• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الرحمن ابن رجب الحنبلی --- ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
عذاب و ثواب قبر جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔
جسم سے مراد یہی دنیوی جسم ہے جو موجودہ زندگی میں حاصل ہے۔
سوال و جواب کے وقت اعادۂ روح برحق ہے اور وہ اسی جسم میں ہوتا ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔
البتہ یہ مسئلہ قابل بحث ہے کہ سوال و جواب کے بعد روح اور جسم بالکل الگ ہو جاتے ہیں یا ان میں کسی طرح کا تعلق ہوتا ہے؟
اکثر علما کا کہنا ہے کہ دونوں میں ایک خاص نوعیت کا اتصال رہتا ہے جس سے دنیوی جسم کو بھی ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے۔
جب کہ بعض علما کی راے میں دونوں بالکلیہ الگ رہتے ہیں اور دونوں الگ الگ عذاب یا ثواب کی کیفیتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔
میں ایک عرصہ تک پہلی راے ہی کا قائل رہا ہوں لیکن ابھی حال ہی میں حیات الانبیا کے موضوع پر مفصل مطالعہ اور اس مسئلہ پر محققانہ نظر رکھنے والے اہل قلم سے تبادلۂ خیال کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دوسرا موقف زیادہ قوی ہے۔
یعنی سوال و جواب کے بعد روح اور جسم الگ ہو جاتے ہیں اور دونوں علاحدہ طور پر ہی جزاوسزا کا سامنا کرتے ہیں
کیوں کہ آخرت کے معاملات عقل وقیاس سے ماورا ہیں اور احادیث میں اس طرح کے تعلق کا صریح ثبوت نہیں ملتا؛ہاں اگر صراحتاً کوئی چیز مذکور ہو تو اسے تسلیم کیا جائے گا لیکن صرف اسی قدر۔
البتہ جو علما تعلق کے قائل ہیں مثلاً ابن قیمؒ وغیرہ تو انھوں نے احادیث کی توجیہ و تطبیق کرتے ہوئے یہ راے اختیار کی ہے تاکہ مسئلہ کی تفہیم بہتر صورت میں ہو سکے لہٰذا اس میں ایک حد تک معقولیت ہے لیکن سلامتی کی راہ وہی جو اوپر بیان ہوئی۔واللہ اعلم بالصواب
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جہاں تک عذاب و ثواب قبر کے حوالے سے علاحدہ برزخی جسم یا برزخی قبر کا مسئلہ ہے تو یہ ایک بے بنیاد بات ہے جس کی شرع میں کوئی دلیل نہیں اور یہ ڈاکٹر عثمانی یا دیوبندیوں کے مماتی گروپ کا خود ساختہ تصور ہے۔
واضح رہے کہ بعد از وفات انبیا علیھم السلام کی حیات اور عذاب و ثواب قبر کے معاملے میں دیوبندیوں کے حیاتی اور مماتی گروہ دونوں ہی افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں اور اس حوالے سے ان کے نظریات میں حق اور باطل خلط ملط ہو گیا ہے؛ایک بات صحیح کہتے ہیں تو دو غلط؛ھداھم اللہ
خدا کی توفیق شامل حال رہی اور دیگر مشاغل سے فرصت ملی تو احقر اس موضوع پر ایک مفصل مضمون یا کتابچہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے؛إن شاء اللہ،وماتوفیقی إلاباللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جس بھائی نے اس تھریڈ کا آغاز کیا ہے ایک تو میں گزارش کروں گا کہ اپنا یوزر نیم ہی کوئی ڈھنگ کا رکھ لیں؛کیا غیر سنجیدہ سا نام رکھ چھوڑا ہے۔
دوسرے یہ عنوان غلط ہے؛اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ابن رجب حنبلیؒ کا اپنا موقف ہے حالاں کہ انھوں نے اس کی تردید کی ہے؛میرا خیال ہے کہ ہمارے اس آغاز کنندہ دوست نے پوری بحث پڑھی ہی نہیں اور دانستہ یا نادانستہ لوگوں کو گم راہ کرنے کی مذموم سعی کی ہے؛ابن رجب نے اس موقف کے قائلین کے دلائل نقل کر کے آخر میں لکھا ہے کہ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روح کا ان ابدان دنیویہ سے تعلق بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے بل کہ ان میں احیاناً تعلق بھی ہو سکتا ہے جس سے یہ اجسام بھی عذاب یا ثواب میں شریک ہوتے ہیں۔ص103
اب یہ جہالت ہے یا خیانت یا دونوں ہی؛اس کا فیصلہ ارباب بصیرت ہی کرسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ صاحب جنھوں نے بغیر علم کے ایک نازک اور حساس بحث چھیڑ دی ہے؛بل الإنسان علیٰ نفسہ بصیرۃ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
عذاب و ثواب قبر جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔
جسم سے مراد یہی دنیوی جسم ہے جو موجودہ زندگی میں حاصل ہے۔

اس کی دلیل دے دیں - قرآن اور صحیح حدیث سے کہ



جسم سے مراد یہی دنیوی جسم ہے جو موجودہ زندگی میں حاصل ہے۔

اس بارے میں بھی کچھ فرما دیں -



۔ اسی طرح دنیا میں لوگ مختلف طریقوں سے مرتے ہیں، کسی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، کوئی ٹریفک حادثے میں مرتا ہے تو کسی کا جسم بم دھماکے میں پرزے پرزے ہو جاتا ہے، کسی کی موت ہوائی حادثے میں ہو جاتی ہے تو کوئی سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کا شکار ہو کر لقمۂ اجل بنتا ہے اور کچھ کو جانور کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر مذہب یا معاشرے کا اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جیسے ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں اور انکی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ہے اسی طرح پارسی اپنے مردوں کو پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ انکے خیال میں یوں مردہ جسم کو قدرت کے حوالے کر دینا ہی مناسب طریقہ ہے، اسی طرح بہت سی لاوارث لاشوں کو چیر پھاڑ کر میڈیکل کے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور ایسی لاشوں کو بعد میں تیزاب میں گلا کر ختم کر دیا جاتا ہے ۔ یعنی بہت سے لوگوں کو تو دنیا میں قبر ملتی ہی نہیں لیکن جب ہم قران پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔



قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ


انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔


سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

پس ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے دنیا میں اسکی لاش جلا کر راکھ کردی جائے اور یا پھر وہ جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائے اور یہی وہ اصلی قبر ہے جو ہر ایک کو ملتی ہے اور جہاں روح کو قیامت تک رکھا جائے گا اور ثواب و عذاب کے ادوار سے گزارا جائے گا۔ اسی حوالے سے ایک اور مثال ہمیں فرعو ن اور اسکے حواریوں کی ملتی ہے جن کے بارے میں قران ہمیں بتاتا ۔

حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِي۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ


اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زيادتی سے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ جب ڈوبنےلگا کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبردار میں سے ہوں۔ اب یہ کہتا ہے اورتو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔ سو آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو اوربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔


سورة یونس، آیات ۹۰ تا ۹۲

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ


پھر الله نے اسے تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آ پڑا۔ وہ صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔

سورة غافر، آیات ٤۵۔٤٦

اسطرح ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فرعون اور اسکے لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور قیامت کے بعد اس عذاب میں مزید شدت آ جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو صبح و شام کا یہ عذاب کہاں ہو رہا ہے؟ کیونکہ مصر کے لوگ تو اپنے مردوں کو ممی بنا کر محفوظ کر لیتے تھے اور آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی انکی لاشیں یا ممیاں شیشے کے تابوتوں میں مصر اور دنیا کے دیگر عجائب خانوں میں ساری دنیا کے سامنے پڑی ہیں۔ اب جو یہ فرقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام انسانوں کی ارواح کو مستقل طور پر انکی قبروں میں مدفون مردہ اجسام سے جوڑ دیا جاتا ہے تو فرعون اور فرعونیوں کے حوالے سے یہ سب ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ کیا کبھی کسی نے ان ممیوں کو ہلتے یا عذاب کی حالت میں چیختے چلاتے دیکھا ہے؟ لہذا اصل بات وہی ہے جو ہم اپنے ہر مضمون میں اپنے پڑھنے والوں کے لئے دہراتے ہیں کہ ان فرقوں کے چند نامی گرامی علماء نے قران و حدیث کے خلاف عقائد و تعلیمات گھڑ لئے اور اب ان سب فرقوں کا حال یہ ہے کہ اپنے اپنے علماء کی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ لوگ انکی ان غلط تعلیمات کا انکار نہیں کر پاتے چاہے اس سب میں قران و حدیث کا واضح انکار ہو جائے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

کتاب حدیث
مسلم شریف
کتاب
جنازوں کا بیان
باب

گھر والوں کے رونے کے وجہ سے میت کو عذاب دیئے جانے کے بیان میں


حدیث نمبر

2059

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ وَذُکِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُکَائِ الْحَيِّ فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَکْذِبْ وَلَکِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی يَهُودِيَّةٍ يُبْکَی عَلَيْهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْکُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا


قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرة بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ذکر کیا گیا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اللہ ابوعبدالرحمن کو معاف فرمائیں انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ وہ بھول گئے یا خطا ہو گئی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے-

@اسحاق سلفی بھائی اس یہودیہ کو کس قبر میں عذاب ہو رہا ہے -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جس بھائی نے اس تھریڈ کا آغاز کیا ہے ایک تو میں گزارش کروں گا کہ اپنا یوزر نیم ہی کوئی ڈھنگ کا رکھ لیں؛کیا غیر سنجیدہ سا نام رکھ چھوڑا ہے۔

مجھے اس فورم پر دو سال ہونے کو ہیں اور انہوں نے میرے تھریڈ پڑھے بھی ہوں گے - لیکن ان کو اس وقت یاد نہیں آیا کہ میرا یوزر نیم ڈھنگ کا نہیں ہے - اب کیوں یاد آیا - یہ تو یہ خود بتا دیں گے - ابتسامہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
دوسرے یہ عنوان غلط ہے؛اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ابن رجب حنبلیؒ کا اپنا موقف ہے حالاں کہ انھوں نے اس کی تردید کی ہے؛میرا خیال ہے کہ ہمارے اس آغاز کنندہ دوست نے پوری بحث پڑھی ہی نہیں اور دانستہ یا نادانستہ لوگوں کو گم راہ کرنے کی مذموم سعی کی ہے؛ابن رجب نے اس موقف کے قائلین کے دلائل نقل کر کے آخر میں لکھا ہے کہ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روح کا ان ابدان دنیویہ سے تعلق بالکلیہ ختم ہو جاتا ہے بل کہ ان میں احیاناً تعلق بھی ہو سکتا ہے جس سے یہ اجسام بھی عذاب یا ثواب میں شریک ہوتے ہیں۔ص103
اب یہ جہالت ہے یا خیانت یا دونوں ہی؛اس کا فیصلہ ارباب بصیرت ہی کرسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ صاحب جنھوں نے بغیر علم کے ایک نازک اور حساس بحث چھیڑ دی ہے؛بل الإنسان علیٰ نفسہ بصیرۃ

اب میرا بھائی سوچ سمجھ کر یہ بتا دے کہ اسی فورم پر مختلف فتاویٰ میں مختلف بات کی گئی ہے - جب پوچھا گیا کہ

سوال

کیا مرنے والے کی روح دنیا میں آتی ہے اور کیا مرنے کے بعد مردہ کی روح چالیس روز تک اپنے گھر میں رہتی ہے، تو جواب دیا گیا کہ


جواب

روحوں کے رہنے کے دومقام ہیں، اگر نیک روح ہے توعلیین میں اور بد ہے تو سجین میں چلی جاتی ہے، قبر میں سوال وجواب کے موقعہ پر لوٹائی جاتی ہیں اس کے بعد پھر دنیا میں نہیں آتیں۔


لنک

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6555/91/



اسی طرح جب یہ پوچھا گیا کہ


سوال

معراج کی رات آپﷺ کا موسیٰ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھنا کیا اس سے انبیاء کا حاضر و ناظر اور زندہ ہونا ثابت نہیں ہوتا؟ ازراہ کرم بادلائل صحیحہ جواب دیا جائے۔جزاکم اللہ خیرا


جواب

اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد ایک جہان بسایا ہے کہ جہاں مؤمنین اور کفار کی روحیں قیامت تک کے لیے قیام کرتی ہیں او راپنے اپنے اعمال کے مطابق عذاب و مسرت سے لاحق ہوتی ہیں۔ جن کا ذکر قرآن اور احادیث کثیرہ میں وارد ہے جیسے شہداء کی روحوں کا تذکرہ او ران کو رزق دیا جانا اسی طرح نیک لوگوں کی روحوں کا علیین میں داخلہ اور قبر میں عذاب و عتاب اور آرام و سکون بارے احادیث مبارکہ۔ مرنے والوں اور دنیا کے باسیوں کے درمیان برزخ حائل ہوجاتی ہے کہ عالم دنیا کے بعد عالم برزخ جو کہ قیامت تک کا ایک جہاں ہے وہ شروع ہوجاتا ہے۔


اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿حتی إذا جاء أحد ھم الموت قال رب ارجعون۔ لعلی أعمل صالحا فیما ترکت کلاانھا کلمة ھو قائلھا ومن ورائھم برزخ إلی یوم یبعثون﴾


(المؤمنون:100)

’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آلیتی ہے تو کہیں گے اے رب مجھے واپس بھیج دے ۔ اُمید ہے کہ میں چھو ڑے ہوئے نیک اعمال بجا لاؤں ہر گز نہیں یہ تو صرف اس کے منہ کی بات ہوگی حالانکہ ان (دنیا والوں) سے اس کا پردہ ہوگا قیامت تک کے لیے۔‘‘


اس سے پتہ چلا کہ مرنے والے اور زندوں کے درمیان ایک پردہ ہے جس کی وجہ سے ان سے ہر قسم کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔

لنک

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1331/0/

اسی طرح @کفایت اللہ
بھائی
سے جب پوچھا گیا کہ



سوال

کیا نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے قبر میں درود سننے اور روح لوٹائی جانے کی حدیث صحیح ہے؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔"۔

ابوداؤد :2041


جواب


@کفایت اللہ بھائی نے لمبا جواب دیا- اور آخر میں کہا کہ

ترمذی کی حدیث میں ہے:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا»؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: «أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ»؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: " مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا. فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ. [ص:231] قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً. قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ " قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا}


[آل عمران: 169].

صحابی رسول جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کی میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر کیا بات ہے۔ میں تمہیں شکستہ حال کیوں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد شہید ہوگئے اور قرض عیال چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس چیز کی خوشخبری نہ سناؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہارے والد سے ملاقات کی عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔ تو جس چیز کی تمنا کرے گا میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ مجھے دوبارہ زندہ کر دے تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا۔ راوی کہتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ) ( آل عمران : 169) (یعنی تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ الخ)


[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 230]

اس حدیث میں اللہ تعالی نے اپنا یہ قانون پیش کیا ہے کہ دنیا چھوڑنے کے بعد کوئی بھی شخص دنیا میں نہیں آسکتا ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث میں بھی شہداء نے اللہ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی:

يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى


اے رب ! ہماری خواہش ہے کہ تو ہماری روحوں کوہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں دوبارہ شہید ہوں


[صحيح مسلم 3/ 1502]

لیکن اللہ تعالی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔

معلوم ہوا کہ دنیاوی قبر میں موجود جسم میں روح کو لوٹانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔

اب طویل زندگی کے لئے روح لوٹائی جائے یا محض سلام کا جواب دینے کے لئے روح لوٹائی جائے بہرصورت یہ چیز اللہ کے قانون کے خلاف ہے ۔ لہٰذا اس کے برعکس کسی کمزور سند والی روایت میں کوئی بات ملتی ہے تو وہ منکر شمار ہوگی۔




لنک

http://forum.mohaddis.com/threads/درود-وسلام-کا-جواب-دینے-کے-لئےقبرنبوی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/



اب میرا بھائی بتا دے کہ کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط - تا کہ یہاں سب کو پتا چل سکے - کس نے جہالت اور خیانت کی - تا کہ اس کا رد کیا جا سکے -شکریہ




 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
تفسير ابن رجب الحنبلی --- عبد الرحمن ابن رجب الحنبلی --- ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے-

وممن رجَّح هذا القولَ - أعني السؤالَ والنعيمَ والعذابَ للروح خاصةً - من أصحابِنا ابنُ عقيلٍ وأبو الفرج ابن الجوزيِّ. في بعضِ تصانيفِهما. واستدلَّ ابنُ عقيلٍ بأنَّ أرواحَ المؤمنينَ تنعمُ في حواصلِ طيرٍ خضرٍ، وأرواح الكافرينَ تعذَّب في حواصلِ طيرٍ سودٍ، وهذه الأجسادُ تبْلَى فدلَّ ذلك على أنَّ الأرواحَ تعذبُ وتنعمُ في أجسادٍ أخرَ


ترجمہ : اور جو اس قول کی طرف گئے ہیں یعنی کہ سوال و جواب راحت و عذاب صرف روح سے ہوتا ہے ان میں ہمارے اصحاب ابن عقیل اور ابو الفرج ابن الجوزی ہیں اپنی بعض تصانیف میں اور ابن عقیل نے استدلال کیا ہے کہ مومنین کی ارواح سبز پرندوں میں نعمتیں پاتی ہیں اور کافروں کی ارواح کو کالے پرندوں میں عذاب ہوتا ہے اور یہ اجساد تو (جو کہ دنیاوی قبروں میں ہیں) گل سڑ جاتے ہیں پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے -
(روائع التفسير الجامع لتفسير الامام ابن رجب الحنبلی ، جلد ٢ ، صفحہ ١٠٢)



ابن رجب صاحب کی مندرجہ بالا صراحت سے معلوم ہوا کہ ارواح کو ایک برزخی جسم عطا کیا جاتا ہے - اور دوم ان دنیاوی قبروں میں مردہ لاشہ گل سڑ کر مٹی ہو جاتا ہے اور ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے -
عذاب قبراور اس کی نعمتیں حق ہیں جو کہ جسم اور روح ان کا وقوع دونوں پر ہے


http://islamqa.info/ur/10547
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا عذاب قبر مسلسل ہوتا ہے

میرا ایک بھائی فوت ہو چکا ہے جو کہ معاصی اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا رہا ہے لیکن میں اس سے بہت محبت کرتا تھا میں نے عذاب قبر کے متعلق بہت خوفناک قسم کی چیزیں پڑھیں ہیں تو کیا اسے مستقل عذاب ہو رہا ہے ؟ اور اگر میں اعمال صالحہ کروں اور اس کا ثواب اسے ہدیہ کر دوں تو کیا اس سے عذاب کم ہو گا ؟ مثلا اس کی طرف سے حج اور صدقہ کروں میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے اس کے متعلق معلومات دیں کیونکہ میں بہت زیادہ غمگین ہوں ؟

الحمدللہ

آپ کے بھائی کے انجام کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اگر چاہے تو وہ اسے عذاب اور اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور یہ ممکن نہیں کہ ہم اس کے متعلق کوئی قطعی بات نہیں کہہ سکتے ۔

لیکن ہم اس سے ہٹ کر مسئلہ پر بات کرتے ہیں ۔

یہ مسئلہ کہ عذاب قبر مستقل ہے یا کہ کبھی ختم بھی ہوتا ہے ؟

اس مسئلہ کے متعلق ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ :

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں ۔

ایک قسم تو مستقل ہے سوآئے اس کے بعض احادیث میں یہ وارد ہے کہ ان سے یہ عذاب صرف دو صور پھونکنے کے درمیان کم ہو گا تو جب وہ اپنی قبروں سے کھڑے ہوں گے تو کہیں گے ( ہآئے افسوس ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اٹھا دیا ہے ) اور اس کے مستقل ہونے پر اللہ تعالی کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے :

( وہ آگ پر صبح اور شام پیش کۓ جاتے ہیں )

اور اس کی دلیل کہ عذاب مستقل ہوتا ہے وہ حدیث جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کا ذکر ہے اور اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس کے ساتھ یہ قیامت تک ہوتا رہے گا ۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث جس میں دو چھڑیوں کا ذکر ہے کہ شاید اللہ تعالی ان کے خشک ہونے تک ان سے عذاب میں کمی کر دے جو کہ صرف ان کی تری کے ساتھ مقید ہے -

اور ربیع بن انس ابو عالیہ سے اور وہ ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں :

کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر ایسے لوگوں کے پاس آئے جن کے سروں کو بڑے بڑے پتھروں سے کچلا جا رہا تھا تو جب بھی کچلا جاتا وہ دوبارہ صحیح ہو جاتا اور اس میں کوئی وقفہ نہیں ڈالا جاتا تھا یہ حدیث بھی گزر چکی ہے ۔

اور صحیح بخاری میں اس شخص کے قصے میں جو کہ دو دھاری دار چادریں پہن کر اکڑاتا ہوا چل رہا تھا تو اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا ۔

اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کافر کا قصہ جس میں ہے کہ پھر اس کےلۓ آگ کی طرف دروازہ کھولا جائے گا تو وہ اس میں اپنے ٹھکانے کی طرف قیامت تک دیکھتا رہے گا اسے احمد نے روایت کیا ہے اور بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ پھر اس کے لۓ آگ کی طرف ایک سوراخ کیا جائے گا تو اس میں سے قیامت تک دھواں اور اس کی گرمی آتی رہے گی ۔

دوسری قسم : عذاب ایک مدت تک ہونے کے بعد ختم ہو جائے گا ۔

یہ ان لوگوں کو عذاب ہو گا جن کے گناہ کم ہوں گے تو انہیں ان کے جرم کے حساب سے عذاب ہونے کے بعد کم ہو جائے گا جس طرح کہ آگ میں کچھ مدت تک عذاب ہونے کے بعد ختم ہو جائے گا ۔

اور بعض اوقات ان کے اقرباء وغیرہ کی جانب سے دعا اور صدقہ کرنے اور استغفار اور حج کی بنا پر بھی عذاب ختم ہو جاتا ہے ۔ (الروح صفحہ نمبر 89)

اور اس کی آخری کلام میں سوال کی دوسری شق کا جواب ہے ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنی رحمت سے نوازے اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/7862
 
Top