• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت جابر عبدللہ دامانوی صاحب کے نزدیک

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ نے دامانوی صاحب کی کتاب کو جو عینک لگا کے پڑھا ہے صاف ظاہر ہو رہا ہے، آپ نے جو فرمایا کہ:

"

جب انسان کے جسم میں روح موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا عذاب یا راحت کو محسوس کرنا کیا معنی رکھتا ہے"

اور اللہ فرماتا ہے کہ :
"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ زمر- 42)
"اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے "

بھائی روح تو نیند میں بھی جسم میں نہیں ہوتی، کیا کہیں گے؟ سوتے ہوئے کبھی کچھ محسوس ہوتا ہے کے نہیں؟
ان سوالوں کا جواب ؟ امید ہے جلد۔ جزاک اللہ۔
السلام و علیکم -

محترم عثمان صاحب -

عقیدہ عدود روح کے معاملے میں باطل نظریات کی ترویج قرانی آیات کو بغیر سمجھ کر پڑھنے کی بنا پر ہوئی ہے - قرآن میں ہے کہ :
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ سوره الزمر ٤٢
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں-

التوفّي سے مرا د قبض کرنا ہے کہ الله سب کی روحیں قبضے میں لیتا ہے نیند کے وقت اگر بعض نفس کی عمر پوری ہو گئی ہے تو روحوں کو پکڑ کے رکھتا ہے نیند میں – اور اگر عمر کا کچھ حصہ باقی ہے تو روحوں کو واپس کرتا ہے

الله تعالیٰ نفس یا روح کو قبضے میں لیتا ہے چاہے بندہ نیند میں ہو یا مردہ - نیند کا تعلق موت سے اتنا ہے کہ قبض نفس کے نتیجے میں کچھ جسمانی کیفیت مشترک ہے جسے سونے والے کا شعور جاگنے والی کیفیت سے علیحدہ ہے - یہ بات ذہن میں رہے کہ قبض اور اخراج میں فرق ہے – حالت نیند میں صرف توفی یا قبض نفس ہوتا ہے نہ کہ اخراج – اس کے بر عکس موت میں جسد سے اخراج نفس بھی ہوتا ہے-یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دیا کہ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ کہ زندہ اور مردہ برابر نہیں – یہی اصل مسلمہ بات ہے-

اس اصول کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر ہی عقیدہ حاملین عود روح اس بات کا بڑے زور و شور سے پرچار کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد مردہ اجسام پر گزرنے والے واقعیات کا ہم ادرک نہیں رکھتے - بلکل ایسے ہہی جیسے نیند میں روح قبض ہونے کی صورت میں انسان زندہ ہی رہتا ہے لیکن خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کا زندہ انسان ادراک نہیں کر سکتا -

جب کہ الله واضح فرما رہا ہے کہ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ ہ زندہ اور مردہ برابر نہیں -
یعنی نہ سنتے ہیں - نہ بولتے ہیں (سوره فاطر ٢٢ )- نہ ہی کسی چیز کا ادراک رکھتے ہیں - نہ ہی اپنے عزیز و اقارب کو پہچانتے ہیں- (سوره یٰسین ٢٦ -سوره النحل ٢١)-
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
یہ بات ذہن میں رہے کہ قبض اور اخراج میں فرق ہے

بھائی جان یہ کس آیت کی مطلب ہے؟

اللہ نے فرمایا کہ روح قبض کر لیتا ہوں دو مواقع پر: 1۔ نیند کے وقت، 2۔ موت کے وقت،

ہم نیند یا موت، زندہ یا مردہ کی تو بات ہی نہیں کر رہے، بات ہو رہی ہے لولی بھائی کہ اس مفروضے پر کہ "

"جب انسان کے جسم میں روح موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا عذاب یا راحت کو محسوس کرنا کیا معنی رکھتا ہے"

اب آیت کے مطابق روح کے نکلنے سے یہ لازمی نہیں کہ اس کو کویئ چیز بھی محسوس نہیں ہوتی، جب کہ اللہ ایک آیت میں مردوں کہ بارہ میں فرماتا ہے کہ "تم" نہیں مگر "اللہ" ان کو سنوا سکتا ہے۔ اتنا سا فرق ہے بس،

"
اور زنده اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں" سورۃ الفاطر 22
بھائی ایک تو پورے قرآن میں کہیں بھی "برزخ" کو ایک الگ مقام نہیں بلکہ ایک "پردہ"، رکاوٹ" آڑ" کے معنی میں ہیں:

وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ حائل ہے جس دن وہ اٹھائے جائیں گے
مطلب کہ ان کے جو بھی معاملات مرنے کے بعد ہونگے، ان معاملات اور دنیا کی زندگی کے بیچ ایک پردہ حائل ہے، دنیا کے لوگ ان کو کچھ نہیں سنا سکتے، ہاں اللہ اور ان مردوں کے بیچ پردہ نہیں، وہ جو چاہے سنوا دے،آسان سی بات ہے۔
آپ کو حیرت، بالکل ویسے ہی جیسے منکرین حدیث کو، ہو رہی ہے کہ بغیر روح کہ احساس کیسے؟ تو بھائی قرآن تو ان چیزوں کے احساس کی بھی بات کرتا ہے، جن میں کوئی بھی روح نہیں مانتا، سنیئے:
وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاؤدَ الْجَبَالَ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِثْرَاقِ
پہاڑ داؤد علیہ السلام کے ساتھ صبح و شام اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح کہتے تھے

لَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں

لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا،

بھائی، یہ پہاڑ تسبیح کرتا ہے، خوف سے ڈرتا ہے، جھکتا ہے، ""کیا اس میں روح ہے""

اور اس پر الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ:
کچھ مسلک پرست اس سے بچنے کے لئے الله کی قدرت کا سہارا لیتے ہیں کہتے ہیں کہ " ان الله على كل شيئ قدير"

اس پر یہ کہوں گا کہ:

کچھ عقل پرست اپنے خود ساختہ عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے الله کی قدرت " ان الله على كل شيئ قدير" کا انکار کر دیتے ہیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہ بات ذہن میں رہے کہ قبض اور اخراج میں فرق ہے

بھائی جان یہ کس آیت کی مطلب ہے؟

اللہ نے فرمایا کہ روح قبض کر لیتا ہوں دو مواقع پر: 1۔ نیند کے وقت، 2۔ موت کے وقت،

ہم نیند یا موت، زندہ یا مردہ کی تو بات ہی نہیں کر رہے، بات ہو رہی ہے لولی بھائی کہ اس مفروضے پر کہ "

"جب انسان کے جسم میں روح موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا عذاب یا راحت کو محسوس کرنا کیا معنی رکھتا ہے"

اب آیت کے مطابق روح کے نکلنے سے یہ لازمی نہیں کہ اس کو کویئ چیز بھی محسوس نہیں ہوتی، جب کہ اللہ ایک آیت میں مردوں کہ بارہ میں فرماتا ہے کہ "تم" نہیں مگر "اللہ" ان کو سنوا سکتا ہے۔ اتنا سا فرق ہے بس،

"
اور زنده اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں" سورۃ الفاطر 22
بھائی ایک تو پورے قرآن میں کہیں بھی "برزخ" کو ایک الگ مقام نہیں بلکہ ایک "پردہ"، رکاوٹ" آڑ" کے معنی میں ہیں:

وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ حائل ہے جس دن وہ اٹھائے جائیں گے
مطلب کہ ان کے جو بھی معاملات مرنے کے بعد ہونگے، ان معاملات اور دنیا کی زندگی کے بیچ ایک پردہ حائل ہے، دنیا کے لوگ ان کو کچھ نہیں سنا سکتے، ہاں اللہ اور ان مردوں کے بیچ پردہ نہیں، وہ جو چاہے سنوا دے،آسان سی بات ہے۔
آپ کو حیرت، بالکل ویسے ہی جیسے منکرین حدیث کو، ہو رہی ہے کہ بغیر روح کہ احساس کیسے؟ تو بھائی قرآن تو ان چیزوں کے احساس کی بھی بات کرتا ہے، جن میں کوئی بھی روح نہیں مانتا، سنیئے:
وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاؤدَ الْجَبَالَ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِثْرَاقِ
پہاڑ داؤد علیہ السلام کے ساتھ صبح و شام اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح کہتے تھے

لَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں

لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا،

بھائی، یہ پہاڑ تسبیح کرتا ہے، خوف سے ڈرتا ہے، جھکتا ہے، ""کیا اس میں روح ہے""

اور اس پر الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ:
کچھ مسلک پرست اس سے بچنے کے لئے الله کی قدرت کا سہارا لیتے ہیں کہتے ہیں کہ " ان الله على كل شيئ قدير"

اس پر یہ کہوں گا کہ:

کچھ عقل پرست اپنے خود ساختہ عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے الله کی قدرت " ان الله على كل شيئ قدير" کا انکار کر دیتے ہیں۔
محترم -

مجھے لگتا ہے کہ آپ جناب بھی جابر دامانوی صاحب کے فلسفے عقیدہ عذاب قبر (زمینی) سے متاثر ہیں - جن کہ اپنے فلسفے میں قرآن و احادیث کی نسبت تضاد پایا جاتا ہے -

آپ نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے یہ آیت پیش کی تھی کہ :
اور زنده اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں" سورۃ الفاطر 22
یعنی آپ کے مطابق "مطلب کہ ان کے جو بھی معاملات مرنے کے بعد ہونگے، ان معاملات اور دنیا کی زندگی کے بیچ ایک پردہ حائل ہے، دنیا کے لوگ ان کو کچھ نہیں سنا سکتے، ہاں اللہ اور ان مردوں کے بیچ پردہ نہیں، وہ جو چاہے سنوا دے،آسان سی بات ہے۔"

جب کہ میں نے اس پر یہی دلیل دی تھی کہ اللہ نے اس آیت میں اپنی قدرت بیان کی ہے - عمومی اصول بیان نہیں کیا -یعنی الله چاہے تو روح کے بغیر مردہ کو سنوا دے.لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا - بالفرض اگر اس آیت سے ہم یہ اصول عمومی تسلیم کر بھی لیں کہ الله مردہ اجسام کو اکثر و بیشتر سنواتا ہے - تو اس میں عود روح (جسم میں روح کی واپسی ) کا ذکر تو پھر بھی کہیں نہیں ہے- تو پھر ان روایات کا کیا بنے گا جس میں ہے کہ مردہ میں اس کی روح لوٹائی جاتی ہے اسے اٹھایا پٹھایا جاتا ہے اورسوال و جواب وغیرہ ہوتے ہیں - جب الله اس بات پرقادر ہے کہ بغیر روح کے جسم کو سننے اور عذاب و ثواب سہنے کی اہلیت عطا کر رہا ہے تو پھر روح کی واپسی کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ؟؟؟- جب کہ دامانوی صاحب خود اپنی کتاب "عذاب قبرکی حقیقت" میں لکھتے ہیں کے موت کا مطلب ہے کہ جسم سے روح نکلنا - اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "عذاب جہنم کا تعلق روح کے ساتھ ہے اور عذاب قبر کے تعلق میت کے ساتھ ہے" - اب بتائیں (روایات کے مطابق) کہ جب روح واپس قبر میں مردہ کے جسم میں آ گئی تو کیا عذاب جہنم تھوڑی دیر کے لئے ختم کردیا گیا -

جب کہ آپ فرما رہے ہیں کہ قرآن کی آیت سے یہ واضح ہے کہ الله مردہ اجسام کو سنوا بھی سکتا ہے اور عذاب و ثواب بھی دے سکتا ہے-تو پھر روح کی واپسی کا کیا مصرف رہ گیا - پھر تو سوره فاطر کے یہ الفاظ ہونے چاہیں تھے کہ " اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے روح لوٹانے کے بعد سنا دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں"- لیکن یہاں روح لوٹانے کے کہیں ذکر نہیں- بلکہ اس کے برعکس دوسری طرف سوره التکویر، سوره المومنون، سوره الفجر میں ہے کہ روح اب قیامت کے دن ہی جسم میں لوٹائی جائے گی-

الَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں-

محترم -قران کی اس آیت میں الله نے اپنی پیدا کردہ چیزوں کا اجمالی نقشہ پیش کیا ہے-

اب کیا ان تسبیح کرنے والوں میں کافر فاسق و فاجر بھی ہیں- کیا قبر کے مردے بھی شامل ہیں؟؟؟- کیوں ظاہری الفاظ سے تو یہی ظاہر ہوتا کہ جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے سب الله کی تسبیح کررہے ہیں؟؟-

قرآن میں تو یہ بھی ہے کہ :
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا سوره ٧٢
ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اسکے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا-

اب یہ امانت کب انسانوں اور آسمانوں و زمین کے سامنے پیش کی گئی - اور کب انسان نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا ؟؟ یہ الله ہی جانتا ہے-

بات یہ کہ آپ قرآن و احادیث کے صحیح مفہوم کے بجاے اپنے اکابرین کے فہم کو اہمیت دے رہے ہیں- ورنہ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام و صحابیات میں کوئی بھی زمینی قبر میں عذاب و ثواب اور سماع کا قائل نہیں تھا- البتہ کچھ استثنائی واقعیات نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں سماع موتہ یا عذاب قبر سے متعلق پیش آے جن کو عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا (واللہ اعلم)-
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یہ الفاظ یقیناً سنگین ہیں لیکن میری دانست میں ان کا شرعی اسٹیٹس یہی بنتا ہے؛اس کا اظہار اس لیے کرنا پرا کہ موصوف اپنے بارے میں اہل حدیث ہونے کا تاثر دیتے ہیں؛گالی گلوچ یا نازیبا الفاظ سے اجتناب کرتے ہوئے کسی کا شرعی اسٹیٹس بیان کرنا ہر گز غلط نہیں بل کہ بعض اوقات ناگزیر ہو جاتا ہے اور یہاں ایسا ہی ہے۔
آپ ”لولی صاحب“کی باتوں کا ”جواب“ دے سکتے ہیں لیکن کسی کو صرف اس ”بناء“ پر ”بدعتی“ کہنا کوئی” چھوٹی“ بات نہیں ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
”طبقہء اہلِ حدیث“ میں بھی اب ہر اس ”شخص“کو جو”تھوڑا“سا اختلاف رکھتا ہو” بدعتی“ قرار دیا جانے لگا ہے۔ مجھے ”اندیشہ“ ہے کہ اب ”بدعتی“کہنے کا ”عمل “ہی ایک ”بدعت “ کی شکل ”اختیار “ نہ کر لے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جب تمام اہل الحدیث کا کسی کے بدعتی ہونے پر اتفاق ہو جیسا کہ دنیاوی قبر میں عذاب قبر کے انکار کا عقیدہ ہے تو ایسے متفق علیہ بدعتی کو بدعتی نہ کہنا ایک بدعت ہے۔

عقیدے میں مروی نصوص کو ان کے حقیقی معنی پر جو بھی محمول نہ کرے وہ سلفیہ کے نزدیک اہل بدعت کے منہج پر ہے۔ عقیدے اور غیبی امور میں کلام میں اصل حقیقت ہے۔ مجاز مراد لینا بدعتی منہج ہے۔

پس ایمان باللہ، ایمان بالاسماء والصفات، ایمان بالقدر، ایمان بالآخرۃ، ایمان بعذاب القبر، ایمان بالرسالۃ، ایمان بالملائکۃ وغیرہ سے متعلقہ جمیع نصوص میں مراد حقیقت ہے، چاہے عقل ومنطق اس کو پا سکیں یا نہ۔
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
جب ایک فرقہ سے دوسرہ فرقہ بنتا ہے تو یقنن پھر اس دوسرے فرقہ میں بھی فروقے ہونے ہیں ۔ حنفیوں ، شافعی اور حنابلہ کے جس طرح بری حال ہوئے اور وہ لوگ فرقہ واریت کی آگ میں دھنس گئے خصوصن حنفی تو اب لگتا یہی ہے کہ اہل حدیث کا بھی مستقبل میں یہی حال ہونے والا ہے۔۔ اللہ معاف کرے ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
محترم @محمد علی جواد بھائی سلام عرض ہے،

آپ نے ایک عجیب بات کہی کہ :
" آپ قرآن و احادیث کے صحیح مفہوم کے بجاے اپنے اکابرین کے فہم کو اہمیت دے رہے ہیں"

جب کہ میں نے ایک بھی اکابر کا قول پیش نہیں کیا۔ اکابرین میں صحابہ بھی شامل ہیں، مگر ان کی روایات میں لوگ لفظ "قبر" کی معانوی تحریف کر جاتے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ :

"
ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اسکے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم بڑا نادان تھا-


اب یہ امانت کب انسانوں اور آسمانوں و زمین کے سامنے پیش کی گئی - اور کب انسان نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا ؟؟ یہ الله ہی جانتا ہے-"

ان آیات سے آپ نے یہ اصول نہیں بنایا کہ "بنا روح" کے بھی مخلوقات ایک حس رکھتی ہیں، لیکن آیت سورۃ الفاطر 22 سے فورا فرما دیا کہ یہاں "عمومی اصول بیان نہیں کیا " گیا۔
میرے بھائی، یہ اصول کیا آپ کے گھر میں بنتے ہیں کیا؟

آپ نے فرمایا:

"البتہ کچھ استثنائی واقعیات نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں سماع موتہ یا عذاب قبر سے متعلق پیش آے جن کو عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا (واللہ اعلم)"

شکر ہے آپ نے یہ تو مانا کہ سماع موتی سے متعلق استثنائی صورتیں موجود ہیں احادیث میں۔ "جن کو عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا" یہ آپ کے مخصوص اکابرین کا فہم ہے، قرآن و حدیث اس اصول کو بیان نہیں کرتے۔

آپ نے دو عقلی اعتراضات اٹھائے:

" پھر ان روایات کا کیا بنے گا جس میں ہے کہ مردہ میں اس کی روح لوٹائی جاتی ہے اسے اٹھایا پٹھایا جاتا ہے اورسوال و جواب وغیرہ ہوتے ہیں - جب الله اس بات پرقادر ہے کہ بغیر روح کے جسم کو سننے اور عذاب و ثواب سہنے کی اہلیت عطا کر رہا ہے تو پھر روح کی واپسی کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ؟؟؟"
اور
" اب بتائیں (روایات کے مطابق) کہ جب روح واپس قبر میں مردہ کے جسم میں آ گئی تو کیا عذاب جہنم تھوڑی دیر کے لئے ختم کردیا گیا"

ویسے ان اعتراضات کے بعد آپ کا فرض تو یہ بنتا تھا کہ آپ یہاں بھی وہی جملہ لکھ دیتے جو ایک آیت کہ جواب میں آپ نے لکھا تھا کہ " یہ الله ہی جانتا ہے-"

لیکن جب آدمی عالم غیب کو کھریدنے بیٹھ جائے، اور اللہ کی قدرت کو اپنے اکابرین کے فہم کی بھینٹ چڑھا کر اس کی تخصیص کرنا شروع ہو جائے تو مشکل ہوتا ہے یہ لکھنا کہ " "
یہ الله ہی جانتا ہے"

پہلے سوال کا تو یہی جواب ہے کہ "اللہ بہتر جانتا ہے" کہ روح لوٹانے کا کیا مقصد ہے، مجھ نا چیز کو جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ جن باتوں کا سوال کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ باتیں انبیاء نے "روح" اور "جسم" دونوں کے مجموعے سے بیان کی تھیں، شایئد انسان کی یاداشت کا تعلق اس کی روح کے ساتھ ہو " لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے (اسرائیل-85)"

دوسری بات کہ کیا "عذاب جہنم تھوڑی دیر کے لئے ختم کردیا گیا" تو بھائی آپ بتائیں، قرآن میں کافروں کے لئے کہا گیا کہ جھنم میں "خلدین فیہ ابدا" ہمیشہ اس میں رہینگے، تو کیا قیامت کے دن ان کا عذاب تھوڑی دیر کے لیئے ختم کر دیا جایے گا؟؟؟

بھائی یہ عالم غیب ہے، ہمارے علم سے باہر کہ باتیں ہیں، اس پر آپ کا وہی جملہ آپ کو صراط المستقیم پر لے آیئے گا کہ "
یہ الله ہی جانتا ہے"

جزاک اللہ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اگر ممکن ہو تو اس تھریڈ کا مطالعہ بھی فرما لیں شائد کچھ باتیں سمجھ میں آ جائیں۔

والسلام
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک بات بہ ہر حال ثابت ہو گئی کہ آپ بدعتی ہیں
بہت خوب حافظ صاحب

ویسے حافظ صاحب!
آپ کے الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپ کے الفاظ
‘‘آپ بدعتی ہیں’’۔
کم از کم اس مسئلے میں آپ کے ‘‘علم قطعی’’ پر دال ہیں۔

سادہ سے لفظوں میں آپ نے پکا فتوی لگا دیا ہے،
حالانکہ
موصوف کی زندگی ابھی باقی ہے۔ اور توبہ کا دروازہ بھی کھلا ہوا ہے۔

حیرانگی ہے کہ
جسے سجدہ کیا جارہا تھا، اور وہ سجدہ کرنے والے کو تھپکیاں بھی دے رہا تھا، اُس کے متعلق راقم الحروف کے ‘‘ظاہر الپادری’’ کے الفاظ نے آپ کے اندر ایک ہلچل پیدا کر دی اور جا بجا فورم کی زینت بنتی چلی گئی۔
http://forum.mohaddis.com/threads/عید-انصاف-قربانی-انصاف.25314/page-4#post-204536
 
Top