محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام و علیکم -آپ نے دامانوی صاحب کی کتاب کو جو عینک لگا کے پڑھا ہے صاف ظاہر ہو رہا ہے، آپ نے جو فرمایا کہ:
"
جب انسان کے جسم میں روح موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا عذاب یا راحت کو محسوس کرنا کیا معنی رکھتا ہے"
اور اللہ فرماتا ہے کہ :
"اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ زمر- 42)
"اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے، پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے انہیں تو روک لیتا ہے "
بھائی روح تو نیند میں بھی جسم میں نہیں ہوتی، کیا کہیں گے؟ سوتے ہوئے کبھی کچھ محسوس ہوتا ہے کے نہیں؟
ان سوالوں کا جواب ؟ امید ہے جلد۔ جزاک اللہ۔
محترم عثمان صاحب -
عقیدہ عدود روح کے معاملے میں باطل نظریات کی ترویج قرانی آیات کو بغیر سمجھ کر پڑھنے کی بنا پر ہوئی ہے - قرآن میں ہے کہ :
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ سوره الزمر ٤٢
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں-
التوفّي سے مرا د قبض کرنا ہے کہ الله سب کی روحیں قبضے میں لیتا ہے نیند کے وقت اگر بعض نفس کی عمر پوری ہو گئی ہے تو روحوں کو پکڑ کے رکھتا ہے نیند میں – اور اگر عمر کا کچھ حصہ باقی ہے تو روحوں کو واپس کرتا ہے
الله تعالیٰ نفس یا روح کو قبضے میں لیتا ہے چاہے بندہ نیند میں ہو یا مردہ - نیند کا تعلق موت سے اتنا ہے کہ قبض نفس کے نتیجے میں کچھ جسمانی کیفیت مشترک ہے جسے سونے والے کا شعور جاگنے والی کیفیت سے علیحدہ ہے - یہ بات ذہن میں رہے کہ قبض اور اخراج میں فرق ہے – حالت نیند میں صرف توفی یا قبض نفس ہوتا ہے نہ کہ اخراج – اس کے بر عکس موت میں جسد سے اخراج نفس بھی ہوتا ہے-یہی وجہ ہے کہ الله تعالیٰ نے قرآن میں واضح کر دیا کہ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ کہ زندہ اور مردہ برابر نہیں – یہی اصل مسلمہ بات ہے-
اس اصول کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی بنا پر ہی عقیدہ حاملین عود روح اس بات کا بڑے زور و شور سے پرچار کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد مردہ اجسام پر گزرنے والے واقعیات کا ہم ادرک نہیں رکھتے - بلکل ایسے ہہی جیسے نیند میں روح قبض ہونے کی صورت میں انسان زندہ ہی رہتا ہے لیکن خواب میں جو کچھ دیکھتا ہے اس کا زندہ انسان ادراک نہیں کر سکتا -
جب کہ الله واضح فرما رہا ہے کہ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ ہ زندہ اور مردہ برابر نہیں -
یعنی نہ سنتے ہیں - نہ بولتے ہیں (سوره فاطر ٢٢ )- نہ ہی کسی چیز کا ادراک رکھتے ہیں - نہ ہی اپنے عزیز و اقارب کو پہچانتے ہیں- (سوره یٰسین ٢٦ -سوره النحل ٢١)-