محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵)
’’پس نہیں اے محمد (ﷺ) تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیںِ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلم کر لیں‘‘۔
ثابت ہوا کہ نبی ﷺ کو اختلافی مسائل میں حکم نہ ماننے والا ایمان سے خارج ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ مسلم یا توحیدی کہے۔
اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا اِرشاد، آپ کی حدیث اختلافی مسائل میں حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور صحیح حدیث کے جاننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے یا اس حدیث کو اپنی رائے کے خلاف سمجھتے ہوئے جھٹلا دیتا ہے یا اپنی تنظیم کے امیر کی بات اور رائے کو حدیث پر مقدم سمجھتا ہے تو بس سمجھ لیں کہ یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے اور اس کا دعویٰ ایمان جھوٹا ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ توحیدی اور مسلم کہے، کیونکہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور اب یہ صرف دکھاوے کے لئے مسلم بنا ہوا ہے۔ اور حقیقتاً یہ اپنی کسی محبوب شخصیت کے عقائد و نظریات کا گرویدہ ہو چکا ہے اور قرآن و حدیث اس کے سامنے اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں بھلا ہدایت کی راہ واضح ہو جانے کے بعد بھی جو شخص راہِ ہدایت کو اختیار نہ کرے بلکہ اپنی یا اپنی کسی محبوب شخصیت کی رائے پر مصر ہو تو ایسا شخص ایمان والا کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جََھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
’’اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ پر چلے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔
قرآن و حدیث کی راہ ہدایت ہے اور اس راہِ ہدایت پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی حدیث رسول ﷺ معلوم ہو جانے کے بعد بھی آپ ﷺ کے فرمان کو ترک کر دیتا ہے تو وہ رسول ﷺ کی مخالفت کر رہا ہے اور مومنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کون سا ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟ اس آیت سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اور پھر جو شخص آپ کے ایک فرمان کا نہیں بلکہ احادیثِ متواترہ کا عملاً انکاری ہو۔ کیونکہ عذاب قبر کے سلسلہ میں اس قدر احادیث مروی ہیں کہ جو لاتعداد ہیں۔ ان تمام احادیث کا انکاری مومن کیسے ہو سکتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵)
’’پس نہیں اے محمد (ﷺ) تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیںِ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلم کر لیں‘‘۔
ثابت ہوا کہ نبی ﷺ کو اختلافی مسائل میں حکم نہ ماننے والا ایمان سے خارج ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ مسلم یا توحیدی کہے۔
اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا اِرشاد، آپ کی حدیث اختلافی مسائل میں حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور صحیح حدیث کے جاننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے یا اس حدیث کو اپنی رائے کے خلاف سمجھتے ہوئے جھٹلا دیتا ہے یا اپنی تنظیم کے امیر کی بات اور رائے کو حدیث پر مقدم سمجھتا ہے تو بس سمجھ لیں کہ یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے اور اس کا دعویٰ ایمان جھوٹا ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ توحیدی اور مسلم کہے، کیونکہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور اب یہ صرف دکھاوے کے لئے مسلم بنا ہوا ہے۔ اور حقیقتاً یہ اپنی کسی محبوب شخصیت کے عقائد و نظریات کا گرویدہ ہو چکا ہے اور قرآن و حدیث اس کے سامنے اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں بھلا ہدایت کی راہ واضح ہو جانے کے بعد بھی جو شخص راہِ ہدایت کو اختیار نہ کرے بلکہ اپنی یا اپنی کسی محبوب شخصیت کی رائے پر مصر ہو تو ایسا شخص ایمان والا کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جََھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
’’اور جو شخص رسول (ﷺ) کی مخالفت کرے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ پر چلے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔
قرآن و حدیث کی راہ ہدایت ہے اور اس راہِ ہدایت پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی حدیث رسول ﷺ معلوم ہو جانے کے بعد بھی آپ ﷺ کے فرمان کو ترک کر دیتا ہے تو وہ رسول ﷺ کی مخالفت کر رہا ہے اور مومنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کون سا ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟ اس آیت سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اور پھر جو شخص آپ کے ایک فرمان کا نہیں بلکہ احادیثِ متواترہ کا عملاً انکاری ہو۔ کیونکہ عذاب قبر کے سلسلہ میں اس قدر احادیث مروی ہیں کہ جو لاتعداد ہیں۔ ان تمام احادیث کا انکاری مومن کیسے ہو سکتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔