lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
یہ تحقیق یہاں سے لی گئی ہے
http://www.islamic-belief.net/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو/
[/CENTER]
قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے
عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ اپ کا رب اپکو مقام محمود پر مبعوث کرے
بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم الله سے دعا کریں گے جو ان کی نبی کی حثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے
پس بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا
ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه
محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے
ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں
کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں
وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.
ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے
کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا
یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو
در کر آیا ہے
سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں
قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة
فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ
جلد2 ، ص136
دوسرے عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں
لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے
الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے
العلو 2/1081، رقم/422
میزان الاعتدال میں الذھبی، مجاهد بن جبر المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات کے ترجمے میں کہتے ہیں
ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش
تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا
الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں
فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ
پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے
مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے
ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول کو پسند کرتے تھے اور لوگ ترمذی پر جرح کرتے تھے
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ
هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے انہوں نے لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے دور رہو اور بچو حتی کہ حق پر ا جائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے
http://www.islamic-belief.net/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو/
[/CENTER]
تحقیق درکار ہے
قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے
عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
ہو سکتا ہے کہ اپ کا رب اپکو مقام محمود پر مبعوث کرے
بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم الله سے دعا کریں گے جو ان کی نبی کی حثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے
پس بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا
ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه
محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم
اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے
ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں
الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا نعوذباللہ
ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں
ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں
وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء
ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں
http://islamic-books.org/cached-version.aspx?id=1435-1-18
http://shamela.ws/browse.php/book-22852/page-36
http://shamela.ws/browse.php/book-22852/page-36
کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں
وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.
ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے
کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ
قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ
ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا
http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=349&pid=73470&hid=303
http://islamport.com/d/1/aqd/1/113/315.html
http://islamport.com/d/1/aqd/1/113/315.html
یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو
در کر آیا ہے
سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں
قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة
فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ
جلد2 ، ص136
دوسرے عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں
لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے
الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے
العلو 2/1081، رقم/422
میزان الاعتدال میں الذھبی، مجاهد بن جبر المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات کے ترجمے میں کہتے ہیں
ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش
تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا
الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں
فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ
پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے
مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے
ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول کو پسند کرتے تھے اور لوگ ترمذی پر جرح کرتے تھے
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ
هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے انہوں نے لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے دور رہو اور بچو حتی کہ حق پر ا جائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے
Last edited by a moderator: