- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
شعائرِ عبادت کی غرض و غایت
ایک مسلمان شعائر عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔ یہ وہ فرائض ہیں جن پر اسلام کی بنیادیں کھڑی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔" (بخاری:۸، مسلم:۲۱)
اللہ کو راضی کرنے کے لیے جہاں ان عبادات کو یقیناً سنت کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے وہیں ان کی غرض و غایت کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک مسلم اگر ان غایتوں اور مطالبوں کو نظر انداز کر دے جو شریعت نے ان کے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں تو یہ عبادت صحیح معنوں میں اس کے لیے اجر کا باعث نہ ہو گی۔ آیات و احادیث میں صراحت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ موجود ہے مگر افسوس آج ہم نے ان شعائر کو محض "ادائیگی" تک میں محصور کر دیا۔ دین کے علماء کرام اور داعیان بھی عبادات کے شروط، ارکان، واجبات اور مستحبات کی تو خوب فکر کرتے ہیں مگر ان کے تقاضوں اور غایتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔
شعائر کی محض ادائیگی نہیں بلکہ ان کے مقاصد بھی مطلوب ہیں
کتاب وسنت کی رو سے شعائر میں سے ایک ایک عمل ایک خاص غایت کو پورا کرانے کے لیے ہے اور ہر ایک کے اپنے مطالبے اور تقاضے ہیں اور نفس پر ہر عبادت کے اپنے خاص اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
نماز:
نماز کی خاص غایت اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت 45)
"اور نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔"
"فحشا" اور "منکر" کے ان دو لفظوں میں تمام اخلاقی مفاسد شامل ہیں۔ جو برائیاں شہوانی جذبات کی بے اعتدالی کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیتی ہیں حتیٰ کہ لوگوں میں بے حیائی کا احساس تک مٹ جاتا ہے اور لوگوں کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہ ’فحشا‘ ہیں اور ’منکر‘ وہ برائیاں ہیں جو صالح معاشرہ کی پاکیزہ روایات کے خلاف ہوں۔ جو شخص نماز کے معنی و مفہوم پر غور کرے گا اور سوچے گا کہ میں روزانہ اللہ کے دربار میں حاضری دیتا ہوں۔ نماز میں اپنی عاجزی اور محتاجی کا تذکرہ کر کے اللہ کی عظمت بیان کرتا ہوں۔ رکوع، سجود، تشھد اور قیام کی صورت میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور ایسا دن میں کم از کم ۵ بار دہراتا ہوں، تو ایسی نماز اسے اللہ کے قریب کرے گی اور برائی اور بے حیائی سے دور رکھے گی۔ آخرت میں کامیابی کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہو گا اور جو شخص یہ سوچتا ہی نہیں کہ وہ نماز میں کس کی عظمت بیان کر رہا ہے اور اس نے نماز میں کس چیز کا اقرار کیا اور کن باتوں سے بچنے کا وعدہ کیا تو ایسی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے کیسے روک سکتی ہے؟
نماز کا آغاز نماز ’ادا کرنے‘ سے ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز کا وہ طریقہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر ٹھہرا رکھا ہے ادا ہونے سے اسلام کا ظاہری سرٹیفکیٹ وجود میں آجاتا ہے، مگر یہ سرٹیفکیٹ اللہ کے ہاں تبھی کام دیتا ہے جب اس کے تقاضے اور غایتیں بھی اس کے ساتھ وجود میں آئیں اور اس کی نماز بے حیائی اور برائی کے مقابلے پر ایک بریک کا کام دینے لگے۔ یہ عین وہ معنیٰ ہیں جو نہ اپنانے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے "نمازیوں" کو وعید سنائی ہے، حالانکہ کہاں "نماز" ایسا صالح عمل اور کہاں وعیدِ عذاب۔
﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ﴿٧﴾ (الماعون 4-7)
"پس بربادی ہے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو ریاکار ہیں اور (تنگ دل اتنے کہ) کسی کو تھوڑی سی چیز دینے پر تیار نہیں۔"
روزہ:
روزے کی بابت فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ: 183)
"اے وہ لوگو جو ایمان لائے! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح یہ تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تقویٰ اختیار کر لو۔"
روزہ اللہ کی عظیم عبادت ہے اور ماہ رمضان نیکیاں کر کے اللہ کی رضا کی تلاش کا خصوصی مہینہ ہے۔ ماہ رمضان اللہ سے محبت، اس کی خشیت اور انابت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ رات کو قیام اللیل میں قرآنِ مجید کے ذریعے ایک مومن اپنے دل کو روشن کرتا ہے۔ وہ ذکر و فکر کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھاتا اور خشوع پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ روزہ شہوات کنٹرول کرنے کے لیے بہترین مشق ہے اور نفس کا اپنی خواہشات پر جیت پانے اور اپنے میلانات کو قابو میں لانے کی اعلیٰ ترین استعداد پیدا کرتا ہے۔ جس دل میں خواہشات سر اٹھائے کھڑی ہوں وہاں تقویٰ کا پنپنا ایک دشوار کام ہے۔ ہاں خواہشات کو لگام ڈال لی گئی ہو اور انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو گیا ہو تو یہ وہ فضا ہے جہاں تقویٰ خوب پرورش پاتا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا﴾ (البقرۃ: 187)
"یہ ہیں اللہ کی حدیں، ان کے قریب مت پھٹکو۔"
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا﴾ (البقرۃ: 229)
"یہ ہیں اللہ کی حدیں، سو اُن سے آگے نہ بڑھو۔"
مگر افسوس ہم دن میں کھانے، پینے سے اجتناب تو کرتے ہیں مگر سارا دن بازار میں سودا سلف خریدنے میں گزارتے اور افطاری اور سحری کی تیاری میں سارا وقت برباد کر دیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں ٹی وی کے آگے سارا دن لغویات سنتے ہیں اور بہت سے اسلامی ملکوں میں تھیڑ کی رونقیں رمضان کی راتوں میں جس قدر عروج پر ہوتی ہیں سارا سال وہ گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آتی۔ گویا ہم زبانِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں، نماز روزہ اپنی جگہ اور دنیاداری اور دل لگی اپنی جگہ اور شوق تو بہرحال شوق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "من لم يَدَع قولَ الزُّورِ والعملَ به فلا حاجةَ لله بتركه طعامه وشرابه" (بخاری) "جو شخص جھوٹ ناحق بات کہنے اور اس پر چلنے سے باز نہیں آتا تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔" رُبَّ صائم ليس له من صيامه إلا الجوع والعطش" (ابن ماجہ: ۱۶۹۰) "کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کے حصے میں اپنے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ آنے والا نہیں۔"
روزہ کی غایت یہ بیان کی "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ متقی شخص وہ ہے جس کا نفس پاک، صاف اور طیب و طاہر ہو ایسا شخص برے اخلاق کا مالک نہیں ہو سکتا۔
زکوٰۃ:
زکوٰۃ کی بابت فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ (التوبۃ :103)
"ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو۔"
یہ زکوٰۃنہ صرف مال کو پاک کرتی ہے بلکہ نفس کو بھی ظاہر اور باطن میں یعنی حسی اور معنوی ہر لحاظ سے پاکیزہ بناتی ہے۔ اللہ کی رضا پانے کے لیے یہ خالص نذرانہ اسی وقت قبول ہو گا جب یہ حلال طریقے سے حاصل کی گئی کمائی میں سے دیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کرتا اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا﴾ "اے رسولو‘ پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔"
اور فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اس پاک رزق سے جو ہم نے تمہیں دیا کھاؤ۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کر کے غبار آلود پراگندہ بالوں کے ساتھ آتا ہے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کر تا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا پینا اور پہننا حرام مال سے ہے۔ حرام مال سے ہی اس کی پرورش کی۔ ایسے شخص کی دعا کیسے قبول کی جائے گی۔"(مسلم:۱۰۱۵)
آج زکوٰۃ و عشر دینے والے امت میں انتہائی قلیل ہیں پھر ان میں کتنے ہیں جو اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ ان کی کمائی میں سود کا مال شامل نہ ہو، جھوٹ بول کر کمائی نہ کی گئی ہو، ٹھگی نوسر بازی، رشوت اور زمینوں پر ناجائز قبضوں کے ذریعے مال حاصل نہ کیا گیا ہو۔ آج مسلمانوں نے عبادت کا مفہوم اس حد تک بگاڑ دیا ہےکہ وہ زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ زکوٰۃ عبادت ہے اور یہ کاروبار کرنے کے ہتھکنڈے ہیں ان کا عبادت سے کیا تعلق؟؟
حج
حج کے بارے میں فرمایا:
(الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ) (البقرۃ : ۱۹۷)
"حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں۔ جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے وہ جنسی میل ملاپ، گناہ اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔ اور (حج پر نکلتے وقت) اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنـة" (بخاری۱۷۷۳۔ مسلم۱۳۴۹)
"وہ حج جو گناہ و معصیت سے سلامت رہا، جنت سے کم اس کی کوئی جزاء نہیں۔"
نیز فرمایا:
"من أتى هذا البيت فلم يرفث ولم يفسق ، رجع كما ولدته أمه" (بخاری۱۵۲۱۔ مسلم۱۳۵۰)
"جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے، اور اس دوران جنسی ملاپ اور گناہ سے دور رہے، تو وہ یوں (پاک صاف) لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔"
حج اگرچہ زندگی میں ایک بار فرض ہے مگر گنتی کے یہ چند دن ایک مسلمان کی زندگی میں بڑے گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کے لیے خالص ہونا ہے۔ ایک مسلمان اپنے اہل خانہ، اپنا وطن اور اپنا گھر چھوڑ کر اللہ کی خاطر حج کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، وہ اپنا لباس چھوڑ کر احرام کی دو چادریں لپیٹتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کہتا ہوا یعنی اللہ کی وحدانیت بیان کرتا ہوا مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے قافلے میں شامل ہو جاتا ہے۔ منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ ہوتے ہوئے منیٰ میں واپسی ایک ایسے مجمع کے ساتھ کرتا ہے جو اسے حشر کی یاد دلاتے ہیں اس ساری مشقت سے نفس میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں اور ایک مسلمان گناہوں سے یوں صاف ستھرا ہو جاتا ہے گویا اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا۔ وہ لوگ کتنے بد نصیب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ حاجی کا اضافہ تو کر لیتے ہیں مگر نفس کی صفائی کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے ۔ سماجی فوائد حاصل کرنا حج کا مقصد ہی نہیں۔ مقصد تو اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے مگر یہ حاجی حج کے دنوں میں بھی اللہ کے احکامات کی تابعداری نہیں کرتا، اپنے کندھوں کے زور سے لوگوں کو دھکیلتا ہوا حجرِ اسود کا بوسہ لیتا ہے، عورتوں اور بوڑھوں سمیت مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے حتیٰ کہ میدانِ عرفات میں دعا کی بجائے گپ شپ اور موبائل سے کھیلنے میں وقت ضائع کرتا ہے بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو کچھ واجبات چھوڑ کر کفارہ ادا کیے بغیر وطن واپس آ جاتے ہیں تو ایسے حاجیوں میں خشوع اور انابت کیسے پیدا ہو گی؟؟
ہم نے یہ باتیں ایک مشینی انداز سے اپنائی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج بھی ہمارے اندر خشوع، انابت، توجہ، انکساری، ذلت اور تعظیم پیدا نہیں کرتیں۔ نہ ہی توحید کا عقیدہ ہمارے دلوں میں پختہ ہوتا ہے اور نہ ہی یہ باتیں ہمیں صغیرہ کبیرہ گناہوں سے دور کرتی ہیں ایسی عبادت جو مسلم معاشرے میں کوئی کردار ادا نہ کرے وہ اللہ کو کیسے پسند آ سکتی ہے؟؟
اِن سب آیات اور احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ "عبادات" بذاتِ خود کچھ ایسے مطالبات اور تقاضے رکھتی ہیں جن کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہی ہے۔ یعنی یہ (عبادات) ایسی چیز بہرحال نہیں ہیں کہ آپ نے ان کو ’ارکان و شروط و واجبات و مستحبات سمیت‘ ادا کر دیا تو بس وہ ادا ہو گئیں؛ خود ان "عبادات" کے ساتھ کچھ نجی و سماجی مطالبات نتھی ہیں۔ خود انہیں کچھ لازمی نتائج کا پابند کر دیا گیا ہے؛ یوں کہ یہ آثار و نتائج پائے جائیں تو یہ "شعائرِ تعبُّد" اپنے حقیقی معنی میں پائے جائیں گے، بصورتِ دیگر نہیں پائے جائیں گے۔ اس لحاظ سے "شعائرِ تعبُّد" خود بھی مسلم زندگی اور مسلم معاشرہ میں باقاعدہ ایک کردار رکھتے ہیں، اور یہ کردار ادا ہوئے بغیر اِن کا "ادا ہو جانا" اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔
یہ عبادات بذات خود بھی فرض ہیں اور ان غایتوں اور مطالبوں کو پورا کرنے کی خاطر بھی فرض ہیں جو ان کے ساتھ نتھی ہیں۔ پس جب ہمارا ان کو ادا کرنا بھی اسی چیز تک محدود ہو گا اور وہ غایتیں اور مطالبے جو شریعت نے ان کے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں ہماری نظر سے اوجھل ہوں گے… تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہ “عبادت” حقیقی معنوں میں ادا کر رہے ہیں جو اللہ نے ہم پر فرض کر رکھی ہے؟!
اللہ سے دعا سے ہمیں اپنی خالص عبادت کرنے کی توفیق دے اور اسی راستے پر زندہ رکھے اور اسی پر اپنے پاس بلائے آمین!
ایک مسلمان شعائر عبادت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے۔ یہ وہ فرائض ہیں جن پر اسلام کی بنیادیں کھڑی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔" (بخاری:۸، مسلم:۲۱)
اللہ کو راضی کرنے کے لیے جہاں ان عبادات کو یقیناً سنت کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے وہیں ان کی غرض و غایت کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک مسلم اگر ان غایتوں اور مطالبوں کو نظر انداز کر دے جو شریعت نے ان کے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں تو یہ عبادت صحیح معنوں میں اس کے لیے اجر کا باعث نہ ہو گی۔ آیات و احادیث میں صراحت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ موجود ہے مگر افسوس آج ہم نے ان شعائر کو محض "ادائیگی" تک میں محصور کر دیا۔ دین کے علماء کرام اور داعیان بھی عبادات کے شروط، ارکان، واجبات اور مستحبات کی تو خوب فکر کرتے ہیں مگر ان کے تقاضوں اور غایتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔
شعائر کی محض ادائیگی نہیں بلکہ ان کے مقاصد بھی مطلوب ہیں
کتاب وسنت کی رو سے شعائر میں سے ایک ایک عمل ایک خاص غایت کو پورا کرانے کے لیے ہے اور ہر ایک کے اپنے مطالبے اور تقاضے ہیں اور نفس پر ہر عبادت کے اپنے خاص اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
نماز:
نماز کی خاص غایت اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:
﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت 45)
"اور نماز قائم کرو، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔"
"فحشا" اور "منکر" کے ان دو لفظوں میں تمام اخلاقی مفاسد شامل ہیں۔ جو برائیاں شہوانی جذبات کی بے اعتدالی کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور پورے معاشرے کو بے حیا بنا دیتی ہیں حتیٰ کہ لوگوں میں بے حیائی کا احساس تک مٹ جاتا ہے اور لوگوں کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے وہ ’فحشا‘ ہیں اور ’منکر‘ وہ برائیاں ہیں جو صالح معاشرہ کی پاکیزہ روایات کے خلاف ہوں۔ جو شخص نماز کے معنی و مفہوم پر غور کرے گا اور سوچے گا کہ میں روزانہ اللہ کے دربار میں حاضری دیتا ہوں۔ نماز میں اپنی عاجزی اور محتاجی کا تذکرہ کر کے اللہ کی عظمت بیان کرتا ہوں۔ رکوع، سجود، تشھد اور قیام کی صورت میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور ایسا دن میں کم از کم ۵ بار دہراتا ہوں، تو ایسی نماز اسے اللہ کے قریب کرے گی اور برائی اور بے حیائی سے دور رکھے گی۔ آخرت میں کامیابی کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہو گا اور جو شخص یہ سوچتا ہی نہیں کہ وہ نماز میں کس کی عظمت بیان کر رہا ہے اور اس نے نماز میں کس چیز کا اقرار کیا اور کن باتوں سے بچنے کا وعدہ کیا تو ایسی نماز اسے بے حیائی اور برائی سے کیسے روک سکتی ہے؟
نماز کا آغاز نماز ’ادا کرنے‘ سے ضرور ہو جاتا ہے۔ نماز کا وہ طریقہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر ٹھہرا رکھا ہے ادا ہونے سے اسلام کا ظاہری سرٹیفکیٹ وجود میں آجاتا ہے، مگر یہ سرٹیفکیٹ اللہ کے ہاں تبھی کام دیتا ہے جب اس کے تقاضے اور غایتیں بھی اس کے ساتھ وجود میں آئیں اور اس کی نماز بے حیائی اور برائی کے مقابلے پر ایک بریک کا کام دینے لگے۔ یہ عین وہ معنیٰ ہیں جو نہ اپنانے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے "نمازیوں" کو وعید سنائی ہے، حالانکہ کہاں "نماز" ایسا صالح عمل اور کہاں وعیدِ عذاب۔
﴿فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ ﴿٤﴾ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ﴿٥﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ﴿٦﴾ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ﴿٧﴾ (الماعون 4-7)
"پس بربادی ہے نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں، جو ریاکار ہیں اور (تنگ دل اتنے کہ) کسی کو تھوڑی سی چیز دینے پر تیار نہیں۔"
روزہ:
روزے کی بابت فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ: 183)
"اے وہ لوگو جو ایمان لائے! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح یہ تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تقویٰ اختیار کر لو۔"
روزہ اللہ کی عظیم عبادت ہے اور ماہ رمضان نیکیاں کر کے اللہ کی رضا کی تلاش کا خصوصی مہینہ ہے۔ ماہ رمضان اللہ سے محبت، اس کی خشیت اور انابت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ رات کو قیام اللیل میں قرآنِ مجید کے ذریعے ایک مومن اپنے دل کو روشن کرتا ہے۔ وہ ذکر و فکر کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھاتا اور خشوع پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ روزہ شہوات کنٹرول کرنے کے لیے بہترین مشق ہے اور نفس کا اپنی خواہشات پر جیت پانے اور اپنے میلانات کو قابو میں لانے کی اعلیٰ ترین استعداد پیدا کرتا ہے۔ جس دل میں خواہشات سر اٹھائے کھڑی ہوں وہاں تقویٰ کا پنپنا ایک دشوار کام ہے۔ ہاں خواہشات کو لگام ڈال لی گئی ہو اور انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو گیا ہو تو یہ وہ فضا ہے جہاں تقویٰ خوب پرورش پاتا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا﴾ (البقرۃ: 187)
"یہ ہیں اللہ کی حدیں، ان کے قریب مت پھٹکو۔"
﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا﴾ (البقرۃ: 229)
"یہ ہیں اللہ کی حدیں، سو اُن سے آگے نہ بڑھو۔"
مگر افسوس ہم دن میں کھانے، پینے سے اجتناب تو کرتے ہیں مگر سارا دن بازار میں سودا سلف خریدنے میں گزارتے اور افطاری اور سحری کی تیاری میں سارا وقت برباد کر دیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں ٹی وی کے آگے سارا دن لغویات سنتے ہیں اور بہت سے اسلامی ملکوں میں تھیڑ کی رونقیں رمضان کی راتوں میں جس قدر عروج پر ہوتی ہیں سارا سال وہ گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آتی۔ گویا ہم زبانِ حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں، نماز روزہ اپنی جگہ اور دنیاداری اور دل لگی اپنی جگہ اور شوق تو بہرحال شوق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "من لم يَدَع قولَ الزُّورِ والعملَ به فلا حاجةَ لله بتركه طعامه وشرابه" (بخاری) "جو شخص جھوٹ ناحق بات کہنے اور اس پر چلنے سے باز نہیں آتا تو اللہ کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔" رُبَّ صائم ليس له من صيامه إلا الجوع والعطش" (ابن ماجہ: ۱۶۹۰) "کتنے ہی روزہ دار ہیں جن کے حصے میں اپنے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ آنے والا نہیں۔"
روزہ کی غایت یہ بیان کی "لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ متقی شخص وہ ہے جس کا نفس پاک، صاف اور طیب و طاہر ہو ایسا شخص برے اخلاق کا مالک نہیں ہو سکتا۔
زکوٰۃ:
زکوٰۃ کی بابت فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ (التوبۃ :103)
"ان کے مال میں سے زکوٰۃ قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو۔"
یہ زکوٰۃنہ صرف مال کو پاک کرتی ہے بلکہ نفس کو بھی ظاہر اور باطن میں یعنی حسی اور معنوی ہر لحاظ سے پاکیزہ بناتی ہے۔ اللہ کی رضا پانے کے لیے یہ خالص نذرانہ اسی وقت قبول ہو گا جب یہ حلال طریقے سے حاصل کی گئی کمائی میں سے دیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں کے سوا کوئی چیز قبول نہیں کرتا اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا ہے، چنانچہ فرمایا :
﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا﴾ "اے رسولو‘ پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔"
اور فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اس پاک رزق سے جو ہم نے تمہیں دیا کھاؤ۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کر کے غبار آلود پراگندہ بالوں کے ساتھ آتا ہے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر دعا کر تا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا پینا اور پہننا حرام مال سے ہے۔ حرام مال سے ہی اس کی پرورش کی۔ ایسے شخص کی دعا کیسے قبول کی جائے گی۔"(مسلم:۱۰۱۵)
آج زکوٰۃ و عشر دینے والے امت میں انتہائی قلیل ہیں پھر ان میں کتنے ہیں جو اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ ان کی کمائی میں سود کا مال شامل نہ ہو، جھوٹ بول کر کمائی نہ کی گئی ہو، ٹھگی نوسر بازی، رشوت اور زمینوں پر ناجائز قبضوں کے ذریعے مال حاصل نہ کیا گیا ہو۔ آج مسلمانوں نے عبادت کا مفہوم اس حد تک بگاڑ دیا ہےکہ وہ زبانِ حال سے کہتے ہیں کہ زکوٰۃ عبادت ہے اور یہ کاروبار کرنے کے ہتھکنڈے ہیں ان کا عبادت سے کیا تعلق؟؟
حج
حج کے بارے میں فرمایا:
(الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ) (البقرۃ : ۱۹۷)
"حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں۔ جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے وہ جنسی میل ملاپ، گناہ اور لڑائی جھگڑے سے بچتا رہے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔ اور (حج پر نکلتے وقت) اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنـة" (بخاری۱۷۷۳۔ مسلم۱۳۴۹)
"وہ حج جو گناہ و معصیت سے سلامت رہا، جنت سے کم اس کی کوئی جزاء نہیں۔"
نیز فرمایا:
"من أتى هذا البيت فلم يرفث ولم يفسق ، رجع كما ولدته أمه" (بخاری۱۵۲۱۔ مسلم۱۳۵۰)
"جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے، اور اس دوران جنسی ملاپ اور گناہ سے دور رہے، تو وہ یوں (پاک صاف) لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا۔"
حج اگرچہ زندگی میں ایک بار فرض ہے مگر گنتی کے یہ چند دن ایک مسلمان کی زندگی میں بڑے گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کے لیے خالص ہونا ہے۔ ایک مسلمان اپنے اہل خانہ، اپنا وطن اور اپنا گھر چھوڑ کر اللہ کی خاطر حج کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، وہ اپنا لباس چھوڑ کر احرام کی دو چادریں لپیٹتا ہے اور لبیک اللھم لبیک کہتا ہوا یعنی اللہ کی وحدانیت بیان کرتا ہوا مکہ مکرمہ کی طرف جانے والے قافلے میں شامل ہو جاتا ہے۔ منیٰ سے عرفات اور عرفات سے مزدلفہ ہوتے ہوئے منیٰ میں واپسی ایک ایسے مجمع کے ساتھ کرتا ہے جو اسے حشر کی یاد دلاتے ہیں اس ساری مشقت سے نفس میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں اور ایک مسلمان گناہوں سے یوں صاف ستھرا ہو جاتا ہے گویا اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا۔ وہ لوگ کتنے بد نصیب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ حاجی کا اضافہ تو کر لیتے ہیں مگر نفس کی صفائی کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے ۔ سماجی فوائد حاصل کرنا حج کا مقصد ہی نہیں۔ مقصد تو اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے مگر یہ حاجی حج کے دنوں میں بھی اللہ کے احکامات کی تابعداری نہیں کرتا، اپنے کندھوں کے زور سے لوگوں کو دھکیلتا ہوا حجرِ اسود کا بوسہ لیتا ہے، عورتوں اور بوڑھوں سمیت مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے حتیٰ کہ میدانِ عرفات میں دعا کی بجائے گپ شپ اور موبائل سے کھیلنے میں وقت ضائع کرتا ہے بلکہ بعض تو ایسے بھی ہیں جو کچھ واجبات چھوڑ کر کفارہ ادا کیے بغیر وطن واپس آ جاتے ہیں تو ایسے حاجیوں میں خشوع اور انابت کیسے پیدا ہو گی؟؟
ہم نے یہ باتیں ایک مشینی انداز سے اپنائی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج بھی ہمارے اندر خشوع، انابت، توجہ، انکساری، ذلت اور تعظیم پیدا نہیں کرتیں۔ نہ ہی توحید کا عقیدہ ہمارے دلوں میں پختہ ہوتا ہے اور نہ ہی یہ باتیں ہمیں صغیرہ کبیرہ گناہوں سے دور کرتی ہیں ایسی عبادت جو مسلم معاشرے میں کوئی کردار ادا نہ کرے وہ اللہ کو کیسے پسند آ سکتی ہے؟؟
اِن سب آیات اور احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ "عبادات" بذاتِ خود کچھ ایسے مطالبات اور تقاضے رکھتی ہیں جن کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہی ہے۔ یعنی یہ (عبادات) ایسی چیز بہرحال نہیں ہیں کہ آپ نے ان کو ’ارکان و شروط و واجبات و مستحبات سمیت‘ ادا کر دیا تو بس وہ ادا ہو گئیں؛ خود ان "عبادات" کے ساتھ کچھ نجی و سماجی مطالبات نتھی ہیں۔ خود انہیں کچھ لازمی نتائج کا پابند کر دیا گیا ہے؛ یوں کہ یہ آثار و نتائج پائے جائیں تو یہ "شعائرِ تعبُّد" اپنے حقیقی معنی میں پائے جائیں گے، بصورتِ دیگر نہیں پائے جائیں گے۔ اس لحاظ سے "شعائرِ تعبُّد" خود بھی مسلم زندگی اور مسلم معاشرہ میں باقاعدہ ایک کردار رکھتے ہیں، اور یہ کردار ادا ہوئے بغیر اِن کا "ادا ہو جانا" اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔
یہ عبادات بذات خود بھی فرض ہیں اور ان غایتوں اور مطالبوں کو پورا کرنے کی خاطر بھی فرض ہیں جو ان کے ساتھ نتھی ہیں۔ پس جب ہمارا ان کو ادا کرنا بھی اسی چیز تک محدود ہو گا اور وہ غایتیں اور مطالبے جو شریعت نے ان کے ساتھ نتھی کر رکھے ہیں ہماری نظر سے اوجھل ہوں گے… تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم وہ “عبادت” حقیقی معنوں میں ادا کر رہے ہیں جو اللہ نے ہم پر فرض کر رکھی ہے؟!
اللہ سے دعا سے ہمیں اپنی خالص عبادت کرنے کی توفیق دے اور اسی راستے پر زندہ رکھے اور اسی پر اپنے پاس بلائے آمین!