• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بسم اللہ الرحمن الرحیم


قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب القبر حق

نام کتاب : عذاب قبرکی حقیقت
تألیف : ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی
مقدمہ : الاستاذ ابوطاہر حافظ زبیر علی زئیd
اشاعت سوم : رجب ۱۴۳۰ھ بمطابق جولائی ۲۰۰۹ء


الناشر
مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمر فاروق w
بلاک نمبر ۳۸ کیماڑی کراچی پوسٹ کوڈ۷۵۶۲۰

فہرست​
نمبر شمار
مضامین
صفحہ نمبر
1 ابتدائیہ
2 مقدمہ از الاستاذ حافظ زبیر علی زئی۔ 9
3 تکفیری فرقوں کی حقیقت۔ 13
4 باطل فرقوں کی ریشہ دوانیاں۔ 17
5 تکفیری فرقہ خوارج کے خدوخال۔ 19
6 تکفیری جماعتیں ہر دور میں پیدا ہوتی رہیں گی۔ 22
7 باطل فرقے مدینہ منورہ کے مشرق کی طرف سے نکلتے رہیں گے۔ 23
8 گمراہ کرنے والے امام۔ 25
9 بیعت کی بدعت۔ 29
10 حدیث رسول e پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے۔ 31
11 کیا صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے؟۔ 35
12 اختلافات کے حل کا قرآنی اصول۔ 39
13 عذاب قبر کیا ہے؟ عذاب قبر کی حقیقت۔ 44
14 عذاب قبر کا تذکرہ قرآن مجید میں۔ 47
15 عذاب قبر کا ذکر احادیث نبویہ میں۔ 55
16 حدیث قرع نعال میں ڈاکٹر عثمانی کی تحریف۔ 60
17 ایک خاص نکتہ کی وضاحت۔ 71
18 دوسرا اہم نکتہ۔ 73
19 قبر کسے کہتے ہیں؟ 78
20 امام بخاری a کے نزدیک قبر کی تعریف 82
21 ایک زبردست دلیل۔ 90
22 عذاب القبر مرکب اضافی ہے۔ 91
23 برزخ کیا ہے؟ 92
24 برزخی قبر کا تصور کہاں سے آیا؟ 94
25 دو زندگیاں اور دو موتیں۔ 95
26 ڈاکٹر عثمانی تیسری زندگی کے قائل تھے۔ 96
27 اللہ کے قانون میں تبدیلی۔ 100
28 تین زندگیاں یا بے شمار زندگیاں۔ 102
29 مرزا قادیانی اور ڈاکٹر عثمانی کے عقیدہ میں مماثلت۔ 103
30 برزخی جسم کی حقیقت۔ 105
31 الجواب بعون الوہاب۔ 111
32 عذاب قبر کی کیفیت۔ 122
33 ڈاکٹر موصوف کا سفید جھوٹ۔ 122
34 تناسخ کیا ہے؟ 124
35 حافظ ابن حزم a کا فتویٰ۔ 125
36 موت سے روح اور جسم کے درمیان جدائی واقع ہو جاتی ہے۔ 126
37 موت کا مطلب۔ 127
38 دو زندگیاں اور دو موتیں۔ 128
39 روح کے جسم میں باربار لوٹائے جانے سے یعنی اعادئہ روح سے نئی زندگی ثابت نہیں ہوتی۔ 129
40 روح کے اخراج کے بعد انسان میت قرار پاتا ہے۔ 132
41 صحیح بخاری میں کتاب الجنائز کے میت والے ابواب۔ 133
42 مؤمن کی روح جنت میں اور کافر کی روح جہنم میںہوتی ہے۔ 135
43 عقیدئہ عذاب القبر پر اعتراضات۔ 139
44 میت کو بغیر روح کے عذاب کیسے ممکن ہے؟ 144
45 عذاب القبر کو سمجھنے کے لئے دو عمدہ مثالیں۔ 145
46 چند مزید مثالیں۔ 148
47 خاکستر شدہ انسان کا معاملہ یا جسے کوئی جانور کھا جائے۔ 151
48 تین زندگیاں اور تین موتیں۔ 163
49 ایک زبردست مغالطہ۔ 154
50 حدیث عائشہ پر تحقیق مزید 157
51 برزخی قبر کس کے لئے؟ 159
52 اعادئہ روح کا مسئلہ۔ 159
53 قبرکی زندگی نیند سے مشابہ ہے۔ 162
54 عثمانی فرقے کا طریقہ استدلال۔ 163
55 دینی معاملات میںعقل کو معیار بنانا درست نہیں ہے۔ 164
56 عقیدہ عذاب القبر سے عقیدئہ توحید کو نقصان۔ 165
57 قہر رحمانی بر فرقہ عثمانی۔ 167
58 عقیدئہ عذاب القبر اور منکرین حدیث۔ 168
59 عذاب قبر مرنے کے بعد اور قیامت قائم ہونے سے پہلے تک ہوتا ہے 170
60 یوم الست میں ذریت آدم کے جسموں کا مسئلہ۔ 173
61 درمیانی زندگی کا تصور؟174
62 کیا آخرت کے معاملات دُنیا کی طرح ہیں؟ 176
63 دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نافرمان قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ 178
64 احادیث رسول کے متعلق موصوف کے خود ساختہ اصول۔ 180
65 کیا مشرکوں کی قبریں انسان؟ 182
66 مختصر مختصر۔ 185
67 شجرہ خبیثہ 187
68 چیلنج۔ 190
69 مناظرہ 191
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابتدائیہ

الحمد ﷲ! عقیدہ عذاب القبر پر راقم نے ’’الدین الخالص‘‘ کے نام سے جو پہلی قسط اور دوسری قسط اور دیگر مضامین تحریر کئے تھے، انہیں عوام و خواص نے بے حد پسند کیا۔ لیکن یہ کتابیں ضخیم ہونے کی بناء پر عام لوگوں کی دسترس سے باہر تھیں لہٰذا کچھ دوستوں کے مشورہ سے میں نے ان مضامین کا اختصار پیش کر دیا اور یہ مختصر کتاب پہلی مرتبہ جنوری 1997ء میں شائع ہوئی اور دوسری مرتبہ نومبر 2000ء میں۔ پھر میں نے جب ان مضامین میں تحقیق مزید کی تو ایک انتہائی اہم اور مفید مضمون تیار ہو گیا اور کتاب کے آخر میں بعض اہم سوالوں کے جوابات بھی تحریر کئے گئے ہیں۔ اس مضمون میں سے ایک اہم مضمون ’’دو زندگیوں کا منکر کون؟ امام احمد بن حنبل a یا ڈاکٹر عثمانی‘‘ کے عنوان سے الگ شائع کر دیا گیا ہے اور اسے مفت تقسیم کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مضمون میں بعض انتہائی اہم باتوں کو ذکر کیا گیا تاکہ عوام الناس زیادہ سے زیادہ ان حقائق کو سمجھ سکیں اور عقل و فلسفہ اور اپنی ذہنی اختراعات کی وجہ سے ڈاکٹر عثمانی قرآن و حدیث سے جو بہت دُور جا چکے ہیں اس کی اصل وجہ بھی لوگوں کی سمجھ میں آ سکے۔ نیز لوگ اس فتنہ سے دور رہ کر اپنے عقیدہ کو قرآن و حدیث کے مطابق ڈھال سکیں۔

علاوہ ازیں کچھ منکرین حدیث نے قیامت سے پہلے عذاب قبر یا کسی بھی کسی قسم کے عذاب کو تسلیم کرنے سے کلی طور پر انکار کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں اب انہوں نے احادیث کے انکار کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی آیات کا بھی واضح طور پر انکار کیا ہے۔ اور اپنی ذہنی اختراعات کو انہوں نے قرآن فہمی قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عذاب قبر کے نام سے ایک کتابچہ مجلس احباب کراچی نے شائع کیا ہے جس پر خیر خواہ بھائی کا تعاون بھی موجود ہے۔ یہ کتابچہ کسی محمد عاقل کا تحریر کردہ ہے، جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ عذاب قبر کا اس نے قرآن و حدیث سے مکمل جائزہ لیا ہے چنانچہ اس کے استدلال کا بھی دلائل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اور اسکے دلائل کی خامیوں اور تحریفات کو اچھی طرح واضح کیا گیا ہے۔

اس مضمون میں جو خیر و خوبی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے اور اسی کا فضل و کرم ہے اور جو خامی اور کمی ہے وہ مجھ ناچیز کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ میری اس حقیر کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر اسے میری مغفرت کا ذریعہ بنا دے اور اس کتاب کو منکرین حدیث، منکرین عذاب قبر اور بھٹکے ہوئے انسانوں کے لئے مشعل راہ بنا دے۔ آمین یارب العالمین۔

کتبہ ابوجابر عبداللہ دامانوی
۱۰۔ رمضان المبارک ۱۴۲۷ھ​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مقدمہ​
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ​

گمراہوں اور باطل پرستوں کی ایک جماعت مثلاً ضرار بن عمرو، یحییٰ بن کامل اور بشر بن غیاث المریسی وغیرھم نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے جبکہ یہ عقیدہ صحیح اور متواتر احادیث سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔

جناب ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’شرح العقیدۃ الطحاویہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

وقد تواترت الاخبار عن رسول اللّٰہ e فی ثبوت عذاب القبر و نعیمۃ لمن کان لذلک اھلا و سؤال الملکین فیجب اعتقاد ثبوت ذلک والایمان بہ ولا نتکلم فی کیفیتہ اذ لیس للعقل وقوف علی کیفیتہ لکونہ لا عھد لہ بہ فی ھذا الدار والشرع لا یأتی بما تحیلہ العقول ولکنہ قد یأتی بما تحارفیہ العقول فان عود الروح الی الجسد لیس علی الوجہ المعھود فی الدنیا بل تعاد الروح الیہ اعادۃ غیر الاعاۃ المالوفۃ فی الدنیا

اور تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب القبر اور نعیم القبر اور قبر میں فرشتوں کے سوال کے متعلق تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں اس شخص کے لئے جو اس کا مستحق ہو، ان پر اعتقاد رکھنا اور ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ البتہ ان کی کیفیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہیں گے اس لئے کہ عقل ان کی کیفیت معلوم کرنے سے قاصر ہے اور اس جہان میں اس کا علم ممکن نہیں نیز شریعت ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرتی جس کو عقلیں محال سمجھتی ہیں البتہ ایسی باتوں کا ذکر کرتی ہے جس میں عقلیں حیران ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ روح کا جسم میں واپس آنا اس طرح کا نہیں ہے جس طرح دنیا میں معروف ہے بلکہ روح کا اعادہ اس کے خلاف ہے جو دنیا میں معلوم ہے …۔ (ص:۴۵۰، ۴۵۱)۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وقال حنبل قلت لابی عبداللّٰہ فی عذاب القبر فقال ھذہ احادیث صحاح نؤمن بھا و نقر بھا کلما جاء عن النبی e اسناد جید اقررنا بہ اذا لم نقر بما جاء بہ رسول اللّٰہ e و دفعنا و رددنا علی اللّٰہ امرہ قال اللّٰہ تعالیٰ و ما اتاکم الرسول فخذوہ قلت لہ و عذاب القبر حق؟ قال حق یعذبون فی القبور قال و سمعت ابا عبداللّٰہ یقول: نؤمن بعذاب القبر و بمنکر و نکیر وان العبد یسأل فی قبرہ ’’یثبت اللّٰہ الذین امنو بالقول الثابت فی الحیاۃ الدنیا و فی الآخرۃ‘‘ فی القبر

اور امام حنبل (بن اسحاق بن حنبل شیبانی) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ (احمد بن حنبل رحمہ اللہ ) سے عذاب القبر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: عذاب القبر کے بارے میں احادیث صحیحہ موجود ہیں جن پر ہمارا ایمان ہے اور جن پر ہم ثابت قدم ہیں جب بھی نبی e سے اسناد جید کے ساتھ احادیث ہم تک پہنچیں گی ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم ایسی احادیث کو بھی ٹھکرا دیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ٹھکرا دیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ’’رسول e تمہیں جو کچھ دے اسے لے لو‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ کیا عذاب القبر حق ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں حق ہے وہ قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں اور میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ! ’’ہم عذاب القبر پر اور منکر نکیر پر ایمان رکھتے ہیں اور اس بات پر بھی کہ بندہ سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے اور آیت یثبت اللّٰہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیاۃ الدنیا و فی الآخرۃ (اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے) قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے‘‘۔ (کتاب الروح ص:۸۰)
حافظ ربانی ابن حجر عسقلانی a نے تمام اھل السنۃ سے عذاب القبر کا اثبات نقل کیا ہے۔ (فتح الباری ج۳ ص:۱۸۰)۔

اور صاحب شرح العقیدۃ للطحاویہ لکھتے ہیں:

و ذھب الی موجب ھذا الحدیث جمیع اھل السنۃ و الحدیث و لہ شواھد من الصحیح
’’تمام اہل سنت اور اہل الحدیث اس حدیث کے قائل ہیں اور اس حدیث کے صحیح شواہد بھی موجود ہیں‘‘۔ (ص۳۴۷، بتحقیق احمد شاکر طبع مکتبۃ الریاض الحدیثہ بالریاض)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے یں:

اعلم ان مذھب اھل السنۃ اثبات عذاب القبر و قد تظاھرت علیہ دلائل الکتاب و السنۃ قال اللّٰہ تعالیٰ: النار یعرضون علیھا غدوا و عشیا الآیۃ و تظاھرت بہ الاحادیث الصحیحۃ عن النبی e من روایۃ جماعۃ من الصحابۃ فی مواطن کثیرۃ ولا یمتنع فی العقل ان یعید اللّٰہ تعالیٰ الحیاۃ فی جزء من الجسد و یعذبہ و اذا لم یمنعنا لعقل و ورد الشرع بہ وجب قبولہ و اعتقادہ
’’جان لے کہ اہل السنۃ کا مذہب یہ ہے کہ قبر کا عذاب حق ہے اور اس پر کتاب و سنت کے واضح دلائل موجود ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آگ ہے کہ جس پر وہ (فرعونی) صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں‘‘ … اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب القبر کے سلسلہ میں بہت سی احادیث صحیحہ موجود ہیں جنہیں صحابہ کرام y کی ایک جماعت نے بہت سے موقعوں پر بیان کیا ہے اور عقل بھی اس بات کو محال نہیں جانتی کہ اللہ تعالیٰ جسم کے کسی جزء میں زندگی لوٹا دے اور اس کو سزا دے اور جب عقل بھی اس کو ممتنع نہیں سمجھتی اور شرع میں بھی اس کا ثبوت موجود ہے تو اس کو قبول کرنا اور اس پر اعتقاد رکھنا واجب ہے…‘‘۔

اس مختصر تمہید سے معلوم ہوا کہ عذاب القبر کا عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اور اس کا انکار اہلسنّت سے خارج گمراہ لوگوں نے کیا ہے جبکہ اس کا ثبوت متواتر احادیث سے ملتا ہے۔ مثلاً دیکھئے: لقط اللآئی المتناثرۃ فی الاحادیث المتواترۃ للزبیدی ص ۲۱۳ تا ۲۱۶۔ نظم المتناثر من الحدیث المتواتر الکتانی ص ۱۳۲ وغیرھما۔

زبیر بن مجدد علی زئی
حضرو۔ مدرسۃ اھل الحدیث
ضلع اٹک
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تکفیری فرقوں کی حقیقت​

موجودہ دور میں تکفیری فرقوں کی کثرت ہوتی جارہی ہے، ان فرقوں کی حقیقت جاننے کے لئے قرآن و حدیث کا مطالعہ بے حد ضروری ہے، چنانچہ اس سلسلہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بادروا بالاعمال فتنا کقطع اللیل المظلم یصبح الرجل مؤمنا و یمسی کافرااویمسی مومناویصبح کافریبیع دینہ بعرض من الدنیا

(نیک) اعمال میں جلدی کرو ان فتنوں کے پیش آنے سے پہلے جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے (کہ اس وقت) آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اُٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہوجائے گا۔ کیونکہ وہ اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کی خاطر بیچ ڈالے گا۔ (مسلم ترقیم دارالسلام ح۳۱۳ کتاب الایمان، الترمذی ح۲۱۹۵، مسند احمد۲/۳۰۴، ۵۲۳، مشکوٰۃ المصابیح ح۵۸۸۳، ابوعوانہ۔۱/۵۰)۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فتنوں کے دور میں ایمان کو بچانا اور اسے محفوظ رکھنا ایک مشکل کام ہو گا۔ کیونکہ ایسے فتنے سرگرم عمل ہو جائیں گے جو اَھوَاء (نفسانی خواہشات) کے تابع ہوں گے اور اہواء کے مطابق قرآن و حدیث کا مطلب بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں عقل اور فلسفہ کا سہارا بھی لیں گے اور اس طرح وہ باطل فرقوں کی بھرپور ترجمانی کریں گے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی اُمت کے تہتر فرقوں کا ذکر فرمایا جن میں بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، اور وہ جنتی (فرقہ) الجماعۃ (اہل حق کی جماعت) ہو گی، اس حدیث کے بعض الفاظ یہ ہیں:

وانہ سیخرج فی امتی اقوام تجاری بھم تلک الاھواء کما یتجاری الکلب لصاحبہ و قال عمرو الکلب بصاحبہ لا یبقی منہ عرق ولا مفصل الا دخلہ
میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن میں اہواء (نفسانی خواہشات کی پیروی) ایسے سما جائے گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹنے سے ہڑک کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے (اس حدیث کے راوی) عمرو بن عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہڑک کی بیماری انسان کی ہر رَگ اور جوڑ میں سما جاتی ہے یعنی کوئی رگ اور جوڑ اس سے محفوظ نہیں رہتا۔ (ابوداؤد کتاب السنۃ ح۴۵۹۷، الصحیحہ ح۲۰۴، المستدرک ۱/۱۲۸، مسند احمد ۴/۱۰۲، الدارمی ۲/۲۴۱۔ و قال الحافظ زبیر علی زئی: اسنادہ حسن (نیل المقصود ح:۴۵۹۷)۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اس اُمت میں ایسی جماعتیں اور فرقے پیدا ہو جائیں گے جو اہواء (نفسانی خواہشات) کے غلام ہوں گے اور یہ خواہشات ان کے رگ و پے میں اس طرح داخل ہو جائیں گے جیسے ہڑک کی بیماری انسان کے رَگ و ریشہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ قرآن و حدیث کے وہ معنی و مطالب بیان کریں گے جن کا تقاضا ان کی نفسانی خواہشات کریں گی، اسی طرح یہ فرقے قرآن و حدیث کے معنی و مطالب کو بگاڑ دیں گے اور اصل دین سے دُور ہو جائیں گے اور لوگوں کو باور کروائیں گے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بس وہی قرآن و حدیث ہے اور جو لوگ ان کی آراء سے اختلاف کریں گے انہیں وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج (یا فاسق و فاجر) قرار دیں گے۔

ماضی میں اس کی مثالیں خوارج، روافض،جہمیہ، جبریہ، قدریہ، مشبہہ، معطلہ وغیرہ باطل فرقے ہیں اور موجودہ دَور میں بہت سی جماعتیں اسی مشن پر رواں دواں ہیں، مثال کے طور پر منکرین حدیث کے مختلف فرقے، منکرین عذابِ قبر، عثمانی برزخی فرقہ، جماعت المسلمین رجسٹرڈ اور اہل خلافت وغیرہ، یہ فرقے بھی قرآن و حدیث میں تحریف کر رہے ہیں اور ان کے خود ساختہ معنی و مطالب بیان کرتے ہیں اور نفسانی خواہشات کے بُری طرح غلام بن چکے ہیں۔ نفسانی خواہشات کے متعلق قرآن کریم کی بعض آیات ملاحظہ فرمائیں:

اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِٰلھَہٗ ھَوٰہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ
پھر کیا تم نے اس شخص (کا حال بھی) دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا اور اللہ نے، علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب کون اسے ہدایت دے گا؟ کیا تم لوگ کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتے؟؟۔ (الجاثیۃ:۲۳)۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی خواہشاتِ نفس کا پیروکار بن جائے تو وہ علم کے باوجود گمراہ ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے کانوں اور دِل پر مہر لگا دے گا اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دے گا۔ ایسے شخص کو اللہ کے سوا اب کون ہدایت دے سکتا ہے؟ خواہشات نفس کو الٰہ بنا کر جہاں یہ شخص گمراہ ہوا ہے وہاں یہ مشرک بھی بن گیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

اَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُ وَ لَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (الشوری:۲۱)
کیا ان کے لئے دوسرے ایسے شریک بھی ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں سے وہ کچھ مقرر کیا ہے کہ جس کا اللہ نے انہیں حکم نہیں دیا؟

وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَھُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ (البقرۃ:۱۴۵)
اور اگر تم نے اس ’’العلم‘‘ کے بعد بھی جو تمہارے پاس آچکا ہے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو تب تمہارا شمار یقینا ظالموں میں ہو گا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ آپ صرف اس ’’العلم‘‘ یعنی قرآن و حدیث کی پیروی کریں جو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ان لوگوں کی نفسانی خواہشات پر عمل کیا تو اس وقت آپ کا شمار بھی ظالموںمیں سے ہو گا۔ گویا پوری اُمت کو آگاہ کر دیا گیا کہ قرآن و حدیث کی پیروی ضروری ہے اور نفسانی خواہشات سے دُور رہنا بھی از حد ضروری ہے۔ نیز ملاحظہ فرمائیں البقرۃ:۱۲۰، الرعد:۳۷۔

وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَآئَھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْھِنَّ بَلْ اَتَیْنٰھُمْا بِذِکْرِھِمْ فَھُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُّعْرِضُوْنَ (المؤمنون:۷۱)
اوراگر حق ہی ان کی خواہشات کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز درہم برہم ہو جائے حق تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں۔

سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ (المتوفی ۸۳ھ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ستفترق اُمتی علی بضع و سبعین فرقۃ اعظمھا فرقۃ قوم یقیسون الامور برأیھم فیحرمون الحلال و یحللون الحرام
میری اُمت ستر سے کچھ اُوپر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سب سے زیادہ افتراق کرنے والی وہ قوم ہو گی جو (دینی) اُمور میں اپنے رائے کو داخل کرے گی پس حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دے گی۔

(المستدرک ۴/۴۳۰، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۸/۵۱، وقال حمدی عبدالمجید السلفی: ومن طریقہ رواہ الخطیب فی الفقیہ والمتفقہ ۱/۱۷۹،۱۸۰، ورواہ الخطیب ایضاً فی تاریخ بغداد۱۳/ ۳۰۷۔۳۱۱، من طرق متعددۃ و رواہ البیھقی فی المدخل ح ۳۵۳۴ و ابن عبدالبر فی جامع بیان العلم ۲/۱۶۳، و ابن حزم فی الرسالۃ الکبری فی ابطال القیاس والبزار ۱۷۲ کشف الاستار و قال فی المجمع ۱/۱۷۹: ’’ورجالہ رجال الصحیح‘‘ و رواہ الحاکم ۴/۴۳۰، ح:۸۳۳۵ و صححہ علی شرط الشیخین (حاشیہ المعجم الکبیر للطبرانی ۱۸/۵۰) (وھو حدیث حسن)۔

اور ان پر رسول اللہ ﷺ کا یہ اِرشاد بھی بالکل صادق آتا ہے:

عن عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول ان اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد و لکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوسًا جھالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلو و اضلوا
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اُٹھائے گا کہ لوگوں کے دل و دماغ سے اس کو نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اُٹھائے گا کہ علما (حق) کو اٹھا لے گا حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے اور ان سے دین کی باتیں پوچھیں گے اور وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ (بخاری:۱۰۰، مسلم:۲۶۷۳ و ترقیم دارالسلام:۶۷۹۶)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باطل فرقوں کی ریشہ دوانیاں​

اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ کو دین حق دے کر مبعوث فرمایا تاکہ اس دین حق یعنی اسلام کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَ یَاْبَی اللّٰہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَ لَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ کو یہ بات منظور نہیں وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی بری لگے۔ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کر دے خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔ (التوبہ:۳۲،۳۳)

نیز ملاحظہ فرمائیں: الصف:۸، ۹۔ الفتح: ۲۸۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین، اسلام کے نور کو بجھانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن وہ اللہ کے دین کو کبھی مٹا نہیں سکتے کیونکہ یہ دین دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے مغلوب ہونے کے لئے نہیں۔

کفار و مشرکین کے علاوہ ایک تیسرا گروہ جسے منافقین کہا جاتا ہے اور جنہوں نے مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے اسلام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کر رکھا ہے، اس نے بھی اسلام کو نقصان پہنچانے اور مٹانے کے لئے خفیہ پروگرام مرتب کئے اور اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، منافقین نے ہمیشہ آستین کے سانپ کا کردار ادا کیا۔ اور انہوں نے اسلام کو کفار و مشرکین سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا۔ اور اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات تک کو بدلنے کی مکروہ کوششیں کیں اور اسلام کے خلاف ایسی سازشیں کیں کہ جس کی وجہ سے لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا گیا۔ اور ایسی ایسی باتیں مشہور کی گئیں جس کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہ تھا۔ مثلاً یہ کہ خلافت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی خلافت کی وصیت فرما دی تھی اور آپ وصئ رسول تھے۔ اور صحابہ کرام ] نے ان سے خلافت چھین لی تھی اور اسی طرح یہ بات کہ ’’تمام صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔ (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ سوائے تین صحابہ کرام کے‘‘ اور ظاہر بات ہے کہ جب صحابہ کرام ] ہی مسلمان نہ رہے تو پھر ان کا پیش کردہ قرآن و حدیث کب درست اور حق ہو سکتا ہے؟ اس طرح ان منافقین نے شجر اسلام کی جڑیں کاٹنے کی بھر پور کوشش کی۔ اس فرقہ کے علاوہ ایک دوسرا فرقہ بھی معرض وجود میں آیا جسے خوارج کہا جاتا ہے۔ اس فرقہ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور قرآن کریم کو ماننے کا زبردست دعویٰ کیا لیکن احادیث رسول ﷺ کا انکار کر دیا۔ اور توحید کا تو ایسا زبردست نعرہ لگایا کہ انہیں اپنے خودساختہ نظریات کے علاوہ ہر چیز شرک نظر آنے لگی اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (حکم صرف اللہ کا چلے گا) کا نعرہ بلند کر کے انہوں نے صحابہ کرام ] جیسی مقدس ہستیوں کو بھی کافر قرار دے ڈالا اور بالخصوص سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو کھلم کھلا کافر کہا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے اس نعرے کے متعلق فرمایا تھا: ’’کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِھَا بَاطِلٍ‘‘ (یہ) کلمہ ہے لیکن ان کا ارادہ اس سے باطل ہے۔ (مسلم:۱۵۷/۱۰۶۶ و ترقیم دارالسلام:۲۴۶۸) یعنی انہوں نے اس کا مفہوم غلط اخذ کر لیا ہے اور اسی غلط مفہوم کو وہ دوسروں پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تکفیری فرقہ خوارج کے خدوخال​

اس تکفیری فرقہ کے متعلق نبی ﷺ نے یہ پیشن گوئی فرمائی تھی:

(۱) سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

یخرج قوم من امتی یقرء ون القرآن لیس قراء تکم الی قراء تھم بشئ و لا صلوتکم الی صلوتھم بشئ و لا صیامکم الی صیامھم بشیئٍ یقرؤن القرآن یحسبون انہ لھم وھو علیھم لا تجاوز صلوتھم تراقیھم یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ
میری اُمت سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے ایسا کہ تمہارا قرآن پڑھنا ان کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہ رکھے گا اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے میں کچھ اہمیت رکھے گی اور نہ تمہارے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں کچھ حیثیت رکھیں گے وہ قرآن پڑھ کر یہ سمجھیں گے کہ قرآن ان کے لئے حجت ہے جبکہ قرآن انکے خلاف حجت ہو گا۔ ان کی نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانے میں سے نکل جاتا ہے۔ (مسلم:۱۵۶/۱۰۶۶ ور ترقیم دارالسلام:۲۴۶۷)

(۲) صحیح بخاری کی ایک روایت میں سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

’’ عنقریب ایک قوم نکلے گی اور تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر سمجھو گے اور تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے، وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح بالکل نکل جائیں گے جیسے زوردار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی اور تیر کے دیگر حصوں میں بھی کچھ نظر نہ آئے گا۔ بالکل اسی طرح ان لوگوں پر بھی دین کی کوئی علامت موجود نہ ہو گی‘‘۔ (صحیح بخاری:۳۶۱۰)

(۳) ایک اور روایت میں ہے کہ ’’وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اور اگر میں ان کو پالوں تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا‘‘ (صحیح بخاری:۳۳۴۴)

(۴) سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
’’وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار میں سے نکل جاتا ہے‘‘۔

ثم لا یعودون فیہ و ھم شر الخلق والخلیقۃ
اور پھر وہ دین میں واپس پلٹ کر نہیں آئیں گے اور وہ ساری مخلوق سے بدتر ہوں گے۔ (مسلم:۱۰۶۷، دارالسلام ۲۴۶۹، ابن ماجہ:۱۷۰)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۵) سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اِرشاد فرماتے ہوئے سنا:

سیخرج قوم فی آخر الزمان احداث الأسنان سفھاء الاحلام یقولون من خیر قول البریۃ لا یجاوز ایمانھم حناجرھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ فأینما لقیتموھم فاقتلوھم فان فی قتلھم اجرا لمن قتلھم یوم القیامۃ
آخری زمانے میں ایسے لوگ نکلیں گے جو نو عمر، کم عقل (جاہل، بے وقوف) ہوں گے، بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے (لوگوں کی خیر خواہی و بہتری کی بات کہیں گے) لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانے سے نکل جاتا ہے۔ تم ان کو جہاں بھی پاؤ قتل کر ڈالو بے شک ان کے قتل کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن اجر ہے۔
(صحیح بخاری کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم باب۶، قتل الخوارج والملحدین ح۶۹۳۰، کتاب المناقب باب۲۵، علامات النبوۃ ح۳۶۱۱، صحیح مسلم ح۱۰۶۶، دارالسلام:۲۴۶۲، مشکوٰۃ المصابیح ح۳۵۳۵)۔

سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی یہ الفاظ ہیں:

یخرج فی آخر الزمان قوم کأن ھذا منھم
آخری زمانہ میں ایک قوم نکلے گی گویا کہ یہ اسی میں سے ہے (جس نے نبی ﷺ پر اعتراض کیا تھا) یہ لوگ قرآن پڑھیں گے جو اِن کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ (النسائی:۴۱۰۸، و اسنادہ حسن)۔

(۶) سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:

الخوارج کلاب النار
خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ (ابن ماجہ:۱۷۳، وھو حدیث حسن)۔

اور سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی اس طرح کے الفاظ مروی ہیں۔ (الترمذی:۳۰۰۰ و سندہ حسن، ابن ماجہ:۱۷۶، المشکوٰۃ:۳۵۵۴ و قال الحافظ زبیر علی زئی: اسنادہ حسن)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تکفیری جماعتیں ہر دور میں پیدا ہوتی رہیں گی​

(۷) سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں:

لا یزالون یخرجون حتی یخرج آخرھم مع المسیح الدجال
’’یہ (خارجی، تکفیری) ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ دجال کے ساتھ نکلیں گے‘‘۔

(النسائی: ۴۱۰۸، مسند احمد ۴/۴۲۱،۴۲۵، المستدرک ۲/۱۴۸، و قال الاستاذ حافظ زبیر علی زئی: اسنادہ حسن و اخرجہ ابن ابی شیبہ ۱۰/۳۲۰، ۳۲۱، و احمد ۴/۴۲۱،۴۲۵، من حدیث حماد بن سلمۃ وھو فی السنن الکبری للنسائی ح ۳۵۶۶… و للحدیث شواھد (عمدۃ المساعی فی تخریج احادیث سنن النسائی رقم ح۴۱۰۸)۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں ان تکفیری جماعتوں کا دعویٰ کتاب اللہ کے ماننے کا ہو گا لیکن اہل اسلام کی دشمنی کی وجہ سے ان پر ایسا وقت بھی آجائے گا کہ یہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کھلم کھلا کفر (و تکفیر) کے علمبردار بن جائیں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہ باطل فرقے مدینہ کے مشرق کی طرف سے نکلتے رہیں گے​

(۸) عن سھل بن حنیف سمعت النبی ﷺ یذکر الخوارج فقال سمعتہ و اشار بیدہ نحو المشرق قوم یقرء ون القرآن بالسنتھم لا یعدو تراقیھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو خوارج کا ذکر فرماتے ہوئے سنا، پس آپﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا، اور آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا: (یعنی مشرق سے) ایک قوم نکلے گی جو اپنی زبانوں سے قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار میں سے ہو کر نکل جاتا ہے۔ (مسلم:۱۰۴۸، و ترقیم دارالسلام:۲۴۷۰)۔

(۹) صحیح بخاری و مسلم میں روایت ہے:

عن سالم عن ابیہ عن النبی ﷺ انہ قام الی جنب المنبر فقال الفتنۃ ھھنا الفتنۃ ھھنا من حیث یطلع قرن الشیطان او قال قرن الشمس
(صحیح بخاری:۷۰۹۲، مسلم:۴۷/۲۹۰۵ و ترقیم دارالسلام:۷۲۹۴، کتاب الفتن)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ منبر کے ایک طرف کھڑے ہوئے اور فرمایا: فتنہ اس طرف (ادھر) ہے فتنہ اس طرف سے ہے جدھر شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے یا ’’سورج کا سینگ‘‘ فرمایا:
شیطان طلوع اور غروب کے وقت اپنا سر سورج کے پاس رکھ دیتا ہے تاکہ سورج پرستوں کا سجدہ شیطان کے لئے ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ مشرق کی طرف رُخ کئے ہوئے تھے۔ (بخاری:۷۰۹۳)۔ اور ایک روایت میں ہے: فتنہ اس طرف سے آئے گا اور آپ ﷺ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا: جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔ (مسلم:۵۰/۲۹۰۵، وترقیم دارالسلام:۷۲۹۷)۔
 
Top