- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
2: نفسانی خواہشات (الہوی):
خواہش نفسانی اس وقت طاغوت بن جاتی ہے جب حق اور باطل کے تعین میں خواہش نفسانی کو ہی مصدر مانا جا رہا ہو۔ یعنی جس چیز کو نفس حق کہے اسی کو حق مانا جائے اور جسے نفس باطل کہہ دے اسے باطل کہا جائے اگرچہ یہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح دوستی اور دشمنی میں نفسانی خواہشات کی پیروی کو حق سمجھے۔ یعنی انسان اس سے دوستی رکھے جس کے بارے میں اس کا نفس خواہش کرتا ہو اور اس میں شرعی تقاضے کا خیال نہ رکھے ، اسی طرح اس سے دشمنی رکھے جس کے بارے میں اس کا نفس دشمنی رکھنے کا متقاضی ہو اگرچہ شریعت اس سے دوستی رکھنے کی متقاضی ہی کیوں نہ ہو۔
اس صورت میں نفسانی خواہشات طاغوت کہلاتی ہیں کیونکہ خواہشات کی پیروی کے اندر اپنے لیے خیر اور مصلحت سمجھنے والا خود کو کسی ضابطہ کا پابند نہیں سمجھتا وہ درحقیقت اپنی خواہشات کوخیر و شر کے تعین میں مصدر مان کر اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾} (الفرقان)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے۔ کیا آپ اس کے ذمہ دار بن سکتے ہیں؟"
{أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ} (الجاثیہ: ۲۳)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے۔"
نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرنے والا گناہ گار مسلمان ہے لیکن جو خواہش نفس کو حق اور باطل کے تعین میں مصدر مانے اور اسی بنیاد پر ولاء والبراء کرنے کو حق سمجھے تو یہ کبیرہ گناہ نہیں بلکہ کفر ہے۔
3: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا:
ارشاد باری تعالی ہے :
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ} (یوسف: ۴۰)
"(سن رکھو کہ) اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی دین حق ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے ایمان کی نفی فرمائی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہر معاملے میں حاکم اور فیصل نہیں مانتا۔
{ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} (النساء ۶۵)
“تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اسے خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔"
تحاکم ایک قسم کی عبادت ہے جس میں فیصلے کرنے والا عبادت کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص اپنی زندگی کے تمام عام و خاص معاملات میں اللہ وحدہ لا شریک کی شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے وہ اللہ تعالی کا عبادت گذار ہے۔ جو کسی غیر کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے شریعتِ اسلام کے خلاف فیصلے کرتا ہے، یہ غیر خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اور یہ فیصلہ خواہ زندگی کے کسی کمترین معاملے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو ایسا کرنے والا اس غیر کا عبادت گزار ہوتا ہے کیونکہ شریعت سازی، قانون اور دستور وضع کرنا الوہیت کی خصوصیات ہیں۔ جس نے ان خصوصیات میں سے کسی ایک کو بھی اپنی طرف منسوب کیا تو اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی کیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کا شریک بنا لیا۔ اسی طرح جس نے اللہ تعالی کے علاوہ یا اس کے ساتھ کسی دوسرے کے بارے میں قانون سازی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلے کروانے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر اس کی بندگی کرنے والا ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا سرکشی اور ظلم میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز اور اعراض کر کے اسے جاہلیت کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے بدلنے کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} (المائدہ: ۴۴)
"جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔"
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (المائدہ:۴۵)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔"
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} (المائدہ: ۴۷)
"اورجو اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔"
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} (المائدہ: ۵۰)
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟"
اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاوہ ہر حکم جاہلیت کا حکم تصور ہو گا آیت کریمہ اسی بات کی وضاحت کر رہی ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے کسی دوسرے کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا طلبگار ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہے جو جاہلیت کے احکام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ طاغوت کی تعریف میں تو یہ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز یا شخص ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جائے۔ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے غیر اللہ کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے والے کی کس طرح عبادت ہوتی ہے جس بنا پر آپ اسے طاغوت کہہ رہے ہیں۔
اس اعتراض کے متعدد جوابات ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مرجع مانے بغیر فیصلہ کرنے والے حاکم کو خود اللہ تعالیٰ نے طاغوت کہا ہے :
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا} (النساء: ۶۰)
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلہ کروانے جائیں حالانکہ یقینا انہیں اس کا کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔"
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کے طریقے پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب یعنی قرآن پر بھی ایمان لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء پر نازل شدہ کتابوں پر بھی ایمان لائے ہیں۔ لیکن عملی طور پر وہ ایسی بات کے مرتکب ہوتے ہیں جو ان کے اس دعوی کے بطلان کا باعث ہے اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کا مذکورہ دعوی جھوٹ پر مبنی ہے۔ عملی طور پر وہ ہر فیصلہ اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب سے کروانے کی بجائے طاغوت سے کرواتے ہیں یہ ان کے دعوی کے بطلان کا باعث ہے حالانکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل شدہ کتابوں میں طاغوت کے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔" (فتح القدیر: ۱/ ۴۸۲)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: {یَزْعُمُونَ} ان کے دعوی ایمان کی تکذیب کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر ایمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے کسی دوسرے سے فیصلہ کروانا یہ دونوں باتیں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔" (رسالۃ تحکیم القوانین)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہاں طاغوت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہوئے باطل کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور لوگ فیصلے کروانے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں"۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا حاکم جو بھی فیصلہ کرتا ہے لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف اس کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں تو اس طرح وہ ان کا معبود بن جاتا ہے کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر اس کی بات تسلیم کر کے اس کی غیر مشروط اطاعت کرتے ہیں۔
یاد رکھئے کہ غیر مشروط اطاعت کرنا عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ اُس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے۔
ارشاد ربانی ہے:
{وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} (سورۃ الکہف:26)
"اور وہ اپنے حکم میں سے کسی کو شریک نہیں کرتا"
مفسر قرآن علامہ محمد امین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حکم اور فیصلہ میں کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ بنائے۔ حکم صرف اور صرف اللہ تعالی کا ہے کسی بھی صورت میں غیر اللہ کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ حلال وہی ہے جسے اللہ تعالی نے حلال قرار دیا اور حرام وہی ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا۔ دین وہی ہے جسے اللہ تعالی نے متعین فرمایا ہے اور فیصلہ وہی ہے جو اللہ تعالی نے صادر فرمایا ہے۔ مذکورہ ارشاد ربانی {وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} میں حکم اللہ تعالی کے تمام فیصلوں کو شامل ہے۔ اللہ تعالی کے فیصلوں میں شریعت سب سے پہلے داخل ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ نے جس مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ حکم کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے کوئی دوسرا اس میں اس کا شریک نہیں ہو سکتا اس مفہوم کی وضاحت قرآن کریم کی متعدد دوسری آیات سے بھی ملتی ہے"۔
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ} (یوسف: ۶۷)
"فرمانروائی صرف اللہ تعالی ہی کی ہے اسی پر میں نے توکل کیا"۔
{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ} (الشوری:۱۰)
"اور جس جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ ہی کی طرف ہے"۔
{كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ} (القصص: ۸۸)
"اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ حکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے"۔
{أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا} (الأنعام: ۱۱۴)
"(کہو) کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف کتاب بھیجی ہے جس میں ہر بات تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔"
اِن آسمانی نصوص سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ وضعی (انسان ساختہ) قوانین کے پیچھے چلتے ہیں جو کہ درحقیقت شیطان کی شریعت ہے جسے شیطان نے اپنے چیلوں کے ذریعے مقرر کی، یہ اُس شریعت سے متصادم ہے جسے اللہ جلال اور بلندی کے مالک نے اپنے رسولوں کے ذریعے مقرر فرمائی.. اِن لوگوں کے کفر و شرک میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا سوائے اُس شخص کے جس کی بصیرت کو اللہ نے مسخ کر دیا ہو اور جس کو وحی کی روشنی دیکھنے سے اندھا کر دیا ہو.. . پس معاشرے کے اموال اور جائدادوں کے معاملہ میں، ان کی عزتوں آبروؤں کے مسائل میں، ان کے انساب، ان کی عقول اور ان کے دین کے معاملہ میں.. اِن سب معاملات میں طاغوتی نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرنے والا گناہ گار مسلمان ہے لیکن جو خواہش نفس کو حق اور باطل کے تعین میں مصدر مانے اور اسی بنیاد پر ولاء والبراء کرنے کو حق سمجھے تو یہ کبیرہ گناہ نہیں بلکہ کفر ہے۔ نظام کو فیصل ٹھہرانا کفر ہے اُس ذات کے ساتھ جو زمین اور آسمانوں کی خالق ہے، اور یہ بغاوت ہے اُس آسمانی نظام کے خلاف جس کو وضع کرنے والی وہ ذات ہے جو ساری مخلوقات کی خالق ہے اور جو اپنی مخلوقات کی مصلحت سے خود ہی سب سے بڑھ کر واقف ہے۔
پاک اور نہایت بلندہے اِس سے کہ اُس کے ساتھ کسی اور کو بھی ضابطے صادر کرنے کا حق حاصل ہو۔ (تفسیر اضواء البیان، الکہف، آیۃ ۲۶)
۳۔ جو حاکم اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے قوانین کو مرجع اور قانون عام بناتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے نکال کر شرک، کفر اور جاہلیت کے اندھیروں میں ڈال دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ایسے ہی حاکم مراد ہیں:
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} (البقرۃ: ۲۵۷)
"اور کافروں کے اولیاء طاغوت ہیں۔ جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ اہل دوزخ ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔"
ایسے حکمران جو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے قوانین کو مرجع اور قانون عام بناتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں آج کل مسلمانوں کے ملکوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں بعض اہل علم کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:
امام اسماعیل بن عمر بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} (المائدہ:۵۰) کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالیٰ اس انسان کی مذمت بیان کر رہا ہے جو اس کے محکم اور مضبوط قانون سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کو چھوڑ کر دوسری آراء، نظریات اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر بھلائی کے کام پر مشتمل ہے اور ہر برائی سے روکنے والا ہے، اور دوسری آراء و نظریات خالصتاً انسانی ذہن کی پیداوار ہیں اور انہیں و ضع کرنے کے لیے شریعت سے راہنمائی نہیں لی گئی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ نفسانی خواہشات اور ذاتی نظریات کے ذریعے وضع کردہ اصول و قواعد کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ تاتاری اپنے بادشاہ چنگیز خان کی وضع کردہ قانون کی کتاب کے ذریعے اپنے ملکی معاملات میں فیصلے کرتے ہیں۔ چنگیز خان کی وضع کردہ یہ قانون کی کتاب ایسے احکام و ضوابط کا مجموعہ ہے جو اس نے مختلف شریعتوں مثلا یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے اخذ کیے ہیں۔ اور اس میں بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو خالصتاً اس کے اپنے نقطہء نظر اور سوچ پر مبنی ہیں۔ تاتاریوں کے نزدیک یہ مجموعہ ایک ایسی شریعت کا روپ دھار چکا ہے جسے وہ فیصلہ کرنے کے لحاظ سے کتاب و سنت سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ جو کوئی ایسا کرے گا وہ کافر ہے اور اس سے جہاد کرنا واجب ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا مأخذ مان کر اس کی طرف رجوع نہ کرے۔ خواہ کوئی چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بغیر کسی سے فیصلہ نہ کروائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ} یعنی وہ جاہلیت کے قوانین کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ {وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} ”حالانکہ یقین کرنے والوں کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا۔" (تفسیر ابن کثیر ۲/۷۰)
شیخ محمد حامد الفقی رحمۃ اللہ علیہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"جو شخص قتل، زناکاری یا چوری وغیرہ کے مقدمات میں فرنگیوں کے قوانین کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور ان قوانین کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کرتا ہے وہ بھی تاتاریوں جیسا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ ایسا شخص اگر اسی طریقے پر ڈٹا رہے اور اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا راستہ اختیار نہ کرے تو وہ بلا شک و شبہ کافر اور مرتد ہے۔ اسے نہ تو مسلمانوں کا کوئی نام فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی ظاہری اعمال مثلا نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کا اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔" (حاشیہ فتح المجید، صفحہ: ۳۹۶)
علامہ احمد شاکر، ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہم کے گذشتہ اقوال پر اضافہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ مسلمان اپنے ملکوں میں ایسے قوانین کے ذریعے فیصلے کریں جو کہ بت پرست اور ملحد یورپ کے قوانین سے اخذ کیے گئے ہیں۔ بلکہ یہ قوانین ان کی اپنی ذاتی خواہشات اور آراء پر مبنی ہوتے ہیں جن میں یہ اپنی مرضی سے تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ آیا یہ قوانین شریعت کے موافق ہیں یا اس کے مخالف؟ ان قوانین کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ ایسا کھلا کفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی اخفاء نہیں ہے، اور مسلمانوں کے لیے یہ کسی صورت جائز نہیں کہ وہ ان قوانین کو تسلیم کریں، ان کے سامنے اپنا سر جھکائیں اور ان کے مطابق عمل کریں۔" (عمدۃ التفاسیر)
شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"دنیا کی ہر قوم کے نزدیک ان کے اندر ہونے والے فیصلوں کی بنیاد عدل پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاں عدل ان کے آباء و اجداد کے نظریات کا نام ہوتا ہے۔ بلکہ اکثر ایسے لوگ بھی جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اپنے قبائلی رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کیے ہوتے۔ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بجائے انہیں کے ساتھ فیصلے کرنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ بات کفر ہے۔ ان لوگوں کو جب یہ معلوم بھی ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا درست نہیں تو وہ پھر بھی اس کا التزام (اختیار) نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے کو (عملا) حلال کر لیں، یہ لوگ کافر ہیں۔ ورنہ پھر وہ جاہل گمراہ اور حقیقت سے ناواقف ہیں" (فتاوی ابن تیمیہ ۳/۳۱۷)
علامہ مفتی الدیار السعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ اپنے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہہ رہا ہے۔ یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہوں، ہرگز نہیں یہ لوگ پکے کافر ہیں۔ ہاں کفر اعتقادی یا عملی ہو سکتا ہے …پھر مفتی صاحب اعتقادی کفر کی چھ صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اولاً…: جو شخص بھی دین کے اصولوں میں سے کسی ایک اصول یا کسی متفق علیہ شرعی مسئلہ یا نبی علیہ السلام کی لائی ہوئی کسی بھی قطعی بات سے ایک حرف کا بھی انکار کرے تو وہ کافر ہو گا اور اس کا کفر اسے ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہو گا۔
ثانیا…: جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم اور فیصلہ کے حق ہونے کا انکار تو نہ کرے لیکن یہ اعتقاد رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کا حکم آپ کے حکم سے زیادہ اچھا اور زیادہ مکمل ہے اور یہ انسانی قانون لوگوں کی آج ضرورت ہے۔ تو ایسا شخص کافر ہو گا
ثالثاً…: جو شخص وضعی قانون کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے اچھا تو نہیں مگر اس جیسا ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو یہ بھی کافر ہونے میں پہلی دو قسموں کی مانند ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کرتا ہے کیونکہ اس بات سے خالق اور مخلوق میں برابری ہوتی ہے۔
رابعاً…: جو شخص اللہ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ دوسری کسی چیز سے فیصلہ کرنے کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے مشابہ اور بہتر ہونے کا اعتقاد تو نہیں رکھتا لیکن اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے علاوہ دوسری کسی چیز سے فیصلہ کرنا جائز سمجھتا ہے۔
خامساً…: اللہ تعالیٰ کی مخالفت کے اعتبار سے یہ سب سے بڑی صورت ہے یہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے تکبر، مخالفت اور شرعی عدالتوں کی ریس ہے۔ جہاں یہ غیر اللہ کا حکم نافذ کرنے والے ادارے شرعی عدالتوں کی طرح ہی قائم کیے جاتے ہیں، ان کی باقاعدہ امداد اور سپورٹ کی جاتی ہے، ان کو اصول و فروع اور اشکال و انواع کے اعتبار سے شرعی عدالتوں کا ہی مقام دیا جاتا ہے، ان کے فیصلوں کو ویسا ہی مانا اور بزور منوایا جاتا ہے، ان کو ویسے ہی مستند اور مرجع قرار دیا جاتا ہے جس طرح شرعی عدالتوں کا مرجع و ماخذ کتاب و سنت ہے اسی طرح ان خود ساختہ عدالتوں کا مرجع و ماخذ بہت سی شریعتوں اور قوانین سے لیا ہوا قانون کا پلندا ہوتا ہے جس کو فرانسیسی، امریکی، برطانوی اور دیگر قوانین سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے۔ بعض بدعت پر مبنی مذاہب اور اس جیسی دوسری چیزیں بھی اس کی بنیاد میں شامل کی جاتی ہیں اس مذکورہ نہج پر تیار شدہ عدالتوں کے دروازے اسلامی ممالک میں آپ کو جابجا کھلے ملیں گے، لوگ گروہ در گروہ ان میں جا رہے ہیں، ان ملکوں کے حکام اپنے عوام کے درمیان کتاب و سنت کے مخالف وضعی قانون کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور ان پر ان عدالتوں کے فیصلے لاگو کیے جاتے ہیں، ان فیصلوں کا ان سے اقرار کروایا جاتا ہے تو پھر اس کفر سے بڑھ کر اور کفر کیا ہو سکتا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی کی مخالفت اور اس سے انحراف اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا؟
سادساً…: اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی دوسری چیز کے ساتھ فیصلہ کرنے کی وہ ہے جس کے ساتھ دیہاتوں میں قبیلوں کے سردار فیصلے کرتے ہیں یہ فیصلے ان کے باپ دادا کے قصے، کہانیوں اور رسم و رواج سے اخذ کیے گئے ہوتے ہیں اور ان کو ورثہ میں ملے ہوتے ہیں (اور ہمارے ہاں اسے پنچائت، ثالثی کمیٹی اور جرگہ کا نام دیا جاتا ہے) یہ باپ دادا کے انہیں جاہلانہ احکام کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور رسول کریم کے حکم سے منہ پھیرتے اور بے رغبتی کرتے ہوئے اپنی اور باپ داداکی جاہلیت پر اڑے رہتے ہیں۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ (رسالہ تحکیم القوانین)
شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ لوگوں کے احکام و آراء اللہ تعالی کے احکام سے بہتر ہیں یا ان کے ہم مثل یا مشابہ ہیں، یا وہ شخص اللہ تعالی کے احکام کو چھوڑ کر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو ان کا قائم مقام قرار دیتا ہے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ اگرچہ اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے احکام بہترین، زیادہ مکمل اور درست ہیں… جو اللہ تعالی کا مطیع ہو اور اس کی وحی کے مطابق فیصلہ کروائے وہی اس کا عبادت گزار ہے۔ اور جو کسی غیر کا مطیع ہو جائے اور اس کی شریعت کے مطابق فیصلے کروائے وہ طاغوت کا عبادت گزار اور اس کا مطیع بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ} (النساء: ۶۰)
"وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا کفر کریں۔"
کلمہء شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ جس کا ہم اقرار کرتے ہیں اس کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوت کی بندگی اور اس سے فیصلہ کروانے کا انکار بھی کیا جائے۔" (رسالۃ وجوب تحکیم شرع اللہ)
دیکھئے! شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے کس خوبی کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو ان کا قائم مقام قرار دینے سے ہی انسان کے ایمان کی مطلقا نفی ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وہ شخص اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے حکم کے بارے میں درست عقیدے کا دعویدار ہو جیسا کہ موجودہ دور میں ہمارے اکثر قانونی اداروں کی حالت زار ہے۔ طاغوتی عدالتوں سے فیصلے کروانا اُس صورت میں کفر اور حرام ہے کہ جب شریعت اسلام سے فیصلہ کروانا ممکن ہو اور اس سے اعراض کرتے ہوئے غیر اللہ کی قانون سے فیصلہ کروایا جائے۔ رہا موجودہ دور میں اپنے حقوق حاصل کرنیکی خاطر طاغوتی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا تو اسلامی عدالتی نظام کے نہ پائے جانے کے سبب اہل علم نے اسے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ دل میں ان سے بغض و عداوت رکھا جائے۔ :
شریعت ساز (فرد واحد، نظام یا پارلیمینٹ) قانون نافذ کرنے والے حاکم سے مختلف ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں انہیں قانون ساز اداروں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان کا قانون نافذ کرنے والی انتظامیہ سے ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ جو قوانین اور دستور یہ ادارہ وضع کرتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان قوانین کو لاگو کرنے اور منوانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ قانون ساز ایک شخص بھی ہو سکتا ہے، ایک ادارہ، جماعت یا اسمبلی بھی ہوسکتی ہے جو کہ بہت سے قانون سازوں سے ملکر بنتی ہے۔ یا اس سے مراد وہ صوفی اور مشایخ وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے اوپر دین کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے لیے قرآن و سنت سے آزاد شریعت بناتے ہیں۔ اس بارے میں عمومی طور پر یہ بات کہی جائے گی کہ: جو شخص شریعت سازی یعنی کسی چیز کو حلال و حرام یا اچھا و برا قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے لیے خاص کرلیتا ہے، اور وہ اپنے نظریے اور خواہش کے مطابق لوگوں کے لیے شریعت بنانا شروع کر دیتا ہے ایسا شخص طاغوت ہے۔ اسے کافر قرار دینا اور اس کا کفر کرنا واجب ہے۔
یہ لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے خلاف بہت بڑی جرأت کا اظہار ہے کہ انہوں نے اپنے اور اپنی قوموں کے لیے ایسی قانون ساز اسمبلیاں وضع کر لی ہیں جنہیں قومی اسمبلیوں کا نام دے رکھا ہے۔ ان اسمبلیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اللہ کی شریعت سے آزاد قانون سازی کر سکتی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر لوگوں کے لیے قوانین وضع کرتی ہیں۔ وہ اسمبلی جسے قرآن و سنت سے آزاد قانون سازی کا غیر مشروط حق حاصل ہو وہ یقینا طاغوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت میں وضع کردہ قوانین بذات خود طاغوت ہیں۔
ارشاد ربانی {يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ} سے یہی مفہوم مراد ہے۔ طاغوت کی اس قسم میں انسانوں کے بنائے ہوئے وہ قوانین اور دستور بھی شامل ہیں جنہیں ملکوں اور معاشروں پر نافذ کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ملکی انتظامیہ کے ہاں یہ قوانین ایک مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ان کی ہر ہر شق کو نافذ کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاں دستور اور قانون ہر چیز سے بالاتر ہے اور کوئی چیز بھی قانون اور دستور سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔ قانون اور دستور کا لوگوں کے دلوں پر ایک خاص رعب ہوتا ہے اس لیے وہ ہر چیز سے خروج برداشت کر سکتے ہیں اور ہر چیز پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن قانون اور دستور کے دائرے سے نکلنا ان کے لیے محال ہوتا ہے اور وہ اسے تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دستور بھی طاغوت ہے اور اسے بنانے والے بھی طاغوت ہیں۔ تباہی و بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو دستور کو اس قدر تقدس اور احترام کا درجہ دیتے ہیں۔
ایسی کتابیں جو کفر کی ترویج اور اس کی طرف دعوت دینے کا سبب ہیں وہ بھی طاغوت کی اس قسم میں شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ کتابیں جو لادین اور کافر گروہوں کے عقیدہ و منہج کی مبادیات پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان جماعتوں کے لیے اہم مراجع و مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جو کتاب کفر و شرک کی دعوت پر مبنی ہو وہ ایک دستاویز ہے جو ہمیشہ اپنا جال پھیلائے رکھتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی اس کے پھندے میں پھنسے اور اس کی تعلیمات کے مطابق عمل کرے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ: طاغوت تو وہ ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جائے تو قوانین کی عبادت کس بات میں پوشیدہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: قانون کی عبادت اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس کی بات ماننے میں پوشیدہ ہے، کیونکہ قانون کی بات بغیر کسی رد و بدل اور اعتراض کے مانی جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے عبادت کے مفہوم میں داخل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں پھیرا جا سکتا۔
خواہش نفسانی اس وقت طاغوت بن جاتی ہے جب حق اور باطل کے تعین میں خواہش نفسانی کو ہی مصدر مانا جا رہا ہو۔ یعنی جس چیز کو نفس حق کہے اسی کو حق مانا جائے اور جسے نفس باطل کہہ دے اسے باطل کہا جائے اگرچہ یہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح دوستی اور دشمنی میں نفسانی خواہشات کی پیروی کو حق سمجھے۔ یعنی انسان اس سے دوستی رکھے جس کے بارے میں اس کا نفس خواہش کرتا ہو اور اس میں شرعی تقاضے کا خیال نہ رکھے ، اسی طرح اس سے دشمنی رکھے جس کے بارے میں اس کا نفس دشمنی رکھنے کا متقاضی ہو اگرچہ شریعت اس سے دوستی رکھنے کی متقاضی ہی کیوں نہ ہو۔
اس صورت میں نفسانی خواہشات طاغوت کہلاتی ہیں کیونکہ خواہشات کی پیروی کے اندر اپنے لیے خیر اور مصلحت سمجھنے والا خود کو کسی ضابطہ کا پابند نہیں سمجھتا وہ درحقیقت اپنی خواہشات کوخیر و شر کے تعین میں مصدر مان کر اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا ﴿٤٣﴾} (الفرقان)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے۔ کیا آپ اس کے ذمہ دار بن سکتے ہیں؟"
{أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّـهُ عَلَىٰ عِلْمٍ} (الجاثیہ: ۲۳)
"کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے۔"
نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرنے والا گناہ گار مسلمان ہے لیکن جو خواہش نفس کو حق اور باطل کے تعین میں مصدر مانے اور اسی بنیاد پر ولاء والبراء کرنے کو حق سمجھے تو یہ کبیرہ گناہ نہیں بلکہ کفر ہے۔
3: اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا:
ارشاد باری تعالی ہے :
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ} (یوسف: ۴۰)
"(سن رکھو کہ) اللہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی دین حق ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے ایمان کی نفی فرمائی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہر معاملے میں حاکم اور فیصل نہیں مانتا۔
{ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} (النساء ۶۵)
“تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کرو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اسے خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔"
تحاکم ایک قسم کی عبادت ہے جس میں فیصلے کرنے والا عبادت کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص اپنی زندگی کے تمام عام و خاص معاملات میں اللہ وحدہ لا شریک کی شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے وہ اللہ تعالی کا عبادت گذار ہے۔ جو کسی غیر کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے شریعتِ اسلام کے خلاف فیصلے کرتا ہے، یہ غیر خواہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اور یہ فیصلہ خواہ زندگی کے کسی کمترین معاملے کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو ایسا کرنے والا اس غیر کا عبادت گزار ہوتا ہے کیونکہ شریعت سازی، قانون اور دستور وضع کرنا الوہیت کی خصوصیات ہیں۔ جس نے ان خصوصیات میں سے کسی ایک کو بھی اپنی طرف منسوب کیا تو اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی کیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کا شریک بنا لیا۔ اسی طرح جس نے اللہ تعالی کے علاوہ یا اس کے ساتھ کسی دوسرے کے بارے میں قانون سازی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلے کروانے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر اس کی بندگی کرنے والا ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا سرکشی اور ظلم میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز اور اعراض کر کے اسے جاہلیت کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے بدلنے کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} (المائدہ: ۴۴)
"جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔"
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (المائدہ:۴۵)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔"
{وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ} (المائدہ: ۴۷)
"اورجو اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔"
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} (المائدہ: ۵۰)
"کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟"
اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاوہ ہر حکم جاہلیت کا حکم تصور ہو گا آیت کریمہ اسی بات کی وضاحت کر رہی ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے کسی دوسرے کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا طلبگار ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہے جو جاہلیت کے احکام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ طاغوت کی تعریف میں تو یہ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز یا شخص ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جائے۔ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے غیر اللہ کے قانون کو مرجع بناتے ہوئے لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے والے کی کس طرح عبادت ہوتی ہے جس بنا پر آپ اسے طاغوت کہہ رہے ہیں۔
اس اعتراض کے متعدد جوابات ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مرجع مانے بغیر فیصلہ کرنے والے حاکم کو خود اللہ تعالیٰ نے طاغوت کہا ہے :
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا} (النساء: ۶۰)
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ طاغوت کے پاس فیصلہ کروانے جائیں حالانکہ یقینا انہیں اس کا کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔"
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں کے طریقے پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب یعنی قرآن پر بھی ایمان لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء پر نازل شدہ کتابوں پر بھی ایمان لائے ہیں۔ لیکن عملی طور پر وہ ایسی بات کے مرتکب ہوتے ہیں جو ان کے اس دعوی کے بطلان کا باعث ہے اور اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کا مذکورہ دعوی جھوٹ پر مبنی ہے۔ عملی طور پر وہ ہر فیصلہ اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب سے کروانے کی بجائے طاغوت سے کرواتے ہیں یہ ان کے دعوی کے بطلان کا باعث ہے حالانکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل شدہ کتابوں میں طاغوت کے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔" (فتح القدیر: ۱/ ۴۸۲)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: {یَزْعُمُونَ} ان کے دعوی ایمان کی تکذیب کے لیے ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ بنیادی طور پر ایمان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے کسی دوسرے سے فیصلہ کروانا یہ دونوں باتیں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔" (رسالۃ تحکیم القوانین)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہاں طاغوت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہوئے باطل کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور لوگ فیصلے کروانے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں"۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو مرجع بنائے بغیر فیصلہ کرنے والا حاکم جو بھی فیصلہ کرتا ہے لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف اس کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں تو اس طرح وہ ان کا معبود بن جاتا ہے کیونکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر اس کی بات تسلیم کر کے اس کی غیر مشروط اطاعت کرتے ہیں۔
یاد رکھئے کہ غیر مشروط اطاعت کرنا عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ اُس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے۔
ارشاد ربانی ہے:
{وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} (سورۃ الکہف:26)
"اور وہ اپنے حکم میں سے کسی کو شریک نہیں کرتا"
مفسر قرآن علامہ محمد امین شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حکم اور فیصلہ میں کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ بنائے۔ حکم صرف اور صرف اللہ تعالی کا ہے کسی بھی صورت میں غیر اللہ کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ حلال وہی ہے جسے اللہ تعالی نے حلال قرار دیا اور حرام وہی ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا۔ دین وہی ہے جسے اللہ تعالی نے متعین فرمایا ہے اور فیصلہ وہی ہے جو اللہ تعالی نے صادر فرمایا ہے۔ مذکورہ ارشاد ربانی {وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} میں حکم اللہ تعالی کے تمام فیصلوں کو شامل ہے۔ اللہ تعالی کے فیصلوں میں شریعت سب سے پہلے داخل ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ نے جس مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ حکم کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے کوئی دوسرا اس میں اس کا شریک نہیں ہو سکتا اس مفہوم کی وضاحت قرآن کریم کی متعدد دوسری آیات سے بھی ملتی ہے"۔
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ} (یوسف: ۶۷)
"فرمانروائی صرف اللہ تعالی ہی کی ہے اسی پر میں نے توکل کیا"۔
{وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ} (الشوری:۱۰)
"اور جس جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ ہی کی طرف ہے"۔
{كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ} (القصص: ۸۸)
"اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ حکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے"۔
{أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا} (الأنعام: ۱۱۴)
"(کہو) کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہاری طرف کتاب بھیجی ہے جس میں ہر بات تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔"
اِن آسمانی نصوص سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ وضعی (انسان ساختہ) قوانین کے پیچھے چلتے ہیں جو کہ درحقیقت شیطان کی شریعت ہے جسے شیطان نے اپنے چیلوں کے ذریعے مقرر کی، یہ اُس شریعت سے متصادم ہے جسے اللہ جلال اور بلندی کے مالک نے اپنے رسولوں کے ذریعے مقرر فرمائی.. اِن لوگوں کے کفر و شرک میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا سوائے اُس شخص کے جس کی بصیرت کو اللہ نے مسخ کر دیا ہو اور جس کو وحی کی روشنی دیکھنے سے اندھا کر دیا ہو.. . پس معاشرے کے اموال اور جائدادوں کے معاملہ میں، ان کی عزتوں آبروؤں کے مسائل میں، ان کے انساب، ان کی عقول اور ان کے دین کے معاملہ میں.. اِن سب معاملات میں طاغوتی نفسانی خواہشات کی پیروی میں گناہ کرنے والا گناہ گار مسلمان ہے لیکن جو خواہش نفس کو حق اور باطل کے تعین میں مصدر مانے اور اسی بنیاد پر ولاء والبراء کرنے کو حق سمجھے تو یہ کبیرہ گناہ نہیں بلکہ کفر ہے۔ نظام کو فیصل ٹھہرانا کفر ہے اُس ذات کے ساتھ جو زمین اور آسمانوں کی خالق ہے، اور یہ بغاوت ہے اُس آسمانی نظام کے خلاف جس کو وضع کرنے والی وہ ذات ہے جو ساری مخلوقات کی خالق ہے اور جو اپنی مخلوقات کی مصلحت سے خود ہی سب سے بڑھ کر واقف ہے۔
پاک اور نہایت بلندہے اِس سے کہ اُس کے ساتھ کسی اور کو بھی ضابطے صادر کرنے کا حق حاصل ہو۔ (تفسیر اضواء البیان، الکہف، آیۃ ۲۶)
۳۔ جو حاکم اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے قوانین کو مرجع اور قانون عام بناتے ہوئے فیصلہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے نکال کر شرک، کفر اور جاہلیت کے اندھیروں میں ڈال دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ایسے ہی حاکم مراد ہیں:
{وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ} (البقرۃ: ۲۵۷)
"اور کافروں کے اولیاء طاغوت ہیں۔ جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ اہل دوزخ ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔"
ایسے حکمران جو اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اعراض کرتے ہوئے دوسرے قوانین کو مرجع اور قانون عام بناتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں آج کل مسلمانوں کے ملکوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں بعض اہل علم کے اقوال آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:
امام اسماعیل بن عمر بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} (المائدہ:۵۰) کی تفسیر کے تحت رقمطراز ہیں:
"اللہ تعالیٰ اس انسان کی مذمت بیان کر رہا ہے جو اس کے محکم اور مضبوط قانون سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کو چھوڑ کر دوسری آراء، نظریات اور اصطلاحات کی طرف رجوع کرتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر بھلائی کے کام پر مشتمل ہے اور ہر برائی سے روکنے والا ہے، اور دوسری آراء و نظریات خالصتاً انسانی ذہن کی پیداوار ہیں اور انہیں و ضع کرنے کے لیے شریعت سے راہنمائی نہیں لی گئی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ نفسانی خواہشات اور ذاتی نظریات کے ذریعے وضع کردہ اصول و قواعد کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ تاتاری اپنے بادشاہ چنگیز خان کی وضع کردہ قانون کی کتاب کے ذریعے اپنے ملکی معاملات میں فیصلے کرتے ہیں۔ چنگیز خان کی وضع کردہ یہ قانون کی کتاب ایسے احکام و ضوابط کا مجموعہ ہے جو اس نے مختلف شریعتوں مثلا یہودیت، عیسائیت اور اسلام سے اخذ کیے ہیں۔ اور اس میں بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو خالصتاً اس کے اپنے نقطہء نظر اور سوچ پر مبنی ہیں۔ تاتاریوں کے نزدیک یہ مجموعہ ایک ایسی شریعت کا روپ دھار چکا ہے جسے وہ فیصلہ کرنے کے لحاظ سے کتاب و سنت سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں۔ جو کوئی ایسا کرے گا وہ کافر ہے اور اس سے جہاد کرنا واجب ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا مأخذ مان کر اس کی طرف رجوع نہ کرے۔ خواہ کوئی چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بغیر کسی سے فیصلہ نہ کروائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ} یعنی وہ جاہلیت کے قوانین کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہیں۔ {وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ} ”حالانکہ یقین کرنے والوں کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا۔" (تفسیر ابن کثیر ۲/۷۰)
شیخ محمد حامد الفقی رحمۃ اللہ علیہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"جو شخص قتل، زناکاری یا چوری وغیرہ کے مقدمات میں فرنگیوں کے قوانین کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور ان قوانین کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کرتا ہے وہ بھی تاتاریوں جیسا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ہے۔ ایسا شخص اگر اسی طریقے پر ڈٹا رہے اور اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کا راستہ اختیار نہ کرے تو وہ بلا شک و شبہ کافر اور مرتد ہے۔ اسے نہ تو مسلمانوں کا کوئی نام فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی ظاہری اعمال مثلا نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کا اسے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔" (حاشیہ فتح المجید، صفحہ: ۳۹۶)
علامہ احمد شاکر، ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہم کے گذشتہ اقوال پر اضافہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ مسلمان اپنے ملکوں میں ایسے قوانین کے ذریعے فیصلے کریں جو کہ بت پرست اور ملحد یورپ کے قوانین سے اخذ کیے گئے ہیں۔ بلکہ یہ قوانین ان کی اپنی ذاتی خواہشات اور آراء پر مبنی ہوتے ہیں جن میں یہ اپنی مرضی سے تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ آیا یہ قوانین شریعت کے موافق ہیں یا اس کے مخالف؟ ان قوانین کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ ایسا کھلا کفر ہے جس میں کسی قسم کا کوئی اخفاء نہیں ہے، اور مسلمانوں کے لیے یہ کسی صورت جائز نہیں کہ وہ ان قوانین کو تسلیم کریں، ان کے سامنے اپنا سر جھکائیں اور ان کے مطابق عمل کریں۔" (عمدۃ التفاسیر)
شیخ الاسلام ابو العباس احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"دنیا کی ہر قوم کے نزدیک ان کے اندر ہونے والے فیصلوں کی بنیاد عدل پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے ہاں عدل ان کے آباء و اجداد کے نظریات کا نام ہوتا ہے۔ بلکہ اکثر ایسے لوگ بھی جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں اپنے قبائلی رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کیے ہوتے۔ پھر یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بجائے انہیں کے ساتھ فیصلے کرنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ بات کفر ہے۔ ان لوگوں کو جب یہ معلوم بھی ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا درست نہیں تو وہ پھر بھی اس کا التزام (اختیار) نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے کو (عملا) حلال کر لیں، یہ لوگ کافر ہیں۔ ورنہ پھر وہ جاہل گمراہ اور حقیقت سے ناواقف ہیں" (فتاوی ابن تیمیہ ۳/۳۱۷)
علامہ مفتی الدیار السعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ اپنے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہہ رہا ہے۔ یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کافر کہے اور وہ کافر نہ ہوں، ہرگز نہیں یہ لوگ پکے کافر ہیں۔ ہاں کفر اعتقادی یا عملی ہو سکتا ہے …پھر مفتی صاحب اعتقادی کفر کی چھ صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اولاً…: جو شخص بھی دین کے اصولوں میں سے کسی ایک اصول یا کسی متفق علیہ شرعی مسئلہ یا نبی علیہ السلام کی لائی ہوئی کسی بھی قطعی بات سے ایک حرف کا بھی انکار کرے تو وہ کافر ہو گا اور اس کا کفر اسے ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا ہو گا۔
ثانیا…: جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم اور فیصلہ کے حق ہونے کا انکار تو نہ کرے لیکن یہ اعتقاد رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کا حکم آپ کے حکم سے زیادہ اچھا اور زیادہ مکمل ہے اور یہ انسانی قانون لوگوں کی آج ضرورت ہے۔ تو ایسا شخص کافر ہو گا
ثالثاً…: جو شخص وضعی قانون کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے اچھا تو نہیں مگر اس جیسا ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو یہ بھی کافر ہونے میں پہلی دو قسموں کی مانند ہے یعنی یہ ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کرتا ہے کیونکہ اس بات سے خالق اور مخلوق میں برابری ہوتی ہے۔
رابعاً…: جو شخص اللہ کے نازل کردہ احکام کے علاوہ دوسری کسی چیز سے فیصلہ کرنے کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے مشابہ اور بہتر ہونے کا اعتقاد تو نہیں رکھتا لیکن اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے علاوہ دوسری کسی چیز سے فیصلہ کرنا جائز سمجھتا ہے۔
خامساً…: اللہ تعالیٰ کی مخالفت کے اعتبار سے یہ سب سے بڑی صورت ہے یہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے تکبر، مخالفت اور شرعی عدالتوں کی ریس ہے۔ جہاں یہ غیر اللہ کا حکم نافذ کرنے والے ادارے شرعی عدالتوں کی طرح ہی قائم کیے جاتے ہیں، ان کی باقاعدہ امداد اور سپورٹ کی جاتی ہے، ان کو اصول و فروع اور اشکال و انواع کے اعتبار سے شرعی عدالتوں کا ہی مقام دیا جاتا ہے، ان کے فیصلوں کو ویسا ہی مانا اور بزور منوایا جاتا ہے، ان کو ویسے ہی مستند اور مرجع قرار دیا جاتا ہے جس طرح شرعی عدالتوں کا مرجع و ماخذ کتاب و سنت ہے اسی طرح ان خود ساختہ عدالتوں کا مرجع و ماخذ بہت سی شریعتوں اور قوانین سے لیا ہوا قانون کا پلندا ہوتا ہے جس کو فرانسیسی، امریکی، برطانوی اور دیگر قوانین سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے۔ بعض بدعت پر مبنی مذاہب اور اس جیسی دوسری چیزیں بھی اس کی بنیاد میں شامل کی جاتی ہیں اس مذکورہ نہج پر تیار شدہ عدالتوں کے دروازے اسلامی ممالک میں آپ کو جابجا کھلے ملیں گے، لوگ گروہ در گروہ ان میں جا رہے ہیں، ان ملکوں کے حکام اپنے عوام کے درمیان کتاب و سنت کے مخالف وضعی قانون کے احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور ان پر ان عدالتوں کے فیصلے لاگو کیے جاتے ہیں، ان فیصلوں کا ان سے اقرار کروایا جاتا ہے تو پھر اس کفر سے بڑھ کر اور کفر کیا ہو سکتا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی کی مخالفت اور اس سے انحراف اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا؟
سادساً…: اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے علاوہ کسی دوسری چیز کے ساتھ فیصلہ کرنے کی وہ ہے جس کے ساتھ دیہاتوں میں قبیلوں کے سردار فیصلے کرتے ہیں یہ فیصلے ان کے باپ دادا کے قصے، کہانیوں اور رسم و رواج سے اخذ کیے گئے ہوتے ہیں اور ان کو ورثہ میں ملے ہوتے ہیں (اور ہمارے ہاں اسے پنچائت، ثالثی کمیٹی اور جرگہ کا نام دیا جاتا ہے) یہ باپ دادا کے انہیں جاہلانہ احکام کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور رسول کریم کے حکم سے منہ پھیرتے اور بے رغبتی کرتے ہوئے اپنی اور باپ داداکی جاہلیت پر اڑے رہتے ہیں۔
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ (رسالہ تحکیم القوانین)
شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ لوگوں کے احکام و آراء اللہ تعالی کے احکام سے بہتر ہیں یا ان کے ہم مثل یا مشابہ ہیں، یا وہ شخص اللہ تعالی کے احکام کو چھوڑ کر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو ان کا قائم مقام قرار دیتا ہے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ اگرچہ اس کا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے احکام بہترین، زیادہ مکمل اور درست ہیں… جو اللہ تعالی کا مطیع ہو اور اس کی وحی کے مطابق فیصلہ کروائے وہی اس کا عبادت گزار ہے۔ اور جو کسی غیر کا مطیع ہو جائے اور اس کی شریعت کے مطابق فیصلے کروائے وہ طاغوت کا عبادت گزار اور اس کا مطیع بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ} (النساء: ۶۰)
"وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا کفر کریں۔"
کلمہء شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ جس کا ہم اقرار کرتے ہیں اس کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوت کی بندگی اور اس سے فیصلہ کروانے کا انکار بھی کیا جائے۔" (رسالۃ وجوب تحکیم شرع اللہ)
دیکھئے! شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے کس خوبی کے ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت کو چھوڑ کر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو ان کا قائم مقام قرار دینے سے ہی انسان کے ایمان کی مطلقا نفی ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وہ شخص اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے حکم کے بارے میں درست عقیدے کا دعویدار ہو جیسا کہ موجودہ دور میں ہمارے اکثر قانونی اداروں کی حالت زار ہے۔ طاغوتی عدالتوں سے فیصلے کروانا اُس صورت میں کفر اور حرام ہے کہ جب شریعت اسلام سے فیصلہ کروانا ممکن ہو اور اس سے اعراض کرتے ہوئے غیر اللہ کی قانون سے فیصلہ کروایا جائے۔ رہا موجودہ دور میں اپنے حقوق حاصل کرنیکی خاطر طاغوتی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا تو اسلامی عدالتی نظام کے نہ پائے جانے کے سبب اہل علم نے اسے جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ دل میں ان سے بغض و عداوت رکھا جائے۔ :
شریعت ساز (فرد واحد، نظام یا پارلیمینٹ) قانون نافذ کرنے والے حاکم سے مختلف ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں انہیں قانون ساز اداروں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان کا قانون نافذ کرنے والی انتظامیہ سے ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ جو قوانین اور دستور یہ ادارہ وضع کرتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان قوانین کو لاگو کرنے اور منوانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ قانون ساز ایک شخص بھی ہو سکتا ہے، ایک ادارہ، جماعت یا اسمبلی بھی ہوسکتی ہے جو کہ بہت سے قانون سازوں سے ملکر بنتی ہے۔ یا اس سے مراد وہ صوفی اور مشایخ وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے اوپر دین کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے لیے قرآن و سنت سے آزاد شریعت بناتے ہیں۔ اس بارے میں عمومی طور پر یہ بات کہی جائے گی کہ: جو شخص شریعت سازی یعنی کسی چیز کو حلال و حرام یا اچھا و برا قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اپنے لیے خاص کرلیتا ہے، اور وہ اپنے نظریے اور خواہش کے مطابق لوگوں کے لیے شریعت بنانا شروع کر دیتا ہے ایسا شخص طاغوت ہے۔ اسے کافر قرار دینا اور اس کا کفر کرنا واجب ہے۔
یہ لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے خلاف بہت بڑی جرأت کا اظہار ہے کہ انہوں نے اپنے اور اپنی قوموں کے لیے ایسی قانون ساز اسمبلیاں وضع کر لی ہیں جنہیں قومی اسمبلیوں کا نام دے رکھا ہے۔ ان اسمبلیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اللہ کی شریعت سے آزاد قانون سازی کر سکتی ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو چھوڑ کر لوگوں کے لیے قوانین وضع کرتی ہیں۔ وہ اسمبلی جسے قرآن و سنت سے آزاد قانون سازی کا غیر مشروط حق حاصل ہو وہ یقینا طاغوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کی مخالفت میں وضع کردہ قوانین بذات خود طاغوت ہیں۔
ارشاد ربانی {يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ} سے یہی مفہوم مراد ہے۔ طاغوت کی اس قسم میں انسانوں کے بنائے ہوئے وہ قوانین اور دستور بھی شامل ہیں جنہیں ملکوں اور معاشروں پر نافذ کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ ملکی انتظامیہ کے ہاں یہ قوانین ایک مقدس دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ان کی ہر ہر شق کو نافذ کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاں دستور اور قانون ہر چیز سے بالاتر ہے اور کوئی چیز بھی قانون اور دستور سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔ قانون اور دستور کا لوگوں کے دلوں پر ایک خاص رعب ہوتا ہے اس لیے وہ ہر چیز سے خروج برداشت کر سکتے ہیں اور ہر چیز پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن قانون اور دستور کے دائرے سے نکلنا ان کے لیے محال ہوتا ہے اور وہ اسے تنقید سے بالا تر سمجھتے ہیں حالانکہ یہ دستور بھی طاغوت ہے اور اسے بنانے والے بھی طاغوت ہیں۔ تباہی و بربادی ہے ان لوگوں کے لیے جو دستور کو اس قدر تقدس اور احترام کا درجہ دیتے ہیں۔
ایسی کتابیں جو کفر کی ترویج اور اس کی طرف دعوت دینے کا سبب ہیں وہ بھی طاغوت کی اس قسم میں شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ کتابیں جو لادین اور کافر گروہوں کے عقیدہ و منہج کی مبادیات پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان جماعتوں کے لیے اہم مراجع و مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جو کتاب کفر و شرک کی دعوت پر مبنی ہو وہ ایک دستاویز ہے جو ہمیشہ اپنا جال پھیلائے رکھتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی اس کے پھندے میں پھنسے اور اس کی تعلیمات کے مطابق عمل کرے۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ: طاغوت تو وہ ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جائے تو قوانین کی عبادت کس بات میں پوشیدہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: قانون کی عبادت اس کے مطابق فیصلہ کرنے اور اس کی بات ماننے میں پوشیدہ ہے، کیونکہ قانون کی بات بغیر کسی رد و بدل اور اعتراض کے مانی جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے عبادت کے مفہوم میں داخل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف نہیں پھیرا جا سکتا۔