عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
27:باب مردہ جوتیوں کی چاپ سنتا ہے
قتادہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی ) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آ جاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں اور وہ دونوں اس سے کہتے ہیں کہ تو کیا کہتا تھا اس شخص محمد کے بارے میں ؟ وہ کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔ اب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنی جہنم کی بیٹھک کی طرف دیکھ۔اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جنت کا یہ مقام عطاء فرما دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں جگہوں کو دیکھتا ہے لیکن کافر اور منافق کہتا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں تو وہی کہا کرتا تھا جو لوگ کہتے تھے اس سے کہا جاتا ہے کہ تو نے سچی بات نہ جانی اور نہ جاننے والوں کی پیروی کی۔پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان فولادی ہتھوڑے سے ایسی ضرف لگائی جاتی ہے اور وہ ایسی چیخ مارتا ہے کہ انسانوں اور جنوں کے علاوہ ہر کوئی سنتا ہے۔(ترجمہ ‘عبارت ص۱۷۸ صحیح بخاری مطبوعہ دہلی)
ابن حجر عسقلانی نے کہا کہ بخاری کے اس باب باندھنے کہ (المیت یسمع قرع النعال یعنی مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے )اس کے متعلق الزین بن المنیر نے کہا کہ مصنف (بخاری) کے اس مضمون کے باب باندھنے سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس طریقہ کو آداب دفن میں اولیت حاصل ہے کہ وقار برقرار کھا جائے شور وشر سے اجتناب کیا جائے اور شدت کے ساتھ پیروں کو زمین پر نہ مارا جائے جیسے کہ ایک زندہ سونے والے کے لئے ہونا چاہئیے اور ایسا لگتا ہے کہ بخاری نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے) یہ نکالا ہے کہ آدمیوں سے جیسا کچھ سنا جاتا ہے ویسا ہی فرشتوں سے بھی سنا جاتا ہے (یعنی ان کے جوتوں کی آواز)
حدیث کی اس تشریح کو ابن حجر عسقلانی نے بخاری کی شرح فتح الباری میں سب سے پہلے ذکر کیا ہے الفاظ حدیث بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ دفن کرنے والے تو دفن کر کے جا چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ مردہ فرشتوں کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے۔ (انسانوں کے جوتوں کی نہیں ) الفاظ یہ ہیں:۔
اَلْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَب اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ اَتَاہُ مَلِکَانِ
(بندہ جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کا معاملہ پورا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ البتہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں‘‘۔ (توحید خالص نمبر ۲ ص۲۶‘۲۷)موصوف نے اتنا تو کیا کہ یسمع کو مجہول کا صیغہ تسلیم کرنے کے بجائے معروف کا صیغہ تسلیم کر لیا مگر اب انہوں نے نیا ترجمہ اور نرالی تحقیق فرمائی ہے۔ تُوُلِّیَ وَذَھَبَ اَصْحَابُہٗ کا ترجمہ موصوف نے اس طرح کیا ہے ’’ اس کا معاملہ پورا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں‘‘ حالانکہ اس کا سادہ سا ترجمہ اس طرح ہے ’’ اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ پھیرتے ہیں اور (واپس) چلے جاتے ہیں‘‘۔(ذہن پرستی ص۷ قسط نمبر ۲)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں وَقَالَ ابْنُ التِّیْنِ اِنَّہٗ کَرَّرَا للَّفْظُ وَالْمَعْنٰی وَاحِدٌ یعنی ابن التینؒ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ (تولی اور ذھب) مکرر آئے ہیں اور دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد ۳ ص۱۶۱ طبع مصر)۔
آگے فرماتے ہیں:۔
وَسَیَاْتِیْ فِیْ رَوَایَۃِ عَیَّاشٍ بِلَفْظِ وَ تَوَلَّی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ وَھُوَ الْمَوْجُوْدُ فِیْ جَمِیْعِ الرِّوَایَاتِ عِنْدَ مُسْلِمٍ وَغَیْرِہٖ۔
یعنی اور عنقریب جناب عیاش ؒ کی روایت تولی عنہ اصحابہ کے الفاظ کے ساتھ آ رہی ہے اور یہ الفاظ (تولی عنہ اصحابہ) جو گویا اوپر والی روایت کے مفہوم کو صحیح طور پر متعین کرتے ہیں تمام روایات صحیح مسلم اور دیگر (کتب حدیث) میں موجود ہیں (ایضاً) حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے جس روایت کا تذکرہ کیا ہے وہ بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے (اور جسے ہم پوری تفصیل کے ساتھ پیچھے نقل بھی کر چکے ہیں)اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَتَوَّلیٰ عَنْہُ اَصْحَابُہٗ وَاِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہَمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ (متفق علیہ)
’’ بے شک بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے (منہ پھیر) کر چلے جاتے ہیں تو ابھی وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آ جاتے ہیں‘‘۔(رواہ البخاری و مسلم عن انسؓ)جناب انس ؓ ہی سے صحیح مسلم میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔
اِنَّ الْمَیِّتَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ اَنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِہِمْ اِذَا انْصَرَفُوْا۔
’’ بے شک جب مردے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور جب وہ (یعنی اس کے ساتھی) لوٹتے ہیں تو مردہ یقینا ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے ‘‘۔(صحیح مسلم جلد۲ ص۳۸۶)یہ تینوں روایات جو جناب انس ؓ ہی سے مروی ہیں اور محدثین نے انہیں اپنی اپنی سندوں کے ساتھ مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی روایت اگرچہ ایک ہی ہے مگر مختلف سندیں ہونے کی بناپر الفاظ میں معمولی سا فرق ہے اور جب اس حدیث کے تمام الفاظ کو سامنے رکھا جائے تو مفہوم پوری طرح نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔
موصوف نے اس صحیح روایت کی صرف ایک سند سے اپنا مطلب کشید کرنے کی کوشش ہے مگر صحیح مسلم کی روایت نے ان کا بھانڈا پھوڑ دیا اور وہ اپنا خود ساختہ نظریہ ثابت کرنے میں بری طرح ناکا م رہے ہیں۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ موصوف نے ترجمہ میں کس طرح خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور مسعود احمد صاحب کے متنبہ کرنے پر بھی اپنی اس شنیع حرکت سے باز نہ آئے۔اب اسے کیا کہا جائے موصوف ہی کے الفاظ میں ’’ یہ سادگی ہے یا پرکاری‘‘ (اتقو اللہ ص۵)ممکن ہے کہ ان کی اس مکاری و عیاری کا ان کے سادہ لوح ساتھیوں کو پتہ نہ چل سکے مگر قیامت کے دن کے مواخذہ سے موصوف اپنے آپ کو کس طرح بچائیں گے کیا ایسے ہی شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد صادق نہیں آتا۔
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوٰھُ و اَضَلَّہُ اﷲُ عَلی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلیٰ سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلیٰ بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اﷲِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ
(جاثیہ ۲۳)’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الہ بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے کیا تم لوگ کوئی سبق نہں لیتے‘‘۔
آگے انہ لیسمع قرع نعالہم اتاہ ملکان کا ترجمہ یوں کیا ہے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔ نعالھم میں ھم کی ضمیر کو انہوں نے انسانوں کے بجائے فرشتوں کی طرف لوٹا دیا تا کہ اس طرح نہ رہے بانس نہ بجے بانسری چنانچہ مسعود احمد صاحب موصوف کی گرفت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’نعالھم‘‘(فرشتوں کی جوتیاں) اس مرکب میں ’’ھم‘‘ کی ضمیر پہلے ہے اور اس کا مرجع (یعنی فرشتے) بعد میں یہ عربی قواعد کے خلاف ہے۔
حدیث میں ہے کہ دو فرشتے آتے ہیں لہذا ان کے لئے تثنیہ کا صیغہ آنا چاہئے تھا یعنی بجائے ’’نعاھم‘‘کے ’’نعالھما‘‘ہونا چاہئے تھا۔دو کے لئے جمع کا صیغہ عربی قواعد کے خلاف ہے معلوم نہیں یہ عربی قواعد کی غلطیاں کس نے کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی لانے والے فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابیؓ نے جس نے حدیث کو روایت کیا ہے یا یہ کہ غلطی موصوف سے ہوئی کہ انہوں نے محض اپنے ذہنی نظریہ کے تحفظ کے لئے جوتیوں کی اضافت کو انسانوں کے بجائے فرشتوں کی طرف پھیر دیا۔ (ذہن پرستی نمبر ۲ ص۶)
اس کا جواب موصوف نے اپنے تازہ رسالے عذاب قبر میں یوں دیا ہے ’’الزین بن المنیر‘‘ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ فرشتے تو دو ہوتے ہیں اور ضمیر جمع ہم نعالھم استعمال ہوئی ہے ’’نعالھما‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ جواب میں کہا جاتا ہے کہ عربی زبان میں دونوں طریقے رائج ہیں تثنیہ (دو) کے لئے جمع کا استعمال عام ہے جیسے قرآن کی آیت ہے:۔
قَالَ کَلَّا فَاذْھَبَا بِاٰیٰتِنَا اِنَّا مَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ۔(ایۃ ۱۵۔الشعرائ)
ترجمہ : فرمایا ہرگز نہیں تم دونوں جائو ہماری نشانیاں لے کر ہم تمہارے ساتھ سب کچھ سنتے رہیں گے۔ فاذھبا میں تثنیہ کی ضمیر ہے اور معکم میں جمع کی۔اسی طرح بخاری کی حدیث خضر میں یہ الفاظ آئے ہیں:۔
فَمَرَّتْ بِھِمَا سَفِیْنَۃٌ فَکَلَّمُوْھُمْ اَنْ یَّحْمِلُوْھُمَا۔
ترجمہ : پس گزری ان دونوں(موسی ؑ اور خضر ؑ) کے پاس سے ایک کشتی پس انہوں (جمع کاصیغہ ) نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ان دونوں کو کشتی پر سوار کر لیں۔ (بخاری عربی جلد ۱ ص۲۳ سطر ۱۵۔۱۶)فکلموھم کے ساتھ ساتھ فکلماھم بھی بخاری کی روایت میں ہے مگر حاشیہ پر اور نسخہ کے طور پر متن میں فکلموھمکو ہی ترجیح دی گئی ہے جو (تثنیہ) کے بجائے جمع کا صیغہ ہے۔(عذاب قبر ص۱۲)