اہل حدیث نئے تناظر میں کفایت اللہ صاحب کے مراسلہ کا جواب لکھتے ہوئے اس موضوع پر بھی نگاہ پڑی اوراس تعلق سے کچھ مواد اکٹھاہوگیاتوسوچاگیاکہ جواب کاکام موخرکرکے پہلے اسی غلطی فہمی کے تعلق سے کچھ لکھاجائے جس میں اردو خواں کے علاوہ بزعم خود عالمین بھی مبتلانظرآتے ہیں۔ اگراس تحریر سے کسی کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں تو فبہااوراگرنہ بھی ہو تووماعلیناالاالبلاغ
رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اورفروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض وواجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی۔جیساکہ حمیدی اوربعض دیگر روات سے منقول ہے۔
وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ الْحُمَيْدِيُّ فِيمَنْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الصَّلَاةَ فَاسِدَةٌ أَوْ نَاقِصَةٌ وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ
التمہید لابن عبدالبر9/226
اوزاعی سے منقول ہے اورحمیدی کابھی قول ہے کہ جس نے ابن عمر کی حدیث پر رفع یدین نہیں کیااس کی نماز فاسد یاناقص ہے اوربعض نے نماز لوٹانے کی بھی بات کہی ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ قول دلیل سے عاری اورخالی ہے کسی چیز کا مسنون ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا فرض وواجب ہوناالگ بات ہے۔ مخالف کے زعم اورزور میں سنت کو فرض وواجب قراردے دینا علمی منہج نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن عبدالبر ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
وَلَيْسَ هَذَا بِصَحِيحٍ عِنْدَنَا لِمَا ذَكَرْنَا لِأَنَّ إِيجَابَ الْإِعَادَةِ إِيجَابُ فَرْضٍ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا بِحُجَّةٍ أَوْ سُنَّةٍ لَا مُعَارِضَ لَهَا أَوْ إِجْمَاعٍ مِنَ الْأُمَّةِ۔
اوریہ چیز ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کےد لائل ماقبل میں ذکرکئے۔ اس لئے اعادہ کو واجب قراردینا کسی چیز کوفرض قراردیناہے اورفرائض دلیل قطعی یاپھر ایسی سنت سے ثابت ہوتے ہیں جس کا کوئی معارض نہ ہو یااس پر امت کا اجماع ہو ۔
اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "
سنن بیہقی 2/117
اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیاہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طورپر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اورطریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَقَدْ أَكْثَرَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكَلَامِ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَفَرَطَ بَعْضُهُمْ فِي عَيْبِ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ وَلَا وَجْهَ لِلْإِكْثَارِ فِيهِ
التمہید لابن عبدالبر9/228
اہل علم نے اس باب میں بہت زیادہ کلام کیاہے اوران میں سے بعض نے ترک رفع کرنے والوں کے خلاف حد سے تجاوز کیاہے جب کہ اس کی کوئی ضرورت اوروجہ نہیں ہے۔
اس تعلق سے عمومی طورپر ایک قصہ اورواقعہ ابن المبارک اورامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کابھی بیان کیاجاتاہے ۔ دورحاضر کے غیرمقلدین اس واقعہ کو خوب اچھالتے اورنمایاں کرتے ہیں اورایساسمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ بن المبارک کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر کوئی طنز ،طعن اورتعریض تھاحالانکہ اس واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ استاد وشاگرد کے درمیان ایک قسم کی خوش طبعی تھی اوربس !
اس واقعہ کو متعدد محدثین نے نقل کیاہے ذرا ذیل میں ان تمام پر ایک نگاہ ڈالی جائے واقعہ کی جزئیات میں اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کوذراواضح کرتے ہیں کہ کس نے کیسے اورکس طورپر نقل کیاہے۔
امام بخاری نقل کرتے ہیں۔
وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: كُنْتُ أُصَلِّي إِلَى جَنْبِ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ فَقَالَ: مَا خَشِيتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَقُلْتُ إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ قَالَ وَكِيعٌ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ كَانَ حَاضِرَ الْجَوَابِ فَتَحَيَّرَ الْآخَرُ
قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ37
عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْعَطَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: " قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ كَأَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَطِيرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا، قَالَ وَكِيعٌ جَادَّ مَا حَاجَّهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ "
السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل276
ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ3 أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟
فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ4: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.
تاویل مختلف الحدیث1/106
ابن حبان نقل کرتے ہیں
- أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي من أهل سامرا يروي عَن أبي نعيم والعراقيين حَدَّثنا عَنهُ حَاجِب بن أركين وَغَيره ثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ ثَنَا أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي ثَنَا أَبُو هِشَام الرِّفَاعِي قَالَ سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ فَقَالَ يُرِيد أَن يطير فَأَجَابَهُ بن الْمُبَارك إِن يطر فِي الثَّانِيَة فَهُوَ يُرِيد أَن يطير فِي الأولى
الثقات لابن حبان8/45
امام بیہقی سنن کبری میں نقل کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ
سنن بیہقی 2/117
خطیب بغدادی لکھتے ہیں
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عثمان الصفار، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد، قَالَ: حَدَّثَنَا العباس بن مُحَمَّد، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن شماس، قال: سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أَبُو حنيفة: يريد أن يطير فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية، فسكت أَبُو حنيفة ولم يقل شيئا
15/530تاریخ بغداد
ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي حَنِيفَةَ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ فَلَمَّا انْقَضَتْ صَلَاتِي قَالَ لِي أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ مَنْ رَفَعَ فِي الْأُولَى يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ فَسَكَتَ
التمہید لابن عبدالبر9/299
ان کتابوں سے نقل کردہ اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے بھی نقل کیاہے روایت بالمعنی کیاہے اورہرایک نے اپنے اپنے اعتبار سے نقل کیاہے۔
واقعہ کا قدرمشترک امر یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو اڑنے سے تعبیر کیااورامام عبداللہ بن المبارک نے تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کو بقیہ رفع یدین کے مماثل قراردے کر کہاکہ اگر وہ اڑناہے تویہ بھی اڑناہے اوراگروہ اڑنانہیں ہے تویہ بھی اڑنانہیں ہے۔
عبداللہ بن المبارک اوررفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر
رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اورفروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض وواجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی۔جیساکہ حمیدی اوربعض دیگر روات سے منقول ہے۔
وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ الْحُمَيْدِيُّ فِيمَنْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الصَّلَاةَ فَاسِدَةٌ أَوْ نَاقِصَةٌ وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ
التمہید لابن عبدالبر9/226
اوزاعی سے منقول ہے اورحمیدی کابھی قول ہے کہ جس نے ابن عمر کی حدیث پر رفع یدین نہیں کیااس کی نماز فاسد یاناقص ہے اوربعض نے نماز لوٹانے کی بھی بات کہی ہے۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ قول دلیل سے عاری اورخالی ہے کسی چیز کا مسنون ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا فرض وواجب ہوناالگ بات ہے۔ مخالف کے زعم اورزور میں سنت کو فرض وواجب قراردے دینا علمی منہج نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن عبدالبر ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
وَلَيْسَ هَذَا بِصَحِيحٍ عِنْدَنَا لِمَا ذَكَرْنَا لِأَنَّ إِيجَابَ الْإِعَادَةِ إِيجَابُ فَرْضٍ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا بِحُجَّةٍ أَوْ سُنَّةٍ لَا مُعَارِضَ لَهَا أَوْ إِجْمَاعٍ مِنَ الْأُمَّةِ۔
اوریہ چیز ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کےد لائل ماقبل میں ذکرکئے۔ اس لئے اعادہ کو واجب قراردینا کسی چیز کوفرض قراردیناہے اورفرائض دلیل قطعی یاپھر ایسی سنت سے ثابت ہوتے ہیں جس کا کوئی معارض نہ ہو یااس پر امت کا اجماع ہو ۔
اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "
سنن بیہقی 2/117
اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیاہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طورپر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اورطریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَقَدْ أَكْثَرَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكَلَامِ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَفَرَطَ بَعْضُهُمْ فِي عَيْبِ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ وَلَا وَجْهَ لِلْإِكْثَارِ فِيهِ
التمہید لابن عبدالبر9/228
اہل علم نے اس باب میں بہت زیادہ کلام کیاہے اوران میں سے بعض نے ترک رفع کرنے والوں کے خلاف حد سے تجاوز کیاہے جب کہ اس کی کوئی ضرورت اوروجہ نہیں ہے۔
اس تعلق سے عمومی طورپر ایک قصہ اورواقعہ ابن المبارک اورامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کابھی بیان کیاجاتاہے ۔ دورحاضر کے غیرمقلدین اس واقعہ کو خوب اچھالتے اورنمایاں کرتے ہیں اورایساسمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ بن المبارک کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر کوئی طنز ،طعن اورتعریض تھاحالانکہ اس واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ استاد وشاگرد کے درمیان ایک قسم کی خوش طبعی تھی اوربس !
واقعہ کیاہے؟
اس واقعہ کو متعدد محدثین نے نقل کیاہے ذرا ذیل میں ان تمام پر ایک نگاہ ڈالی جائے واقعہ کی جزئیات میں اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کوذراواضح کرتے ہیں کہ کس نے کیسے اورکس طورپر نقل کیاہے۔
امام بخاری نقل کرتے ہیں۔
وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: كُنْتُ أُصَلِّي إِلَى جَنْبِ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ فَقَالَ: مَا خَشِيتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَقُلْتُ إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ قَالَ وَكِيعٌ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ كَانَ حَاضِرَ الْجَوَابِ فَتَحَيَّرَ الْآخَرُ
قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ37
عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْعَطَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: " قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ كَأَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَطِيرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا، قَالَ وَكِيعٌ جَادَّ مَا حَاجَّهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ "
السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل276
ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ3 أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟
فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ4: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.
تاویل مختلف الحدیث1/106
ابن حبان نقل کرتے ہیں
- أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي من أهل سامرا يروي عَن أبي نعيم والعراقيين حَدَّثنا عَنهُ حَاجِب بن أركين وَغَيره ثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ ثَنَا أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي ثَنَا أَبُو هِشَام الرِّفَاعِي قَالَ سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ فَقَالَ يُرِيد أَن يطير فَأَجَابَهُ بن الْمُبَارك إِن يطر فِي الثَّانِيَة فَهُوَ يُرِيد أَن يطير فِي الأولى
الثقات لابن حبان8/45
امام بیہقی سنن کبری میں نقل کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ
سنن بیہقی 2/117
خطیب بغدادی لکھتے ہیں
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عثمان الصفار، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد، قَالَ: حَدَّثَنَا العباس بن مُحَمَّد، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن شماس، قال: سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أَبُو حنيفة: يريد أن يطير فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية، فسكت أَبُو حنيفة ولم يقل شيئا
15/530تاریخ بغداد
ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي حَنِيفَةَ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ فَلَمَّا انْقَضَتْ صَلَاتِي قَالَ لِي أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ مَنْ رَفَعَ فِي الْأُولَى يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ فَسَكَتَ
التمہید لابن عبدالبر9/299
ان کتابوں سے نقل کردہ اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے بھی نقل کیاہے روایت بالمعنی کیاہے اورہرایک نے اپنے اپنے اعتبار سے نقل کیاہے۔
واقعہ کا قدرمشترک امر یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو اڑنے سے تعبیر کیااورامام عبداللہ بن المبارک نے تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کو بقیہ رفع یدین کے مماثل قراردے کر کہاکہ اگر وہ اڑناہے تویہ بھی اڑناہے اوراگروہ اڑنانہیں ہے تویہ بھی اڑنانہیں ہے۔