- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــالسلام و علیکم -
محترم عثمان صاحب -
عقیدہ عدود روح کے معاملے میں باطل نظریات کی ترویج قرانی آیات کو بغیر سمجھ کر پڑھنے کی بنا پر ہوئی ہے - قرآن میں ہے کہ :
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ سوره الزمر ٤٢
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں-
قبر میں اعادہ روح صحیح حدیث سے ثابت ہے ،،
اس لئے اس کو باطل کہنا ،خود بڑا باطل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح حدیث کو قرآن کے خلاف باور کروانا بھی باطل ہے ،
جس کے دل پر قرآن اترا وہ کیوں آیات کے معانی متعین نہیں کرسکتا ؟؟
اگر احادیث پیمبر ﷺ سے قرآن کے معانی ومطالب متعین نہ کروائے جائیں ،تو پھر لکھنو ،اور کراچی وغیرہ کے گمراہ نتھو خیرے
آزاد ہو کر من پسند مفاہیم قرآنی سے گمراہی پھیلاتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب: قبر میں سوال کئے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان۔
عن البراء بن عازب قال: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة رجل من الانصار فانتهينا إلى القبر ولما يلحد فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلسنا حوله كانما على رءوسنا الطير وفي يده عود ينكت به في الارض فرفع راسه فقال: استعيذوا بالله من عذاب القبر مرتين او ثلاثا ، زاد في حديث جرير هاهنا وقال: وإنه ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين حين يقال له: يا هذا من ربك؟ وما دينك؟ ومن نبيك؟ قال هناد: قال: وياتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول: ربي الله فيقولان له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام فيقولان له: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ قال: فيقول: هو رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولان: وما يدريك؟ فيقول: قرات كتاب الله فآمنت به وصدقت زاد في حديث جرير فذلك قول الله عز وجل: يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة إبراهيم آية 27 ثم اتفقا قال: فينادي مناد من السماء ان قد صدق عبدي فافرشوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة والبسوه من الجنة قال: فياتيه من روحها وطيبها قال: ويفتح له فيها مد بصره قال: وإن الكافر فذكر موته قال: وتعاد روحه في جسده وياتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه هاه لا ادري فيقولان له: ما دينك؟ فيقول هاه هاه لا ادري فيقولان: ما هذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا ادري فينادي مناد من السماء ان كذب فافرشوه من النار والبسوه من النار وافتحوا له بابا إلى النار قال: فياتيه من حرها وسمومها قال: ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه اضلاعه " زاد في حديث جرير قال: ثم يقيض له اعمى ابكم معه مرزبة من حديد لو ضرب بها جبل لصار ترابا قال: فيضربه بها ضربة يسمعها ما بين المشرق والمغرب إلا الثقلين فيصير ترابا قال: ثم تعاد فيه الروح ".
ترجمہ :
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ابھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: ”قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو“ اسے دو بار یا تین بار فرمایا، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: اور فرمایا: ”اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں، اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے، اے جی! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟“ ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب (معبود) کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے، میرا رب (معبود) اللہ ہے، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا“ جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: ”اللہ تعالیٰ کے قول «يثبت الله الذين آمنوا» سے یہی مراد ہے“ (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے، اور تا حد نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے“۔ اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: ”اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے: ہا ہا! مجھے نہیں معلوم، تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا (لو) آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں“ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ”پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے“۔
علامہ الالبانی اور علامہ شعیب ارناوط نے اسے ’’صحیح ‘‘کہا ہے
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۳۲۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۸) (صحیح)