طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
عذاب و ثواب قبر جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔
جسم سے مراد یہی دنیوی جسم ہے جو موجودہ زندگی میں حاصل ہے۔
سوال و جواب کے وقت اعادۂ روح برحق ہے اور وہ اسی جسم میں ہوتا ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔
البتہ یہ مسئلہ قابل بحث ہے کہ سوال و جواب کے بعد روح اور جسم بالکل الگ ہو جاتے ہیں یا ان میں کسی طرح کا تعلق ہوتا ہے؟
اکثر علما کا کہنا ہے کہ دونوں میں ایک خاص نوعیت کا اتصال رہتا ہے جس سے دنیوی جسم کو بھی ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے۔
جب کہ بعض علما کی راے میں دونوں بالکلیہ الگ رہتے ہیں اور دونوں الگ الگ عذاب یا ثواب کی کیفیتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔
میں ایک عرصہ تک پہلی راے ہی کا قائل رہا ہوں لیکن ابھی حال ہی میں حیات الانبیا کے موضوع پر مفصل مطالعہ اور اس مسئلہ پر محققانہ نظر رکھنے والے اہل قلم سے تبادلۂ خیال کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دوسرا موقف زیادہ قوی ہے۔
یعنی سوال و جواب کے بعد روح اور جسم الگ ہو جاتے ہیں اور دونوں علاحدہ طور پر ہی جزاوسزا کا سامنا کرتے ہیں
کیوں کہ آخرت کے معاملات عقل وقیاس سے ماورا ہیں اور احادیث میں اس طرح کے تعلق کا صریح ثبوت نہیں ملتا؛ہاں اگر صراحتاً کوئی چیز مذکور ہو تو اسے تسلیم کیا جائے گا لیکن صرف اسی قدر۔
البتہ جو علما تعلق کے قائل ہیں مثلاً ابن قیمؒ وغیرہ تو انھوں نے احادیث کی توجیہ و تطبیق کرتے ہوئے یہ راے اختیار کی ہے تاکہ مسئلہ کی تفہیم بہتر صورت میں ہو سکے لہٰذا اس میں ایک حد تک معقولیت ہے لیکن سلامتی کی راہ وہی جو اوپر بیان ہوئی۔واللہ اعلم بالصواب
جسم سے مراد یہی دنیوی جسم ہے جو موجودہ زندگی میں حاصل ہے۔
سوال و جواب کے وقت اعادۂ روح برحق ہے اور وہ اسی جسم میں ہوتا ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔
البتہ یہ مسئلہ قابل بحث ہے کہ سوال و جواب کے بعد روح اور جسم بالکل الگ ہو جاتے ہیں یا ان میں کسی طرح کا تعلق ہوتا ہے؟
اکثر علما کا کہنا ہے کہ دونوں میں ایک خاص نوعیت کا اتصال رہتا ہے جس سے دنیوی جسم کو بھی ثواب یا عذاب کا احساس ہوتا ہے۔
جب کہ بعض علما کی راے میں دونوں بالکلیہ الگ رہتے ہیں اور دونوں الگ الگ عذاب یا ثواب کی کیفیتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔
میں ایک عرصہ تک پہلی راے ہی کا قائل رہا ہوں لیکن ابھی حال ہی میں حیات الانبیا کے موضوع پر مفصل مطالعہ اور اس مسئلہ پر محققانہ نظر رکھنے والے اہل قلم سے تبادلۂ خیال کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دوسرا موقف زیادہ قوی ہے۔
یعنی سوال و جواب کے بعد روح اور جسم الگ ہو جاتے ہیں اور دونوں علاحدہ طور پر ہی جزاوسزا کا سامنا کرتے ہیں
کیوں کہ آخرت کے معاملات عقل وقیاس سے ماورا ہیں اور احادیث میں اس طرح کے تعلق کا صریح ثبوت نہیں ملتا؛ہاں اگر صراحتاً کوئی چیز مذکور ہو تو اسے تسلیم کیا جائے گا لیکن صرف اسی قدر۔
البتہ جو علما تعلق کے قائل ہیں مثلاً ابن قیمؒ وغیرہ تو انھوں نے احادیث کی توجیہ و تطبیق کرتے ہوئے یہ راے اختیار کی ہے تاکہ مسئلہ کی تفہیم بہتر صورت میں ہو سکے لہٰذا اس میں ایک حد تک معقولیت ہے لیکن سلامتی کی راہ وہی جو اوپر بیان ہوئی۔واللہ اعلم بالصواب