• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
27:باب مردہ جوتیوں کی چاپ سنتا ہے​

قتادہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی ) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آ جاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں اور وہ دونوں اس سے کہتے ہیں کہ تو کیا کہتا تھا اس شخص محمد کے بارے میں ؟ وہ کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔ اب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنی جہنم کی بیٹھک کی طرف دیکھ۔اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جنت کا یہ مقام عطاء فرما دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں جگہوں کو دیکھتا ہے لیکن کافر اور منافق کہتا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں تو وہی کہا کرتا تھا جو لوگ کہتے تھے اس سے کہا جاتا ہے کہ تو نے سچی بات نہ جانی اور نہ جاننے والوں کی پیروی کی۔پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان فولادی ہتھوڑے سے ایسی ضرف لگائی جاتی ہے اور وہ ایسی چیخ مارتا ہے کہ انسانوں اور جنوں کے علاوہ ہر کوئی سنتا ہے۔(ترجمہ ‘عبارت ص۱۷۸ صحیح بخاری مطبوعہ دہلی)

ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ بخاری کے اس باب باندھنے کہ (المیت یسمع قرع النعال یعنی مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے )اس کے متعلق الزین بن المنیر نے کہا کہ مصنف (بخاری) کے اس مضمون کے باب باندھنے سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس طریقہ کو آداب دفن میں اولیت حاصل ہے کہ وقار برقرار کھا جائے شور وشر سے اجتناب کیا جائے اور شدت کے ساتھ پیروں کو زمین پر نہ مارا جائے جیسے کہ ایک زندہ سونے والے کے لئے ہونا چاہئیے اور ایسا لگتا ہے کہ بخاری نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے) یہ نکالا ہے کہ آدمیوں سے جیسا کچھ سنا جاتا ہے ویسا ہی فرشتوں سے بھی سنا جاتا ہے (یعنی ان کے جوتوں کی آواز)
حدیث کی اس تشریح کو ابن حجر عسقلانی نے بخاری کی شرح فتح الباری میں سب سے پہلے ذکر کیا ہے الفاظ حدیث بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ دفن کرنے والے تو دفن کر کے جا چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ مردہ فرشتوں کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے۔ (انسانوں کے جوتوں کی نہیں ) الفاظ یہ ہیں:۔
اَلْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَب اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ اَتَاہُ مَلِکَانِ
(بندہ جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کا معاملہ پورا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ البتہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں‘‘۔ (توحید خالص نمبر ۲ ص۲۶‘۲۷)
موصوف نے اتنا تو کیا کہ یسمع کو مجہول کا صیغہ تسلیم کرنے کے بجائے معروف کا صیغہ تسلیم کر لیا مگر اب انہوں نے نیا ترجمہ اور نرالی تحقیق فرمائی ہے۔ تُوُلِّیَ وَذَھَبَ اَصْحَابُہٗ کا ترجمہ موصوف نے اس طرح کیا ہے ’’ اس کا معاملہ پورا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں‘‘ حالانکہ اس کا سادہ سا ترجمہ اس طرح ہے ’’ اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ پھیرتے ہیں اور (واپس) چلے جاتے ہیں‘‘۔(ذہن پرستی ص۷ قسط نمبر ۲)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں وَقَالَ ابْنُ التِّیْنِ اِنَّہٗ کَرَّرَا للَّفْظُ وَالْمَعْنٰی وَاحِدٌ یعنی ابن التینؒ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ (تولی اور ذھب) مکرر آئے ہیں اور دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد ۳ ص۱۶۱ طبع مصر)۔
آگے فرماتے ہیں:۔
وَسَیَاْتِیْ فِیْ رَوَایَۃِ عَیَّاشٍ بِلَفْظِ وَ تَوَلَّی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ وَھُوَ الْمَوْجُوْدُ فِیْ جَمِیْعِ الرِّوَایَاتِ عِنْدَ مُسْلِمٍ وَغَیْرِہٖ۔
یعنی اور عنقریب جناب عیاش ؒ کی روایت تولی عنہ اصحابہ کے الفاظ کے ساتھ آ رہی ہے اور یہ الفاظ (تولی عنہ اصحابہ) جو گویا اوپر والی روایت کے مفہوم کو صحیح طور پر متعین کرتے ہیں تمام روایات صحیح مسلم اور دیگر (کتب حدیث) میں موجود ہیں (ایضاً) حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے جس روایت کا تذکرہ کیا ہے وہ بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے (اور جسے ہم پوری تفصیل کے ساتھ پیچھے نقل بھی کر چکے ہیں)
اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَتَوَّلیٰ عَنْہُ اَصْحَابُہٗ وَاِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہَمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ (متفق علیہ)
’’ بے شک بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے (منہ پھیر) کر چلے جاتے ہیں تو ابھی وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آ جاتے ہیں‘‘۔(رواہ البخاری و مسلم عن انسؓ)
جناب انس ؓ ہی سے صحیح مسلم میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔
اِنَّ الْمَیِّتَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ اَنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ اِذَا انْصَرَفُوْا۔​
’’ بے شک جب مردے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور جب وہ (یعنی اس کے ساتھی) لوٹتے ہیں تو مردہ یقینا ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے ‘‘۔(صحیح مسلم جلد۲ ص۳۸۶)
یہ تینوں روایات جو جناب انس ؓ ہی سے مروی ہیں اور محدثین نے انہیں اپنی اپنی سندوں کے ساتھ مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی روایت اگرچہ ایک ہی ہے مگر مختلف سندیں ہونے کی بناپر الفاظ میں معمولی سا فرق ہے اور جب اس حدیث کے تمام الفاظ کو سامنے رکھا جائے تو مفہوم پوری طرح نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔
موصوف نے اس صحیح روایت کی صرف ایک سند سے اپنا مطلب کشید کرنے کی کوشش ہے مگر صحیح مسلم کی روایت نے ان کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ اپنا خود ساختہ نظریہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکا م رہے ہیں۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ موصوف نے ترجمہ میں کس طرح خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور مسعود احمد صاحب کے متنبہ کرنے پر بھی اپنی اس شنیع حرکت سے باز نہ آئے۔اب اسے کیا کہا جائے موصوف ہی کے الفاظ میں ’’ یہ سادگی ہے یا پرکاری‘‘ (اتقو اللہ ص۵)ممکن ہے کہ ان کی اس مکاری و عیاری کا ان کے سادہ لوح ساتھیوں کو پتہ نہ چل سکے مگر قیامت کے دن کے مواخذہ سے موصوف اپنے آپ کو کس طرح بچائیں گے کیا ایسے ہی شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد صادق نہیں آتا۔
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوٰھُ و اَضَلَّہُ اﷲُ عَلی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلیٰ سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلیٰ بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اﷲِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ
(جاثیہ ۲۳)
’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الہ بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے کیا تم لوگ کوئی سبق نہں لیتے‘‘۔
آگے انہ لیسمع قرع نعالہم اتاہ ملکان کا ترجمہ یوں کیا ہے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ نعالھم میں ھم کی ضمیر کو انہوں نے انسانوں کے بجائے فرشتوں کی طرف لوٹا دیا تا کہ اس طرح نہ رہے بانس نہ بجے بانسری چنانچہ مسعود احمد صاحب موصوف کی گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’نعالھم‘‘(فرشتوں کی جوتیاں) اس مرکب میں ’’ھم‘‘ کی ضمیر پہلے ہے اور اس کا مرجع (یعنی فرشتے) بعد میں یہ عربی قواعد کے خلاف ہے۔
حدیث میں ہے کہ دو فرشتے آتے ہیں لہذا ان کے لئے تثنیہ کا صیغہ آنا چاہئے تھا یعنی بجائے ’’نعاھم‘‘کے ’’نعالھما‘‘ہونا چاہئے تھا۔دو کے لئے جمع کا صیغہ عربی قواعد کے خلاف ہے معلوم نہیں یہ عربی قواعد کی غلطیاں کس نے کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی لانے والے فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابیؓ نے جس نے حدیث کو روایت کیا ہے یا یہ کہ غلطی موصوف سے ہوئی کہ انہوں نے محض اپنے ذہنی نظریہ کے تحفظ کے لئے جوتیوں کی اضافت کو انسانوں کے بجائے فرشتوں کی طرف پھیر دیا۔ (ذہن پرستی نمبر ۲ ص۶)
اس کا جواب موصوف نے اپنے تازہ رسالے عذاب قبر میں یوں دیا ہے ’’الزین بن المنیر‘‘ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ فرشتے تو دو ہوتے ہیں اور ضمیر جمع ہم نعالھم استعمال ہوئی ہے ’’نعالھما‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ عربی زبان میں دونوں طریقے رائج ہیں تثنیہ (دو) کے لئے جمع کا استعمال عام ہے جیسے قرآن کی آیت ہے:۔
قَالَ کَلَّا فَاذْھَبَا بِاٰیٰتِنَا اِنَّا مَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ۔(ایۃ ۱۵۔الشعرائ)
ترجمہ : فرمایا ہرگز نہیں تم دونوں جائو ہماری نشانیاں لے کر ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فاذھبا میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور معکم میں جمع کی۔
اسی طرح بخاری کی حدیث خضر میں یہ الفاظ آئے ہیں:۔
فَمَرَّتْ بِھِمَا سَفِیْنَۃٌ فَکَلَّمُوْھُمْ اَنْ یَّحْمِلُوْھُمَا۔
ترجمہ : پس گزری ان دونوں(موسی ؑ اور خضر ؑ) کے پاس سے ایک کشتی پس انہوں (جمع کاصیغہ ) نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی پر سوار کر لیں۔ (بخاری عربی جلد ۱ ص۲۳ سطر ۱۵۔۱۶)
فکلموھم کے ساتھ ساتھ فکلماھم بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر متن میں فکلموھمکو ہی ترجیح دی گئی ہے جو (تثنیہ) کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔(عذاب قبر ص۱۲)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
28:ٖکیا فرشتے جوتیاں پہنتے ہیں؟​

موصوف نے اول اپنی ہی طرف سے بغیر کسی دلیل کے یہ مفروضہ گھڑا ہے کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے اور اسی مفروضہ پرپوری عمارت قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الزین بن المنیرؒ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے۔ کس نے یہ اعتراض کیا اور کس بات پر کیا ہے ؟ ابن المنیر ؒ نے تو یہ کہا ہی نہیں ہے کہ میت جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ اعتراض تو جناب آپ پر ہو رہا ہے کہ آپ نے ایک انتہائی عجیب و غریب بات ارشاد فرمائی ہے اور فن دین داری کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی ہوشیاری اور کمال چابکدستی سے آپ نے اپنے بجائے ابن المنیرؒ کو آگے کر دیا۔ ابن المنیر ؒ نے تو جو کچھ کہا ہے وہ آپ کے عقیدہ کے خلاف ہے چنانچہ الفاظ پر غور فرمائیں۔ ’’اس طریقہ کو آداب میں اولیت حاصل ہے کہ وقار برقرار رکھا جائے (اور قبرستان میں) شورو شر سے اجتناب کیا جائے اور شدت کے ساتھ پیروں کو زمین پر نہ مارا جائے جیسے کہ ایک زندہ سونے والے کے لئے ہونا چاہئے‘‘۔(توحید خالص نمبر۲ ص۲۶)
یہ الفاظ تو صاف بتا رہے ہیں کہ ابن المنیر ؒ قبرستان میں شور و غل سے منع کر رہے اور شدت کے ساتھ پیروں کو زمین پر مارنے سے منع فرما رہے ہیں کیونکہ اس طرح مردہ کو شوروغل اور زمین پر پیروں کے مارنے کی آواز سے تکلیف ہو گی۔ابن المنیرؒ نے تو یہ کہیں نہیں کہا کہ مردہ انسانوں کے جوتیوں کی آواز نہیں سنتا بلکہ وہ فرشتوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ آپ نے جو ترجمہ کیا ہے اس کے الفاظ بھی یہ ہیں۔آدمیوں سے جو کچھ سنا جاتا ہے ویسا ہی فرشتوں سے سنا جاتا ہے۔ انسانوں سے سننے یا انسانوں کے جوتیوں کی آواز سننے کی تو اس میں کوئی نفی نہیں بلکہ جو انسانوں سے سنا جاتا ہے ویسا ہی فرشتوں سے سنا جاتا ہے آگے آپ نے بریکٹ میں زبردستی یہ الفاظ (یعنی ان کی جوتیوں کی آواز) بڑھا دئیے ہیں ورنہ ان الفاظ کی اس ترجمہ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔ابن المنیرؒ نے یہاں جوتیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی ہے۔معلوم نہیں آپ کو جوتیوں کا خیال کیسے آ گیا۔چلئیے تھوڑی دیر کے لئے ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ابن المنیرؒ نے وہی بات کہی ہے جو آپ فرما رہے ہیں لیکن مجرد ابن المنیرؒ کا قول تو ہمارے لئے دلیل نہیں ہے۔ ان کے قول کی کوئی دلیل تو ہونی چاہئے بغیر دلیل کے ہم ان کا قول کیسے تسلیم کر لیں اور اگر ابن المنیرؒ کے قول کی آپ کے نزدیک اتنی ہی اہمیت ہے تو پھر اعادہ روح اور عذاب قبر وغیرہ کے سلسلہ میں بھی آپ کو ان کے اقوال مان لینے چاہئیں۔
اب آئیے اس بحث کی طرف کہ جو موصوف نے جمع اور تثنیہ کے سلسلہ میں کی ہے چنانچہ موصوف کا جواب دیتے ہوئے جناب مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒصاحب لکھتے ہیں :۔
’’عربی زبان میں تثنیہ کے لئے جمع کا صیغہ عام نہیں۔ اگر عام ہوتا تو گرائمر کی کتابوں میں اس کا ضرور ذکر پایا جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے تثنیہ کی صورت میں جمع کا استعمال شاذ ہے اور اس کی بھی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے مثلاً:۔پہلی مثال میں ’’کم‘‘ کی ضمیر ’’مع‘‘ کی وجہ سے آئی ہے گویا فرعون کی طرف جانے والے تو صرف دو تھے مگر سننے والوں میں اللہ بھی ساتھ شامل ہو گیا اور ضمیر جمع میں بدل گئی۔دوسری مثال میں ایک مقام پر ’’ کلموھم‘‘ اس لئے آیا ہے کہ موسیؑ کے ساتھ ان کا ایک ساتھی (یوشع بن نون) بھی تھا۔جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے لیکن قابل ذکر چونکہ دوہی ہستیاں تھیں یعنی موسی ؑ اور خضر ؑ اس لئے اکثر تثنیہ کا ضمیر آیا اور ایک جگہ اشتباہ کی وجہ سے جمع کا ضمیر بھی آیا۔ اگرچہ اس کی حاشیہ میں تصحیح کر دی گئی۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
29:آگے دوسرے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
جواب نمبر ۱: پہلی مثال اس لحاظ سے غلط ہے کہ ’’ انا انشأنھن ‘‘ سے چند آیات پہلے ’’ حورعین کا مثال اللئولو ء المکون‘‘ کا ذکر آ چکا ہے۔ بعد میں جنت کی چند صفات بیان کر کے’’ انشأنھن‘‘ کی ضمیر ’’ حورعین‘‘ کی طرف پھیر ی گئی ہے جو درست ہے لیکن عثمانی صاحب اسے خواہ مخواہ ’’ ابکارا‘‘ کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں صرف اس لئے کہ یہ لفظ بعد میں آیا ہے۔
جواب نمبر ۲: مثال تو ایسی درکار تھی کہ ضمیر پہلے آئے اور اس کا مرجع اسم بعد میں ہو۔پہلی مثال میں آپ نے بعد میں مرجع ’’ابکارا‘‘ جو بتلایا ہے وہ ویسے ہی غلط ہے اور دوسری مثال میں ضمیر کا مرجع اسم مذکور ہی نہیں تو ڈاکٹر صاحب کا جواب درست کیسے سمجھا جائے۔
اب دیکھئے کہ ’’ قرع نعالھم ‘‘ کا مرجع ’’ اصحابہ‘‘ واضح طور پر جب موجود ہے تو ’’ ھم‘ ‘ کا مرجع آخر ’’ ملکان‘‘ کیوں قرار دیا جائے؟(سماع موتی، روح، عذاب قبر میں)
اس علمی بحث سے قطع نظر اگر حدیث قرع نعالھم کا اردو ترجمہ ہی ایمانداری سے پڑھ لیا جائے تو مسئلہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے مگر افسوس کہ موصوف قرآن و حدیث میں خواہ مخواہ پیچیدگیاں پیدا کر رہے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو بھی پریشان کر رہے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے :۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
30:فیصلہ کن حدیث​

موصوف نے جو بغیر کسی دلیل کے خواہ مخواہ ’’ ھم ‘‘ کی ضمیر کو فرشتوں کی طرف پھیر دیا ہے تو اس کے لئے کوئی واضح قرینہ موجود ہونا چاہئے تھا مگر یہاں ایسا نہیں ہے بلکہ دلائل اس کے خلاف ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی حدیث بالکل فیصلہ کن ہے الفاظ یہ ہیں:۔
اِنَّ الْمَیِّتَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ اِذَا انْصَرَفُوْا (صحیح مسلم ص۳۸۶ ج ۲)
’’بیشک جب مردے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور جب وہ (یعنی اس کے ساتھی) لوٹتے ہیں تو مردہ یقینا ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے ‘‘۔
اس حدیث میں فرشتوں کا کوئی تذکرہ نہیں لہذا لا محالہ ھم کی ضمیر دفن کرنے والے ساتھیوں ہی کی طرف پلٹے گی اس واضح حدیث سے ثابت ہوا کہ میت دفن کرنے والوں کے جوتوں کی چاپ سنتی ہے۔اور امام بخاریؒ کے قائم کردہ باب کے الفاظ بھی اسی حدیث کے مطابق ہیں۔
صحیح مسلم کے علاوہ امام ابو دائودؒ (عون المعبود جلد ۳ ص۲۱۱ اور امام نسائی ؒ جلد ۱ص۲۸۸) نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ جناب انس ؓ کی یہ وہی حدیث ہے جس کے ذریعے موصوف نے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے اور اس حدیث کو انہوں نے خود ساختہ معنی کی بھینٹ چڑھایا ہے مگر اس حدیث کی دوسری سندوں نے اس کے مفہوم کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ ضرورت تو نہیں کہ اس صحیح حدیث کے بعد بھی کچھ پیش کیا جائے مگر اتمام حجت کے لئے چند اور واضح احادیث پیش کی جاتی ہیں:۔
عَنْ ابْنِ عَبَاسٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دُفِنَ الْمَیِّتُ سَمِعَ خَفْقَ نِعَالِہِمْ اِذَا وَلَّوْا عَنْہُ مُنْصَرِفِیْنَ (رواہ الطبرانی فی الکبیر و رجالہ ثقات مجمع الزوائد ص ۵۴ ج ۳)
’’ جناب ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میت کو دفن کیا جاتا ہے تو وہ (دفن کر کے) واپس پلٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے‘‘۔(طبرانی اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔ مجمع)
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الْمَیِّتَ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ اَذَا وَلَّوْا عَنْہُ یَعْنِیْ مُدْبِرِیْنَ (رواہ البزار واسنادہ حسن۔ مجمع الزوائد ص ۵۴ ج ۳) المستدرک (۱/۳۷۹) قال الذھبی: تابعہ حماد بن سلمۃ عن محمد بنحوہ علی شرط مسلم۔
جناب ابو ہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک میت منہ پھیر کر واپس پلٹ جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے‘‘۔(البزار۔ یہ حدیث حسن ہے)
ابو ہریرۃؓ کی دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ حِیْنَ یُوَلُّوْنَ عَنْہُ (رواہ الطبرانی فی الاوسط واسنادہ حسن (مجمع الزوائد جلد ۳ ص ۵۱۔۵۲) وقال الحاکم: ھذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ وقال الذھبی: علی شرط مسلم (المستدرک ج ۱ ص ۳۸۱)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک وہ (مردہ) ان (دفن کرنے والوں) کے جوتوں کی آواز سنتا ہے جب وہ اس سے واپس ہوتے ہیں‘‘۔
جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّ الْمَیِّتَ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِکُمْ حِیْنَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ (ابن جریر بحوالہ ابن کثیر ج ۲ ص ۵۳۴)
’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے بیشک میت تمہاری جوتیوں کی چاپ سنتی ہے جس وقت کہ تم اس سے منہ پھیر کر واپس لوٹتے ہو‘‘۔

ہم نے اپنے طور پر چند دلائل پیش کر کے ثابت کر دیا کہ مردہ دفن کرنیوالے انسانوں ہی کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اب موصوف کو چاہئے کہ وہ ان الفاظ یعنی ان المیت یسمع قرع نعال الملئکۃ(مردہ فرشتوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے) کو (اتنے بڑے ذخیرہ احادیث میں سے) کسی ایک ضعیف یا موضوع حدیث ہی سے ثابت کر کے دکھا دیں تا کہ کم از کم اتنا تو معلوم ہو سکے کہ شاید کسی حدیث گھڑنے والے کے ذہن میں یہ مفہوم بھی موجود تھا مگر ان شاء اللہ وہ قیامت تک ایک موضوع روایت بھی نہیں دکھا سکیں گے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ خودہی کوئی روایت گھڑ لیں کیونکہ جب انہوں نے ایک خود ساختہ نظریہ گھڑ لیا ہے تو اب روایت گھڑنا کوئی بڑی بات نہیں ہو گی ولو کان بعضھم لبعض ظھیرًا۔لیکن کیا کیا جائے کہ اب حدیث گھڑنے کا زمانہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

فرشتوں کو جوتیاں پہنانے کے سلسلہ میں جب موصوف کا تعاقب کیا گیا اور موصوف پریشان ہو گئے تو اب تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں لہذا اپنے نئے کتابچہ ’’ عذاب قبر‘‘ میں منسوخ شدہ قول (یعنی یسمع مجہول کا صیغہ ہے) کو بھی دوبارہ لے آئے ہیں اور فرشتوں کے جوتیاں پہننے کے قول کو بھی برقرار رکھا ہے اور اعتراضات کے جوابات بھی دئیے ہیں جن کا تجزیہ کیا جا چکا ہے اب یہ تو شاید موصوف کو بھی معلوم نہ ہو کہ فرشتے جب اپنی اصلی صورت میں ہوتے ہیں تو کون سا لباس پہنتے ہیں۔موصوف نے ابن منیرؒ کے خود ساختہ قول پر اعتماد کرتے ہوئے جو عمارت کھڑی کی ہے وہ اتنی بودی ہے کہ زیادہ دیر تک فضا میں قائم نہیں رہ سکتی اور آنے والے دلائل اسے بیخ وبن سے اکھاڑ دینے کے لئے کافی وشافی ہوں گے موصوف نے بخاری و مسلم کی روایت سے جو غلط مطلب کشید کیا تھا صحیح مسلم کی دوسری روایت نے اس ہوائی قلعہ کو دھڑام سے زمین پر گرا دیا۔ موصوف قرآن وحدیث سے اپنے مطلب کی باتیں کشید کرتے ہیں مگر قرآن و حدیث کی جو باتیں ان کے نظریات کے خلاف ہوتی ہیں انہیں رد کر دیتے ہیں۔
اَفَتُوْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (بقرۃ : ۸۵)
’’ کیا کتاب کے بعض مضامین کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کر دیتے ہو‘‘۔
اس موقع پر اردو کی یہ مثال بھی صادق آتی ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ کڑوا کڑوا تھو۔​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
31:ڈاکٹر عثمانی صاحب کی ایک حماقت​

موصوف نے یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ فرشتے جوتیاں پہنتے ہیں اور جب ان کی پکڑ کی گئی تو ماننے کے بجائے بہت سے دلائل دے دئیے کر فرشتے ہتھیار اور کپڑے پہن سکتے ہیںتو کیا جوتے نہیں پہن سکتے۔پہلے ان کے دلائل ملاحظہ فرمائیے۔
اب آخر میں فن دینداری کے حربے استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ کیا فرشتے جوتیاں پہنتے ہیں؟
زبان و ادب میں حقیقت و مجاز کے باب کی وسعت کسے معلوم نہیں۔اسد اللہ (اللہ کا شیر) کسی مومن کی بہادری کے اظہار کے لئے ہوتا ہے اب اگر کوئی یہ کہنے لگے کہ شیر کی تو دم ہوتی ہے اس کی دم کدھر ہے یا کوئی سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کے معنی اصلی تلوار کے لے لے تو بہرحال خالد بن ولیدؓنہ تو فولاد کے بنے ہوئے تھے اور نہ ان کے دستہ تھانہ دھار تھی۔
اور فرشتے اگر جوتے بھی پہن لیں تو کیا قیامت آ جائے گی۔جب بخاری و مسلم کی احادیث میں آ گیا کہ فرشتے لباس بھی پہنتے ہیں اور ہتھیار بھی لگاتے ہیں تو آخر جوتیاں پہننے میں کیا بات ایسی ہے کہ اس کی ہنسی اڑائی جائے۔
ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن ارشاد فرمایا کہ یہ ہیں جبرئیلؑ اپنے گھوڑے کے سر پکڑے ہوئے۔اور ان کے اوپر جنگ کے ہتھیار ہیں۔(بخاری جلد ۲ عربی ص۵۷۰ مطبوعہ دہلی)
عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے محاذ جنگ سے واپس آئے اور ہتھیار اتار کر غسل فرما لیا تو جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہتھیار اتار دئیے لیکن ہم لوگوں نے ابھی تک نہیں اتارے۔ ان کی طرف (جنگ) کے لئے نکلیئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کس طرف جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اس طرف اور بنو قریظہ کی طرف اشارہ کر دیا پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرف جنگ کے لئے چلے گئے۔(بخاری جلد ۲ عربی ص۵۹۰)
فرشتے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو نظر نہ آئے تب ہتھیاروں سے مسلح تھے اور جب جنگ احد میں سعد بن وقاص ؓ نے دیکھے تو ان کے بدن پر سفید کپڑے تھے بخاری کی حدیث ہے :۔
’’ سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو شخصوں کو دیکھا جو آپ کے دفاع میں جنگ کر رہے تھے ان دونوں کے اوپر سفید کپڑے تھے اور وہ شدید جنگ کر رہے تھے۔ میں نے ان کو نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ اس کے بعد دیکھا۔(ترجمہ بخاری جلد ۲ عربی ص۵۸۰)
مسلم کی حدیث میں اس بیان کے بعد ان کے نام جبرائیل اور میکائیل علیہما الصلوٰۃ والسلام بھی آئے ہیں۔(مسلم عربی جلد ۲ ص۲۵۲)
بخاری و مسلم کے علاوہ دوسری روایتوں میں تو یہاں تک آیا ہے کہ بدرو حنین میں ان کے سروں پر رنگین عمامے تھے۔ کپڑے‘ ہتھیار ‘عمامے تو فرشتے پہن سکتے ہیں مگر جوتے نہیں پہن سکتے۔برزخ میں انسانوں کے پاس آئیں تو لازم ہے کہ ننگے بدن‘ننگے سر اور ننگے پیر آئیں ‘ورنہ اپنے استدلال کے پائے چوبیں کی سخت بے تمکینی کا مداوا مشکل ہو جائے گا ‘‘۔(عذاب قبر ص۱۳‘۱۴)

اتنے دلائل دیکھ کر ان کے حواریین بغلیں بجا رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ واہ ڈاکٹر عثمانی کتنے بڑے علامہ ہیں۔ایسے دندان شکن جوابات اور ایسے دلائل۔ سبحان اللہ شناور بحر علم اللہ رے تیری شان۔مگر جناب ان دلائل کی کیا حقیقیت ہے ؟ ابھی عرض کرتا ہوں پہلے یہ بتا دوں کہ زبان و ادب میں ’’ اسد اللہ‘‘ بہادری کے معنوں میں اور ’’ سیف اللہ‘‘ بھی بہادری کے معنوں میںمجازی طور پر آتا ہے اور یہاں اس کا واضح قرینہ موجود ہے۔ فرشتوں کے جوتیاں پہننے میں کیا مجاز ہے ؟ للہ اس کی آپ یہاں وضاحت فرما دیتے تو ہم جیسے کم علموں کا بھلا ہو جاتا :۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
32:کیا فرشتوں کو دنیا میں اصلی شکل و صورت میں دیکھنا ممکن ہے؟
قبر میں سوال و جواب کے لئے جو فرشتے آتے ہیں وہ اپنی اصلی شکل و صورت میں ہوتے ہیں کیونکہ حالت نزع میں میت(مردہ) فرشتوں کو دیکھتا ہے اور جب فرشتہ انسانی شکل میں ہو تو وہ کپڑے جوتے وغیرہ پہن سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جبرئیل علیہ السلام اور جناب میکائیل علیہ السلام کو ہتھیار پہنے ہوئے دیکھا تھا تو وہ انسانی شکل تھے اور حدیث جبرئیل ؑ میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے تو وہاں بہت سے صحابہ کرام ؓ بھی تشریف فرما تھے اورجناب جبرئیل ؑ نے ان کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام، ایمان، احسان، قیامت اور علاماتِ قیامت سے متعلق سوالات پوچھے تھے۔ ورنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جبرائیل ؑ کو ان کی اصلی صورت پر صرف دو ہی مرتبہ دیکھا تھا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی۔ وَھُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی۔ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (نجم آیت ۶ تا ۹)
’’( جبرئیل ؑ) جو بڑا صاحب حکمت ہے وہ سامنے آ کھڑا ہوا جبکہ وہ بالائی افق پر تھا پھر قریب آیا اور اوپر معلق ہو گیا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا‘‘۔
آگے ارشاد ہوتا ہے :۔
وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی۔ عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی (نجم ۱۳تا۱۵)
’’ اور ایک مرتبہ پھر اس نے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اسکو دیکھا جہاں پاس ہی جنت الماوٰی ہے‘‘۔​
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَلَقَدْ رَاٰھُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ (تکویر ۲۳)
’’ وہ اس فرشتے کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھ چکا ہے‘‘۔​
۱۔ ام المؤمنین عائشہ ؓ مندرجہ بالا آیات کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کے بارے میں دریافت کیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ تو جبرئیل علیہ السلام تھے میں نے ان کو ان کی اصلی صورت میں جس پر اللہ نے ان کو پیدا فرمایا ہے ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا۔ ان دو مواقع پر میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی‘‘۔( مسلم کتاب الایمان)
۲۔
عَنْ زَرٍّ عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ مَا کَذَبَ الْفُؤادُ مَا رَاٰی قَالَ رَاٰی جِبْرِیْلَ لَہٗ سِتُّ مِائَۃِ جَنَاحٍ (بخاری و مسلم)
جناب عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ما کذب الفؤاد مارأی کی تفسیر میں بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جبرئیل علیہ السلام کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے۔ (بخاری و مسلم)
۳۔ ایک اور روایت میں ہے عائشہؓ نے مندرجہ بالا آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس سے مراد جبرئیل ؑ ہیں وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے انسانی شکل میں آیا کرتے تھے مگر اس موقع پر وہ اپنی اصلی شکل میں آئے اور سارا افق ان سے بھر گیا۔ (صحیح بخاری کتاب التوحید)
۴۔ عائشہ ؓ ہی سے ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کو دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا ‘‘۔( صحیح بخاری کتاب التفسیر)
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اصلی صورت میں یاتو موت کے وقت یا قیامت کے دن ہی ظاہر ہوں گے ورنہ عام طور پر فرشتے دنیا میں انسانی شکل میں ہی آتے رہتے ہیں۔ جناب ابراہیم ؑ اور جناب لوط ؑ کے پاس جو فرشتے آئے تھے وہ انسانی شکل ہی میں تھے۔اسی طرح جناب جبرئیل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عام طور پر دحیہ کلبی ؓ کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ فرشتوں کا تعلق بھی چونکہ پردہ غیب سے ہے اور بن دیکھے ان پر لانا ضروری ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ اصلی شکل میں ظاہر ہو گیا تو پھر عمل کی مہلت ختم ہو جائے گی ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
وَقَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ۔ وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ (انعام ۸۔۹)
’’ کہتے ہیں کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ۔اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح اسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں‘‘۔

مفتی صاحب فرماتے ہیں’’ فرشتوں کے نازل ہونے کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ فرشتہ اپنی اصلی ہیئت و صورت میں سامنے آ جائے تو اس کی ہیبت کو کوئی انسان برداشت نہیں کر سکتا بلکہ ہول کھا کر فورًا مر جانے کا خطرہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ بشکل انسانی آئے جیسے جبرئیل امینؑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت مرتبہ بشکل انسانی آئے ہیں تو اس صورت میں اس سوال کرنے والے کو جو اعتراض آپ پر ہے وہی اس فرشتہ پر بھی ہو گا کہ یہ اس کو ایک انسان ہی سمجھے گا‘‘۔ (معارف القرآن جلد سوم ص۲۸۷)
اسی مضمون کی آیات سورۃ الحجر آیت ۷،۸ اور سورۃ الفرقان آیت ۲۲ میں بھی موجود ہیں اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ قبر میں جو فرشتے سوال و جواب کے لئے آتے ہیں وہ انسانی شکل میں نہیں بلکہ اصلی شکل میں ہوتے ہیں کیونکہ انسان جب مرتا ہے تو اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَاَن رِجَالٌ مِّنَ الْاَعْرَابِ حُفَاۃً یَّاْتُوْنَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَیَسْاَلُوْنَہٗ مَتَی السَّاعَۃُ فَکَانَ یَنْظُرُ اِلیٰ اَصْغَرِھِمْ فَیَقُوْلُ اِنْ یَعِشْ ھٰذَا لَا یُدْرِکْہُ الْھَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ قَاَل ھِشَامٌ یَعْنِیْ مَوْتَہُمْ (صحیح بخاری کتاب الرقاق)
’’عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اعرابیوں میں سے کچھ لوگ ننگے پائوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے اور پوچھتے کہ قیامت کب قائم ہو گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلحاظ عمران کے چھوٹے کی طرف دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ شخص زندہ رہا تو اس پر بڑھاپا نہیں آئے گا یہاں تک کہ تم پر قیامت آ جائے گی ہشام ؒ نے کہا یعنی موت آ جائے گی‘‘۔
جناب ابو ہریرۃ ؓ کی روایت میں ان فرشتوں کی کیفیت یوں بیان کی گئی ہے:۔
اِذَا قُبِرَ الْمَیِّتُ اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَقَاِن یُقَالُ لِاَحَدِھِمَا الْمُنْکَرُ وَلِلْاٰخَرِ النَّکِیْرُ (رواہ الترمذی مشکوۃ ص ۲۵ و سندہ حسن وھو علی شرط مسلم۔ مشکوۃ تحقیق علامہ الالبانی ص۴۷)۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب قبر میں مردہ کو رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے کالی کیری آنکھوں والے آتے ہیں جن میں سے ایک کا نام منکر ہے اور دوسرے کا نکیر‘‘۔

دیگر احادیث میں بھی ان فرشتوں کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:۔
مختصر یہ کہ ملائکہ کو دنیا میں اصلی شکل و صورت میں دیکھنا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ وہ دنیا میں جب بھی آتے ہیں انسانی شکل میں آتے ہیں اور ایسی حالت میں وہ لباس جوتے وغیرہ پہن سکتے ہیں لیکن جب وہ موت کے وقت قبر میں اورقیامت کے دن آئیں گے تو اصلی شکل میں ہونگے اور اصلی شکل میں ان کے لئے انسانی جوتے پہننا کیا معنی رکھتاہے؟اور اسی بنیادی بات کو نہ سمجھتے ہوئے عثمانی صاحب نے اپنا مطلب حل کرنے کیلئے ملائکہ کو جوتے تک پہنا دیئے ۔ اور یہی ان کی جہالت کا کھلا ثبوت ہے ۔ اور یہاں یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ قرآن و حدیث کے خلاف وہ اپنی رائے ٹھونسنے کے بھی عادی ہو چکے تھے۔
لطیفہ : موصوف نے حدیث قرع نعالھم جہاں بھی نقل کی ہے وہاں مَلِکان کے الفاظ نقل کئے ہیں حالانکہ اصل الفاظ مَلَکَان ہیں یعنی لام کی زبر کے ساتھ مثلاً توحید خالص دوسری قسط ص۲۷ اور عذاب قبر ص۱۲ پر یہی الفاظ ہیں اور اس کا ترجمہ ’’ دو بادشاہ‘‘ بنتا ہے۔اگر یہ کتابت کی غلطی ہوتی توحید خالص نمبر ۲ جو پہلے چھپی ہے تو اس کے متعلق یہ بات مان لی جاتی مگر عذاب قبر میں بھی یہ الفاظ اسی طرح نقل کئے گئے ہیں اور یہ کتابچے دھڑا دھڑ چھپ بھی رہے ہیں تعجب ہے کہ عربی کی اتنی معمولی سی غلطی موصوف سے کس طرح ہو گئی کہ انہوں نے دو فرشتوں کو ’’ دو بادشاہ‘‘ بنا دیا۔
موصوف کے نزدیک کسی شخص کو مشرک کہہ دینا معمولی بات ہے چنانچہ انہوں نے جہاں بہت سے لوگوں کو مشرک قرار دے دیا ہے ان میں ایک نام شاہ بدیع الدین راشدی آف پیر جھنڈا صاحبؒ کا بھی ہے۔ پیر صاحب سماع موتیٰ کے قائلین کے دلائل کا رد کرتے ہوئے حدیث قرع نعالھم کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:۔
’’ یہاں ظاہر ہے کہ ہر وقت مراد نہیں بلکہ اس وقت کہ دفن کرنے والے لوٹ رہے ہوں اور فرشتے اس کو اٹھاتے ہیں تو اس وقت زندہ کیا جاتا ہے ‘سوال کے لئے اور دوسری جگہ پر براء بن عازب کی حدیث میں روح کے لوٹانے کاصریحاً ذکر ہے‘‘۔
ففی حدیث اصحاب السنن و صححہ ابو عوانۃ وغیرہ و فیہ فتردد روحہ فی جسدہ فیاتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ من رب الحدیث و فیہ وان الکافر تعاد فیہ روحہ فی جسدہ فیاتیہ ملکان فیجلسانہ الحدیث کذا فی الفتح ص ۷ٔ۴۷۶ جلد ۱۳ الحلبی بمصر
’’ اصحاب سنن کی حدیث میں جسے ابو عوانۃ وغیرہ نے صحیح کہا یوں ہے اس کی روح جسم میں لوٹائی جاتی ہے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں تیرا رب کون ہے۔ الحدیث (اور اس میں ہے )اور کافر کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں‘‘۔
پس یہ روایت خارج عن محل النزاع ہے کیونکہ زندہ کے سننے میں اختلاف نہیں بلکہ بحث اس میں ہے کہ مردہ سنتا ہے یا نہیں اس کے ساتھ اس حدیث کا کوئی تعلق نہیں۔( توحید خالص ص۶۱۶ مصنفہ شاہ بدیع الدین صاحب بحوالہ عذاب قبر ص۳۱۔ وفات النبی ص۱۰)

پیر صاحب فرمار ہے ہیں کہ دفن کے وقت جب مردہ میں روح لوٹائی جاتی ہے تو اس وقت مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے اور ظاہر حدیث بھی ان کی اس بات کی تائید کر رہی ہے مگر موصوف نے آئو دیکھا نہ تائو اور انہیں فوراً مشرک قرار دے دیا۔ البتہ پیر صاحب کی یہ بات ہماری سمجھ میں بھی نہیں آئی کہ زندہ کے سننے میں اختلاف نہیںبلکہ بحث اس میں ہے کہ مردہ سنتا ہے یا نہیں۔ہمارے خیال میں مردہ میں روح لوٹائے جانے کے باوجود بھی وہ مردہ ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کی یہ حیات برزخی ہے اور برزخی حیات کو دنیا کی زندگی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
اس حدیث (قرع نعالھم ) میں یہ بھی ہے کہ اب اس (نیک میت) سے کہا جاتا ہے کہ اپنی اس جہنم کی بیٹھک کی طرف دیکھ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کا یہ مقام عطاء فرما دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں جگہوں کو دیکھتا ہے۔(بخاری۔ توحید خالص دوسری قسط ص۲۶‘۲۷)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
33: میت پر اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے​

اس سلسلہ میں ایک اور حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں:۔
بَابُ الْمَیِّتِ یُعْرَضُ عَلَیْہِ مَقْعَدَہٗ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ
حَدَّثَنَا اِسْمَاعِیْلُ قَاَل حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِاﷲِ رَضِیَ اﷲُْ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُھٗ بِالْغَدَاِۃ وَالْعَشِیِّ اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَمِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَمِنْ اَھْلِ النَّارِ فَیُقَالُ ھٰذَا مَقْعَدُکَ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ

ترجمہ : باب میت پر اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے
…عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے تو اس کا ٹھکانا صبح و شام اس پر پیش کیا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت کا ٹھکانا اور اہل دوزخ میں سے ہو تو دوزخ کا ٹھکانا۔پھر کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا وہ آخری مقام یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھ کو جلائے (اور تو اس میں داخل ہو )۔(صحیح بخاری بحوالہ توحید خالص دوسری قسط ص۳۳)
یہ دونوں حدیثیں واضح کرتی ہیں کہ میت پر اس کا ٹھکانا جنت یا جہنم پیش کیا جاتاہے اور دوسری حدیث مزید وضاحت کرتی ہے کہ جنتی میت پر صبح و شام جنت اور جہنمی میت پر صبح و شام یعنی دوام و استمرار کے ساتھ جہنم پیش کی جاتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا اصلی ٹھکانا ہے تو اب انتظار کر یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے زندہ کر کے اس میں بھیج دے۔ حَتّٰی یَبْعَثَکَ اﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کے الفاظ وضاحت کرتے ہیں کہ مردے (میت) سے قبر ارضی میں یہ بات کہی جاتی ہے۔ صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں : حَتّٰی یَبْعَثَکَ اﷲُ اِلَیہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یعنی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے قیامت کے دن (قبر سے) اس کی طرف اٹھائے (یعنی اس میں داخل کرے)اس حدیث کے الفاظ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ خطاب میت سے ہے جو ارضی قبر میں رکھا ہوتا ہے اور امام بخاریؒ نے بھی اس حدیث پر باب باندھ کر اس کی مزید وضاحت فرما دی۔باب کے الفاظ یہ ہیں بَابُ اَلْمَیِّتِ یُعْرَضُ عَلَیْہِ مَقْعَدَہٗ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یعنی میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔

اب قابل غور امر یہ ہے کہ میت کسے کہتے ہیں؟ کیا میت کا اطلاق روح پر ہوتا ہے کیا روح مردہ ہوتی ہے یا زندہ؟ ظاہر بات ہے کہ روح کو مردہ نہیں کہہ سکتے تو لا محالہ اس بدن (لاش) ہی کو میت (مردہ) کہیں گے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ میت اسی ارضی قبر میں دفن ہوتی ہے۔ یہی میت جب چارپائی پر ہوتی ہے تو کلام کرتی ہے۔ کلام المیت علی الجنازۃ آپ اگر صحیح بخاری میں کتاب الجنائز ہی اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو یہ مسائل بڑی تفصیل سے نظر آئیں گے۔ میت کا کفن ‘ غسل میت ‘ میت پر نوحہ کی کراہت‘ میت کی نماز جنازہ ‘میت کی قبر‘ دفن میت‘ میت کی تعریف وغیرہ وغیرہ اب دفن تک تو اسی لاشے ہی کو میت سمجھا جاتا ہے لیکن میت جیسے ہی دفن ہو جائے تو موصوف کے یہاں اصطلاحات بدل جاتی ہیں اب اگر میت پر قبر میں راحت و آرام کا دور گزرے یا اسے قبر میں عذاب دیا جائے۔ اس کے کانوں کے درمیان گرز کی چوٹ لگائی جائے تو اس کا انکار کر دیا جائے اور کہا جائے کہ نہیں جناب اس قبر میں کچھ نہیں ہوتا۔
چونکہ عذاب قبر اور راحت قبر کا معاملہ میت ہی سے متعلق ہوتا ہے اس لئے احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاں بھی عذاب و راحت قبر کا تذکرہ آیا ہے وہاں میت ہی کے تعلق سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے اور کسی حدیث میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ روح کو برزخی جسم عطاء کر کے عذاب و راحت کا سارا معا ملہ صرف برزخی جسم ہی سے متعلق ہوتا ہے اور بدن عنصری عذاب میں شریک نہیں ہوتا۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
34:نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت نماز میں جنت اور جہنم کا پیش کیا جانا​

موصوف کا خیال ہے کہ اس قبر میں کس طرح جنت اور جہنم پیش کی جا سکتی ہے چونکہ یہ بات ان کے ذہن سے ٹکراتی ہے اس لئے وہ اس کا انکار کر دیتے ہیں حالانکہ ہم نے بخاری و مسلم کے حوالے سے عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت بھی پیش کی ہے کہ میت پر صبح و شام جنت اور جہنم کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس روایت کو موصوف نے بھی توحید خالص دوسری قسط ص۳۳ پر پیش کیا ہے جیسا کہ صحیح احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ بلاشبہ میت پر اس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اس کی وضاحت ایک اور طرح سے کرتے ہیں۔ چنانچہ جناب عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ :۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہو گیا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں طویل قیام فرمایا۔ (اس حدیث میں یہ بھی ہے )صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کی حالت میں ) ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ کھڑے ہوئے کسی چیز کو پکڑنے کا ارادہ کررہے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پیچھے کی جانب ہٹ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میں نے جنت کو دیکھا اور اس کے ایک درخت سے انگور کا خوشہ توڑنے کا ارادہ کیا تھا۔ اگر میں اس خوشہ کو توڑ لیتا تو بلاشبہ تم جب تک دنیا میں رہتے اس میں سے کھاتے پھر میں نے دوزخ کو دیکھا اور آج کے دن کے برابر کوئی منظر ایسا خوفناک میری نظر سے نہیں گزرا اس (جہنم)میں میں نے عورتوں کو زیادہ پایا…‘‘۔
بخاری و مسلم کی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنت اور جہنم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز کی حالت میں پیش کیا گیا اور جنت تو اسقدر قریب آ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسمیں سے انگور کا خوشہ توڑنے کا ارادہ بھی کر لیا تھا۔ جب جنت و جہنم مصلے پر پیش ہو سکتی ہیں (حالانکہ صحابہ کرام ؓ نے انہیں نہیں دیکھا تھا) تو قبر میں کیوں پیش نہیں ہو سکتی۔اصل بات ایمان کی ہے جو شخص غیب پر ایمان رکھے گا تو وہ لازماً ان حقیقتوں کو تسلیم کرے گا اور جو شخص بن دیکھے ایمان کا قائل ہی نہ ہو تو بہرحال آج نہیں تو کل وہ ضرور ان تمام حقائق پر ایمان لے آئے گا مگر اس وقت وہ ایمان اسے فائدہ نہیں دے گا۔مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں عُرِضَتْ عَلَی النَّارُ۔ یعنی مجھ پر جہنم پیش کی گئی (مشکوٰۃ ص۴۵۶) اس واقعہ کو عائشہ ؓ اور اسماء بنت ابی بکر بھی بیان کرتی ہیں اور جسمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد پہلی مرتبہ عذاب قبر کا تذکرہ فرمایا جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
35:جناب عمرو بن العاصؓ کا واقعہ​

جناب عمرو بن العاص ؓ کی حدیث ارضی قبر میں سوال وجواب کے لئے بہت ہی واضح ہے۔ چنانچہ جناب ابن شماسہ المہری ؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم جناب عمرو بن العاص ؓ کے پاس اس وقت گئے جب کہ ان کی وفات کا وقت قریب تھا وہ بہت دیر تک روتے رہے او ردیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔بیٹے نے کہا ابا جان کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں بشارت نہیں دی؟ پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں ؟ تب انہوں نے اپنا منہ ہمارے طرف کیا اور فرمایا ہمارے لئے بہترین توشہ تو اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں (پھر فرمایا) میں تین ادوار سے گزرا ہوں۔ایک دور تو وہ تھا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی سے بغض نہ تھا اور کوئی چیز میری نظر میں اتنی محبوب نہ تھی جتنی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدرت حاصل ہو جائے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالوں (معاذ اللہ)پھر دوسرا دور وہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کا خیال میرے دل میں پیدا کیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ہاتھ پھیلائیے تا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپناہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرو کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میں شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ شرط یہ ہے کہ میرے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں۔ فرمایا عمروؓ کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام تمام سابقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت تمام پہلے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے اور حج تمام گناہوںکو مٹا دیتا ہے (چنانچہ میں نے بیعت کر لی) اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجھے کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری آنکھوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی صاحب جلال تھا۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و جلال کے باعث آنکھ بھر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکتا تھا اور چونکہ پورے طور پر چہرہ مبارک نہ دیکھ سکتا تھا اس لئے مجھ سے ان کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر میں اسی حالت میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا۔اس کے بعد ہم بہت سی باتوں کے ذمہ دار بنائے گئے۔ معلوم نہیں میرا ان میں کیا حال رہے گا۔جب میں مر جائوں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے اور نہ آگ ساتھ لے جائی جائے اور جب مجھے دفن کرنا تو اچھی طرح مٹی ڈال دینا پھر میری قبر کے چاروں طرف اتنی دیر کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم کیا جائے تا کہ میں تم سے انس حاصل کر سکوں اور دیکھوں کہ اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( صحیح مسلم جلد ۱ص۷۶ مسند احمد جلد ۴ ص۱۹۹)
ہم نے جناب عمرو بن العاصؓ سے متعلق پوری روایت نقل کی ہے تا کہ قارئین کرام کو معلوم ہو سکے کہ عمرو بن العاصؓ کی وصیت کس قدر فکر انگیز تھی اور بعد میں آنے والوں کے لئے کیا کیا درس عبرت اس میں پنہاں ہیں۔اس حدیث کا آخری حصہ ارضی قبر میں سوال و جواب پر نص قطعی ہے ۔ موصوف کو اس آخری حصہ پر اعتراض ہے اور عمروبن العاض ؓ کی مرض الموت کے وقت کی اس بصیرت افروز وصیت کو وہ بحرانی کیفیت اور بدحواسی قرار دے کر رد کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں۔
’’ مسلم کی اس حدیث سے جس میں یہ ہے کہ عمرو بن العاص ؓ پر جب سکرات موت کا عالم طاری تھا۔’’وَھُوَ فِیْ سِیَاقِ الْمُوْتِ‘‘ تو انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرو ؓ کو وصیت کی کہ مجھ پر مٹی دالنے اور دفنانے کے بعد کچھ دیر میری قبر کے پاس ٹھہرے رہنا تا کہ میں تمہاری موجودگی کی وجہ سے مانوس رہوں اور مجھے معلوم رہے کہ اپنے رب کے رسول (فرشتوں ) کو کیا جواب دوں۔الفاظ یہ ہیں۔’’ثُمَّ اَقِیْمُوْ احَوْلَ قَبْرِیْ قَدْرَ مَا یُنْحَرُ جُزُوْرٌ وَّیُقْسَمُ لَحْمُھَا حَتّٰی اَسْتَاْنِسَ بِکُمْ اَعْلَمُ مَاذَا اُرَاجِعُ بِہٖ رُسُلَ رَبِّیْ‘‘۔یہ سکرات الموت کے وقت کی بات ہے جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ ہیں۔’’ وھوفی سیاق الموت‘‘ ایسے وقت کی بات جب آدمی اپنے آپے میں نہ ہو قرآن و حدیث کے نصوص کو کیسے جھٹلا سکتی ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ قرطاس کو نگاہ میں رکھنا مناسب ہے۔ بخاری روایت کرتے ہیں کہ وفات سے چار دن پہلے یعنی جمعرات کے دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت تھی‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کتاب لائو میں تمہارے لئے وہ لکھ دوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو تو بعض صحابہ ؓ جن میں عمر بن خطابؓ بھی شامل تھے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض کی شدت کی وجہ سے بحرانی کیفیت طاری ہے۔ اسی کے زیر اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں اس لئے لکھوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ الفاظ یہ ہیں۔ ’’ اَھْجَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘۔(نسخہ البخاری ص۶۳۸‘ جلد دوم عربی اور حاشیہ ۴ وفی بعضہا ۱ہجرمن باب الافعال یعنی اَہْجَرَ )
بعض صحابہ ؓ نے کہا کہ ’’ نہیں لکھوا لینا چاہئے‘‘ اس طرح آوازیں بلند ہوئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اٹھ جانے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار دن اور حیات رہے لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس طرح عمر ؓ کا خیال صحیح ثابت ہوا۔
وفات سے چار دن پہلے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی وجہ سے بحرانی کیفیت طاری ہو سکتی ہے تو کیا عمرو بن العاصؓ پر اس وقت جب کہ وہ عین سکرات کی حالت میں ہوں طاری نہیں ہو سکتی اور وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتے کہ اگر پورے ہوش و حواس میں ہوتے تو کبھی نہ کہتے۔ہاں اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمرو ؓ اور دوسرے حضرات نے ان کی وصیت پر عمل بھی کیا تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبد اللہ بن عمرو ؓ اور دوسرے حضرات کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ قبر میں دفن کے بعد عمرو بن العاصؓ پھر زندہ ہو جائیں گے لیکن ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔(عذاب قبر ص۱۹‘۲۰)

اس عبارت سے ثابت ہوا کہ موصوف کے نزدیک جناب عمرو بن العاص ؓ پر سکرات موت کے وقت بحرانی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور وہ اپنے آپے میں نہیں تھے اور یہی بحرانی کیفیت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ان کی موت سے چار دن پہلے طاری ہو گئی تھی۔بحران اس بکواس کو کہتے ہیں جو بیماری کی شدت میں واقع ہوتی ہے اور مریض بیماری کی شدت میں اول فول بکتاہے۔ غور فرمائیں کہ اگر عمروبن العاص ؓ آخر وقت میں اس عقیدہ پر فوت ہوئے جسے بعد میں امام احمد بن حنبل ؒ نے اختیار کیاتھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا خاتمہ موصوف کے نزدیک شرک یا کفر پر ہوا تھا (نعوذ باللہ من ذلک) اگرچہ موصوف نے صاف الفاظ میںاس کا اقرار نہیں کیا مگر وہ کہنا یہی کچھ چاہتے ہیں اورممکن ہے کہ وہ اس کا اعلان عذاب قبر کے بعد شائع ہونے والے کسی رسالہ ’’ عذاب برزخ‘‘ وغیرہ میں کر بھی دیں۔کیونکہ ان کی عادت ہے کہ وہ کسی ایک بات پر ہمیشہ قائم نہیں رہتے بلکہ پینترے بدلتے رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ‘‘اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ (صحیح بخاری جلد ۲ ص۹۷۸) جس عقیدہ پر خاتمہ ہو گا اسی کے مطابق جزاو سزا کا معاملہ بھی ہو گا۔

شیعہ (روافض) توویسے ہی عمرو بن العاصؓ سے خا ر کھائے بیٹھے ہیں اوروہ ان سے سخت بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف نے بھی روپ بدل کر اور تقیہ کالباس اوڑھ کر یہ سلسلہ شروع کر دیا ہو اور عمرو ؓ دشمنی کو توحید کا نام دے دیا ہو(اسی خدشہ کا اظہار دمدمتہ الجنودمیں بھی کیا گیا ہے) اور یہ امام احمد بن حنبلؒ پر شیعیت کا غلط اور بے بنیاد الزام لگانے کی سزا ہے کہ موصوف جناب عمرو بن العاصؓ کے دشمن ہو کر مرے ہیں۔
موصوف کو چاہئے تھا کہ وہ اس پوری حدیث کو صحیح مسلم کتاب الایمان سے بغور پڑھتے اور پھر کوئی فتویٰ صادر کرتے۔ حدیث کا ایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت پورے ہوش و حواس میں تھے اور انہوں نے ماضی کے واقعات کو کس خوبی او ر اختصار کے ساتھ دھرایا تھا اور پھر جو وصیت فرمائی وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں تھی۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
36:دفن کے بعد میت کے لئے مغفرت کی دعا مانگنا​

جناب عثمان ؓ فرماتے ہیں:۔
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْا لَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہٗ الْاٰنَ یُسْئَلُ (رواہ ابو داؤد وسکت علیہ ھو والمنذری واخرجہ ایضا الحاکم وقال صحیح واقرہ الذھبی مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح ج ۱ ص ۲۳۰ وسندہ صحیح مشکوۃ المصابیح بتحقیق علامہ محمد ناصر الدین الالبانی ج۱ ص ۴۸)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس (کی قبر) پر کھڑے رہتے پھر فرماتے اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعاکرو پھر اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرواس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جا رہا ہے‘‘۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلا تَقُمْ عَلیٰ قَبْرِھٖ (توبہ ۸۴)
’’ اور آئندہ ان(منافقین) میں سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہر گز نہ پڑھنا او ر نہ کبھی اس کی قبر پر (دعا کے لئے) کھڑے ہونا‘‘۔
یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئیں چنانچہ بقول حافظ ابن کثیر ؒ جب یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں تو اس کے بعد آخر دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کے جنازے کی نماز پڑھی نہ اس کی قبر پر آ کر دعا کی۔(تفسیر ابن کثیر جلد ۲ ص۳۷۸)
منافقین کی نماز جنازہ پڑھنا اور ان کی قبر پر دعا کے لئے کھڑا ہونا تو ممنوع قرار پایا مگر مومنین کیلئے یہی چیز سنت قرار پائی۔ ایک دوسری حدیث میں جناب عبداللہ بن مسعود ؓ ارشاد فرماتے ہیں:۔
رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ قَبْرِ عَبْدِاﷲِ ذِی الْبِجَادَیْنِ …… فَلَمَّا فَرَغَ عَنْ دَفْنِہٖ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ رَافِعًا یَّدَیْہِ (صحیح ابی عوانہ، فتح الباری ج ۱۱ ص ۱۲۲ بحوالہ الکلام الموزون ص ۱۳۳ مصنفہ سید لعل شاہ بخاری منہاج المسلمین ص ۴۵۷ مصنفہ مسعود احمد)
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ ذو البجا دینؓ کی قبر پر دیکھا (اس طویل حدیث میں یہ بھی ہے کہ ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ روہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی‘‘۔
جناب عبد اللہ ذوالبجادین المزنی رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک کے دوران فوت ہوئے تھے اور ان کے دفن کا مفصل واقعہ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ج ۳ ص ۱۲۵ رقم ۱۷۱۰) لابن عبدالبر اور البدایۃ والنھایۃ (ج ۵ ص ۱۸) لابن کثیر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہی سے موجود ہے۔
 
Top