• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبادت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
شعائرِ عبادت کی غرض و غایت
ایک مسلمان شعائر عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔ یہ وہ فرائض ہیں جن پر اسلام کی بنیادیں کھڑی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔" (بخاری:۸، مسلم:۲۱)
اللہ کو راضی کرنے کے لیے جہاں ان عبادات کو یقیناً سنت کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے وہیں ان کی غرض و غایت کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک مسلم اگر ان غایتوں اور مطالبوں کو نظر انداز کر دے جو شریعت نے ان کے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں تو یہ عبادت صحیح معنوں میں اس کے لیے اجر کا باعث نہ ہو گی۔ آیات و احادیث میں صراحت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ موجود ہے مگر افسوس آج ہم نے ان شعائر کو محض "ادائیگی" تک میں محصور کر دیا۔ دین کے علماء کرام اور داعیان بھی عبادات کے شروط، ارکان، واجبات اور مستحبات کی تو خوب فکر کرتے ہیں مگر ان کے تقاضوں اور غایتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔

شعائر کی محض ادائیگی نہیں بلکہ ان کے مقاصد بھی مطلوب ہیں
کتاب وسنت کی رو سے شعائر میں سے ایک ایک عمل ایک خاص غایت کو پورا کرانے کے لیے ہے اور ہر ایک کے اپنے مطالبے اور تقاضے ہیں اور نفس پر ہر عبادت کے اپنے خاص اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

نماز:
نماز کی خاص غایت اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت 45)
"اور نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔"
"فحشا" اور "منکر" کے ان دو لفظوں میں تمام اخلاقی مفاسد شامل ہیں۔ جو برائیاں شہوانی جذبات کی بے اعتدالی کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیتی ہیں حتیٰ کہ لوگوں میں بے حیائی کا احساس تک مٹ جاتا ہے اور لوگوں کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہ ’فحشا‘ ہیں اور ’منکر‘ وہ برائیاں ہیں جو صالح معاشرہ کی پاکیزہ روایات کے خلاف ہوں۔ جو شخص نماز کے معنی و مفہوم پر غور کرے گا اور سوچے گا کہ میں روزانہ اللہ کے دربار میں حاضری دیتا ہوں۔ نماز میں اپنی عاجزی اور محتاجی کا تذکرہ کر کے اللہ کی عظمت بیان کرتا ہوں۔ رکوع، سجود، تشھد اور قیام کی صورت میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور ایسا دن میں کم از کم ۵ بار دہراتا ہوں، تو ایسی نماز اسے اللہ کے قریب کرے گی اور برائی اور بے حیائی سے دور رکھے گی۔ آخرت میں کامیابی کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہو گا اور جو شخص یہ سوچتا ہی نہیں کہ وہ نماز میں کس کی عظمت بیان کر رہا ہے اور اس نے نماز میں کس چیز کا اقرار کیا اور کن باتوں سے بچنے کا وعدہ کیا تو ایسی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے کیسے روک سکتی ہے؟
نماز کا آغاز نماز ’ادا کرنے‘ سے ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز کا وہ طریقہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر ٹھہرا رکھا ہے ادا ہونے سے اسلام کا ظاہری سرٹیفکیٹ وجود میں آجاتا ہے، مگر یہ سرٹیفکیٹ اللہ کے ہاں تبھی کام دیتا ہے جب اس کے تقاضے اور غایتیں بھی اس کے ساتھ وجود میں آئیں اور اس کی نماز بے حیائی اور برائی کے مقابلے پر ایک بریک کا کام دینے لگے۔ یہ عین وہ معنیٰ ہیں جو نہ اپنانے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے "نمازیوں" کو وعید سنائی ہے، حالانکہ کہاں "نماز" ایسا صالح عمل اور کہاں وعیدِ عذاب۔
﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ﴿٧﴾ (الماعون 4-7)
"پس بربادی ہے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو ریاکار ہیں اور (تنگ دل اتنے کہ) کسی کو تھوڑی سی چیز دینے پر تیار نہیں۔"

روزہ:
روزے کی بابت فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ: 183)
"اے وہ لوگو جو ایمان لائے! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح یہ تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تقویٰ اختیار کر لو۔"
روزہ اللہ کی عظیم عبادت ہے اور ماہ رمضان نیکیاں کر کے اللہ کی رضا کی تلاش کا خصوصی مہینہ ہے۔ ماہ رمضان اللہ سے محبت، اس کی خشیت اور انابت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ رات کو قیام اللیل میں قرآنِ مجید کے ذریعے ایک مومن اپنے دل کو روشن کرتا ہے۔ وہ ذکر و فکر کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھاتا اور خشوع پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ روزہ شہوات کنٹرول کرنے کے لیے بہترین مشق ہے اور نفس کا اپنی خواہشات پر جیت پانے اور اپنے میلانات کو قابو میں لانے کی اعلیٰ ترین استعداد پیدا کرتا ہے۔ جس دل میں خواہشات سر اٹھائے کھڑی ہوں وہاں تقویٰ کا پنپنا ایک دشوار کام ہے۔ ہاں خواہشات کو لگام ڈال لی گئی ہو اور انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو گیا ہو تو یہ وہ فضا ہے جہاں تقویٰ خوب پرورش پاتا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا﴾ (البقرۃ: 187)
"یہ ہیں اللہ کی حدیں، ان کے قریب مت پھٹکو۔"
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا﴾ (البقرۃ: 229)
"یہ ہیں اللہ کی حدیں، سو اُن سے آگے نہ بڑھو۔"
مگر افسوس ہم دن میں کھانے، پینے سے اجتناب تو کرتے ہیں مگر سارا دن بازار میں سودا سلف خریدنے میں گزارتے اور افطاری اور سحری کی تیاری میں سارا وقت برباد کر دیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں ٹی وی کے آگے سارا دن لغویات سنتے ہیں اور بہت سے اسلامی ملکوں میں تھیڑ کی رونقیں رمضان کی راتوں میں جس قدر عروج پر ہوتی ہیں سارا سال وہ گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آتی۔ گویا ہم زبانِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں، نماز روزہ اپنی جگہ اور دنیاداری اور دل لگی اپنی جگہ اور شوق تو بہرحال شوق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "من لم يَدَع قولَ الزُّورِ والعملَ به فلا حاجةَ لله بتركه طعامه وشرابه" (بخاری) "جو شخص جھوٹ ناحق بات کہنے اور اس پر چلنے سے باز نہیں آتا تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔" رُبَّ صائم ليس له من صيامه إلا الجوع والعطش" (ابن ماجہ: ۱۶۹۰) "کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کے حصے میں اپنے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ آنے والا نہیں۔"
روزہ کی غایت یہ بیان کی "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ متقی شخص وہ ہے جس کا نفس پاک، صاف اور طیب و طاہر ہو ایسا شخص برے اخلاق کا مالک نہیں ہو سکتا۔

زکوٰۃ:
زکوٰۃ کی بابت فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ (التوبۃ :103)
"ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو۔"
یہ زکوٰۃنہ صرف مال کو پاک کرتی ہے بلکہ نفس کو بھی ظاہر اور باطن میں یعنی حسی اور معنوی ہر لحاظ سے پاکیزہ بناتی ہے۔ اللہ کی رضا پانے کے لیے یہ خالص نذرانہ اسی وقت قبول ہو گا جب یہ حلال طریقے سے حاصل کی گئی کمائی میں سے دیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کرتا اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا﴾ "اے رسولو‘ پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔"
اور فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اس پاک رزق سے جو ہم نے تمہیں دیا کھاؤ۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کر کے غبار آلود پراگندہ بالوں کے ساتھ آتا ہے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کر تا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا پینا اور پہننا حرام مال سے ہے۔ حرام مال سے ہی اس کی پرورش کی۔ ایسے شخص کی دعا کیسے قبول کی جائے گی۔"(مسلم:۱۰۱۵)
آج زکوٰۃ و عشر دینے والے امت میں انتہائی قلیل ہیں پھر ان میں کتنے ہیں جو اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ ان کی کمائی میں سود کا مال شامل نہ ہو، جھوٹ بول کر کمائی نہ کی گئی ہو، ٹھگی نوسر بازی، رشوت اور زمینوں پر ناجائز قبضوں کے ذریعے مال حاصل نہ کیا گیا ہو۔ آج مسلمانوں نے عبادت کا مفہوم اس حد تک بگاڑ دیا ہےکہ وہ زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ زکوٰۃ عبادت ہے اور یہ کاروبار کرنے کے ہتھکنڈے ہیں ان کا عبادت سے کیا تعلق؟؟

حج
حج کے بارے میں فرمایا:
(الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ) (البقرۃ : ۱۹۷)
"حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں۔ جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے وہ جنسی میل ملاپ، گناہ اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔ اور (حج پر نکلتے وقت) اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنـة" (بخاری۱۷۷۳۔ مسلم۱۳۴۹)
"وہ حج جو گناہ و معصیت سے سلامت رہا، جنت سے کم اس کی کوئی جزاء نہیں۔"
نیز فرمایا:
"من أتى هذا البيت فلم يرفث ولم يفسق ، رجع كما ولدته أمه" (بخاری۱۵۲۱۔ مسلم۱۳۵۰)
"جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے، اور اس دوران جنسی ملاپ اور گناہ سے دور رہے، تو وہ یوں (پاک صاف) لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔"
حج اگرچہ زندگی میں ایک بار فرض ہے مگر گنتی کے یہ چند دن ایک مسلمان کی زندگی میں بڑے گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کے لیے خالص ہونا ہے۔ ایک مسلمان اپنے اہل خانہ، اپنا وطن اور اپنا گھر چھوڑ کر اللہ کی خاطر حج کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، وہ اپنا لباس چھوڑ کر احرام کی دو چادریں لپیٹتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کہتا ہوا یعنی اللہ کی وحدانیت بیان کرتا ہوا مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے قافلے میں شامل ہو جاتا ہے۔ منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ ہوتے ہوئے منیٰ میں واپسی ایک ایسے مجمع کے ساتھ کرتا ہے جو اسے حشر کی یاد دلاتے ہیں اس ساری مشقت سے نفس میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں اور ایک مسلمان گناہوں سے یوں صاف ستھرا ہو جاتا ہے گویا اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا۔ وہ لوگ کتنے بد نصیب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ حاجی کا اضافہ تو کر لیتے ہیں مگر نفس کی صفائی کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے ۔ سماجی فوائد حاصل کرنا حج کا مقصد ہی نہیں۔ مقصد تو اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے مگر یہ حاجی حج کے دنوں میں بھی اللہ کے احکامات کی تابعداری نہیں کرتا، اپنے کندھوں کے زور سے لوگوں کو دھکیلتا ہوا حجرِ اسود کا بوسہ لیتا ہے، عورتوں اور بوڑھوں سمیت مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے حتیٰ کہ میدانِ عرفات میں دعا کی بجائے گپ شپ اور موبائل سے کھیلنے میں وقت ضائع کرتا ہے بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو کچھ واجبات چھوڑ کر کفارہ ادا کیے بغیر وطن واپس آ جاتے ہیں تو ایسے حاجیوں میں خشوع اور انابت کیسے پیدا ہو گی؟؟
ہم نے یہ باتیں ایک مشینی انداز سے اپنائی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج بھی ہمارے اندر خشوع، انابت، توجہ، انکساری، ذلت اور تعظیم پیدا نہیں کرتیں۔ نہ ہی توحید کا عقیدہ ہمارے دلوں میں پختہ ہوتا ہے اور نہ ہی یہ باتیں ہمیں صغیرہ کبیرہ گناہوں سے دور کرتی ہیں ایسی عبادت جو مسلم معاشرے میں کوئی کردار ادا نہ کرے وہ اللہ کو کیسے پسند آ سکتی ہے؟؟
اِن سب آیات اور احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ "عبادات" بذاتِ خود کچھ ایسے مطالبات اور تقاضے رکھتی ہیں جن کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہی ہے۔ یعنی یہ (عبادات) ایسی چیز بہرحال نہیں ہیں کہ آپ نے ان کو ’ارکان و شروط و واجبات و مستحبات سمیت‘ ادا کر دیا تو بس وہ ادا ہو گئیں؛ خود ان "عبادات" کے ساتھ کچھ نجی و سماجی مطالبات نتھی ہیں۔ خود انہیں کچھ لازمی نتائج کا پابند کر دیا گیا ہے؛ یوں کہ یہ آثار و نتائج پائے جائیں تو یہ "شعائرِ تعبُّد" اپنے حقیقی معنی میں پائے جائیں گے، بصورتِ دیگر نہیں پائے جائیں گے۔ اس لحاظ سے "شعائرِ تعبُّد" خود بھی مسلم زندگی اور مسلم معاشرہ میں باقاعدہ ایک کردار رکھتے ہیں، اور یہ کردار ادا ہوئے بغیر اِن کا "ادا ہو جانا" اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔
یہ عبادات بذات خود بھی فرض ہیں اور ان غایتوں اور مطالبوں کو پورا کرنے کی خاطر بھی فرض ہیں جو ان کے ساتھ نتھی ہیں۔ پس جب ہمارا ان کو ادا کرنا بھی اسی چیز تک محدود ہو گا اور وہ غایتیں اور مطالبے جو شریعت نے ان کے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں ہماری نظر سے اوجھل ہوں گے… تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہ “عبادت” حقیقی معنوں میں ادا کر رہے ہیں جو اللہ نے ہم پر فرض کر رکھی ہے؟!

اللہ سے دعا سے ہمیں اپنی خالص عبادت کرنے کی توفیق دے اور اسی راستے پر زندہ رکھے اور اسی پر اپنے پاس بلائے آمین!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اللہ سے دعا سے ہمیں اپنی خالص عبادت کرنے کی توفیق دے اور اسی راستے پر زندہ رکھے اور اسی پر اپنے پاس بلائے آمین!

ثم آمین اور اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے ، دونوں جہانوں میں آپکے درجات بلند فرمائے ، آپکی أخطاء کو درگذر فرمائے اور بیشک اللّٰہ بہترین جزا دینے والا ھے ۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
 
شمولیت
دسمبر 24، 2017
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
عبادت

(مفہوم، مراتب، انحرافات)
استفادہ
ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عرض مولف
یہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر ہر چیز (نافرمان انس و جن کے ماسوا) اللہ رب العزت کی عبادت گزار ہے البتہ عبادت کا طریقہ ہر مخلوق کے لیے الگ الگ ہے:
﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل:۴۴)
“کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اسکی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں۔”
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾ (الحج:۱۸)
“کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔”
زمین و آسمان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ﴾ (فصّلت:۱۱)
“پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔”
فرشتے وہ مخلوق ہیں جن کی تخلیق ایک شفاف نور سے ہوئی ہے۔ فرشتوں کی عبادت یہ ہے کہ وہ دن رات، ہر لمحے اور ہر گھڑی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور وہ کسی بھی معاملے میں اللہ کی کبھی بھی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ مسلسل اللہ کی تسبیح کرتے ہیں؛ ایک لمحہ رکنے کا نام نہیں لیتے:
﴿وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ﴾ (الانبیاء: ۱۹۔۲۰)
“اور جو (فرشتے) اُس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔ رات دن (اُس کی) تسبیح کرتے رہتے ہیں اور ذرا سی بھی کاہلی نہیں کرتے۔”
﴿لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم:۶)
“جو حکم اللہ ان کو دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اس کو بجا لاتے ہیں۔”
انسانی تخلیق کا مقصد بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
“اور میں نے جن اور انسان اسی لیے ہی بنائے ہیں کہ وہ میری بندگی کریں۔”
اللہ تعالیٰ نے زمین کو زیب و آرائش سے بھر دیا، انسان کے دل میں مال، اولاد اور عزت کی محبت ڈال دی اور پھر انسان کو اس کی رنگینیوں کے بیچ چھوڑ دیا تاکہ آزما ئے کہ یہ دنیا کی رنگینیوں میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی کا طلبگار رہتا ہے یا اس کے احکامات سے اعراض کرتے ہوئے شیطان کی پوجا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾ (الدھر :۲)
“بے شک پیدا کیا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سےتاکہ اُس کا امتحان لیں، ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔”
﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملك:۲)
“اُس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کون تم میں سے نیک عمل کرنے والا ہے۔”
﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الكهف:۷)
“جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون نیک عمل کرنے والا ہے۔”
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ آزمانا چاہتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے مقصد "عبادت" کو پورا کرتا ہے یا نہیں، جب انسان کی تخلیق عبادت کے لئے ہوئی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی عبادت کا انداز کیا ہو؟ اسے کس طرح اپنے رب کی بندگی کرنی ہے؟ اور عبادت کہتے کسے ہیں؟
عبادت کے مفہوم میں کس قدر بگاڑ واقع ہو چکا ہے اس کا اندازہ محمد قطب رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:
آج جب ہم کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو بتاتے ہیں کہ: “جہان کی سب مشکلات کا حل اسلام ہے۔ سب مسائلِ عالم کی کنجی یہ لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اِس الجھی ہوئی صورتحال سے نکلنے کی راہ صرف اللہ اکیلے کی عبادت اختیار کرنا ہے”… تو پھر کیوں نہ یہ نوجوان کندھے اچکا کر اور ایک خندۂ استہزاء کے ساتھ پوچھے: یہ اسلام جو آپ کے یہاں پایا جاتا ہے ہمارا دیکھا بھالا ہی تو ہے، آپ کا یہ لا الٰہ الا اللہ اپنا نظارہ کروا تو رہا ہے، وہ عبادت جس کو آپ حل قرار دے رہے ہیں یہاں پر ہو تو رہی ہے، پھر آپ کے یہ "مسلمان" ہی سب سے بڑھ کر پسماندہ کیوں ہیں؟ دنیا کے اندر سب سے بڑھ کر آپ کے یہ "کلمہ گو" ہی اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گرفتار کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ بدحال اور قابل ترس دنیا بھر میں آپ کے یہ مسلم معاشرے ہی کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ ان کے ہی گھروں میں راکھ کیوں اڑتی ہے؟ کیا اِس اسلام میں ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈیں جس کے "ہوتے ہوئے" تمہارے ہاں ایسی خاک اڑتی ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے مسائل کا حل ہم کہیں اور ڈھونڈیں؟
یہاں، ضروری ہو جاتا ہے (افراد پر حکم لگانے کے منہج سے دور رہتے ہوئے) کہ ہم خود اپنے اور پھر لوگوں کے ساتھ صراحت اور صاف گوئی سے کام لیں: دیکھئے حضرات! آج جو چیز اِن مسلم معاشروں میں پائی جا رہی ہے اس کا نام “اسلام” نہیں۔ یہ وہ “دین” نہیں جو اللہ کے ہاں سے نازل ہوا ہے۔ یہ وہ “عبادت” نہیں جس کا اللہ نے حکم دے رکھا ہے۔ یہاں “اسلام”، “ایمان”، “دین” اور “عبادت” کی بابت تصورات کو ہی سرتاپا بدلا جانا ہے اور پھر ان صحیح و مستند مفہومات کی بنیاد پر ایک مکمل نئی عمارت اٹھانی ہے۔ ہمیں اِس نوجوان کو صاف صاف یہ بتانا ہے: مسلم معاشروں میں تمہیں آج جو یہ خاک اڑتی نظر آتی ہے، یہ پسماندگی جو تہذیبی، علمی، سائنسی، عسکری، سیاسی، مادی، روحانی، اقتصادی، سماجی اور فکری ہر ہر میدان میں تم کو دکھائی دیتی ہے اس کی وجہ نہ ان کا "مسلمان" ہونا ہے اور نہ ہی کوئی نام نہاد “معاشی ادوار”! اس کا سبب صرف ایک ہے: مسلمان عمل اور کام کرنے کے میدان میں اسلام کی حقیقت سے دور ہو چکے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فہم اور تصور کے میدان میں بھی اسلام کی حقیقت سے غافل ہیں۔ آج یہ جس چیز کو اسلام سمجھتے ہیں وہ اسلام نہیں کچھ اور ہے…
ورنہ…
* جس روز “وَأعِدُّوْا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنۡ قُوَّۃٍ” ایک عبادت تھی… اُس روز کسی مائی کے لال کی جرأت نہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی زمین پر پیر بھی رکھ کر دکھائے؛ اِن کو نسل درنسل غلام بنا کر رکھنا، اِن کے وسائل کو لوٹنا اور خود اِنہی کی بیوروکریسی سے اپنے لیے ٹیکس کلکٹری کروانا تو بہت دور کی بات ہے!
* جس روز “طلب العلم فريضۃ” ایک عبادت تھی… اُس روز یہاں کوئی علمی پسماندگی اور سائنسی بدحالی نہیں تھی، بلکہ اُس روز امتِ مسلمہ علم اور آگہی میں دنیا کی امام تھی۔ یہی یورپ ہے جو اُس روز ہمارے سکولوں اور ہماری جامعات میں داخلے لیتا پھرتا تھا!
* جس روز “فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ” ایک عبادت تھی… اُس روز مسلم معاشرے دنیا کے خوشحال ترین معاشرے تھے!
* جس روز “كلكم راعٍ وكلكم مسئولٌ عن رعيتہ” ایک عبادت تھی، اور “والی” یہ جانتا تھا کہ دراصل وہ ایک راعی (چرواہا) ہے جس کو اپنے گلے کی بابت پوچھ گچھ ہونی ہے… اُس روز مسلم معاشرے کے غریبوں اور ناداروں کو جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں تھی! غربت اور معاشی ناہمواریوں کا علاج تو خود اِس شریعت کے اندر ہے جو کہ اُس روز مسلم معاشرے کے اندر قائم تھی۔
* جس روز “وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعۡرُوْفِ” ایک عبادت تھی اُس روز مسلم عورت اپنے 'حقوق' کے لیے سڑکوں پر خوار ہوتی نہیں پھر رہی تھی۔ کیونکہ سب حقوق اور سب سماجی ضمانتیں بدرجۂ اتم اس شریعت میں درج ہیں، جس کی لفظ بلفظ پابندی آپ سے آپ اللہ واحد قہار کی "عبادت" ہے!
اور جی ہاں… اس امت کا آخری حصہ ہرگز نہ سنورے گا جب تک وہ نقشہ نہ ہو جس پر اِس کا اولین حصہ سنوارا گیا تھا… (مفاہیم ینبغی ان تصحح)
عبادت کا یہ مفہوم جو سلف صالحین کے ہاں پایا جاتا تھا اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس رسالے میں ہم نے اس مفہوم کو کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رسالے کو لکھنے میں استاد محمد قطب رحمہ اللہ کی کتاب (مفاہیم ینبغی ان تصحح) (جو کہ مفہومات کے نام سے مطبوع ہے) سے استفادہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔
دعاگو
ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن
رسالے کا لنک بھیج دیں
 

zahra

رکن
شمولیت
دسمبر 04، 2018
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
48
jazak Allah
 
Top