• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الرحمن ابن رجب الحنبلی --- ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس کی دلیل دے دیں - قرآن اور صحیح حدیث سے کہ




اس بارے میں بھی کچھ فرما دیں -



۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔



قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ


انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔


سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔

حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ


اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔


سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ


پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔

سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦

اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔

@اسحاق سلفی بھائی یہاں کوئی جواب نہیں آیا -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :235
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :13/ ربیع الاول 1435 ھ، م 14،جنوری 2014م


عذاب قبر!!!

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنَخْلٍ لِبَنِي النَّجَّارِ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا قَبْرُ رَجُلٍ دُفِنَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ۔

صحیح ابن حبان:2883، مسند احمد3/201۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر بنو نجار کے ایک کھجور کے باغ سے ہوا ، وہاں آپ نے ایک آواز سنی ، تو صحابہ سے سوال کیا : یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ یہ ایک شخص کی قبر ہے جسے عہد جاہلیت میں دفن کیا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ مردے دفن کرنا ترک کردو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنا دے جو مجھے سنایا ہے ۔


{ مسند احمد ، صحیح ابن حبان } ۔
تشریح :

عذاب قبر بر حق اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کا ایک جزء ہے ، اس سلسلے میں وارد حدیثیں متواتر اور شک و شبہ سے بالاتر ہیں، بلکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں سے بھی عذاب قبر کا ثبوت ہوتا ہے-


چنانچہ فرعون سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے کہ :

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46) المومن۔

اور فرعونیوں پر برا عذاب الٹ پڑا ، آگ ہے جس کے سامنےیہ صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو عذاب قبر سے بکثرت متنبہ کیا کرتے تھے ،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے ہی ایک موقعہ پر جو زیر بحث حدیث میں وارد ہے فرمایا :


آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جائے گی ، اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے ، پھر اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے پھر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے عرض کیا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ظاہری و پوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم ظاہر وپوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نےفرمایا : دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ۔

{ صحیح مسلم وغیرہ بروایت زید بن ثابت } ۔
اس حدیث سے عذاب قبر کی شناعت اور اس سے بچنے کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے ،چنانچہ ہر قسم کے فتنے من جملہ دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک بار پناہ مانگنے کے لئے کہا جبکہ عذاب قبر سے تین بار کہا ۔

اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں موجود جسم کو بھی ہوتا ہے صرف روح ہی کے ساتھ عذاب خاص نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، کیونکہ روح قبر میں نہیں ہوگی بلکہ وہ علیین و سجین میں ہوتی ہے ، البتہ جسم خاکی کے ساتھ اس کا ایک گونہ تعلق جوڑ دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کے عذاب کی آواز سنی ، نیز عذاب قبر کی جو شکلیں حدیثوں میں وارد ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ برزخ میں عذاب صرف روح کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اس جسم خاکی کو بھی اس کا حصہ ملتا ہے ، جیسے" کافر و منافق مرد کے کندھے پر لوہے کے گرزے اتنی زور سے مارا جاتا ہے کہ جب وہ چیختا ہے تو اس کے چیخنے کی آواز جن و انس کے علاوہ سبھی چیزیں سنتی ہیں "۔

{ صحیح بخاری : 1338 – صحیح مسلم : 2870، بروایت انس } ۔

"پھر زمین اس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پنسلیاں ایک دوسرے کے آر پار ہو جاتی ہیں" ۔


{ سنن الترمذی : 1071 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔

"پھر آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو ، اسے آگ کا لباس پہنا دو ، اس کی طرف آگ کا دروازہ کھول دو جس سے جہنم کے آگ کی گرمی اور لو اس کی طرف آتی ہے اور قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی ہڈیاں ایک دوسرے میں داخل ہوجاتی ہیں ، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مسلط کردیا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس گرز کو کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے ، اس ضرب سے مردہ اتنی زور کی چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ مشرق ومغرب کی ساری چیزیں سنتی ہیں ، اس مار کے اثر سے وہ مٹی ہوجاتا ہے ، پھر اس کے جسم میں روح دوبارہ واپس کی جاتی ہے "۔


{ سنن ابو داود : 4753 – سنن النسائی :4/78 – سنن ابن ماجہ : 1549 ، بروایت براء } ۔

یہ ساری حدیثیں اصول محدثین پر صحیح ہیں ۔ اس قسم کی دیگر متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب جسم فانی پر بھی ہوتا ہے ، جس سے پناہ مانگنے کا تاکیدی حکم ہے ۔


فوائد :

1) عالم برزخ کا ایک حصہ عذاب قبر جس پر ایمان لانا واجب ہے ۔


2) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت کہ اللہ تعالی آپ کو ان چیزوں کا مشاہدہ اور ان کے سماع کا خاصہ عطا کیا تھا ، جو عام لوگوں کو حاصل نہیں ہے ، لیکن ضروری ہے کہ کسی خاصہ کو ثابت کرنے کے لئے صحیح حدیث موجود ہو ۔

3) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے قبل جو لوگ زمانہ جاہلیت میں وفات پا چکے ہیں ان پر بھی عذاب ہے ۔

4) ہر تشہد میں عذاب قبر ، عذاب جہنم اور دجال کے فتنے سے پناہ مانگنا تاکیدی امر ہے ۔


میرے بھائی شاہد آپ غلط سمجھے - میں قبر کے عذاب کا منکر نہیں - آپ دھرا دھر پوسٹ لگاتے جا رہے ہیں - میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عذاب کس قبر میں ہوتا ہے - دنیا میں جو بنتی ہے یا یہ برزخ والی قبر ہے -

اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ یہ برزخ والی قبر ہے تو پھر بحث یہاں پر ہے ختم کر دیں - لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ اس دنیا والی قبر میں ہی عذاب ہوتا ہے تو جن لوگوں کو دنیا کی قبر نصیب نہیں ہوتی - ان کا عذاب کہاں ہو گا -

اور اگر دنیا والی قبر میں عذاب ہوتا ہے تو کیا روح کو قبر میں موجود جسم میں لوٹایا جاتا ہے یا نہیں - اگر نہیں لوٹایا جاتا ہو عذاب کیسے ہوتا ہے - ذرا وضاحت کر دیں

ساتھ میں اس حدیث کی بھی وضاحت کر دیں -


سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو[H1
] ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں[/H1]۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ‘ عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور [H1]جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے[/H1]۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ‘ یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔
اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔



صحیح بخاری ، کتاب الجنائز


اس حدیث میں تنور میں جو لوگ تھے - جن کو زنا کی وجہ سے عذاب دیا رہا تھا - کیا ان کی قبریں بھی ان کے ساتھ تنور میں تھیں - پلیز یہ بتا دیں کہ ان لوگوں کی دنیا کی قبریں کہاں تھیں - کیا ایک جگہ تھیں - اگر نہیں تو عذاب ایک جگہ کیسے -

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
قبر کا عذاب

( جلد کا نمبر 3; صفحہ 440)

فتوى نمبر1979

س: میں نے علماء دین سے سنا ہے کہ قبر میں دفن کے بعد میت زندہ ہو جاتا ہے اور فرشتوں کے سوال کا جواب دیتا ہے، اور اگر اس سے کفر ظاہر ہو جائے یا اس دنیاوی زندگی میں دین اسلام پر عدم استقامت ثابت ہو جائے تو عذاب دیا جاتا ہے، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہونے کی حیثیت سے مجھے قرآن کریم میں کوئی واضح دلیل نہیں ملی جو صاحب قبر سے سوال کئے جانے اور اس کے سزا پانے پر دلالت کرے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﺍﮮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﻭﺡ(27)ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭦ ﭼﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻛﮧ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﻭﮦ ﺗﺠھ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ۔(28)ﭘﺲﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﺹ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﺟﺎ۔(29)ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎ۔ میری ناقص فہم کے مطابق ہر نفس (روح) جسم سے جدا ہونے کے بعد اپنے رب کے پاس لوٹ جاتی ہے، مجھے یہ بات سمجھـ میں نہیں آتی کہ روح کو جسم کے ساتھـ قبر میں عیش وآرام حاصل ہوتا ہے۔ نیز اللہ تعالی فرماتا ہے: ﻭﮦ ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﮨﯽ ﺟﻼﯾﺎ، اس آیت سے بھی مجھے یہ سمجھـ میں آتا ہے کہ موت دو مرتبہ ہوتی ہے:

1- رحم میں نطفہ کے وقت،

2- اور جسم سے روح نکلنے کے وقت، نیز اس آیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ زندگي دوبار ہوتی ہے، ایک ماں کے پیٹ میں اور دوسری قبر سے زندہ ہونے کے وقت، لیکن اس آیت سے یہ اشارہ نہیں ملتا کہ قبر میں سوال کیا جائے گا اور عذاب ہوگا، ایک آیت میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﺎﺋﮯﮨﺎﺋﮯ ! ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﺲ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﯾﺎ۔
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 441)

آیت کے آخر تک، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ کفار سوئے ہوئے ہیں اور قبر میں نیند اس میں سزا کے منافی ہے۔ بہر کیف آنجناب سے گزارش ہے کہ ان امور کا تسلی بخش جواب عطا فرمائیں جیساکہ آپ کے دیگر دینی جوابات تسلی بخش رہے ہیں؟

ج: پہلی بات: شرعی احکام جس طرح قرآن کریم سے مستنبط ہوتے ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث سے قول یا عمل یا تقریر کے ذریعہ بھی ماخوذ ہوتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے کتاب وسنت کے تمام نصوص پر عمومی طور پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟﺟﻮ ﻛﭽھ ﺭﺳﻮﻝ ﺩﮮ ﻟﮯ ﻟﻮ، ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﮯ ﺭﻙ ﺟﺎؤ اور اس لئے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی من گھڑت بات نہیں کہتے، بلکہ وہ اللہ تعالی کی وحی سے ہی ہمارے لئے حکم صادر کرتے ہیں، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے: ﺍﻭﺭﻧﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺳﮯﻛﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

(3)ﻭﮦ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﻭﺣﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

(4)ﺍﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﻧﮯ ﺳﻜﮭﺎﯾﺎﮨﮯ۔ آيات، اور اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمومی طور پر اتباع کرنا اللہ تعالی پر ایمان اور اس سے محبت کی دلیل ہے، جس کے نتیجے میں متبعین کو اللہ سے قربت اور اس کی مغفرت ملتی ہے، جيساكہ الله تعالى نے فرمايا:

ﻛﮩﮧﺩﯾﺠﺌﮯ ! ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﺎﺑﻌﺪﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ،ﺧﻮﺩ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻛﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﺑﮍﺍ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﮯ ۔ اور اس لئے کہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت در حقیقت اللہ کی اطاعت ہے، جیساکہ ارشاد الہی ہے:

ﻛﮩﮧﺩﯾﺠﺌﮯ ! ﻛﮧ ﺍللہﺗﻌﺎلی ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻛﺮﻭ، ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮯ ﺷﻚ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی کاﻓﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﺮﺗﺎ ۔ اور ارشاد فرمایا: ﺍﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ !
ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﻛﺮﻭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﯽ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﻛﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻛﺮﻭ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻟﻮﭨﺎؤ، ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽﻃﺮﻑ، ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭﺑﺎﻋﺘﺒﺎﺭ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﻛﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ۔
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 442)

اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: ﺍﺱﺭﺳﻮﻝ ﻛﯽ ﺟﻮ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻛﺮﮮ ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﻛﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﻟﮯﺗﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺁﭖ ﻛﻮ ﻛﭽھ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻧﮕﮩﺒﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﻛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ۔ اور بھی ديگر بہت ساری قرآنی آیات ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ کی اتباع اور آپ سے ثابت تعلیمات پر عمل کرنے کا حکم دیتی ہیں، معلوم یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث حجت اور دلیل ہیں جن سے شرعی احکامات عقیدہ اور عمل دونوں اعتبار سے ثابت ہوتے ہیں، اسی طریقے سے قرآن کریم ایسی حجت ہے جس سے احکامات صراحت کے ساتھـ بھی ثابت ہوتے ہیں اور عربی زبان کے قواعد کے مطابق اور عربوں کی زبان فہمی کے حساب سے استنباط کرتے ہوئے بھی ثابت ہوتے ہیں۔

دوسری بات: قبر میں کفار کو عذاب دینا عقلی اعتبار سے ممکن ہے، قرآن کریم میں اس عذاب کے وقوع کی دلیل موجود ہے، جس میں سے ایک دلیل اللہ کا یہ قول ہے:

ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ کا ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻟﭧ ﭘﮍﺍ۔(45)ﺁﮒ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺻﺒﺢ ﺷﺎﻡ ﻻﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺩﻥ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ہو گی {فرمان ہو گا کہ}فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو اس آیت میں قبر میں آگ کے ذریعہ عذاب دینے کا ثبوت واضح طور پر ملتا ہے؛

کیونکہ قیامت کے دن نہ تو صبح ہوگی نہ تو شام، نیز اس آیت کے اختتام میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺩﻥ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﮔﯽ ( ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﻮﮔﺎ ﻛﮧ ) ﻓﺮﻋﻮﻧﯿﻮﮞ ﻛﻮ ﺳﺨﺖ ﺗﺮﯾﻦ ﻋﺬﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻮ۔

تو اس آیت میں قیامت قائم ہونے سے قبل ایک ادنی عذاب کی دلیل موجود ہے اور وہ ہے ان کو آگ کے سامنے پیش کیا جانا اور یہ قبر ہی کا عذاب ہے، اور فرعون اور اس کے گھر والے نیز دیگر تمام کفار اللہ کے حکم اور اس کے انصاف ور فیصلے میں برابر ہیں، اور قبر میں عذاب کی ایک دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے: ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺩﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﻛﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﭘﮍﮮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮯﮨﻮﺵ ﻛﺮ ﺩﯾﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔(45)ﺟﺲ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ کا ﻣﻜﺮ ﻛﭽھ کاﻡ ﻧﮧ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻭﮦ ﻣﺪﺩ ﻛﯿﮯﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔(46)ﺑﯿﺸﻚ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﻛﮯﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻋﺬﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﯿﻜﻦ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﻛﺜﺮ ﺑﮯﻋﻠﻢ ﮨﯿﮟ۔
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 443)

اس آیت میں کافروں کو قیامت قائم ہونے سے قبل ادنی عذاب دئے جانے کی دلیل ہے جو دنیا میں ملنے والی سزا اور آخرت کے بڑے عذاب سے قبل قبر میں ہونے والے عذاب کو عمومی طور پر شامل ہے،

اور صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم: اپنی نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے اور اپنے صحابہ کو بھی اسی کا حکم دیتے تھے۔ اور يہ بھی ثابت ہے كہ: بیشک آپ نے صلاۃ کسوف پڑھنے اور لوگوں کو خطبہ دینے کے بعد انہیں حکم دیا کہ وہ عذاب ِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کریں۔ اور اسی طرح بقیع الغرقد میں جب آپ کے اصحاب میں سے کسی کو قبر میں دفن کیا جاتا تو آپ تین مرتبہ قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے، اور اگر قبر کا عذاب ثابت نہ ہوتا تو آپ نہ تو اللہ سے پناہ مانگتے، اور نہ صحابہ کرام کو اس کا حکم فرماتے۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان: ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻛﻮ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﭘﻜﯽ ﺑﺎﺕ ﻛﮯ ﺳﺎﺗھ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺭﻛﮭﺘﺎ ﮨﮯ، ﺩﻧﯿﺎ ﻛﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ، ﮨﺎﮞ ﻧﺎﺍﻧﺼﺎﻑ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﻮ ﺍللہ ﺑﮩکا ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍللہ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﻛﺮ ﮔﺰﺭﮮ ۔
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 444)

قبر میں سوال کئے جانے کے وقت مومنین کا ثابت قدم رہنا اور کفار کا رسوا ہونا شامل ہے، اور یہ کہ مومن کو صحیح جواب دینے کی توفیق ہوگی اور قبر میں اسے آرام نصیب ہوگا، اور کافر رسوا ہوگا اور جواب دینے میں تردد کرے گا اور اسے قبر میں عذاب دیا جائے گا، اس کی وضاحت عنقریب حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہوگی۔ عذاب قبر کے دلائل میں سے وہ حدیث بھی ہے جو صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ:

بیشک نبی صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: بیشک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا تھا، پس آپ نے کھجور کی تازة ٹہنی منگوائی پھر اس کے دو ٹکڑے کئے اور آپ نے ہر ایک قبر پر ايک ٹکڑا گاڑ دیا اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث کے ذریعہ قبر میں میت سے سوال اور اس کے عقیدہ وعمل کے مطابق عذاب یا راحت ملنے کا ثبوت ملتا ہے، جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے برخلاف کوئی ثبوت نہیں ملتا، اسی بنا پر اہل سنت وجماعت اس کے ثابت ہونے کے قائل ہیں،

اس سلسلے میں ایک اور حدیث وارد ہوئی ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں، اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں، اور امام حاکم اور ابو عوانہ اسفرائینی نے اپنی اپنی صحیح میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ:
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 445)
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 446)


ہم بقیع الغرقد میں ایک جنازہ میں شریک تھے کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھـ گئے، پھر ہم بھی اس طرح بیٹھـ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے ہوں، اور آپ میت کو قبر میں اتار رہے تھے، پھر آپ نے تین مرتبہ فرمایا: " عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں" پھر فرمایا: جب کوئی مومن بندہ آخرت کی طرف قدم بڑھاتا ہے اور دنیا سے کٹ جاتا ہے تو فرشتے اس کے پاس ایسے آتے ہیں جیسے ان کے چہروں پر سورج روشن ہو، ان کے ساتھـ جنت کی کفن اور خوشبو ہوتی ہے، تو اس کے پاس تاحد نگاہ بیٹھتے ہیں، پھر موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھـ کر کہتا ہے: اے پاک روح اللہ کی مغفرت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے چلی جا، آپ نے فرمایا: پھر اس کی روح مٹکے کے منہ سے نکلنے والے پانی کے قطرے کے مانند نکل کر بہہ جاتی ہے، پھر فرشتہ اسے لے لیتا ہے، پھر اس کو ہاتھـ میں لیتے ہی فوراً کفن اور خوشبو میں لپیٹ لیتے ہیں، پھر اس کے جسم سے روئے زمین کی سب سے بہترین مشک کی خوشبو آتی ہے، پھر آپ نے فرمایا: اسے لے کر فرشتے آسمان پر چڑھتے ہیں، اور جب فرشتوں کی جماعت سے لے کر گزرتے ہیں تو فرشتے کہتے ہیں: یہ کون سی پاک اور نفیس روح ہے؟ جوابا دیا جاتا ہے کہ: یہ فلاں بن فلاں ہے، دنیا کے بہترین نام لے کر پکارتے ہیں، یہاں تک کہ آسمان تک پہنچ جاتے ہیں، اس کے لئے آسمان کے دروازے کھلواتے ہیں تو دروازہ کھول دیا جاتا ہے، پھر ایک آسمان سے دوسرے آسمان سے متصل سارے فرشتے اس کے ساتھـ جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس آسمان پر پہنچتے ہیں جس پر اللہ تعالی ہوتا ہے، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کا نامہ اعمال علیین میں لکھو، اور اسے زمین میں لوٹا دو، کیونکہ میں نے اسی سے پیدا کیا ہے اور اسی میں لوٹاؤں گا، اور دوبارہ اسی میں زندہ کروں گا، پھر آپ نے فرمایا: اس کے بعد اس کی روح اس کے جسم میں دوبارہ لوٹا دی جاتی ہے، پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اپنے پاس بیٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ تو جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے، پھر کہتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ جواب دیتا ہے، میرا دین اسلام ہے، پھر اس سے پوچھتے ہیں: یہ شخص جو تمہارے مابین مبعوث کیا گیا کون ہے؟ کہتا ہے: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر کہتے ہیں: تمہارا علم کیا ہے؟ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی، پھر آسمان سے ایک آواز آتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت میں فرش بچھا دو، اور جنت کا دروازہ کھول دو، پھر آپ نے فرمایا: کہ اس کے پاس جنت کی خوشبو اور مہک آتی ہے، اور تاحد نگاہ اس کی قبر وسیع کر دی جاتی ہے، نیز یہ بھی فرمایا: اس کے پاس ایک خوش منظر، خوش پوشاک اور خوشبودار آدمی آتا ہے اور کہتا ہے: تمہیں خوش کرنے والی چیز کی بشارت ہو، یہی وہ دن ہے جس کا وعدہ تم سے کیا گيا تھا، پھر وہ اس آدمی سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ کیونکہ تمہارا چہرہ خیر وبرکت سے پر ہے، وہ کہتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں، پھر کہتا ہے، پروردگار قیامت قائم کر تاکہ میں اپنے گھر بار سے جا ملوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب کافر بندہ آخرت کی طرف قدم بڑھاتا ہے اور دنیا سے کٹ جاتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ رو فرشتے آتے ہیں، ان کے ساتھـ ٹاٹ کا کپڑا ہوتا ہے، وہ اس کے پاس تاحد نگاہ بیٹھتے ہیں، پھر موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھـ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث روح اللہ کے غضب اور لعنت کی طرف جا، آپ نے فرمایا: تو وہ روح اس کے جسم میں منتشر ہو جاتی ہے، پھر فرشتہ اسے اس طرح کھینچتا ہے جس طرح تر اون سے لوہے کی سیخ نکالی جاتی ہے، پھر اسے لے لیتا ہے اور لینے کے بعد پلک جھپکتے ہی اس ٹاٹ میں فرشتے ڈال دیتے ہیں، پھر اس سے نہایت بدبوداراور گندی بو نکلتی ہے، اسے لے کر فرشتے آسمان پر چڑھتے ہیں، اور جب فرشتوں کی جماعت سے گزرتے ہيں تو فرشتے کہتے ہیں کہ: یہ کون سی خبیث روح ہے؟ کہتے ہیں: فلاں ابن فلاں، دنیا میں سب سے برے ناموں کے ساتھـ پکارتے ہیں، یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں، پھر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں، تو ان کے لئے دروازہ نہیں کھولا جاتا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس آیت کی تلاوت فرمائی: ﺍﻥ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻛﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮﻧﮧ ﻛﮭﻮﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﻛﺒﮭﯽ ﺟﻨﺖﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﺐ ﺗﻚ ﻛﮧ ﺍﻭﻧﭧ ﺳﻮﺋﯽ ﻛﮯ ﻧﺎﻛﮧ ﻛﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﮧ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 447)

پھر اللہ تعالی فرماتا ہے: سجین میں اس کے نامہ اعمال لکھو جو زمین کی نچلی تہہ میں ہے، لہذا اس کی روح پھینک دی جاتی ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {ﺳﻨﻮ !} ﺍللہ ﻛﮯ ﺳﺎﺗھ ﺷﺮﯾﻚ ﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮔﻮﯾﺎ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ، ﺍﺏ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺍﭼﻚ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻛﺴﯽ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻛﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﮭﯿﻨﻚ ﺩﮮ ﮔﯽ ۔ پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، پھر دو فرشتے اس کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ہائے افسوس! مجھے معلوم نہیں، پھر اس سے پوچھتے ہیں: یہ شخص جو تمہارے مابین مبعوث کیا گیا تھا کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ہائے افسوس! مجھے معلوم نہیں، پھر آسمان سے ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے: کہ اس بندے نے تکذیب کی لہذا جہنم میں اس کے لئے فرش بچھاؤ اور جہنم کا دروازہ کھول دو، لہذا اس کے پاس جہنم کی گرمی اور لپٹ پہنچتی ہےاور قبراس کے لئے اتنی تنگ کر دی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ادھرادھر ہو جاتی ہیں، اور اس کے پاس ایک نہایت بدصورت شکل کا بدصورت لباس پہنے بدبودار انسان آتا ہے اور کہتا ہے: تمہیں اس کی بشارت ہو جو تمہیں بری لگتی ہے، یہ وہ دن ہے جس کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا، پھر وہ کہتا ہے: تم کون ہو؟ کیونکہ تمہارا چہرہ شر سے بھر پو رہے، وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا خبیث عمل ہوں، پھر وہ کہتا ہے: پروردگار قیامت قائم نہ کرنا۔ ختم
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 448)

تیسری بات: عقلا یہ بات محال نہیں ہے کہ فرشتے مردوں سے قبر میں سوال کریں اور مردے سوال کا جواب دیں یا جواب نہ دینے کی وجہ سے رسوا ہوں، اللہ تعالی کی عظیم قدرت اور عجیب قانون میں یہ مستبعد نہیں ہے کہ قبر میں مومنوں کو عیش وآرام دے اور کفار کو عذاب دے، کیونکہ جو شخص کائنات میں غور کرے گا اس کے لئے مشیت الہی اور حکمت ربانی کی عمومیت اور نفاذ اور اس کی قدرت وطاقت کا شمول اور کمال اور اس کی پختہ تخلیق اور باریک تدبیر اور لطیف تصویر واضح اور عیاں ہو جائے گی، اور اس پر قبر میں سوال اور جزا وسزا کے سلسلے میں منقول نصوص پر اعتقاد رکھنا آسان ہو جائے گا، چنانچہ ان نصوص میں ثابت ہے کہ اللہ تعالی روح کو میت کی طرف دفن کے بعد دوبارہ اس طور پر لوٹائے گا کہ اس کی زندگی برزخ کی زندگی ہوگی اور دنیا اور آخرت کے مابین کی زندگی ہوگی، اور دونوں حیات کے مابین اس زندگی میں وہ سوال سننے اور توفیق ہونے پر جواب دینے کا اہل ہوگا، اور وہ آرام یا عذاب کو محسوس کرے گا، اس سلسلے میں احادیث گزر چکی ہیں، اللہ تعالی کی تدبیر وتخلیق میں ایسے امور ہیں جن کا احاطہ انسان کی ناقص عقل کبھی نہیں کر سکتی، اور نہ ہی ان کو محال قرار دے سکتی ہے، بلکہ ان کے وقوع کے امکان کا فیصلہ کر سکتی ہے، اگرچہ ان کی تعلیل وتوجیہ میں حیران ہو جائے اور ان کے مقاصد وغایات اور حقائق کی معرفت سے بے بس اور عاجز رہے، لہذا ہر انسان پر واجب ہے کہ اگر کسی چیز کی معرفت سے بے بس ہو اور اس سے وہ چیز مخفی رہے تو وہ خود اپنی کم علمی کا اعتراف کرے، اور رب العالمین کے علم وحکمت اور قدرت پر قیل وقال نہ کرے۔
سوال میں ذکر کردہ آیتیں میت سے قبر میں سوال اور سزا وجزا کے ثبوت کے منافی نہیں ہے، رہی بات اللہ تعالی کے اس قول کی: ﺍﮮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﻭﺡ(27)ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﭦ ﭼﻞ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻛﮧ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﻭﮦ ﺗﺠھ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ۔(28)ﭘﺲﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﺹ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﺟﺎ۔(29)ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎ۔
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 449)

تو اس آیت میں نفس (روح) سے خطاب قیامت قائم ہونے کے وقت کیا گيا ہے، نہ یہ کہ دنیا میں بدن سے جدا ہونے کے وقت، کیونکہ اسی سورت میں ماقبل کی آیت میں یہ دلیل موجود ہے: ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺯﻣﯿﻦ ﻛﻮﭦ ﻛﻮﭦ ﻛﺮ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻛﺮ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔(21)ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺭﺏ ( ﺧﻮﺩ ) ﺁﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﺻﻔﯿﮟ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﻛﺮ ( ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ )۔(22)ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺟﮩﻨﻢ ﺑﮭﯽ ﻻﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻛﻮ ﺳﻤﺠھ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﺍﺱ ﻛﮯﺳﻤﺠﮭﻨﮯ کاﻓﺎﺋﺪﮦ ﻛﮩﺎﮞ ؟ آیات، اللہ تعالی کے اس کے قول تک: ﺍﮮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﻭﺡ اور قبر میں آرام یا عذاب میت کو دفن کرنے کے بعد اور قیامت قائم ہونے سے قبل ہوگا۔

رہی بات اللہ تعالی کے اس قول کی: ﻭﮦ ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﻭﺑﺎﺭ ﻣﺎﺭﺍﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﮨﯽ ﺟﻼﯾﺎ، ﺍﺏ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﻛﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭﯼ ﮨﯿﮟ، تو اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے کافروں کے اس قول کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے دراں حالیکہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے: کہ روح پھونکنے سے قبل مادر رحم میں یہ لوگ مردہ تھے، پھر اللہ کی تقدیر سے ان میں روح پھونکی گئی تو زندہ ہوئے، یہاں تک کہ دنیا میں ان کی موت ہوئی، پھر موت سے لے کر قیامت کے نفخہ ثانیہ تک مردہ ہوگئے، پھر اللہ تعالی حشر کے دن انہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا، اس طرح سے ان پر دو موت اور دو زندگی جاری ہوگی، اور قبر میں ان کی موت نہ تو ان کے سوال وجواب سے ممانعت کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی سزا یا آرام پانے سے اس میں کوئی مانع ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی ان کی روحوں کو ان کے اجسام میں اس نوعیت کے ساتھہ لوٹائے گا کہ وہ سوال وجواب سن سکیں گے، اور سزا وجزا کا احساس کریں گے، جیساکہ اس کی تفصیل اور دلیل حضرت براء کی حدیث میں گزر چکی ہے،
( جلد کا نمبر 3; صفحہ 450)

اور یہ زندگی آیت میں مذکورہ دو زندگیوں میں سے ایک زندگی کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ برزخ کی مخصوص زندگی ہے، جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ تعالی ہی کوہے، رہی بات اللہ تعالی کے اس قول کی: ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﺎﺋﮯﮨﺎﺋﮯ ! ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﻛﺲ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﯾﺎ۔ تو اس میں ان کی خواب گاہوں سے مراد ان کی قبریں ہیں جس میں وہ مردہ حالت میں تھے، نہ کہ نیند کی حالت میں، اور ان کی موت فرشتوں کے سوال سننے کو محال قرار نہیں دیتی، اور نہ ہی ان کے عقائد واعمال کے اعتبار سے سزا وجزا کے احساس کے منافی ہے؛ جیساکہ براء بن عازب کی حدیث میں گزر چکا ہے، اور یہ ضروری نہیں ہے کہ قبر میں میت کے سوال اور جزا وسزا کے بارے میں ہر جگہ صراحت ہو، بلکہ اس کے لئے چند آیات اور صحیح احادیث کافی ہیں۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلَّم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


http://alifta.com/Search/Result.aspx?languagename=ur&lang=ur&Act=1&Page=1&SrchInResult=&highLight=1&SearchCriteria=allwords&SearchScope=0&SearchScopeLevels1=&SearchScopeLevels2=&searchScope1=&publishYear=&SearchType=exact&SearchMoesar=false&fatwaNum=&FatwaNumID=&bookNum=&searchkeyword=216185216176216167216168032217130216168216177
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
lovelyalltime


میرا آپ سے سوال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قبر کے عذاب سے پناہ مانگی ہے وہ کون سی ہے ؟

اور اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہے گے

بیشک نبی صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: بیشک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا تھا، پس آپ نے کھجور کی تازة ٹہنی منگوائی پھر اس کے دو ٹکڑے کئے اور آپ نے ہر ایک قبر پر ايک ٹکڑا گاڑ دیا اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
lovelyalltime


میرا آپ سے سوال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قبر کے عذاب سے پناہ مانگی ہے وہ کون سی ہے ؟

اور اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہے گے

بیشک نبی صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: بیشک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا تھا، پس آپ نے کھجور کی تازة ٹہنی منگوائی پھر اس کے دو ٹکڑے کئے اور آپ نے ہر ایک قبر پر ايک ٹکڑا گاڑ دیا اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی۔


میری پوسٹ نمبر 55

http://forum.mohaddis.com/threads/عبد-الرحمن-ابن-رجب-الحنبلی-ارواح-کو-عذاب-و-راحت-دوسرے-جسموں-میں-ملتی-ہے.25503/page-6#post-206094

کا جواب نہیں آیا - پہلے جواب تو دیں جو میں نے پوچھا ہے - پھر آگے بات کرتے ہیں -




 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
lovelyalltime


میرا آپ سے سوال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قبر کے عذاب سے پناہ مانگی ہے وہ کون سی ہے ؟

اور اس حدیث کے بارے میں آپ کیا کہے گے

بیشک نبی صلى الله عليه وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا: بیشک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کسی بڑے سبب کی وجہ سے نہیں دیا جا رہا بلکہ ان دونوں میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا تھا، پس آپ نے کھجور کی تازة ٹہنی منگوائی پھر اس کے دو ٹکڑے کئے اور آپ نے ہر ایک قبر پر ايک ٹکڑا گاڑ دیا اور فرمایا: امید ہے کہ ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کر دی جائے گی۔


میرے بھائی شاہد آپ غلط سمجھے - میں قبر کے عذاب کا منکر نہیں - آپ دھرا دھر پوسٹ لگاتے جا رہے ہیں - میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عذاب کس قبر میں ہوتا ہے - دنیا میں جو بنتی ہے یا یہ برزخ والی قبر ہے -

اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ یہ برزخ والی قبر ہے تو پھر بحث یہاں پر ہے ختم کر دیں - لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ اس دنیا والی قبر میں ہی عذاب ہوتا ہے تو جن لوگوں کو دنیا کی قبر نصیب نہیں ہوتی - ان کا عذاب کہاں ہو گا -

اور اگر دنیا والی قبر میں عذاب ہوتا ہے تو کیا روح کو قبر میں موجود جسم میں لوٹایا جاتا ہے یا نہیں - اگر نہیں لوٹایا جاتا ہو عذاب کیسے ہوتا ہے - ذرا وضاحت کر دیں
 
Top