• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الستار ایدھی ۔ ایک متنازعہ شخصیت

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مفتی منیب الرحمن صاحب نے ان سب باتوں کو جھٹلا دیا ہے آج کے اخبارات میں یہ خبر موجود ہے
السلام علیکم سسٹر
آپ نے درست فرمایا۔ مفتی صاحب کا وہ ”وضاحتی بیان“ برادر کنعان نے اوپر پوسٹ بھی کیا ہے۔

مفتی منیب صاحب بالعموم ایسی کوئی ”دعوت“ رَد نہیں کرتے، جس میں انہیں پبلک میں ”نمایاں“ ہونے کا موقع ملے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ٹی وی چینلز کے ایسے پروگراموں میں بھی شرکت کرنا نہیں چھوڑتے، جو اُن کے ”شایانِ شان “ نہیں ہوتے یا جہاں انہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا یا جس پروگرام کا سیٹ اَپ اُن کے مزاج اور عقیدہ سے ہم آہنگ ہی نہیں ہوتا۔

اطلاعات کے مطابق جب ایدھی صاحب کا انتقال ہوا تو، مفتی صاحب پنجاب کے کسی شہر میں تھے۔ اُن سے وہیں رابطہ کیا گیا تھا، نماز جنازہ پڑھانے کے لئے۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ ابھی تو یہاں آئے ہیں اور اتنی جلدی اُن کا کراچی واپس جانا مشکل ہے۔ کچھ اسی قسم کا عذر لنگ پیش کرکے اپنی جان چھڑائی تھی۔ یہ خبر بھی سوشیل میڈیا میں خوب پھیل گئی یا پھیلا دی گئی۔ پھر کسی کے سامنے آپ نے ”آف دی ریکارڈ“ اصل بات بھی بتادی ہوگی۔ اور آپ تو جانتی ہیں کہ آج کل کوئی بات آف دی ریکارڈ نہیں رہتی۔ ایدھی کے اینٹی اسلامک عقائد و اعمال سے ”متنفر لابی“ نے مفتی صاحب کی اس مبینہ بات کو اتنا پھیلا دیا کہ مفتی صاحب کو ”حکام بالا“ میں اپنی ”بزتی خراب“ ہونے کا خدشہ ہوچلا ہوگا۔ ویسے بھی شوال کے چاند والے اجلاس میں اُن کی عزت کو حرف آچکا تھا۔ واضح رہے کہ مفتی صاحب اس اعلیٰ سرکاری عہدہ پر طویل عرصہ سے فائز ہیں اور اس منصب سے خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور ان کے ایسے ”رقیبوں“ کی کمی نہیں جو انہیں اس عہدہ سے برطرف کروانا چاہتے ہوں۔

پاکستان میں سرکاری مناسب پر موجود لوگوں کے ایسے ”وضاحتی بیانات“ کی جو قدر و قیمت اور حقیقت ہوتی ہے، اس سے کم و بیش ہم سب ہی واقف ہیں۔ اب عمران خان صاحب ہی کو دیکھ لیجئے۔ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ریحام خان سے شادی کی پرزور تردید کی تھی۔ لیکن پھر کیا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تیسری شادی کے ”تردیدی بیانات“ کو بھی کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ایدھی صاحب کے جنازہ اور تدفین کو مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ نوازا گیا۔ پاکستان میں ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے بانی پاکستان اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق شہید کے جنازہ کو یہ ”اعزاز“ حاصل ہوا تھا۔ اس کے باوجود کسی بھی نمایاں عالم دین نے اس نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی؟ آخر کیوں؟ اور جن صاحب نے نماز پڑھائی، مبینہ طور پر انہیں بوٹوں والی سرکار کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

لوگ یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایدھی کوئی ”سرکاری شخصیت“ تو تھے نہیں، نہ ہی وہ کسی ”دہشت گردی“ کے نتیجہ میں ”شہید“ ہوئے، پھر پاک آرمی نے انہیں ”اس اعزاز“ سے کیوں نوازا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا باعث ایم کیو ایم ہے۔ کراچی میں رہنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی مین قربانی کی کھالوں کی ”بندر بانٹ“ میں ایم کیو ایم اور ایدھی سالہا سال سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ ایم کیو ایم آج کل آرمی آپریشن کے سبب سخت مشکلات کا شکار ہے۔ یہ اس شہر میں ایسا کوئی ”شو“ کرنے میں مسلسل ناکام جارہی ہے، جس میں وہ کراچی کی قابل ذکر آبادی کو اپنے ساتھ دکھلا سکے۔ شنید ہے کہ ایم کیو ایم نے ایدھی کی لاش کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کا مکمل منصابہ بنا لیا تھا، جس کی بھنک رینجر کو مل گئی۔ مجوزہ منصوبہ یہ تھا کہ میمن مسجد میں نمازہ جنازہ کے بعد ”جنازہ کا کنٹرول“ ایم کیو ایم سنبھال لے اور اس جنازہ جلوس کو عزیز آباد کے ”شہدا قبرستان“ لے جایا جائے۔ اور ایدھی کو ”مہاجر نمائندہ“ قرار دیکر اس کی تدفین مہاجروں کے شہداء قبرستان میں کی جائے۔ اگر ایم کیو ایم ایک بار جنازہ کا ”کنٹرول“ حاصل کرلیتی تو رینجر سمیت کوئی بھی قوت ایم کیو ایم کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ رینجرز کی درخواست پر پاک آرمی نے جنازہ کا ”مکمل کنٹرول“ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ نماز جنازہ کی ”تقریب“ کو ایم کیو ایم کے ”زیر اثر“ علاقہ میمن مسجد سے نیشنل اسٹیڈیم میں منتقل کردیا۔ آرمی چیف نے خود نماز جنازہ میں شرکت کی جبکہ آرمی چیف کی اس قسم کے ”سویلین اور غیر سرکاری“ نماز جنازہ مین شرکت کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اس قسم کے ”واقعات“ اور ”ان کہی“ داستانوں کی کوئی ”آن دی ریکارڈ تصدیق“ نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اہل نظر پس مناظر اور پیش مناظر کو سامنے رکھ کر یہ اندازہ ضرور لگالیتے ہیں کہ دال مین کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49

کسی مشہور کی موت منانا ، اور اس کی تعریفوں کے پل باندھنا ، ۔۔۔یہ تو میڈیا کو مصالہ چاہیے ہوتا ہے ۔۔مثلاََروئیت ہلال اجلاس میں مفتی منیب الرحمٰن نے فون کی تار کھینچ دی تو چاند کی خبر تو بعد میں ۔۔تار کی خبر کا اگلے کئی گھنٹے کے لئے مواد مل گیا۔۔۔
اسی لئے اب جب تک قبر میں اترتی ہوئی میت کے ناک کی روئی تک نہ دکھا دی جائے ۔۔اس میڈیا کو چین نہیں ملتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نظریہ ہے کہ میڈیا مالکان اور مجموعی میڈیا لبرل ازم کا داعی ہے ۔لیکن انفرادی طور پہ ہر بے پردہ اور فیشن ایبل خاتون بھی ۔۔۔ساری ۔۔عاصمہ جیلانی ، فرزانہ باری ، ماروی سرمد ۔۔۔یا این جی او ۔زدہ۔۔۔نہیں ہوتی ۔۔۔بلکہ ان تین میں بھی درجہ بندی ہو سکتی ہے ۔۔۔۔اسی طرح ہر کلین شیو ،بے نمازی مرد۔۔یا میڈیا میں موجود ہر فنکار۔۔۔لبرلز میں شامل نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔
کسی بھی گناہگار مسلمان جو کسی نظریہ کا داعی نہ ہو اس میں بھی اصل اسلام اور ایمان ہوتا ہے ۔۔نہ کہ اصل اس میں اس کے گناہ ہوتے ہیں۔۔۔تو پھر جس مسلمان میں بعض ظاہری مذہبی علامتیں (آگے دوبارہ نقل کرتا ہوں) بھی پائی جاتی ہوں ۔ ۔۔۔۔تو پھر ایسے مسلمان میں اصل ایمان اور اسلام ہی ہے ۔۔نہ کہ اصل اور متن ’’شعائر اسلام سے انکار اور ان سے بیزاری‘‘ قرار دیا جائے ۔ باقی تمام باتیں اس کے ذیل میں بیان کی جائیں۔۔
ایک ایسا آدمی جس کی گفتگو بھی بے ربط ہوتی ہے اور وہ انپڑھ بھی ہے ۔۔شعائر اسلام تو بڑا لفظ ہے ۔۔۔وہ تو ایک دیہاتی بابا جی کی طرح فرض کو بھی پَھرَض کہتا ہے۔۔۔اس کی باتوں کے لئے وضاحت اور حسن ظن کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان کو۔۔اگر ہم ان کی اعرابیت کو نظر انداز کر کے ۔۔۔۔بے دین ثابت بھی کردیں تو ۔۔۔مسئلہ پھر بھی برقرار ہے کہ لبرل ان کا استعمال کریں گے۔
بلکہ تب تو زیادہ ان کو فائدہ ہوگا۔۔کیونکہ ہم بھی ایدھی صاحب کو بے دین ثابت کر کے لبرل کو ہی سپورٹ کریں گے۔
۔ان کو تو چاہیے ہی یہی کہ یہ جو لوگوں کی خدمت کرنے والا مشہور ۔۔۔دیکھو یہ بھی بے دین تھا۔ ۔یعنی اس کے نذدیک مذہب کچھ نہیں تھا۔بلکہ انسانیت ہی سب کچھ تھی۔ دیکھو مذہبی لوگ بھی اس کے خلاف ہیں۔
تو پھر کیا اس وقت زیادہ ضرورت نہیں کہ بتایا جائے کہ ایدھی صاحب کی انسانیت کی خدمت مذہب کی وجہ سے تھی ۔ان کی لمبی داڑھی کیا انسانیت کی وجہ سے تھی ،
کیا ان کی بوڑھی بیوی ، اور ایدھی ہوم کی بچیاں انسانیت کے لئے ڈوپٹہ سر سے نہیں اتارتی تھیں ؟۔۔۔
کیا ان کا حج پہ جانا اور کہنا کہ اللہ کی ایک پَھرَض(فرض) تھی جو اس نے ادا کرادی۔یہ انسانیت ہے ۔یا روضہ رسولﷺ کو دیکھ کر رونا ، توبہ کرنا کہ اللہ قبول کرلے۔
ہر روز صبح قران مجید ترجمہ سے سننا۔
گفتگو میں ۔۔اللہ نے یہ کیا ، اللہ کی مہربانی ، اللہ قبول کرے ۔۔۔وغیرہ کہنا۔۔کیا’’(مذہب بیزار) انسانیت‘‘ سکھاتی ہے ۔
اور ایک انٹرویو میں کئی بار کہنا کہ اسلامی قانون نافذ کیا جائے۔
کیا یہ سب کچھ مذہب سے الگ کوئی انسانیت ہے ۔ بلکہ یہ سب کچھ انسانیت کا ماخذ ہے ۔
یہ سب انسانیت دنیا کے سب سے بڑے انسانیت کے ماخذ اسلام نے سکھایا ہے ۔
ورنہ دنیا میں (بقول محترم ڈاکٹر ذاکر)
Who wrote the book of humanity?
کس نے انسانیت کی کتاب لکھی ہے ۔ جس میں انسانیت کے اصول لکھے ہیں ؟۔
ایدھی صاحب کا انسانیت والا نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام غریب ، محتاج غیرمسلموں کی بھی مدد کرنی چاہیے ۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ۔۔میں انسان ہوں پھر اس کے بعدمسلمان ہوں۔۔(نوٹ ۔ اس جملے میں’’ بعد‘‘ پر کوئی زور نہیں ہے ۔بلکہ یہ رواں جملہ ہے ۔ انٹرویو۔ چوپال)
اگر ان کے ناقدین جو ان پر اعتراضات کو اصل سمجھ کر ہر بات اس کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں ۔ ان کو یہ جملہ بھی قابل اعتراض نظر آ سکتا ہے ۔لیکن کسی انسانیت کے داعی لبرل کو اس کا دوسر ا جملہ کے پھر میں مسلمان ہو ۔۔وارہ کھاتا ہے ؟۔اور نام کے بھی مسلمان نہیں بلکہ کچھ مذہبی علامتوں کے ساتھ جن کا اوپر ذکر ہوا۔ وہ تو کہتے ہی یہی ہیں کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔
اور یہ تو عوام کیا کئی پڑھے لکھے لوگ بھی یہی کہتے اور سمجھتے ہیں کہ انسان پہلے انسان ہوتا ہے ۔پھر مسلمان۔
یہ تو بہت ایمانی اور علمی بات ہے ۔۔کہ ہر انسان پہلے ہی فطرت پر ہوتا ہے ۔اور اسلام دین فطرت ہے ۔

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
لہذا تم یک سو ہو کر اپنا رخ اِس دین کی طرف قائم رکھو۔اللہ کی بنائی ہوئی اُس فطرت پر چلو جس پر اُس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے ۔اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ، یہی بالکل سیدھا راستہ ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (سورۃ الروم ۔۳۰)
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه وينصرانه ويمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء ، ثم يقول أبو هريرة واقرؤوا إن شئتم { فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله }(بخاری و مسلم )
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ (اسلامی) فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی، یا مجوسی بنا لیتے ہیں جس طرح جانور صحیح سالم عضو والا بچہ جنتا ہے، کیا تم اس میں سے کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ ؓ یہ آیت آخر تک تلاوت کرتےہیں: اللہ تعالیٰ کی فطرت وہ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نقل کرتے ہیں:

وهو المعروف عند عامة السلف وأجمع أهل العلم بالتأويل على أن المراد بقوله تعالى فطرة الله التي فطر الناس عليها الإسلام (فتح الباری۔ ۳۔۲۴۸)
تمام سلف کے نزدیک معروف ہے اور مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ کے قول
فطرة الله التي فطر الناس عليها میں فطرت سے مراد اسلام ہے ‘‘

اب ہر آدمی اس بات سے واقف نہیں ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرے تشریحی جملے کوئی ان کوبڑا رول ماڈل ثابت کرنے کے لئے نہیں ۔
بس بات یہ ہے کہ انسان کو اس کے درجے میں ہی رکھو ۔۔۔نہ بڑھاؤ ۔۔نہ گھٹاؤ۔
کوئی بات حسن ظن سے صحیح ہوتی ہے تو اس کو صحیح سمجھو اگراسلام کے کسی بنیادی اصول سے نہ ٹکرائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لبرل ان کی خدمات کو انسانیت کے نام پر استعمال کرے گا۔ ہم خود ایدھی کو بے دین ثابت کر کے ۔۔اسے پیش کر رہے ہیں۔
اور مذہب بیزار لبرل کا اس میں فائدہ ہی ہے ۔
لیکن ساتھ ساتھ ان کی اعرابیت کو بھی بتایا جائے کہ ان کا مذہب ایک ان پڑھ سیدھے آدمی کا سا تھا۔ جو قابل تقلید نہیں ہوتا۔بلکہ اس کو اسی درجے میں دیکھا جائے۔
اوراگر یہ سوال پیدا ہو کہ ان باتوں سے تو لوگ ایدھی صاحب کی شخصیت کے مزید قائل ہوں گے اور ایدھی سنٹر کے ساتھ امداد کریں گے تو۔۔۔ساتھ یہ بھی بتانا چاہیئے کہ ادارہ چاہے مذہبی ہو یا دنیاوی۔۔۔تحقیق ضروری ہوتی ہے ۔۔۔۔ ایدھی سنٹر کا ہر بندہ ایدھی نہیں ہوتا ۔بلکہ جس طرح دوسرے ادارے ہیں وہ بھی ادارہ ہے ۔ اس لئے اپنا مال وغیرہ دینے سے پہلے تحقیق کریں کہ کیا وہ صحیح استعمال کرتے ہیں۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر میں نے پہلے کی تحریر میں یا اب کسی بات کی تاویل غلط یا زیادتی یا مصلحت کی ہے تو ضرور بتائیں۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ایک نئے ایدھی کی تلاش میں
امیر حمزہ
88سال کا بوڑھا نہ تو پروفیسر تھا ،نہ مولانا، نہ علامہ تھا، نہ ڈاکٹر تھا اور نہ فلسفی تھا۔ وہ تو صرف دو جماعتیں پاس تھا، یعنی معروف معنوں میں 'تعلیمِ بالغاں‘‘ کا ایک طالب علم تھا وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو انسانوں نے اسے ''خادمِ انسانیت‘‘ کا لقب دیا۔ نہ وہ چینلز پر ٹاک شوز کا بندہ تھا، پھر کیا ہوا وہ فوت ہوا تو اخبارات، ٹی وی اور ہر انسان کی زبان پر اس کی خدمت کا نام آیا۔ اس کے چرچے اور نیک نامی نے ہر آنکھ کو نم کیا۔ معروف تو وہ پہلے بھی بہت تھا مگر اب تو شہرت کا اک نیا آسمان سامنے آن موجود ہوا کہ جس پر عبدالستار ایدھی نام کے ستارے جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ پاک فوج نے دل کھول کر اعزاز سے نوازا، قائداعظم، لیاقت علی خان اور جنرل ضیاء الحق کے بعد تدفین پر خصوصی اعزاز سے جناب ایدھی کو نوازا گیا۔ میں نے اس پر غور کیا تو کتاب و سنت کی رہنمائی میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جو ایسی خواہشیں کرتے ہیں وہ دنیا کی زندگی میں نام و نمود کے لئے ہر حد پار کرتے ہیں اور جب مرتے ہیں تو انسانوں کی زبانوں سے رسوا ہی ہوتے ہیں اور وہ جو ایسی ریا کاری سے کوسوں دور ہوتے ہیں وہ اس دنیا سے جاتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی زباں سے تحسین پاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے صحابیو!تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو (ابن ماجہ: حسن) یعنی جس مسلمان کے مرنے پر تمہاری زبانیں تحسین میں بول اٹھیں تو زمین پر یہ گواہی اللہ کی طرف سے ہے جو زبانوں پر جاری ہوئی ہے۔ اسی کا نام سچی عزت ہے، بابا جی عبدالستار ایدھی کو ملی ہوئی یہ عزت آج ہر آنکھ نے دیکھی ہے اور ہر کان نے سنی ہے۔
میں نے اس عزت پر مزید غور کیا تو بابا جی کی زندگی کا ابتدائی فیصلہ کن ارادہ سامنے آیا۔ وہ میمن برادری کے فرد تھے۔ یہ برادری ایک تاجر برادری ہے، سیٹھ برادری ہے، یہ برادری پاکستان کی محبت میں قربانیاں دیتے ہندوستانی گجرات سے کراچی میں پہنچی۔ اس برادری نے اپنے غرباء اور مساکین کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے برادری کی سطح پر خدمتِ خلق کی تنظیم بنائی، اس وقت کے نوجوان عبدالستار بھی اس تنظیم کا حصہ تھے۔ اس نوجوان نے میمن برادری کے مالداروں میں اپنی تجویز زوروشور سے پیش کی کہ صرف میمن برادری نہیں انسانیت کی خدمت کا عزم کرو۔ نوجوان عبدالستار کی بات کو پذیرائی نہ ملی، نوجوان نے اپنے انسانی عزم و ارادے کو تحریک بنا دیا تو برادری نے عبدالستار میمن کو نکال باہر کیا۔ عبدالستار نے انسانیت کو اپنی برادری بنا لیا اور پھر انسانی خدمت کی ایسی تاریخ رقم کی کہ میمن برادری کے جن سیٹھ بزرگ تاجروں نے عبدالستار کو نکال باہر کیا تھا، آج انہیں کوئی نہیں جانتا اس لئے کہ وہ اپنے محلے میں بنائے ہوئے حوض کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتے تھے مگر جس نے انسانی برادری کے سمندر میں تیراکی کا فیصلہ کیا آج وہ خادم انسانیت بن گیا ہے۔ میں ایک عرصہ سے گوجر، ارائیں، راجپوت اور خواجے کشمیری وغیرہ کی فائونڈیشنز دیکھ رہا ہوں، سیاست میں برادری کی ترجیحات دیکھ رہا ہوں مگر سب کا حال اک چھوٹے سے حوض کا ہے۔ بابا جی عبدالستار ایدھی کو قومی فوج کے سالار جنرل راحیل نے اس لئے سلیوٹ کیا ہے کہ بابا جی نے انسانی خدمت کا قومی سمندر بنایا ہے۔ جی ہاں! قومی سوچ رکھنے والوں کو عزتیں بھی قوم ہی دیا کرتی ہے اور برادری کی نچلی سطح پر رہنے والوں کا حال وہی ہوتا ہے جس طرح بطخ اپنے گائوں کے جوہڑ میں کالے گارے میں چونچیں مار مار کر روڑ کھاتی رہتی ہے اور وہی کالا گارا بیٹ کی شکل میں کر کے اس وقت آلودگی پھیلاتی ہے جب جوہڑ سے باہر گھر کے صحن میں گھومتی ہے۔ بعض لوگ اونچے مناصب پر فائز ہونے کے باوجود ایسا ہی کردار رکھتے ہیں۔ بابا جی چونکہ انسانی، آفاقی اور پاکستانی سوچ رکھتے تھے اس لئے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
میں کہتا ہوں بابا جی عبدالستار ایدھی آدھا کام کر گئے، خدمت خلق کے میدان میں تو کر گئے، اب ایک ایسے ایدھی کی بھی ضرورت ہے جو سیاست کے میدان میں بھی باقی آدھا کام کر دکھائے۔ ہماری سیاست کہ جسے عوامی خدمت کہا جاتا ہے وہ علاقائیت، زبان اور برادری سے اوپر اٹھ جائے۔ میں کہتا ہوں جس دن سیاست کے میدان میں ہمیں کوئی ایدھی مل گیا ہمارا باقی آدھا کام بھی ہو جائے گا۔ (ان شاء اللہ)۔ ہے آج کے سیاستدانوں میں کوئی ایسا سیاستدان جو سیاست کے میدان میں وی آئی پی کلچر کی موت کا اعلان کرے۔ سادگی اختیار کر کے قوم کی رہنمائی کرے۔ آیئے! ذرا ہم سب مل کر ایسا سیاستدان ڈھونڈیں۔ ایسی جماعت کو تلاش کریں۔ ایسا سیاستدان اپنا کردار ادا کر کے جس دن فوت ہو تو اپنے وقت کا جنرل راحیل اسے سلیوٹ کر رہا ہو۔ قوم اسے خادم انسانیت کہہ رہی ہو، یارو! 20کروڑ انسانوں میں کوئی ایک بھی زندہ ایدھی نہیں؟
بابا ایدھی نے خدمت انسانیت کا جو بے لوث کردار ادا کیا، ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے سوچ اور جذبہ کہاں سے لیا تو انہوں نے جھٹ سے کہا، حضرت محمد کریمﷺ سے صحیح بخاری میں امام بخاری جو حدیث لائے وہ یہی ہے کہ حضورﷺ جب غارِ حرا سے اللہ کا پیغام لے کر گھر میں تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ سے فرمانے لگے مجھ پر چادر ڈال دو، کانپتے ہوئے فرمایا، مجھے تو اپنی جان خطرے میں لگتی ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا، یہ بالکل نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی دکھی نہ کرے گا۔ عزت کو آنچ نہ آنے دے گا کیونکہ آپؐ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لاچار کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اپنی کمائی کا مال بے کسوں کی جیب میں ڈالتے ہیں۔ مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ دو فریقوں کے درمیان جھگڑے کی صورت میں حقداروں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ تھیں وہ پانچ خصوصیات جو نبوت سے پہلے حضورﷺ کے مبارک کردار کا حصہ تھیں۔ مزید برآں! اللہ کے رسولﷺ نے صحابہؓ کے سامنے اعلان کیا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے اور آپﷺ نے ہاتھ کی درمیان والی انگلی اور شہادت والی انگلی کو اٹھایا اور ان دونوں کے درمیان ہلکا سا خلا پیدا فرمایا (بخاری 5304:) اللہ کے رسولﷺ نے مزید فرمایا! ''بیوہ عورتوں اور مسکینوں کی خدمت کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والا اللہ کی راہ میں اس مجاہد کی طرح ہے جو رات کو قیام کرے اور دن کو روزہ رکھے (بخاری و مسلم)۔ مزید یہاں تک فرمایا کہ رات کا قیام کرے تو تھکے نہیں اور روزے رکھے تو چھوڑے نہیں (بخاری و مسلم)۔ قارئین کرام! مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اس طرح نہیں کر سکتا کہ رات کو قیام کرے، دن کو مسلسل روزے کی حالت میں گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر راہ جہاد میں تلوار چلائے۔ اللہ اللہ! یہ ہے خدمت خلق کے کام کی عظمت جو اللہ کے رسولﷺ بتلا رہے ہیں۔ آپﷺ نے اس پر پہلے خود عمل کیا، مسلسل کیا اور پھر اس کی فضیلت سے آگاہ فرمایا۔
میمن خاندان کا چشم و چراغ کاروباری بنتا تو اربوں میں ہوتا کہ اس خاندان کو اللہ نے کاروبار کی خوبی عطا کی ہے مگر جناب ایدھی مرحوم نے سادہ سا چند مرلے کا مکان وہ بھی باپ کا خریدا ہوا، اس میں گزارہ کیا۔ اربوں کھربوں کی جائیداد جو غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کا مال ہے، اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ سوکھے ٹکڑے کھا کر اس دنیا سے چلا گیا۔ یہ سارا کردار بابا جی نے اللہ کے رسولﷺ سے لیا۔ خلیفہ عبدالملک کے دور میں جب مسجد نبوی کی توسیع کی خاطر 9عدد حجرات مبارکہ کو گرایا گیا تو صحابہؓ اور تابعینؒ روتے تھے اور کہتے تھے کہ کاش ان حجرات کو باقی رہنے دیا جاتا تاکہ آنے والے لوگ دیکھتے کہ ان کے پیارے نبیﷺ نے کیسے حجروں میں زندگی گزاری؟ بابا ایدھی جس دن اپنے سیٹھ اور مالداروں سے الگ ہوا، وہ کسی مالدار کے پاس نہ گیا۔ اس نے جھولی پھیلائی تو اللہ کے بندوں کے سامنے۔ میں کہتا ہوں ہمارے حکمران بھی قوم کے سامنے جھولی پھیلا کر تو دیکھیں۔ سارا قرضہ اتر جائے گا۔ مگر حکمران کی جھولی میں چھید ہوتے ہیں، حکمران نے جھولی پھیلائی تھی، عوام نے پیسے ڈالے اور پتہ ہی نہ چلا کہ ڈالر، پائونڈ اور ریال گئے کہاں؟
لوگو! کوئی سیاسی ایدھی تلاش کرو کہ وہ جھولی تمہارے آگے پھیلائے، رب کریم کے سچے فقیر کی جھولی جو عالمی سود خوروں کے سامنے نہ پھیلے بلکہ پاکستانیوں کے سامنے پھیلے۔ اللہ کی قسم! وہ دن عالمی انقلاب کا دن ہو گا جس دن پاکستان کا وزیراعظم اہل پاکستان کے سامنے جھولی پھیلا کر بھر لے گا اور وہی جھولی سود خوروں کے منہ پر مار کر ہمیں سودی قسطوں سے نجات دلائے گا۔ مجھے اب ایسے ایدھی کی تلاش ہے، تلاش ہے، تلاش ہے۔​
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/ameer-hamza/2016-07-15/16117/56398779#tab2
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ

ہمارے دور کا ایک آدمی ، جس نے اپنی زندگی ہمارے سامنے بسر کی ،
اور ابھی کل ہی تو راہی ملک برزخ ہوا
اس کے متعلق کسی کا کہنا ہے کہ وہ سیکولر تھا ، تو کسی کی نظر میں مطلق جاہل ، اور کسی نے اسے عین نمونہ سنت پینٹ
کردیا ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آخر ایدھی ہی موضوع بحث کیوں؟؟؟

تحریر: حماد چاؤلہ
مسئلہ صرف ایدھی یا ایدھی کی آنکھوں کا نہیں ہے بلکہ ایدھی کے نام پر لبرل اور سیکیولر طبقے کا اسلام اور اسلام پسند طبقے کو ہدف بنانے کا ہے.

ایدھی کی اسلام بیزار نظریات کے ساتھ کی جانی والی انسانی خدمت کو ہمارا اباحیت پسند لبرل و سیکیولر طبقہ جس انداز سے پروموٹ کر رھا ہے اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ آپ دین و مذہب کو خیرباد کہیں اور بس انسانیت کی خدمت کریں. اسی کی آڑ میں یہ ملحدانہ نظریہ بھی عام کیا جارہا ہے کہ " میرا مذہب اسلام نہیں انسانیت ہے " جو درحقیقت فکر اور دعوت ایدھی تھی. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بہت سے مسلمانوں کی زبان پر یہ جملہ ہے.

اب ذرا بتائیں تو سہی کہ انسانیت کی خدمت کی دعوت اسلام سے نفرت و بیزاری کے بغیر نہیں دی جاسکتی؟؟؟

اس نظریہ کی آڑ میں گویا یہ باور کرایا جارہا ہے کہ گویا اسلام معاذ اللہ انسانیت کی خدمت کا دشمن ہے لہذا اگر انسانیت کی خدمت کرنی ہے تو اسلام سے بیزاری ضروری ہے. جبکہ انسانیت کے حقوق کا اصل محافظ اور ضامن اسلام سے بڑھ کر کوئی نہیں جس نے پوری دنیا کو اسوقت انسانیت سکھائی جب انسانیت کا نام تک دنیا نہیں جانتی تھی. اور ایسے بہترین اصول و قوانین وضع کیے کہ اگر صحیح معنوں میں انہیں پڑھا سمجھا اور نافذ کیا جائے تو دنیا سے ظلم و زیادتی کا نام تک ختم ہوجائے.

لیکن جن کو کبھی اسلام کو پڑھنے کی توفیق تک نصیب نہ ہوئی وہ اسلام کا عادلانہ و منصفانہ نظام کیا جانیں.

یقین جانیں اگر ایدھی کا معاملہ کسی گلی محلہ میں رہنے والے غیر معروف شخص کا ہوتا تو اس کے بارے میں اس طرح کی بات چیت واقعی عبث و بے معنی ہوتی لیکن وہ ایک عالمی شہرت یافتہ شخص تھا جس کی سماجی خدمات معمولی نہیں تھیں. انہیں خدمات کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت بھی اور قدر بھی. اور یقینا وہ خدمات قابل قدر بھی ہیں لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے لوگ اس کی محبت میں اتنا غلو کر گئے ہیں کہ اسے:

١) " محسن انسانیت " تک کا لقب دے گئے کہ جس لقب کو سنتے ہی ایک مسلمان کے ذہن میں صرف ایک ہی نام آتا ہے اور وہ مبارک نام ہے خاتم النبیین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم.

اسی طرح ایدھی کی محبت میں لوگ یہ تک بھول گئیے انسانیت کے حقوق سے پہلے انسانیت کے خالق و مالک, رازق و مدبر اور معبود برحق کے حقوق ہیں جن کو ادا کیے بغیر انسانیت کی خدمت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا, غلام اپنے مالک کی نمک حرامی کرکے ساری دنیا کی نمک حلالی کرلے وہ نمک حرام ہی رہے گا. یہی بات ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی کہ دور جاہلیت میں انسانیت کے خادم ابن جدعان کا نجام کیا ہوا ؟ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں ہے کیونکہ اس نے کبھی اللہ کو نہیں پکارا کہ اللہ مجھے بخش دے. (صحیح مسلم) اب یہ کسی مولوی کا فتوی نہیں بلکہ لسان نبوت کی شہادت ہے. اور ممکن ہے کہ منکرین حدیث پر یہ حدیث بڑی گراں گزرے اور دیگر احادیث کی طرح وہ اس کا بھی انکار کردیں لیکن کم از کم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے مسلمان ضرور اس سے راہنمائی حاصل کریں گے.

اور کوئی یہ نا سمجھے کہ میں ایدھی پر کوئی فتوی لگا رہا ہوں بلکہ ایدھی کا معاملہ میرے رب کے حوالے لیکن حدیث پیش کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اللہ کے دین سے بیزار و لاتعلق ہوکر کیجانے والی انسانیت کی خدمت آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دی گی. لہذا " میرا مذہب انسانیت نہیں بلکہ اسلام ہے کیونکہ اسلام مجھے انسانیت کے ساتھ ساتھ انسانیت کے خالق و مالک کے حقوق بھی سکھاتا ہے".

لہذا جو شخص اللہ سے تعلق کی سب سے مضبوط بنیاد نماز کو بے مقصد , اللہ کے حکم قربانی کو فضول اور حج میں جمرات کو کنکریاں مارنے کے حکم کا مزاق اڑائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق رسالت پہ ڈاکہ ڈالنے والے دشمنان رسول سے ایوارڈ لینے میں عزت و خوشی محسوس کرے اور پھر اس سب کے باوجود اسے قوم کا ہیرو قرار دیا جائے صحابہ کرام کے مقابلہ میں اس کی شخصیت کو ملت کا آیڈیل باور کرایا جانے لگے اور لوگ اس کی محبت میں اللہ رسول دین سب بھول جائیں اور میں پھر بھی خاموش رہوں؟؟؟

حقیقت تو یہ ھے کہ آج ہم خاموش رہے تو آئندہ اور بھی بہت سے ایسے دین و مذھب سے بیزار ایدھی پیدا ہوں گے جو انسانیت کی خدمت کے نام پر انسانیت کے خالق کے دین کو کھلواڑ بنائیں گے.

کون نہیں جانتا کہ یہی ایدھی اگر اسلامی احکامات سے بیزاری کے بجائے اسلامی احکامات کا پرچار کرنے والا ہوتا تو آج معاملہ بالکل برعکس ہوتا, لبرل اور سیکیولر طبقہ ایدھی کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑا ہوتا اور دینی طبقہ اس کے دفاع میں.

اللہ ہماری محبتوں کو اپنے دین کی محبت سے وابسطہ فرمادے.
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کون نہیں جانتا کہ یہی ایدھی اگر اسلامی احکامات سے بیزاری کے بجائے اسلامی احکامات کا پرچار کرنے والا ہوتا تو آج معاملہ بالکل برعکس ہوتا, لبرل اور سیکیولر طبقہ ایدھی کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑا ہوتا اور دینی طبقہ اس کے دفاع میں.
صد فیصد درست ۔ اب بچوں کے مشہور ناول نگار اشتیاق احمد ہی کی مثال لے لیجئے۔ ہزار کے قریب بچوں کے ناول لکھ کر انہوں نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ پاکستان میں لکھنے پڑھنے والا ایسا کون سا فرد ہے جو انہیں نہیں جانتا۔ آپ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی مین پاکستان کے سب سے بڑے سالانہ کتاب میلہ منعقدہ ایکسپو میں شریک رہے اور واپسی پر کراچی ایئر پورٹ پر ہارٹ اٹیک کے سبب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ کیا کراچی کے میڈیا کے لئے یہ ”بریکنگ نیوز“ نہیں تھی ؟؟؟ مگر تمام الیکٹرونک میڈیا نے اس خبر کا بلیک آؤٹ کیا۔ آخر کیوں ؟؟؟ صرف اس لئے کہ آپ بچوں کے ایک نامور ادیب اور ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ”سچے مسلمان“ بھی تھے۔ سو آپ کا یہ ”جرم“ میڈیا کیسے برداشت کرتا؟ یہ میڈیا تو شرابی، کبابی، زانی، بے دین ادباء ع شعراء کی معمول کی نقل و حرکت کو ”بریکنگ نیوز“ بنا کر ہم جیسے عوام کو ان کا فین بناتا ہے۔ جیسے آج ہم عبدالستار ایدھی کے ایسے ”فین“ بنے ہوئے ہیں کہ کہ ان کی ”شخصیت“ پر کئے گئے حقیقت پر مبنی ”تجزیے“ بھی محض اس لئے ”ناگوار“ گزر رہے ہیں کہ میڈیا انہیں ایک عظیم انسان، ایک عظیم مسلمان بلکہ ”مولانا ایدھی“ قرار دے رہا ہے۔ اور ہم میڈیا کے دھارے کے برعکس کیسے کوئی بات کرسکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایدھی صاحب پاکستان کی ”عظیم شخصیات“ کی صف میں شامل ہیں۔ اور انہیں اس صف سے کوئی خارج نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی جملہ ”عظیم شخصیات“ کے نظریات، ذاتی کردار و اقوال پر گفتگو جاری رہتی ہے۔ بلکہ جامعات تو ایسی جامع تحاریر پر پی ایچ ڈی کی سند بھی جاری کرتی ہیں، جو کسی نامور شخصیت کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہو۔ ایدھی اور ایدھی ٹرسٹ کی ”سرگرمیوں“ کو اب پاکستانی سماج سے شاید کبھی بھی خارج نہیں کیا جاسکے گا۔ پاکستان کو مادر پدر آزاد سیکولر ریاست بنانے والوں کے لئے ایدھی ایک ایسی قد آور شخصیت ہے، جسے وہ ہمیشہ اپنے ”مشن“ کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔ نادان پاکستانی، ایدھی کو صرف ایک ایسی شخصیت سمجھ رہے ہیں جس نے کچھ اچھے سماجی کام کئے اور بس۔ ایسا نہیں ہے۔ اس ”برگد کے پیڑ“ تلے بہت سارے لوگ، بہت سارے مشنز، بہت سارے باطل نظریات یکجا ہیں، جنہیں اگر اسی ایدھی کی طرح پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو خاکم بدہن پاکستان کا جو حشر نشر ہوگا، اس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ مگر تب تلک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ فی الحال آپ خود کو اس بات پر تیار کرلیجئے کہ اگلے چند ہی برسوں میں آپ کے اور ہمارے بچے اسکولوں کے نصابوں میں ایدھی کو ”پڑھ“ رہے ہوں گے۔ اور آپ خود کو اُن سوالات کے جوابات دینے کے لئے آج ہی سے تیاری کرلیجئے جب وہ ایدھی پر ”اسائنمنٹ“ تیار کرتے ہوئے آپ سے پوچھیں کہبچوں کے جھولے ایدھی مراکز کے ”باہر“ کیوں ہوتے ہیں؟ ہم تو یہ جھولے گھروں کے ”اندر“ رکھتے ہیں، ان جھولوں میں کون سے بچے جھولا جھولتے ہیں؟ پاکستان کے ہزاروں بچے بچیوں اور نوجوانوں کے قومی شناختی کارڈز پر ان کی ولدیت کے خانے میں عبدالستار ایدھی کا نام کیوں لکھا ہوا ہے؟ ایدھی قبرستان، پاکستان کا وہ واحد قبرستان کیوں ہے، جہاں مدفون سارے کے سارے مردے ”گمنام“ اور مقامی میونسپلٹی کی قانونی چھتری کے بغیر کیوں ہیں؟ ایدھی ٹرسٹ کے لاوارث بچوں اور ڈاکٹر ادیب رضوی، ماہر گردہ ٹرانس پلانٹ کے ہسپتال کے مابین کیا ”ورکنگ ریلیشن شپ“ ہے؟ امراء کو لاکھوں روپے کے عوض گردے کون ” مفت ڈونیٹ“ کرتا ہے۔ یہ سارے کے سارے ”گردہ ڈونرز“ گمنام کیوں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عبدالستار ایدھی اور حکیم سعید


رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے


ہمارا دین بیزار سیکولر اور ظالم میڈیا (اور ان کے ”ہم نوا“) کہتا ہے کہ ایدھی کراچی کی سرزمین سے اٹھنے والا پاکستان کا ”سب سے بڑا“ سماجی کارکن تھا۔ وہ یہ بات اس طرح کہتے ہیں، گویا ایدھی سے پہلے اور بعد میں اتنے بڑے پیمانے پر کسی نے پاکستان میں سماجی کام کیا ہی نہیں۔ یہ پاکستان میں سماجی بہبود کے کاموں کی تاریخ سے سراسر لاعلمی کا سبب ہے۔
”متحدہ پاکستان“ کے طول و عرض میں وسیع پیمانے پر سماجی کاموں کا آغاز جماعت اسلامی نے کیا۔ مرحوم مشرقی پاکستان میں ہر سال سیلاب آیا کرتا ہے، جو دریاؤں مین گھرے وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیا کرتا ہے۔ 25 برس تک اُن سیلاب ذدگان کی نمایاں مدد پاک فوج کے علاوہ صرف اور صرف جماعت اسلامی نے کی۔ سن ستر کے اواخر تک مغربی پاکستان میں بھی ہر مشکل گھڑی کے علاوہ نارمل دنوں میں بھی غریب غربا کی بلا تشہیر وسیع پیمانے پر امداد صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی کرتی رہی۔ پاکستان میں سماجی خدمات کی غرض سے چرم قربانی کو ملک بھر میں جمع کرنے کے کام کا آغاز بھی جماعت اسلامی نے ہی کیا۔ جب ضیاء الحق نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی تو جماعت اسلامی نے اپنے ”خدمت خلق کے شعبہ“ کو ایک ٹرسٹ کی صورت مین ”الخدمت“ کے نام سے متعارف کروایا۔ تب سے ملک بھر میں الخدمت کی خدمت خلق کی بھی اپنی تاریخ ہے۔ بعد ازاں جماعت الدعوہ بھی اس میدان میں آئی اور انہوں نے کشمیر کے زلزلے کے بعد متاثرین کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تب سے اب تک جماعت الدعوہ بھی خاموشی کے ساتھ وسیع پیمانے پر سماجی کاموں میں مصروف ہے۔ ان دونوں جماعتوں کی کوئی ”بیرون ملک شاخ“ نہین ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ انہیں بیرون ملک سے پاکستانی عطیات ارسال کرتے ہوں مگر انہوں نے ایدھی ٹرسٹ کی طرح پاکستانیوں کے پیسوں سے امریکہ میں اپنی کوئی شاخ نہیں بنائی۔ جہان ایدھی کا ایک بیٹا مستقلاً مقیم ہے۔ حتیٰ کہ اس ”خوف“ سے کہ کہیں امریکی شہریت کے حصول کی ”منزل“ دور نہ ہوجائے، وہ بیٹا ایدھی کی وفات پر پاکستان بھی نہیں آیا۔

ویسے تو کراچی کی سرزمین نے ایک سے ایک گوہر و لعل پاکستان کو دیئے۔ لیکن ”میڈیا زدہ لوگ“ سمجھتے ہیں کہ ایدھی کے علاوہ یہاں کوئی اور قد آور شخصیت پائی ہی نہیں گئی۔ میں صرف ایک مثال دوں گا اور وہ ہے حکیم سعید شہید کی جو بھارت میں اپنا خاندانی ہمدرد مطب چھوڑ کر خالی ہاتھ پاکستان آئے اور کراچی سے اپنی ”خدمات“ کا آغاز کیا۔ اگر آپ اس فرزند کراچی کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کا ہی احاطہ کرنا چاہیں تو شاید آپ کے لئے ممکن نہ ہو۔ آرام باغ میں ایک چھوٹے سے مطب سے کام کا آغاز کرنے والے اس حکیم نے علم و حکمت کے وہ موتی بکھیرے کے دنیا حیران ہے۔ ایدھی اور اس کی جملہ خدمات حکیم سعید کی خدمات کے سامنے ہیچ ہے۔ حکیم صاحب نے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ہمدرد دواخانے قائم کئے۔ انہیں ”وقف“ بنایا اور خود طبی کنسلٹنسی مفت فراہم کرتے رہے۔ آپ کے دوہزار سے زائد ”ذاتی بین الاقوامی دوست“ تھے جنہیں وہ ہر سال ”ہیپی نیو ایئر“ کا کارڈ ارسال کیا کرتے تھے۔ آپ نے بچوں کی تربیت کے لئے ماہنامہ نونہال جاری کیا۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قوم کے نونہالوں کے لئے ماہانہ پروگرامز کا سلسلہ شروع کیا، جس میں داخلہ مفت ہے اور جہاں بچے اپنے والدین کے سامنے اپنی اپنیغیر نصابی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ نے طبیہ کالج قائم کیا جہاں سے ہزاروں حکیم فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کو سندھ کا گورنر بنایا گیا تو آپ نے سندھ بالخصوص کراچی میں نجی جامعات کی بیشتر درخواستوں کو جو طویل عرصہ سے پینڈنگ کا شکار تھیں، فوراً منظور کیا۔ جس سے کراچی میں پیشہ ورانہ تعلیم کے دروازہ کھلے۔ آپ نے درجنوں کتب اور سفرنامے لکھے۔ آپ حافظ قرآن اور تہجد گذار تھے۔ بلا ناغہ روزانہ رات دس بجے سوجایا کرتے اور علی الصباح تین بجے اٹھ جاتے۔ حتی کہ گورنرشپ کے دوران بھی آپ کا یہی معمول رہا۔ اکثر روزے سے رہتے اور اپنے مریضوں کو صبح فجر کے بعد دیکھا کرتے۔ جس دن انہیں قتل کیا گیا، اُس روز بھی آپ روزے سے تھے۔

حکیم سعید کا سب سے بڑا کارنامہ ”مدینۃ الحکمہ“ کا قیام ہے۔ لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ کراچی اور بلوچستان کے سنگم پر وسیع و عریض علاقے میں یہ کتنا بڑا علمی شہر ہے۔ یہان غالباً پاکستان کا سب سے بڑا کتب خانہ ہے، جہاں قلمی نسخوں کی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں طبیہ کالج ہے۔ یہاں ہمدرد یونیورسٹی ہے جہاں ایم بی بی ایس، بی ای، ایم بی اے کے علاوہ متعدد اقسام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں ایک بہترین اسکول بھی ہے۔ یہاں ”طبی جنگل“ بھی ہے، جس میں جملہ اقسام کی جری بوٹیوں اور ادویات مین مستعمل پیڑ پودے نشو نما پاتے ہیں۔

اگر ایدھی کی جملہ خدمات کا صرف اور صرف حکیم سعید کی خدمات سے موازنہ کیا جائے تو ایدھی ایک ایسا ”بونا“ نظر آئے گا جسے غیر ملکی اور ملکی سیکولر میڈیا ایک قد آور شخصیت بنانے پر اول روز سے تلا ہوا ہے۔ اور حکیم سعید جیسی قد آور شخصیات کو صرف اور صرف اس لئے نظر انداز کیا جاتا رہا کہ وہ نہ صرف یہ کہ ایک سچے باعمل مسلمان تھے بلکہ انہوں نے پاکستان کی نئی نسل کو باشعور، تعلیم یافتہ مسلمان بنانے کے لئے بنیادی اسٹرکچر فراہم کیا۔

نوٹ: یہ کوئی ”تحقیقی جائزہ“ نہیں ہے۔ بس فی البدیہہ چند سطور میں یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ عبدالستار ایدھی سے بڑی بڑی شخصیات پاکستان مین موجود رہی ہیں، جنہیں ہم مسلسل نظر انداز کرکے ایدھی پر عقیدت کے پھول برسارہے ہیں، جو یقیناً کوئی درست عمل نہیں ہے۔
 
Top