محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مدینۃ النبی (ﷺ) سے مشرق کی طرف عراق، ایران، پاکستان و ہندوستان وغیرہ کے علاقے ہیں، عراق سے خوارج، روافض وغیرہ کے فتنے برآمد ہوئے، اسی طرح تاتاریوں کا فتنہ بھی مشرق سے نکلا، اور اس طرح کے مزید فتنے مشرق کی طرف سے برابر نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ دجال کا فتنہ اور یاجوج ماجوج کا فتنہ بھی یہیں سے برآمد ہو گا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے پندرہویں صدی میں عثمانی برزخی اور جماعت المسلمین کے تکفیری فتنے یہیں پاکستان سے برآمد ہوئے اور عثمانی برزخی فرقے سے مزید منکرین حدیث کے فرقے نکل رہے ہیں جو کھلم کھلا احادیث اور اسلامی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں اور ان عقائد کی باقاعدہ تبلیغ کر رہے ہیں۔
(۱۰) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نجد میں بھی؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نجد میں؟ (صحابی فرماتے ہیں) میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں (نجد میں) زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ (دجال) طلوع ہو گا۔ (بخاری:۷۰۹۴)
علامہ عینی حنفی شرح صحیح بخاری میں امام خطابی سے نقل کرتے ہیں کہ:
نجد من جھۃ المشرق، و من کان بالمدینۃ کان نجدہ بادیۃ العراق و نواحیھا و ھی مشرق أھل المدینۃ و أصل نجد ما ارتفع من الارض
نجد سے مراد مشرق کی طرف والا نجد ہے، جو آدمی مدینہ میں ہو تو اس کے لئے عراق اور اس کے ارد گرد کا علاقہ نجد ہے وہی مدینہ والوں کا مشرق ہے۔ اصل میں نجد اس زمین کو کہتے ہیں جو بلند ہو۔ (عمدۃ القاری۲۴/۲۰۰ ح۷۰۹۴)
لہٰذا اس حدیث میں نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ سے بلندی پر واقع ہے اور جیسا کہ اوپر کی احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں نجد سے حجاز کا نجد مراد نہیں ہے کیونکہ فتنوں کی سرزمین کوفہ و عراق ہے۔ اور حدیث اور تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ خارجی و تکفیری فتنوں کا مقام ولادت مشرق کے علاقے ہوں گے اور نبی ﷺ نے ان پرفتن مقامات کے لئے دعا کرنے سے بھی اجتناب فرمایا اور وضاحت فرما دی کہ ان علاقوں میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور سب سے بڑا فتنہ دجال بھی یہیں سے نکلے گا۔ دجال کا مقام ولادت ایران کا شہر خراسان ہو گا۔ (سنن ترمذی:۲۲۳۷، واسنادہ صحیح، و سنن ابن ماجہ:۴۰۷۲، المختارہ:۳۳، ۳۷۔ الصحیحہ:۱۵۹۱)۔
(۱۰) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نجد میں بھی؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ہمارے نجد میں؟ (صحابی فرماتے ہیں) میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں (نجد میں) زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ (دجال) طلوع ہو گا۔ (بخاری:۷۰۹۴)
علامہ عینی حنفی شرح صحیح بخاری میں امام خطابی سے نقل کرتے ہیں کہ:
نجد من جھۃ المشرق، و من کان بالمدینۃ کان نجدہ بادیۃ العراق و نواحیھا و ھی مشرق أھل المدینۃ و أصل نجد ما ارتفع من الارض
نجد سے مراد مشرق کی طرف والا نجد ہے، جو آدمی مدینہ میں ہو تو اس کے لئے عراق اور اس کے ارد گرد کا علاقہ نجد ہے وہی مدینہ والوں کا مشرق ہے۔ اصل میں نجد اس زمین کو کہتے ہیں جو بلند ہو۔ (عمدۃ القاری۲۴/۲۰۰ ح۷۰۹۴)
لہٰذا اس حدیث میں نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ سے بلندی پر واقع ہے اور جیسا کہ اوپر کی احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں نجد سے حجاز کا نجد مراد نہیں ہے کیونکہ فتنوں کی سرزمین کوفہ و عراق ہے۔ اور حدیث اور تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ خارجی و تکفیری فتنوں کا مقام ولادت مشرق کے علاقے ہوں گے اور نبی ﷺ نے ان پرفتن مقامات کے لئے دعا کرنے سے بھی اجتناب فرمایا اور وضاحت فرما دی کہ ان علاقوں میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور سب سے بڑا فتنہ دجال بھی یہیں سے نکلے گا۔ دجال کا مقام ولادت ایران کا شہر خراسان ہو گا۔ (سنن ترمذی:۲۲۳۷، واسنادہ صحیح، و سنن ابن ماجہ:۴۰۷۲، المختارہ:۳۳، ۳۷۔ الصحیحہ:۱۵۹۱)۔