• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبداللہ بن مبارک کا كتاب الحيل لابی حنیفہ پر تبصرہ۔ سند کی تحقیق۔

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله
"جو شخص امام ابو حنیفہ کی کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا، وہ اللہ کے حرام کردہ امور کو حلال اور اس کے حلال کردہ کو حرام قرار دینے لگے گا۔
(تاریخ بغداد الخطیب البغدادی: 426 جلد 13)

کیا درج بالا قول کی صحت ثابت ہے؟ ازراہ کرم ذرا مفصل وضاحت کر دیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا محمد بن عبيد الله الحنائي، قال: أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي، قال: حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي، قال: حدثنا أبو توبة الربيع بن نافع، قال: حدثنا عبد الله ابن المبارك، قال: من نظر في كتاب الحيل لأبي حنيفة أحل ما حرم الله، وحرم ما أحل الله[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 13/ 404 واسنادہ صحیح]۔
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی ابوحنیفہ کی کتاب ’’کتاب الحیل‘‘ کا مطالعہ کرے گا وہ اللہ کے حرام کردہ امورکوحلال کہنے لگے گا اوراللہ کے حلال کردہ امور کوحرام کہنے لگے گا۔

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے بلکہ اعلی درجہ کی صحیح ہے کیونکہ اسے روایت کرنے والے تمام رواۃ نہ صرف زبردست ثقہ بلکہ کبار حفاظ میں سے ہیں امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے تمام رواۃ کو ثقہ کہنے کے ساتھ ساتھ محمد بن عبيد الله کے علاوہ سب کو تذکرۃ الحفاظ میں بھی گنایا ہے ، اور محمد بن عبيد الله بھی زبردست ثقہ راوی ہیں ان پرکسی بھی ناقد نے کوئی جرح نہیں کی ہے۔
علاوہ ازیں سند کے تمام طبقات میں رواۃ نے تحدیث وسماع کی صراحت کی ہے یعنی سندبھی متصل اوربے داغ ہے والحمدللہ۔


اب ذیل میں ہرراوی سے متعلق تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
الربيع بن نافع ، أبو توبة الحلبى (المتوفى: ٢٤١ )۔


آپ بخاری ومسلم کے راوی اوربالاتفاق ثقہ ہیں:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
لم يكن به بأس[سؤالات أبي داود لأحمد ص: 285]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ثقة صدوق حجة [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 471]۔

امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
لا بأس به [تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 84 وسندہ صحیح]۔

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
وكان ثقة[مختصر تاريخ دمشق 8/ 307]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، الثِّقَةُ، الحَافِظُ، بَقِيَّةُ المَشَايِخِ[سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 653]۔

اور تذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أبو توبة الحلبي الحافظ الحجة الربيع بن نافع[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 472]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
الربيع بن نافع أبو توبة الحلبي نزيل طرسوس ثقة حجة عابد[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1902]۔

فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي (المتوفى: ٢٨٠ )


امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي الترمذي ثقة[تسمية الشيوخ للنسائي: ص: 96]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) ثقہ کہا:
محمد بن إسماعيل بن يوسف السلمي[الثقات لابن حبان: 9/ 150]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثقة صدوق [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 138]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان فهما متقنا مشهورا بمذهب السنة[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 2/ 42]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الثِّقَةُ[سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 242]۔

اور تذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
محمد بن إسماعيل الحافظ الكبير الثقة أبو إسماعيل السلمي[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 604]۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حافظ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 382]۔

ان کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین سے ان کی توثیق منقول ہے دیکھیں عام کتب رجال۔

فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔

ان کے بارے میں صرف ابن ابی حاتم نے یہ کہا:
تكلموا فيه [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 190]۔

اوربعض نے اسے ابوحاتم کی طرف منسوب کیا لیکن بہرصورت یہ کلام مردودہے کیونکہ:

اولا:
یہ جرح مفسر نہیں لہذا توثیق اوروہ بھی جمہور کی توثیق کے بالمقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ثانیا:
محدثین نے بالاتفاق اس کلام کو رد کردیا ہے ، مثلا:

امام دارقطنی جیسے ماہر نقاد نے اسے رد کردیا ہے چنانچہ:
امام حاکم نے امام دارقطنی سے کہا:
بلغني أن أبا حاتم الرازي تكلم فيه
تو امام دارقطنی نے جواب دیا:
هو ثقة [سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 138]۔

اسی طرح امام حاکم نے بھی اسے رد کرتے ہوئے کہا:
لم يتكلم فيه أبو حاتم (بحجة)[سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 138]۔

اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسے رد کرتے ہوئےکہا:
انبَرَمَ الحَالُ عَلَى تَوْثِيْقِهِ وَإِمَامَتِهِ[سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 243]۔

اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اسے رد کرتے ہوئے ہوئے کہا:
ثقة حافظ لم يتضح كلام أبي حاتم فيه[تقريب التهذيب لابن حجر: 5738]۔

خلاصہ کلام یہ کہ محمد بن إسماعيل السلمي ثقہ ہیں ان پر کسی نے جرح نہیں کی ہے ابن ابی حاتم کا کلام غیرمفسر اورجمہورکے خلاف ہے نیز محدثین نے بالاتفاق اسے رد کردیا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
محمد بن عبد الله بن إبراهيم بن عبدويه بن موسى بن بيان (المتوفى: ٣٥٤ )۔



امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثقة مأمون ما كان في ذلك الزمان أوثق منه[سؤالات حمزة للدارقطني: ص: 276]۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كان ثقة ثبتا كثير الحديث حسن التصنيف[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 5/ 456]۔

امام سمعاني رحمه الله (المتوفى 562)نے کہا:
ثقة صدوق ثبت كثير الحديث [الانساب للسمعاني: 7/ 216]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وكان ثقة ثبتًا، كثير الحديث حسن التصنيف[المنتظم لابن الجوزي: 14/ 172]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإِمَامُ، المُحَدِّثُ المُتْقِنُ الحُجَّةُ، الفَقِيْهُ، مُسْنِدُ العِرَاقِ[سير أعلام النبلاء للذهبي: 16/ 40]۔

اور تذکرۃ الحفاظ میں ان کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الامام الحجة المفيد محدث العراق[تذكرة الحفاظ للذهبي: 3/ 880]۔

امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے کہا:
الإِمَام الْحجَّة الْمُفِيد مُحدث الْعرَاق[طبقات الحفاظ للسيوطي: ص: 361]۔


فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
أبو الحسن محمد بن عبيد الله بن محمد بن يوسف الحنائي(المتوفى: ٤١٣ )۔


خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
كتبنا عنه وكان ثقة مأمونا زاهدا[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 2/ 336]۔

امام ذہبی نے بھی برضا و رغبت خطیب کی توثیق نقل کی ہے ۔ [تاريخ الإسلام ت بشار 9/ 212]۔

فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
درج بالا تفصیل سے معلوم ہواکہ ابوحنیفہ نے کتاب الحیل نامی کتاب لکھی تھی ، اس کتاب کے علاوہ اورکوئی بھی کتاب ابوحنیفہ سے ثابت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ امام ابن المبارک ابوحنیفہ کے پاس پڑھنے گئے تھے لیکن جب ابوحنیفہ کی حقیقت ان پر واضح ہوئی تو وہ واپس آگئے اورابوحنیفہ پر شدید جرح کی ۔
امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام بخاری کے والد کے استاذ ہیں ، ظن غالب ہے ان کے والد نے امام ابن المبارک سے اس کتاب کے بارے میں سناہوگا اور امام بخاری کو بھی اس کتاب کے بارے میں بتایا ہوگا ، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں کتاب الحیل کے نام سے بھرپور رد پیش کیا ۔ واللہ اعلم۔
 
Top