• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵)

’’پس نہیں اے محمد (ﷺ) تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیںِ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلم کر لیں‘‘۔

ثابت ہوا کہ نبی ﷺ کو اختلافی مسائل میں حکم نہ ماننے والا ایمان سے خارج ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ مسلم یا توحیدی کہے۔

اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا اِرشاد، آپ کی حدیث اختلافی مسائل میں حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور صحیح حدیث کے جاننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے یا اس حدیث کو اپنی رائے کے خلاف سمجھتے ہوئے جھٹلا دیتا ہے یا اپنی تنظیم کے امیر کی بات اور رائے کو حدیث پر مقدم سمجھتا ہے تو بس سمجھ لیں کہ یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے اور اس کا دعویٰ ایمان جھوٹا ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ توحیدی اور مسلم کہے، کیونکہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور اب یہ صرف دکھاوے کے لئے مسلم بنا ہوا ہے۔ اور حقیقتاً یہ اپنی کسی محبوب شخصیت کے عقائد و نظریات کا گرویدہ ہو چکا ہے اور قرآن و حدیث اس کے سامنے اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں بھلا ہدایت کی راہ واضح ہو جانے کے بعد بھی جو شخص راہِ ہدایت کو اختیار نہ کرے بلکہ اپنی یا اپنی کسی محبوب شخصیت کی رائے پر مصر ہو تو ایسا شخص ایمان والا کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جََھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
’’اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ پر چلے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔

قرآن و حدیث کی راہ ہدایت ہے اور اس راہِ ہدایت پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی حدیث رسول ﷺ معلوم ہو جانے کے بعد بھی آپ ﷺ کے فرمان کو ترک کر دیتا ہے تو وہ رسول ﷺ کی مخالفت کر رہا ہے اور مومنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کون سا ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟ اس آیت سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔

اور پھر جو شخص آپ کے ایک فرمان کا نہیں بلکہ احادیثِ متواترہ کا عملاً انکاری ہو۔ کیونکہ عذاب قبر کے سلسلہ میں اس قدر احادیث مروی ہیں کہ جو لاتعداد ہیں۔ ان تمام احادیث کا انکاری مومن کیسے ہو سکتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور جو شخص احادیث رسول ﷺ کا انکار اپنی رائے سے کرے اور اپنی رائے کو قرآن و حدیث پر مقدم سمجھے تو ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِٰلھَہٗ ھَوٰاہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ
پھر کیا تم نے اس شخص کا حال بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ (معبود) بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پرد ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب کون اسے ہدایت دے گا؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔

قرآن و حدیث راہ ہدایت ہے اور اس راہ پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی قرآن و حدیث کے دلائل معلوم ہو جانے کے باوجود اس دلیل کو نہیں مانتا اور سنت کی دلیل معلوم ہو جانے کے بعد بھی سنت کو ترک کر دیتا ہے تو وہ رسول ﷺ کی مخالفت کر رہا ہے اور مومنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کونسا ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟ اس آیت سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ اور ایسا شخص مشرک بھی ہے کیونکہ اس نے اللہ اور اُس کے رسول کے مقابلے میں کسی دوسری شخصیت کو حجت و دلیل مان لیا ہے:

اَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُ وَ لَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (الشوری:۲۱)
کیا ان کے لئے دوسرے ایسے شریک بھی ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں سے وہ کچھ مقرر کیا ہے کہ جس کا اللہ نے انہیں حکم نہیں دیا؟

معلوم ہوا کہ ایسا شخص مشرک بھی ہو چکا ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ توحیدی کہتا رہے کیونکہ وہ شرک کی ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ جس سے نکلنا اُس کے لئے بہت مشکل ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور:۶۳)
پس جو لوگ رسول (ﷺ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو (کسی ناگہانی) آفت یا دردناک عذاب کے نازل ہونے سے ڈرنا چاہیئے۔

یعنی رسول اللہ ﷺ کی احادیث کے منکرین ضرور کسی فتنہ اور عذاب الیم میں مبتلا ہوں گے۔ اس مضمون کی دیگر آیات بھی موجود ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عقیدہ عذاب القبر​
احادیث رسول ﷺ پر سچا ایمان لانے کے بعد اب جو شخص بھی ان احادیث کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس حقیقت کو پا لے گا کہ قبر کا عذاب ایک حقیقت ہے۔ عذاب القبر کا تعلق چونکہ مشاہدے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے اس لئے کہ حواس اس کا اِدراک نہیں کر سکتے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے فرشتوں، جنات، جنت و جہنم کو ہم اللہ اور رسول ﷺ کے کہنے سے تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح عذا ب القبر کو بھی ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ عذاب القبر کے متعلق بے شمار احادیث صحیحہ موجود ہیں جو درجہ تواتر تک پہنچتی ہیں اور ان احادیث کا انکار گویا قرآن کریم کے انکار کے مترادف ہے۔

احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ مرنے کے بعد جب میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اُس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے قبر میں اُٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پھر اس سے سوالات پوچھتے ہیں مومن ان سوالوں کا صحیح جواب دیتا ہے چنانچہ اس کے لئے جنت کو پیش کیا جاتا ہے اور قیامت تک اسے قبر میں راحت و آرام حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ کافر و مشرک و منافق ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا تو اس پر جہنم پیش کی جاتی ہے اور قیامت قائم ہونے تک اسے قبر میں عذاب دیاجاتا ہے۔ اس عقیدہ کا ذکر کتاب و سنت کے تمام علماء کرام نے ہر دور میں اپنی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور اس عقیدہ کے انکاری کو کافر قرار دیا ہے مگر باطل فرقوں نے ہر دور میں اہل حق کا مقابلہ کیا اور اس صحیح عقیدہ سے کیڑے نکالنے شروع کر دیئے۔ اور اسے غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اپنے باطل عقائد و نظریات کی تائید کے لئے قرآن کریم کی آیات سے بھی غلط استدلال کیا۔ لیکن علماء حق نے قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل پیش کر کے ان کے مغالطوں کو صاف کیا اور اس مسئلہ کو اظہر من الشمس کیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عذاب القبر کیا ہے؟ عذاب القبر کی حقیقت​

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک تشہد کے لئے بیٹھے تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں سے پناہ طلب کرے اور اس طرح کہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ
اے اللہ! میں آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں عذابِ جہنم سے اور عذاب قبر سے اور زندگی اور موت کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے فتنہ کے شرسے۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد باب ما یستعاذ منہ فی الصلاۃ حدیث نمبر ۵۸۸)۔

اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں کہ نبی ﷺ نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے: (صحیح بخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام (۸۳۲) مسلم ایضاً (۳۲۵)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ دعا اس طرح سکھایا کرتے تھے کہ جیسے آپ ﷺ قرآن مجید کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم ایضاً ۵۹۰، مشکاۃ المصابیح کتاب الصلوۃ باب الدعاء فی التشھد)۔

ایک روایت میں ہے کہ جب آپﷺ کا خچر بدکا تھا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو ان چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا تھا۔ (مسلم، مشکوٰۃ المصابیح)۔ یہ روایت آگے آرہی ہے۔

ان احادیث میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ خاص طور پر نماز کے آخر میں عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے اپنی اُمت کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کے جنازہ پر ایک دعا پڑھی جس کے آخری الفاظ یہ ہیں:

واعذہ من عذاب القبر و من عذاب النار (مسلم:۹۶۳)
اے اللہ اسے عذاب قبر سے اور عذاب جہنم سے بچا (محفوظ رکھ)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اوپر کی حدیث میں نبی ﷺ نے جن چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ان کی تعداد آپ نے چار بیان کی ہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ چاروں چیزیں ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہیں۔ اس وضاحت سے بھی یہ حقیقت ثابت ہو گئی کہ عذاب جہنم الگ اور عذاب قبر الگ الگ دو حقیقتیں ہیں۔ یہ امر قابل غور اور قابل توجہ ہے کہ جو لوگ عذابِ جہنم کو عذاب قبر ثابت کرنے کے درپے ہیں انہیں اس بات پر غور و تدبر کرنا چاہیئے کہ اگر یہ ایک ہی عذاب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دو عذاب کیوں قرار دیا؟ نبی ﷺ تو وحی کے بغیر کلام نہیں فرمایا کرتے تھے اور جب آپ ﷺ انہیں الگ الگ عذاب قرار دے رہے ہیں تو پھر آپ کی منشاء کے خلاف اگر کوئی دو کو ایک قرار دے گا تو اس طرح آپ کی مخالفت لازم آئے گی اور آپ کی مخالفت کرنے والے کا جو انجام ہو گا اسے اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:

وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ پر چلے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے۔

اور دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
پس اے محمد (ﷺ) آپ کے رب کی قسم یہ کبھی مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں (النسا:۶۵)

روح کے قبض ہونے اور قبر کے سوال و جواب کے بعد کافر و منافق اور نافرمان کی روح کو جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ عذاب سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔ یہی عذاب جہنم ہے اور اس کی میت کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور یہ عذاب قبر ہے۔ اور جب قیامت قائم ہو گی تو عذابِ قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذابِ جہنم باقی رہ جائے گا۔ نبی ﷺ کا ان دونوں عذابوں سے پناہ مانگنا واضح کرتا ہے کہ یہ دونوں عذاب الگ الگ ہیں لیکن بعض کوتاہ فہموں نے عذاب جہنم کی احادیث ذکر کر کے اسے ہی عذاب قبر کہنا شروع کر دیا اور قبر کے عذاب کا بالکل انکار کر دیا۔ جبکہ عذاب جہنم کا تعلق روح کے ساتھ اور عذاب قبر کا تعلق میت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور احادیث اس سلسلہ میں بالکل واضح ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی ان دُعاؤں سے بھی یہ حقیقت واضح ہوتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عذاب القبر کا تذکرہ قرآن مجید میں​

(۱) اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ ٰاٰیتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (الانعام:۹۳)
’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جبکہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائیگا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے اور اسکی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔

موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللہ کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب القبر ہے۔ مرنے کے بعد میت کو عموماً زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور پھر قیامت کے قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہٰذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب القبر کا نام دیا گیا ہے۔

حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جب کہ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اس عذاب کا کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو پھر چارپائی نظر آتی اور نہ ہی اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ دکھائی دیتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ زندہ انسانوں کے سامنے ابھی اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا عموم بلوہ کی وجہ سے اس عذاب کا نام نبی ﷺنے عذاب قبر رکھا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص ہسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا ہے تو لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب یہی شخص نماز پڑھے تو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ رہے ہیں‘‘ حالانکہ نماز پڑھتے ہوئے یہ شخص ڈاکٹری کا کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اب تو اسے نمازی صاحب کہنا زیادہ مناسب تھا لیکن اس شخص کو کوئی عمل کرتے ہوئے کوئی شخص بھی دیکھے گا تو وہ بے ساختہ یہی کہے گا کہ ڈاکٹر صاحب فلاں کام کر رہے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوا کہ اس شخص کا نام ’’ڈاکٹر‘‘ عموم بلوہ کی وجہ سے پڑ گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کرام s نے بھی یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ عذاب قبر کا باب یوں قائم کرتے ہیں:

باب ما جاء فی عذاب القبر و قولہ تعالیٰ …… وہ (آیات و احادیث) جو عذاب قبر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی آیت کو عذاب قبر کے سلسلہ میں بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا خاص طور پر ذکر ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری و امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہو گا کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کیا کسی بھی محدث کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں انہوں نے باطل فرقوں کے بوسیدہ دلائل میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۲) دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (الانفال:۵۰)
’’کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’لو اب جلنے کی سزا بھگو‘‘۔

(۳) اسی طرح کا مضمون سورۃ محمد میں بھی ہے:

فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
’’پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے‘‘۔

(۴) ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ ٰالَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المؤمن:۴۵، ۴۶)
’’اور آل فرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے جہنم کی آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت قائم ہو جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کر دو‘‘۔

(۵) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ فرعون جس کی لاش اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے محفوظ فرما دی ہے:

فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ٰاٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (یونس:۹۲)
’’پس آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشانی بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو عبرت کے لئے محفوظ فرما دیا جیسا کہ مرتد کاتب وحی جسے زمین نے اپنے اندر جگہ نہیں دی اور دفن کے بعد زمین نے اسے باہر اُگل دیا تھا (صحیح بخاری)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اب اگرچہ ان لاشوں پر عذاب کے کوئی اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جیسا کہ قبض روح کے وقت مرنے والے پر عذاب یا پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے اور عذاب قبر کی واضح احادیث جن میں دفن کے بعد میت کے مبتلائے عذاب ہونے کا ذکر موجود ہے (اور جن کا بیان تفصیل سے عنقریب کیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز) لیکن ان تمام معاملات کا تعلق پردہ غیب سے ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس آیت میں آل فرعون صبح و شام جس آگ پر پیش کئے جا رہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام (میتوں) کو آگ پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں داخل ہو کر سزا بھگت رہی ہیں۔ اور قیامت کے دن وہ جس اشد العذاب میں داخل ہوں گے اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے جس میں وہ روح و جسم دنوں کے ساتھ داخل ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہ جائے گا۔

سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ (التوبۃ:۱۰۱)
عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے، پھر انہیں بڑے عذاب کے لئے (جہنم کی طرف) لوٹایا جائے گا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے اس آیت میں دوہرے عذاب سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے۔ اور عذاب عظیم سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے۔

(۶) قوم نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا
’’اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کر دیئے گئے پھر (جہنم کی) آگ میں داخل کر دیئے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے اپنے لئے کوئی بھی مددگار نہ پایا‘‘۔ (نوح:۲۵)

اس آیت سے واضح ہوا کہ قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہو گیا۔

(۷) سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں نے ان پیغمبروں کی بات نہ مانی اور کفر پر مر گئیں۔ چنانچہ موت کے وقت ان سے کہا گیا: وَ قِیْلَ ادْخُلِ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ اور ان سے کہا گیا کہ تم دونوں جہنم میں داخل ہو جاؤ داخل ہونے والوں کے ساتھ (التحریم:۱۰)

(۸) اہل السنۃ والجماعۃ کا عذاب قبر کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے جبکہ جسم اپنی قبر میں عذاب یا ثواب سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے اور یہی عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس لئے کہ اگر روح جسم میں واپس آجائے تو پھر یہ عذاب مردہ کو نہیں بلکہ زندہ کو ہوا جبکہ احادیث صحیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ عذاب قبر میت (مردہ) کو ہوتا ہے۔ البتہ سوال و جواب کے لئے میت کی طرف روح کو کچھ دیر کے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور روح کے لوٹ جانے کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو دنیا میں تھی بلکہ یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عقیدہ طحاویہ کے شارح نے ذکر فرمایا ہے۔

سورۃ نوح کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں جسموں کو نہیں بلکہ ان کی روحوں کو داخل کیا گیا۔ البتہ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے یہ مسئلہ واضح ہے اور ہمارے لئے عذاب کے ان اثرات کو دیکھنا اور محسوس کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ غیب کا معاملہ ہے جسے حواس محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
راحت قبر کے متعلق بھی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:​

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۷۔۳۰)۔
’’اے نفس مطمئن: چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔

احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: (مسند احمد (۲/۳۶۴)، سنن النسائی کتاب الجنائز:۱۸۳۳، صحیح ابن حبان رقم ۳۰۰۳، مستدرک لامام حاکم (۱/۳۵۲، ۳۵۳)،

(۹) سورۃ یٰسین میں ایک مرد مؤمن کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس نے پیغمبروں کی حمایت کی اور اپنی قوم کے سامنے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا اور جس کی پاداش میں اسے شہید کر دیا گیا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:

قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یٰسین:۲۷۔۲۸)
’’اُس شخص سے کہا گیا کہ ’’جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں کر دیا‘‘ ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
(۱۰)
الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورہ النحل:۳۲)
وہ پاک (صالح) لوگ کہ جن کی روحیں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام علیکم (تم پر سلام ہو) تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قبض ارواح کے بعد ہی ارواح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ تلک عشرۃ کاملہ۔

اوپر جو آیات نقل کی گئی ہیں ان کے انداز سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عذاب و ثواب میں پورا انسان یعنی جسم اور روح دونوں شریک ہیں۔

قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش فرمایا ہے۔ عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔
 
Top