی طریقہ پر حلال ہوتی ہے

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو شرعی طریقہ پر تین طلاقیں دے دیتاہے تو شرعی طور پر دی ہوئی مطلقہ ثلاثہ بالاتفاق حرام ہے اور اس وقت تک حرام رہتی ہے جب تک کسی دوسرے شخص سے شرعی طور پر نکاح نہ کر لے اور وہ دوسرا شوہر اس سے جماع بھی کرے۔ لیکن وہ دوسرا شخص جس نے اپنی مرضی سے ازدواجی زندگی گذارنے کے لئے برضاورغبت نکاح کیا ہے، عورت کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر شرعی اجازت طلاق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر کسی حیلہ کے طلاق دے دیتا ہے تو اس صورت میں زوج اول کے لئے عورت کے حلال ہونے میں سارے علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ لیکن حلالہ کے بہانے سے جو نکاح کیا جاتا لے شریعت محمدی میں اس کی قطعا گنجائش نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مروجہ حلالہ کی حرمت و مذمت پر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مروجہ حلالہ کی مذمت اور برائی بہت سی حدیثو ں سے ثابت ہے۔ ہم چند کو ذکر کرتے ہیں:

۱۔
عن عبداللہ بن مسعود ؓ قال لعن رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ۔
سیدناعبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی حلالہ کرنے والے اور اس پر بھی جس کے لئے حلالہ کیا جائے۔
( رواہ الترمذی و قال حسن صحیح ج ۲ ص ۱۸۶، والحا کم فی الصحیح والنسائی ج۲ ص۹۲، واحمد ج۱ ص ۴۴۸، والدارنی ج۲ ص۸۱، عبدالرزاق ج۶ص ۲۶۹،والبیہقی ج۷ص ۲۰۸، وابن ابی شیبہ ج۴ ص ۲۹۵، و صححہ ابن القطان و ابن دقیق العید علی شرط البخاری کمافی التلخیص ص ۳۰۱ ورواتہ ثقات ، درایہ ص۲۲۹)

۲۔
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ المحلل والمحلل لہ۔
سیدناابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لعنت فرمائی اللہ تعالی نے حلالہ کر نے والے اور اس پر بھی جس کے لئے حلالہ کیا جائے۔
( رواہ الامام احمد باسنادرجالہ کلھم ثقات والبز اروابویعلی الموصلی واسحاق بن راھویہ وابن ابی شیبہ ج۴ ص ۲۹۶ و اسنادہ جید و ابن الجارود والجوز جانی والبیہقی ورجالہ موثقون، درایہ ص ۲۲۹)

۳۔
عن علی ابن ابی طلاب قال ان رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لعن المحللوالمحلل لہ۔
سیدناعلیؓ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی حلالہ کرنے والے اور اس پر بھی جس کے لئے حلالہ کیا جائے۔
( رواہ احمد وابوداؤد ج۲ ص ۱۸۸ والترمذی ج۲ ص ۱۸۵، و ابن ماجہ ص ۱۴۰وعبد الرزاق ج۶ ص ۲۶۹ والبیہقی)۔

۴۔
عن ابن عباس قال لعن رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم المحلل والمحلل لہ۔
عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی حلالہ کرنے والے اور اس پر بھی جس کے لئے حلالہ کیا جائے ۔( رواہ ابن ماجہ)۔
۵۔
عن عقبۃ ابن عامر قال قال رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم الا اخبر کم بالتیس المستعار قالوا بلٰی یا رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قال ھو المحلل لعن اللہ المحلل و المحلل لہ۔
( رواہ ابن ماجہ باسناد رجالہ کلھم موثقون والدار قطنی ج۳ ص ۲۵۱، والبیہقی ج۷ ص ۲۰۸ والجوز جانی والحاکم ج۲ ص ۱۹۹ وقال صحیح الاسنا د و قال الذھبی صحیح و قال الحافظ ابن تیمیہ ان ھذا الحدیث جید و اسنا دہ حسن ، الفتاوی ج۳ ص ۲۷۸ طبع مصر)

عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو ادھار لیا ہوا سانڈ( بھاڑے کا ٹٹو ) نہ بتاوں۔ صحابہؓ نے فرمایا ہاں۔ آ پ نے فرمایا یہ حلالہ کر نے والا ہے اور اللہ ن ے لعنت کی ہے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا ہے۔
امیر عمر اور دیگر صحابہ اسے زنا کہتے تھے ( ابن ابی شیبہ و مستدرک حاکم)
۶۔
جابرؓ سے ترمذی ج۲ ص ۱۸۵ میں روایت ہے کہ نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
۷۔
عن ابن عباس قال سئل رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عن المحلل فقال لا الا نکاح رغبۃ لا نکاح دلسۃ ولا استھزاء بکتاب الل ثم یذوق العسیلۃ۔ ( رواہ الجوز جانی و ابن شاھین فی غرائب السنن، کذافی اقامۃ الدلیل علی ابطال التعلیل ص ۳۲۴ طبع مصر)۔

ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حلالہ کر نیوالے کے متعلق پو چھا گیا تو آپ نے فرمایا نہیں ، بلکہ رغبت کا نکاح ہو نہ کہ دھو کہ بازی کا ( پوشیدہ ) نکا ح اور نہ کتاب اللہ کے ساتھ مذ اق ہو پھر وہ مرد ( اسی عورت ) سے ہمبستر بھی ہو۔
 
Top