- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
السلام علیکم سسٹرمفتی منیب الرحمن صاحب نے ان سب باتوں کو جھٹلا دیا ہے آج کے اخبارات میں یہ خبر موجود ہے
آپ نے درست فرمایا۔ مفتی صاحب کا وہ ”وضاحتی بیان“ برادر کنعان نے اوپر پوسٹ بھی کیا ہے۔
مفتی منیب صاحب بالعموم ایسی کوئی ”دعوت“ رَد نہیں کرتے، جس میں انہیں پبلک میں ”نمایاں“ ہونے کا موقع ملے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ٹی وی چینلز کے ایسے پروگراموں میں بھی شرکت کرنا نہیں چھوڑتے، جو اُن کے ”شایانِ شان “ نہیں ہوتے یا جہاں انہیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا یا جس پروگرام کا سیٹ اَپ اُن کے مزاج اور عقیدہ سے ہم آہنگ ہی نہیں ہوتا۔
اطلاعات کے مطابق جب ایدھی صاحب کا انتقال ہوا تو، مفتی صاحب پنجاب کے کسی شہر میں تھے۔ اُن سے وہیں رابطہ کیا گیا تھا، نماز جنازہ پڑھانے کے لئے۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ ابھی تو یہاں آئے ہیں اور اتنی جلدی اُن کا کراچی واپس جانا مشکل ہے۔ کچھ اسی قسم کا عذر لنگ پیش کرکے اپنی جان چھڑائی تھی۔ یہ خبر بھی سوشیل میڈیا میں خوب پھیل گئی یا پھیلا دی گئی۔ پھر کسی کے سامنے آپ نے ”آف دی ریکارڈ“ اصل بات بھی بتادی ہوگی۔ اور آپ تو جانتی ہیں کہ آج کل کوئی بات آف دی ریکارڈ نہیں رہتی۔ ایدھی کے اینٹی اسلامک عقائد و اعمال سے ”متنفر لابی“ نے مفتی صاحب کی اس مبینہ بات کو اتنا پھیلا دیا کہ مفتی صاحب کو ”حکام بالا“ میں اپنی ”بزتی خراب“ ہونے کا خدشہ ہوچلا ہوگا۔ ویسے بھی شوال کے چاند والے اجلاس میں اُن کی عزت کو حرف آچکا تھا۔ واضح رہے کہ مفتی صاحب اس اعلیٰ سرکاری عہدہ پر طویل عرصہ سے فائز ہیں اور اس منصب سے خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور ان کے ایسے ”رقیبوں“ کی کمی نہیں جو انہیں اس عہدہ سے برطرف کروانا چاہتے ہوں۔
پاکستان میں سرکاری مناسب پر موجود لوگوں کے ایسے ”وضاحتی بیانات“ کی جو قدر و قیمت اور حقیقت ہوتی ہے، اس سے کم و بیش ہم سب ہی واقف ہیں۔ اب عمران خان صاحب ہی کو دیکھ لیجئے۔ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے ریحام خان سے شادی کی پرزور تردید کی تھی۔ لیکن پھر کیا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تیسری شادی کے ”تردیدی بیانات“ کو بھی کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ایدھی صاحب کے جنازہ اور تدفین کو مکمل سرکاری اعزازات کے ساتھ نوازا گیا۔ پاکستان میں ایسا تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے بانی پاکستان اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق شہید کے جنازہ کو یہ ”اعزاز“ حاصل ہوا تھا۔ اس کے باوجود کسی بھی نمایاں عالم دین نے اس نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی؟ آخر کیوں؟ اور جن صاحب نے نماز پڑھائی، مبینہ طور پر انہیں بوٹوں والی سرکار کی طرف سے ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
لوگ یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ ایدھی کوئی ”سرکاری شخصیت“ تو تھے نہیں، نہ ہی وہ کسی ”دہشت گردی“ کے نتیجہ میں ”شہید“ ہوئے، پھر پاک آرمی نے انہیں ”اس اعزاز“ سے کیوں نوازا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا باعث ایم کیو ایم ہے۔ کراچی میں رہنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی مین قربانی کی کھالوں کی ”بندر بانٹ“ میں ایم کیو ایم اور ایدھی سالہا سال سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ ایم کیو ایم آج کل آرمی آپریشن کے سبب سخت مشکلات کا شکار ہے۔ یہ اس شہر میں ایسا کوئی ”شو“ کرنے میں مسلسل ناکام جارہی ہے، جس میں وہ کراچی کی قابل ذکر آبادی کو اپنے ساتھ دکھلا سکے۔ شنید ہے کہ ایم کیو ایم نے ایدھی کی لاش کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنے کا مکمل منصابہ بنا لیا تھا، جس کی بھنک رینجر کو مل گئی۔ مجوزہ منصوبہ یہ تھا کہ میمن مسجد میں نمازہ جنازہ کے بعد ”جنازہ کا کنٹرول“ ایم کیو ایم سنبھال لے اور اس جنازہ جلوس کو عزیز آباد کے ”شہدا قبرستان“ لے جایا جائے۔ اور ایدھی کو ”مہاجر نمائندہ“ قرار دیکر اس کی تدفین مہاجروں کے شہداء قبرستان میں کی جائے۔ اگر ایم کیو ایم ایک بار جنازہ کا ”کنٹرول“ حاصل کرلیتی تو رینجر سمیت کوئی بھی قوت ایم کیو ایم کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ رینجرز کی درخواست پر پاک آرمی نے جنازہ کا ”مکمل کنٹرول“ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ نماز جنازہ کی ”تقریب“ کو ایم کیو ایم کے ”زیر اثر“ علاقہ میمن مسجد سے نیشنل اسٹیڈیم میں منتقل کردیا۔ آرمی چیف نے خود نماز جنازہ میں شرکت کی جبکہ آرمی چیف کی اس قسم کے ”سویلین اور غیر سرکاری“ نماز جنازہ مین شرکت کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس قسم کے ”واقعات“ اور ”ان کہی“ داستانوں کی کوئی ”آن دی ریکارڈ تصدیق“ نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اہل نظر پس مناظر اور پیش مناظر کو سامنے رکھ کر یہ اندازہ ضرور لگالیتے ہیں کہ دال مین کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب