• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مدینۃ النبی (ﷺ) سے مشرق کی طرف عراق، ایران، پاکستان و ہندوستان وغیرہ کے علاقے ہیں، عراق سے خوارج، روافض وغیرہ کے فتنے برآمد ہوئے، اسی طرح تاتاریوں کا فتنہ بھی مشرق سے نکلا، اور اس طرح کے مزید فتنے مشرق کی طرف سے برابر نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ دجال کا فتنہ اور یاجوج ماجوج کا فتنہ بھی یہیں سے برآمد ہو گا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے پندرہویں صدی میں عثمانی برزخی اور جماعت المسلمین کے تکفیری فتنے یہیں پاکستان سے برآمد ہوئے اور عثمانی برزخی فرقے سے مزید منکرین حدیث کے فرقے نکل رہے ہیں جو کھلم کھلا احادیث اور اسلامی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں اور ان عقائد کی باقاعدہ تبلیغ کر رہے ہیں۔

(۱۰) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نجد میں بھی؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نجد میں؟ (صحابی فرماتے ہیں) میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں (نجد میں) زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ (دجال) طلوع ہو گا۔ (بخاری:۷۰۹۴)

علامہ عینی حنفی شرح صحیح بخاری میں امام خطابی سے نقل کرتے ہیں کہ:

نجد من جھۃ المشرق، و من کان بالمدینۃ کان نجدہ بادیۃ العراق و نواحیھا و ھی مشرق أھل المدینۃ و أصل نجد ما ارتفع من الارض
نجد سے مراد مشرق کی طرف والا نجد ہے، جو آدمی مدینہ میں ہو تو اس کے لئے عراق اور اس کے ارد گرد کا علاقہ نجد ہے وہی مدینہ والوں کا مشرق ہے۔ اصل میں نجد اس زمین کو کہتے ہیں جو بلند ہو۔ (عمدۃ القاری۲۴/۲۰۰ ح۷۰۹۴)

لہٰذا اس حدیث میں نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ سے بلندی پر واقع ہے اور جیسا کہ اوپر کی احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں نجد سے حجاز کا نجد مراد نہیں ہے کیونکہ فتنوں کی سرزمین کوفہ و عراق ہے۔ اور حدیث اور تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ خارجی و تکفیری فتنوں کا مقام ولادت مشرق کے علاقے ہوں گے اور نبی ﷺ نے ان پرفتن مقامات کے لئے دعا کرنے سے بھی اجتناب فرمایا اور وضاحت فرما دی کہ ان علاقوں میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور سب سے بڑا فتنہ دجال بھی یہیں سے نکلے گا۔ دجال کا مقام ولادت ایران کا شہر خراسان ہو گا۔ (سنن ترمذی:۲۲۳۷، واسنادہ صحیح، و سنن ابن ماجہ:۴۰۷۲، المختارہ:۳۳، ۳۷۔ الصحیحہ:۱۵۹۱)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
گمراہ کرنے والے امام​

(۱۱) عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال قال رسول للّٰہ ﷺ انما اخاف علی امتی الائمۃ المضلین رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی اُمت پر خوف ہے گمراہ کرنے والے ائمہ (اماموں، پیشواؤں، راہنماؤں، قائدین) کا (کہ وہ میرے اُمتیوں کو گمراہ کریں گے) (ابوداؤد:۴۲۵۲ وللفظ لہ و سندہ صحیح۔ صحیح مسلم:۲۸۸۹)۔

عن ابی ھریرۃ یقول قال رسول اللّٰہ ﷺ یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون یأتونکم من الاحادیث بما لم تسمعوا أنتم ولا آباؤکم فإیاکم و ایاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم
رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ: آخری زمانہ میں دجال (دھوکا دینے والے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے) کذاب (جھوٹ بولنے والے، جان بوجھ کر غلط خبر دینے والے، حق و صحیح بات کو جھٹلانے والے، خلاف حقیقت بات کرنے والے) لوگ پیدا ہوں گے، وہ تمہارے پاس ایسی احادیث (نئی نئی باتیں) لائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے۔ پس تم خود کو ان سے اور ان کو اپنے سے دُور رکھنا، تاکہ نہ تو وہ تمہیں گمراہ کر سکیں اور نہ ہی کسی فتنے میں مبتلا کر سکیں۔ (صحیح مسلم: المقدمۃ باب۴، ح۱۷/۷۸)۔

یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ جیسے جیسے قیامت قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی دنیا دجل و فریب کے ماہرین اور جھوٹے لوگوں سے بھرتی چلی جائے گی اور یہ لوگ اپنی فنکارانہ مہارتوں اور پر فریب اور خوش آئند باتوں سے لوگوں کو نہ صرف فتنے میں مبتلا کریں گے بلکہ گمراہ بھی کر دیں گے اور وہ لوگوں کو باور (ظاہر) کروائیں گے کہ اگر حق و صداقت کسی چیز کا نام ہے تو وہ انہی کے پاس ہے اور وہی حقیقی مسلم ہیں اور ان کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی مسلم نہیں ہے۔

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (المتوفی۱۱۰ھ) نے اس ضمن میں بہت ہی عمدہ بات کہی، وہ فرماتے ہیں:

ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم
بے شک یہ (کتاب و سنت کا) علم، دین ہے پس جب تم اس کو حاصل کرو تو دیکھ لو کہ کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو؟ (صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام:۲۶)۔

(۱۳) سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے شر (فتنہ) کا ذکر کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:

دعاۃ علی أبواب جھنم من أجابھم إلیھا قذفوہ فیھا قلت یارسول اللّٰہ صفھم لنا قال ھم من جلدتنا و یتکلمون بألسنتنا
کچھ لوگ اس طرح گمراہی پھیلائیں گے کہ گویا وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہیں اور جو اِن کی دعوت کو قبول کرے گا اسے جہنم میں گرا دیں گے (سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ان لوگوں کی کچھ صفات بیان فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہماری قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں گفتگو کریں گے۔ (صحیح بخاری:۷۰۸۴، صحیح مسلم:۱۸۴۷)۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہی کی طرف دعوت دینے والے اپنی ہی قوم کے لوگ ہوں گے لیکن تکفیری اور گمراہ فرقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے جہنم کے داعی بن جائیں گے اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی شاہراہ سے ہٹا کر انہیں نفس و شیطان کا بندہ بنا دیں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سیدوقار علی شاہ صاحب جو ایک عرصہ تک جماعت المسلمین کی صف اوّل کے داعیوں میں سے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دینی شعور عطا فرمایا تو پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں اس جماعت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ اور اس طرح کی بہت سی متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر دور میں دین کے نام پر گمراہ کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، اپنے عقائد قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن قرآن و حدیث کی غلط تاویلات کر کے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور اس طرح سے اُمت مسلمہ میں فتنہ، فساد، انتشار، تعصب، نفرت اور گمراہی پھیلا دیں گے۔ بظاہر بہت دین دار، دین کو سمجھنے اور اس کا علم رکھنے والے نظر آئیں گے اور اسی بنیاد پر لوگوں کی کم علمی اور دین سے محبت و عقیدت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں مرعوب کر کے اپنے جال میں پھانس لیں گے، لیکن دین ان کے حلق سے نیچے بھی نہیں اُترا ہو گا یعنی وہ صحیح طور پر نہ تو دین ہی پر عمل کر رہے ہوں گے اور نہ ہی انہیں دین کی صحیح سمجھ، شعور، فہم اور معرفت ہو گی‘‘۔ (تحقیق مزید ص:۱۰)۔
تنبیہ: سید وقار علی شاہ صاحب ایک فرقے سے نکل کر اَب دوسرے فرقے میں شامل ہو گئے ہیں۔ اور سخت تکفیری بن گئے ہیں۔ اوپر جو کچھ ہم نے نقل کیا ہے یہ تمام باتیں موصوف جماعت المسلمین کا رَدّ کرتے ہوئے پوری تفصیل سے نقل کر چکے ہیں لیکن افسوس کہ عہدہ و شہرت کے لالچ کی وجہ سے ان حقائق کو جاننے کے باوجود بھی وہ دوسری تکفیری جماعت کے رکن بن گئے اور اس شعور کے بعد بھی کہ وہ تمام حقائق سے اچھی طرح واقف اور آگاہ ہیں اس کے علی الرغم بھی وہ اس دلدل میں دوبارہ کود گئے ہیں حالانکہ دنیا کی یہ شہرت اور چمک دمک عارضی اور فانی ہے۔ اور ہمیشہ رہنے والا مقام صرف آخرت ہے۔

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (القصص:۸۳)
آخرت کا یہ گھر ہم انہی لوگوں کو عنایت کرتے ہیں جو زمین میں بڑائی نہیں چاہتے، اور نہ فسا د برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اور بہترین انجام تو متقین ہی کیلئے ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موصوف پر حجت تمام ہو چکی ہے اور کل وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی بھی عذر پیش نہ کر سکیں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ اس مہلت کو غنیمت جان کر جلد از جلد پلٹ جائیں ورنہ کل پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ موصوف اس جدید فرقے کے امیر بن چکے ہیں کیونکہ اس کے امیر اول بیمار ہو کر قومہ میں چلے گئے ہیں اور اس طرح سخت امتحان اور فتنہ میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

موجودہ دور میں دو نوزائیدہ فرقے تکفیری میدان میں بہت ہی سرگرم ہیں جن میں سے ایک فرقہ ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا ہے جسے برزخی عثمانی فرقہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ عذاب قبر کا سخت منکر ہے لیکن لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ اس فرقہ کے بانی نے جہنم میں روح کے عذاب والی اور جنت میں روح کے راحت و آرام والی احادیث پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت و جہنم ہی اصل قبریں ہیں اور احادیث میں قبروں میں عذاب کی جو روایات آئی ہیں ان کی انتہائی بھونڈی تاویلات کر کے ان کا انکار کر دیا ہے کیونکہ اس کے مطابق قبروں میں عذاب و ثواب کو مان لینے سے قبر پرستی کے نظریئے کو تقویت ملتی ہے، جس کی تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب ’’الدین الخالص‘‘ حصہ اول و دوم۔ والحمدللّٰہ۔
دوسرا فرقہ جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) ہے جس کے بانی مسعود احمد بی ایس سی ہیں اور اس کی تفصیل ہماری کتابوں ’’الفرقۃ الجدیدۃ‘‘ اور ’’خلاصۃ الفرقۃ الجدیدۃ‘‘ میں موجود ہے اور تیسرا فرقہ خلیفہ والی جماعت المسلمین کا ہے۔ اس جماعت کے متعلق ہم یہاں کچھ باتیں ذکر کریں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بیعت کی بدعت
جیسے جیسے قیامت قریب آتی جارہی ہے ویسے ویسے اُمت مسلمہ میں مختلف فتنوں اور فرقوں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے اور ہر فرقہ اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کو درست ثابت کرنے کے درپے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جماعت المسلمین کے نام سے مسعود احمد بی ایس سی نے ایک جدید فرقہ کی بنیاد رکھی اور اس فرقہ جدیدہ کا نام اس نے جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) رکھا۔ موصوف کے نزدیک کوئی شخص چاہے کتنا ہی صحیح العقیدہ اور نیک اعمال کا پیکر کیوں نہ ہو نیز وہ کسی جماعت یا فرقہ میں بھی شامل نہ ہو اور صرف قرآن و حدیث ہی پر عامل ہو لیکن اگر اس نے موصوف کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) میں شمولیت اختیار نہیں کی تو وہ شخص موصوف کے نزدیک غیر مسلم ہے۔ مسلم اور جماعت المسلمین کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں کہ جو موصوف کی رجسٹرڈ جماعت میں شامل ہیں۔ موصوف نے بھی خلفاء اور حکام کے سلسلہ میں آئی ہوئی احادیث کو (جن میں بیعت اور امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے) اپنی خود ساختہ امارت اور کاغذی جماعت پر چسپاں کر دیا ہے۔ اور اس طرح وہ اپنے چاہنے والوں کے بے تاج بادشاہ بن بیٹھے۔ حالانکہ خلافت کی احادیث کو اپنی کاغذی تنظیم پر چسپاں کرنا گویا احادیث اور دین اسلام کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔ پھر لوگوں سے دین کے نام پر بیعت لینا سخت گمراہی اور بدعت ہے۔ اور بیعت والی بدعت پر اکثر باطل فرقوں کا عمل رہا ہے۔ ابھی اُمت مسلمہ اس فتنہ سے دوچار ہی تھی کہ اس نوعیت کا ایک دوسرا فتنہ ظہور پذیر ہوا۔ اس جدید فرقہ نے بھی اپنے فرقہ کا نام جماعت المسلمین رکھا۔ البتہ انہوں نے اپنے امیر کو امیر یا امام کے بجائے خلیفہ قرار دیا اور خلافت کے سلسلہ کی تمام احادیث کو اس خود ساختہ خلیفہ پر چسپاں کر دیا۔ خلیفہ صاحب تو اب ٹونی بلیئر کے دیس لندن میں مقیم ہیں اور وہاں سے وہ اپنی خلافت کا جال پاکستان میں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ تمام اہل اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیں گے اور سب کو متحد کر دیں گے اور اس طرح اختلاف و افتراق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگرچہ مخلص مسلمانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان متحد و متفق ہو جائیں اور ہر جماعت بھی یہ دعوی کرتی چلی آئی ہے کہ وہ اپنے جھنڈے تلے تمام اہل اسلام کو متحد کریں گے۔ خلیفہ والی جماعت نے جس طریقہ سے اپنے خلیفہ کا انتخاب کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کا سلسلہ جاری کیا ہے یہ ایک انوکھی اور عجیب سی بات لگتی ہے کیونکہ دنیا کی تاریخ میں آج تک ایسا کوئی خلیفہ نہیں گذرا جو کہ مسند خلافت کے بغیر ہی خلیفہ بن گیا ہو اور اس کے لئے خلافت کی بیعت بھی لی جارہی ہو۔ اس سلسلہ میں انہیں خلفائے راشدین کے اسوۃ کی طرف دیکھنا ہو گا اس لئے کہ جب خلفائے راشدین کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تو وہ فوری طور پر تخت خلافت پر بھی براجمان ہو گئے تھے۔ یعنی خلافت پہلے ہی موجود تھی لہٰذا خلافت کی بیعت لینا درست عمل تھا اور یہاں نام نہاد خلیفہ کی جو بیعت لی جارہی ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ ایک شخص کسی دکان سے کوئی ایسی چیز خریدنا چاہتا ہے کہ جو دکان میں موجود ہی نہیں ہے۔ بے اختیار خلیفہ کی حقیقت جاننے کے لئے ’’الحدیث‘‘ کے شمارہ نمبر۲۲کا مطالعہ فرمائیں اور اب ہم یہاں منکرین عذابِ قبر پر گفتگو کرتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حدیث رسول ﷺ پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے​

عذابِ قبر کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ اور جن فرقوں نے اس عقیدہ کا انکار کیا انہیں اس مقصد کے لئے احادیث کا بھی انکار کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ احادیث صحیحہ کا انکار قرآن ہی کا انکار ہے۔ قرآن و حدیث دونوں وحی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار وحی کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ (الاعراف:۳)
’’جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو‘‘۔

معلوم ہوا کہ اتباع صرف اس کی ہے جو رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع ممنوع ہے۔ مگر اس نصیحت کو کم لوگ ہی مانتے ہیں۔ کیونکہ کوئی اپنے بڑوں کی اتباع و پیروی کرتا ہے اور کوئی اپنے خود ساختہ امام یا امیر کی۔ اور کوئی اپنے نفس کی اتباع کرتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْآاَعْمَالَـکُمْ (محمد:۳۳)
’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول (ﷺ) کی اور (ان کی اطاعت سے منہ موڑ کر) اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو‘‘۔

اللہ تعالیٰ یا رسول ﷺ میں سے کسی ایک کی اطاعت سے انکار اعمال کو ضائع (وبرباد) کرنے کے مترادف ہے۔ اور اطاعت کے لحاظ سے دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی‘‘۔

اور رسول اللہﷺ اپنے جی سے کوئی بات نہیں کہتے تھے بلکہ وہ جو فرماتے تھے وحی کی بناء پر فرمایا کرتے تھے:

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳۔۴)
وہ (نبی ﷺ) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ ان کا بولنا تو وحی کی بناء پر ہے کہ جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک مقام پر رسول اللہ ﷺ کی حیثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے:

وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ
اور ہم نے آپ (ﷺ) پر ذکر نازل فرمایا ہے تاکہ جو کچھ ان کے لئے نازل کیا گیا ہے آپ (ﷺ) اس کی تشریح و وضاحت کر کے لوگوں کو بتا دیں اور تاکہ لوگ غور و فکر کریں‘‘۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ قرآن کریم کے احکامات اور فرامین کی نبی ﷺ اپنے قول و عمل کے ذریعے تشریح و توضیح فرمانے پر مقرر کئے گئے تھے بلکہ آپ ﷺ چلتا پھرتا قرآن تھے۔ چنانچہ سیدنا سعد بن ہشام رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اُمّ المؤمنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے متعلق خبر دیجئے ؟ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کان خلقہ القرآن یعنی آپ ﷺ کا خلق قرآن تھا۔ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ’’بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہو‘‘۔ (مسند احمد ج۶ ص۹۱، تفسیر ابن کثیر ج۴ ص:۴۰۲)۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم فرمایا:

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ اورنماز قائم کرو۔

اب نماز کس طرح قائم کی جائے اس کا مکمل طریقہ سیدنا محمد رسول ﷺ نے عملاً سکھایا یعنی استنجائ، وضو، نماز کی ادائیگی کا مکمل طریقہ، قیام، رکوع، سجود، قراء ت، فرائض، نوافل، اذان، اقامت، پنج وقتہ نمازیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض نماز کے ہر ہر مسئلہ کی تشریح و وضاحت نبی ﷺ نے قولاً و فعلاً فرما دی اور اُمت سے ارشاد فرمایا:

صلوا کما رأیتمونی اصلی
’’نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پرھتے دیکھتے ہو‘‘۔ (بخاری:۶۳۱)۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃ یعنی ’’اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔

اب زکوٰۃ کب ادا کی جائے اور کتنے مال میں سے ادا کی جائے۔ اس کا مکمل طریقہ نبی ﷺ نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح دین کے دوسرے معاملات کی وضاحت بھی نبی ﷺ نے اپنے قول و عمل کے ذریعے فرما دی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے۔

اب اگر کوئی شخص اپنے کسی باطل عقیدہ کی وجہ سے کسی حدیث کا انکار کر دے تو اس نے حدیث کا انکار کر کے گویا نبی ﷺ کے فرمان کا انکار کر دیا اور فرمان رسول ﷺ کا انکار کرنے والا درحقیقت قرآن کا اِنکار کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کی من مانی تشریح بیان کریں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تشریح و تفسیر کی ذمہ داری نبی ﷺ ہی کے ذمے لگا دی اور قیامت تک کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں دیا کہ وہ قرآن کریم کی کوئی جدید تشریح بیان کرے۔ اور جو لوگ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، مرجیہ، پرویز، عثمانی، مسعود، منکرین حدیث وغیرہ کی کسی تشریح پر راضی ہو چکے ہیں تو گویا انہوں نے قرآن کریم کا انکار کر دیا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کو بھی قرآن کی تشریح کا حق حاصل نہیں ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث کا انکار کرنے والے نہ صرف منکرین حدیث ہیں بلکہ وہ منکرین قرآن بھی ہیں اور جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کو تو مانتے ہیں لیکن حدیث کا انکار کرتے ہیں تو انہوں نے قرآن کریم کو بھی نہیں مانا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَــکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء:۱۵۰ تا ۱۵۲)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہو گی بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں، ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا درگذر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔

ثابت ہوا کہ اللہ اور اس کے رسولوں کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ سب پر ایمان رکھا جائے اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی تفریق نہ کی جائے یعنی اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میںاللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں لیکن رسولوں کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی ماننا نہ ہوا۔ اور کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں بعض رسولوں کو مانتا ہوں اور بعض کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی کھلا کفر ہے۔ اسی طرح کسی کا یہ دعوی کہ میں قرآن کریم کو تو مانتا ہوں لیکن حدیث رسول ﷺ کو نہیں مانتا تو واضح رہے کہ ایسا شخص قرآن کریم کا بھی انکاری ہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کے حکم واطیعوا الرسول یعنی ’’اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو‘‘ کا انکار کر دیا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کیا صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے؟​
بعض لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کریم کی فلاں آیت سے ٹکراتی ہے یا اس کا مضمون قرآن کریم کے فلاں مضمون کے خلاف ہے تو یہ لوگ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور حدیث کو قرآن کریم سے ٹکرانے والے فرق باطلہ ہی تھے۔ اور انہوں ہی نے یہ اصول وضع کئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ باطل عقیدہ بھی شیعہ کا ہے چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی میں ہے:

فما وافق کتاب اللّٰہ فخذوہ و ما خالف کتاب اللّٰہ فدعوہ
’’پس جو (حدیث) کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے لے لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو‘‘۔ (اصول کافی ج۱ ص:۵۵)۔

اب اگر کوئی یہ اصول بیان کرے تو سمجھ لیں کہ وہ شیعہ مذہب کی تبلیغ کر رہا ہے۔ کیا امام بخاری اور امام مسلم ; وغیرہ دین سے اس قدر ناواقف تھے کہ انہوں نے قرآن کریم کے خلاف آئی ہو احادیث کو اپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم کی توضیح و تفسیر بیان کرتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے:

’’میرے بارے میں حدیثیں پھیل جائیں گی پس تمہارے پاس میری کوئی حدیث قرآن کے مطابق پہنچے تو وہ میری حدیث ہے اور تم تک میری طرف سے جو روایت قرآن کے مخالف پہنچے تو وہ میری حدیث نہیں ہے‘‘ (الرد علی سیر الاوزاعی ص۲۴، ۲۵)۔

اس روایت میں ایک راوی ابوجعفر عبداللہ بن منصور الہاشمی کذاب ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع اور جھوٹی ہے۔ اور یہ کتاب بھی امام ابویوسف سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ماہنامہ الحدیث حضرو شمارہ نمبر۲۸، صفحہ ۲۰،۲۱۔ نیز اس مضمون کی دیگر روایات کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی سب کی سب جھوٹی اور من گھڑت ہیںمنکر حدیث تمنا عمادی جس نے مرزا قادیانی اور اس کے خلفاء کو رحمۃ اللہ علیہ تک لکھا ہے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (انتظار مہدی و مسیح علیہ السلام ص۲۲۳) یعنی مہدی اور مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں آئی ہوئی بخاری و مسلم تک کی روایات موصوف کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں اور یہ من گھڑت اور جھوٹی روایت موصوف کا زبردست سہارا ہے۔ ویا للعجب۔

اور اس کتاب کا ابتدائیہ لکھنے والے نظام الدین خان نے اس روایت پر بخاری کا حوالہ پیش کیا تھا اور بعد کی اشاعت میں اس نے بخاری کا حوالہ غائب کر دیا اور اس کی جگہ الردّ علیٰ سیرالاوزاعی کا حوالہ پیش کر دیا۔ لیکن اس کا اصرار ہے کہ یہ روایت کبھی بخاری میں بھی تھی۔ گویا موصوف کے نزدیک بھی صحیح بخاری ایسی مقدس کتاب ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں ہوتی تو موصوف کا زبردست سہارا ہوتی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جو لوگ حدیث کو قرآن مجید کے خلاف قرار دیتے ہیں اُن کو سمجھانے کے لئے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
مثال کے طور پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ تم پر تو حرام کیا گیا ہے مردہ (البقرہ:۱۷۳)

نیز ملاحظہ فرمائیں المائدہ:۳، الانعام:۱۴۵ ، اور النحل:۱۱۵۔

قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ مردہ (یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مر جائے) حرام ہے۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے۔ لیکن حدیث میں ہے:

ھو الطھور ماء ہ و الحل میتتہ
(رواہ مالک و الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی مشکاۃ المصابیح حدیث:۴۷۹۔و سندہ صحیح)
سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا ’’مردہ‘‘ (مچھلی) حلال ہے‘‘۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مچھلی اگرچہ مردہ ہے لیکن اس کا کھانا حلال ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے لیکن قرآن و حدیث میں بظاہر تضاد ہو گا تو ان میں تطبیق دی جائے گی۔ یعنی اگرچہ ہر مردہ حرام ہے لیکن مچھلی مردہ ہونے کے باوجود بھی حلال ہے کیونکہ یہ ایک استثنای صورت ہے اور دیکھا گیا ہے کہ منکرین عذاب القبر اور منکرین حدیث بھی اس ’’مردہ‘‘ کو مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے:
احلت لنا میتتان و دمان المیتتان الحوت و الجراد و الدمان الکبد و الطحال (مسند احمد:۲/۹۷، ابن ماجہ، دارقطنی، مشکاۃ المصابیح باب ما یحل اکلہ و ما یحرم حدیث نمبر۴۱۳۲۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ و قال الاستاذ حافظ زبیر علی زئی صحیح۔ و قال الالبانی: اسنادہ جید۔ و قال الشیخ شعیب الارنووط: حدیث حسن۔ (مسند الامام احمد بن حنبل مع الموسوعہ الحدیثیہ ج:۱۰، صفحہ:۱۶، ۱۷)

ہمارے لئے دو مردے اور دو خون حلال کئے گئے ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اور جگر اور تلی۔

سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سات یا چھ جہاد ایسے کئے ہیں کہ جس میں ہم نے آپ ﷺ کے ساتھ ٹڈیاں کھائی ہیں۔ (بخاری کتاب الذبائح و الصید باب۱۳ اکل الجراد حدیث نمبر۵۴۹۵)۔

مچھلی سمندر کا جانور ہے جبکہ ٹڈی خشکی کا ہے اور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خشکی کے اس ’’مردہ‘‘ کو بھی کھایا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث پر سچے دل سے ایمان رکھا جائے اور ان پر شک و شبہ نہ کیا جائے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ (الحجرات:۱۵)
’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔

احادیث کے متعلق اگر ذرا بھی ایمان متزلزل ہو جائے تو پھر گویا اس شخص کا پورا اسلام ہی مشکوک ہو جائے گا اور جو لوگ انکار حدیث کی تبلیغ کر رہے ہیں تو وہ اس سلسلہ میں یہود و نصاری اور دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے ہیں اور یا وہ اسلام کی پابندیوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مردم شماری میں ان کا نام مسلمانوں کی لسٹ میں بھی رہے اور دوسری طرف و ہ اسلام کی پابندیوں سے بھی آزاد رہیں۔

بعض لوگ یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ احادیث دراصل عجمی سازش ہیں حالانکہ اس دور کے محدثین میں سے بعض عجمی ہونے کے باوجود بھی عربی زبان پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور پھر وہ انتہائی مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ جبکہ موجودہ دور کے ان منکرین حدیث کے دین و ایمان کا بھی کچھ اتہ پتہ نہیں۔ پھر یہ خود بھی عجمی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قبیلہ قریش سے تعلق نہیں رکھتا۔ لہٰذا اصلی عجمی سازشی یہی لوگ ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اختلافات کے حل کا قرآنی اصول​

جب کسی مسئلہ میں لوگوںکے درمیان اختلاف و نزاع ہو جائے اور لوگ اس مسئلہ کے متعلق مختلف آراء و نظریات رکھتے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے حل کی کیا صورت ہو گی؟ اس کا جواب قرآن کریم نے اس طرح دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء:۵۹)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میںنزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول (ﷺ) کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔

معلوم ہوا کہ جب بھی کسی مسئلہ میں اہل اسلام کے درمیان اختلاف ہوگا تو اس کے حل کی صورت یہ ہو گی کہ اس مسئلہ کا حل قرآن و حدیث سے دریافت کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن و حدیث کو حکم قرار دیا ہے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویدار ہے تو وہ اختلافی مسائل کا حل قرآن و حدیث ہی میں تلاش کرے گا۔ بصورت دیگر ایسے شخص کا دعویٰ ایمان ہی مشکوک ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ مختلف فرقے اختلافی مسئلہ کا حل قرآن و حدیث کے بجائے اپنی منظور نظر شخصیات سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جو حل انہیں اپنے امام، اپنے قائد اور اپنے امیر جماعت سے مل جائے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ حنفی اپنے امام کی بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور احادیث صحیحہ کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح مالکی اپنے امام، شافعی اپنے امام، حنبلی اپنے امام، خوارج، معتزلہ، جہمیہ، مرجیہ، پرویزی، عثمانی، مسعودی وغیرہ اپنے اپنے بانی و امام کی بات کو حجت اور حرف آخر سمجھتے ہیں اور وہ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ کی بجائے فَرُدُّوْہُ اِلَی الْاِمَام یا اِلَی الْاَمِیْرِ الجَمَاعَۃِ پر عمل پیرا ہیں۔ علی ھذا القیاس اسی طرح ایک عثمانی کے سامنے جب عذاب قبر کی صحیح احادیث پیش کی جاتی ہیں تو وہ نبی ﷺ کے ان ارشادات کو ڈاکٹر عثمانی کے کہنے پر ردّ کر دیتا ہے۔ گویا ڈاکٹر عثمانی کی شخصیت اس کے لئے حجت و دلیل بن چکی ہے اور نبی ﷺ کی شخصیت اس کی نگاہ میں اپنا مقام کھو چکی ہے۔ اس طرزِ عمل کو اب کیا نام دیا جائے اور کس کفر یا شرک سے اسے تعبیر کیا جائے۔ کیا نبی ﷺ کے ارشادات کا انکار کر کے کوئی شخص مومن رہ سکتا ہے؟
 
Top