• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الرحمن ابن رجب الحنبلی --- ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائی اس یہودیہ کو کس قبر میں عذاب ہو رہا ہے -
الجواب
الحمد لله الذي أخرجنا من ظلمات الجهل والوهم إلى أنوار المعرفة والعلم، والصلاةُ والسلام على معلمِ البشرية
اس یہودی یا یہودیہ کو اسی زمینی قبر میں عذاب ہو رہاتھا ،مسلم کے رواۃ نے اس متن کو مختصر بیان کیا ،جس آپ کو غلط فہمی یا مغالطہ ہوا ،
صحیح مسلم کے جس باب کی آپ نے یہ حدیث یہاں پیسٹ کی ہے ،وہاں اسی باب میں سیدہ عائشہ وابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث دوسری سند سے اس طرح موجود ہے
(حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»
اور سنن ابی داود میں یہی حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ بسند صحیح موجود ہے
حدثنا هناد بن السري، ‏‏‏‏عن عبدة، ‏‏‏‏وأبي، ‏‏‏‏معاوية - المعنى - عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏عن أبيه، ‏‏‏‏عن ابن عمر، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه "‏‏.‏ فذكر ذلك لعائشة فقالت وهل - تعني ابن عمر - إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر فقال "‏إن صاحب هذا ليعذب وأهله يبكون عليه "‏‏.‏ ثم قرأت ‏‏‏‏{ولا تزر وازرة وزر أخرى ‏}‏ قال عن أبي معاوية على قبر يهودي ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کی قبر کےپس سے گزرے تھے۔) قال الشيخ الألباني: صحيح،
لھذا یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے راویوں کے اختصار نے آپ کےلئے معمہ بنادیا ،اور آپ اس اختصار پر خوابوں کامحل بنانے لگے ،
میرا مشورہ ہے کہ آپ حدیث کا علم سیکھنے کےلئے کسی سچے اہل حدیث عالم کی صحبت اختیار کریں​
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
عذاب قبراور اس کی نعمتیں حق ہیں جو کہ جسم اور روح ان کا وقوع دونوں پر ہے


http://islamqa.info/ur/10547


کتاب حدیث
مسلم شریف
کتاب
جنازوں کا بیان
باب

گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں


حدیث نمبر

2059

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ وَذُکِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَيِّ فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَکْذِبْ وَلَکِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی يَهُودِيَّةٍ يُبْکَی عَلَيْهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْکُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا


قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرة بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ذکر کیا گیا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمن کو معاف فرمائیں انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ وہ بھول گئے یا خطا ہو گئی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے-


اس یہودیہ کو کس قبر میں عذاب ہو رہا ہے -​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
جو جواب میں نے دیا ہے ،پہلے اس کا علم ودلیل سے جواب دیں ،اور براہ کرم کاپی پیسٹ سے پرہیز کریں ،
آپ کو کسی بھی سائیٹ پر جو مواد نظر آتا ہے ،اسے گسیٹ کر یہاں ڈال دیتے ہیں ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
اس امت میں سب سے پہلے جس بدنصیب اور گمراہ آدمی نے زمینی قبر میں عذاب وثواب کا انکار کیا ،اس کی بدبختی اسے سلف امت پر زبان درازی تک لے گئی ،اور صحابہ سے لے کر ائمہ محدثین تک کئی حضرات اس کی زبان درازی کی زد میں آئے ،
Azab-e-Barzakh3.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
lovelyalltime


میرے بھائی آپ اس کو اطمینان سے پڑھیں کیوں کہ یہ عقیدہ کا معاملہ ہے

عذاب قبراور اس کی نعمتیں حق ہیں جو کہ جسم اور روح ان کا وقوع دونوں پر ہے

میرا ایک عجیب وغریب سوال ہے وہ یہ ہے کہ میرا اعتقاد ہے جب انسان مر جاتا ہے تو وہ سن نہیں سکتا جیسا کہ اس کا جسم نافع نہیں رہتا لیکن حدیث کے مطابق عذاب قبر ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ معنی تو نہیں کہ جسم ابھی زندہ ہے ؟

اور ایسے ہی قرآن میں آیا ہے کہ شہید مرتے نہیں اور اسی طرح مسلم شریف کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل اور امیہ اور دوسروں کے جسموں کو مخاطب کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے سوال کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ مردے آپ کی کلام کو سنیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے ۔
آپ سے گذارش ہے کہ مہربانی فرماتے ہوئے میرے سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ دیں ۔

الحمدللہ

1- سوال میں جو یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ مردے زندوں کی کلام بالکل نہیں سنتے یہ بات صحیح اور حق ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< جو لوگ قبروں میں ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے > فاطر / 22

اور فرمان باری تعالی ہے :

< بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے > الروم / 52

2- اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر اور برزخی زندگی کا وجود ہے اور ایسے ہی میت کی حالت کے اعتبار سے اس قبر میں نعمتیں اور راحت بھی ملتی ہے اس کے دلائل ذکر کۓ جاتے ہیں :

آل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی < فرمان ہو گا > فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو > غافر / 46

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کۓ جاتے ہیں حالانکہ وہ مر چکے ہیں اور اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے ۔

یہ آیت کریمہ اہل سنت والجماعت کی عذاب قبر کے متعلق سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں > تفسیر ابن کثیر (4/ 82)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :

< اللہھم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اللھم انی اعوذبک من الماثم والمغرم >

( اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اے اللہ گناہ اور قرض سے میں تیری پناہ پکڑتا ہوں )صحیح بخاری حدیث نمبر (798) صحیح مسلم حدیث نمبر (589)

اور حدیث میں شاہد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے اور عذاب قبر کی مخالفت کرنے والوں میں معتزلہ اور کچھ دوسرے گروہ ہیں جن کی مخالفت کچھ وزن نہیں رکھتی ۔

3- اور وہ حدیث جس میں بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکوں کے جسموں کا مخاطب کرنے کا ذکر ہے تو یہ خاص ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ زندہ کر دیا تھا تا کہ انہیں ذلیل کرے اور ذلت وغیرہ دکھائے ۔

ا – عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے وہ جو اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا کیا اسے تم نے سچا پایا ہے ؟ پھر اس کے بعد فرمانے لگے کہ بے شک اب میں جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہے ہیں :

صحیح بخاری حدیث نمبر (3980) صحیح مسلم حدیث نمبر (932)

ب – ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے جسموں کے ساتھ بات کر رہے ہیں جن کی روحیں ہی نہیں ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو > قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا تا کہ انہیں حسرت اور ندامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے –

صحیح بخاری حدیث نمبر (3976) صحیح مسلم حدیث نمبر (2875) دیکھیں فتح الباری (7/ 304)

تو اس حدیث سے شاہد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کنویں والوں کو ان کی تحقیر اور تذلیل کے لۓ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام سنائی اور اس سے یہ استدلال کرنا کہ میت سب کچھ سنتی ہے صحیح نہیں یہ کنویں والوں کے ساتھ خاص ہے لیکن کچھ علماء میت کا سلام سننا استثناء کرتے ہیں جو کہ صحیح دلیل کی محتاج ہے ۔

4- علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔

تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔

الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)

اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :

اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔

ائمہ سلف کا مذہب :

مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)

علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :

اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔

تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔

تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟

اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔

< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >

اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔

یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین

مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :235
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :13/ ربیع الاول 1435 ھ، م 14،جنوری 2014م


عذاب قبر!!!

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنَخْلٍ لِبَنِي النَّجَّارِ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا قَبْرُ رَجُلٍ دُفِنَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ۔

صحیح ابن حبان:2883، مسند احمد3/201۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر بنو نجار کے ایک کھجور کے باغ سے ہوا ، وہاں آپ نے ایک آواز سنی ، تو صحابہ سے سوال کیا : یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ یہ ایک شخص کی قبر ہے جسے عہد جاہلیت میں دفن کیا گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ مردے دفن کرنا ترک کردو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنا دے جو مجھے سنایا ہے ۔


{ مسند احمد ، صحیح ابن حبان } ۔
تشریح :

عذاب قبر بر حق اور اہل سنت و جماعت کے عقیدے کا ایک جزء ہے ، اس سلسلے میں وارد حدیثیں متواتر اور شک و شبہ سے بالاتر ہیں، بلکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں سے بھی عذاب قبر کا ثبوت ہوتا ہے-


چنانچہ فرعون سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے کہ :

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46) المومن۔

اور فرعونیوں پر برا عذاب الٹ پڑا ، آگ ہے جس کے سامنےیہ صبح و شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو عذاب قبر سے بکثرت متنبہ کیا کرتے تھے ،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے ہی ایک موقعہ پر جو زیر بحث حدیث میں وارد ہے فرمایا :


آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جائے گی ، اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا کہ جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وہ تمہیں بھی سنا دے ، پھر اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے پھر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے عرض کیا : ہم عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نے فرمایا : ظاہری و پوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم ظاہر وپوشیدہ ہر فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ، آپ نےفرمایا : دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہو ، صحابہ نے کہا : ہم دجال کے فتنے سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں ۔

{ صحیح مسلم وغیرہ بروایت زید بن ثابت } ۔
اس حدیث سے عذاب قبر کی شناعت اور اس سے بچنے کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے ،چنانچہ ہر قسم کے فتنے من جملہ دجال کے فتنے سے بچنے کیلئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایک بار پناہ مانگنے کے لئے کہا جبکہ عذاب قبر سے تین بار کہا ۔

اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے مطابق عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں موجود جسم کو بھی ہوتا ہے صرف روح ہی کے ساتھ عذاب خاص نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، کیونکہ روح قبر میں نہیں ہوگی بلکہ وہ علیین و سجین میں ہوتی ہے ، البتہ جسم خاکی کے ساتھ اس کا ایک گونہ تعلق جوڑ دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کے عذاب کی آواز سنی ، نیز عذاب قبر کی جو شکلیں حدیثوں میں وارد ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ برزخ میں عذاب صرف روح کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ اس جسم خاکی کو بھی اس کا حصہ ملتا ہے ، جیسے" کافر و منافق مرد کے کندھے پر لوہے کے گرزے اتنی زور سے مارا جاتا ہے کہ جب وہ چیختا ہے تو اس کے چیخنے کی آواز جن و انس کے علاوہ سبھی چیزیں سنتی ہیں "۔

{ صحیح بخاری : 1338 – صحیح مسلم : 2870، بروایت انس } ۔

"پھر زمین اس قدر تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پنسلیاں ایک دوسرے کے آر پار ہو جاتی ہیں" ۔


{ سنن الترمذی : 1071 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔

"پھر آسمان سے ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو ، اسے آگ کا لباس پہنا دو ، اس کی طرف آگ کا دروازہ کھول دو جس سے جہنم کے آگ کی گرمی اور لو اس کی طرف آتی ہے اور قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی ہڈیاں ایک دوسرے میں داخل ہوجاتی ہیں ، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مسلط کردیا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر اس گرز کو کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائے ، اس ضرب سے مردہ اتنی زور کی چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ مشرق ومغرب کی ساری چیزیں سنتی ہیں ، اس مار کے اثر سے وہ مٹی ہوجاتا ہے ، پھر اس کے جسم میں روح دوبارہ واپس کی جاتی ہے "۔


{ سنن ابو داود : 4753 – سنن النسائی :4/78 – سنن ابن ماجہ : 1549 ، بروایت براء } ۔

یہ ساری حدیثیں اصول محدثین پر صحیح ہیں ۔ اس قسم کی دیگر متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب جسم فانی پر بھی ہوتا ہے ، جس سے پناہ مانگنے کا تاکیدی حکم ہے ۔


فوائد :

1) عالم برزخ کا ایک حصہ عذاب قبر جس پر ایمان لانا واجب ہے ۔


2) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت کہ اللہ تعالی آپ کو ان چیزوں کا مشاہدہ اور ان کے سماع کا خاصہ عطا کیا تھا ، جو عام لوگوں کو حاصل نہیں ہے ، لیکن ضروری ہے کہ کسی خاصہ کو ثابت کرنے کے لئے صحیح حدیث موجود ہو ۔

3) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے قبل جو لوگ زمانہ جاہلیت میں وفات پا چکے ہیں ان پر بھی عذاب ہے ۔

4) ہر تشہد میں عذاب قبر ، عذاب جہنم اور دجال کے فتنے سے پناہ مانگنا تاکیدی امر ہے ۔

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
1606883_605827182845479_744435780_n (1).jpg


قبر میں جنت و جہنم کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے !!!

صحابی جلیل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم میں سے جب کوئی مرتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہے تو اسے جنتیوں والے محلات دکھائے جاتے ہیں اور اگر جہنمی ہے تو جہنمیوں والا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے ، اور اسے بتایا جاتا ہے یہ ہے تیری رہائش گاہ اللہ تعالی قیامت والے روز تجھے یہاں بھیجے گا ۔

صحيح مسلم


اللہ تعالی ہمیں عذاب قبر سے بچائے۔ آمین
 
Top