محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي (المتوفى: ٢٨٠ )
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي الترمذي ثقة[تسمية الشيوخ للنسائي: ص: 96]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) ثقہ کہا:
محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي[الثقات لابن حبان: 9/ 150]۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثقة صدوق [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 138]۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان فهما متقنا مشهورا بمذهب السنة[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 2/ 42]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثِّقَةُ[سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 242]۔
اور تذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
محمد بن إسماعيل الحافظ الكبير الثقة أبو إسماعيل السلمي[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 604]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 382]۔
ان کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین سے ان کی توثیق منقول ہے دیکھیں عام کتب رجال۔
فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔
ان کے بارے میں صرف ابن ابی حاتم نے یہ کہا:
تكلموا فيه [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 190]۔
اوربعض نے اسے ابوحاتم کی طرف منسوب کیا لیکن بہرصورت یہ کلام مردودہے کیونکہ:
اولا:
یہ جرح مفسر نہیں لہذا توثیق اوروہ بھی جمہور کی توثیق کے بالمقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ثانیا:
محدثین نے بالاتفاق اس کلام کو رد کردیا ہے ، مثلا:
امام دارقطنی جیسے ماہر نقاد نے اسے رد کردیا ہے چنانچہ:
امام حاکم نے امام دارقطنی سے کہا:
بلغني أن أبا حاتم الرازي تكلم فيه
تو امام دارقطنی نے جواب دیا:
هو ثقة [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 138]۔
اسی طرح امام حاکم نے بھی اسے رد کرتے ہوئے کہا:
لم يتكلم فيه أبو حاتم (بحجة)[سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 138]۔
اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے رد کرتے ہوئےکہا:
انبَرَمَ الحَالُ عَلَى تَوْثِيْقِهِ وَإِمَامَتِهِ[سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 243]۔
اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اسے رد کرتے ہوئے ہوئے کہا:
ثقة حافظ لم يتضح كلام أبي حاتم فيه[تقريب التهذيب لابن حجر: 5738]۔
خلاصہ کلام یہ کہ محمد بن إسماعيل السلمي ثقہ ہیں ان پر کسی نے جرح نہیں کی ہے ابن ابی حاتم کا کلام غیرمفسر اورجمہورکے خلاف ہے نیز محدثین نے بالاتفاق اسے رد کردیا ہے۔