• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرش عظیم اور محدثین کا غلو

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ترمذی کون ہے؟

ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے

کتاب السنة از ابو بکر الخلال جو دکتور عطية الزهراني کی تحقیق کے ساتھ دار الراية – الرياض سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں




بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي ہیں لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا دوم یہ عبّاس الدوری ، امام احمد وغیرہ کے ہم عصر نہیں

کتاب السنہ از الخلال میں ہے

الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ


الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا

معلوم ہوا کہ الترمذی، الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا ہم عصر ہے

االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کآ یہ قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو عجیب بات ہے کہ اس عقیدے کے رد میں کوئی محدث نہیں ملتا

الذہبی کتاب العرش میں اپنا خیال پیش کرتے ہیں

الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه


یہ الترمذي ، أبو عيسى نہیں جو صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے لیکن مشھور نہیں


ہماری رائے میں یہ اغلبا امام ترمذی ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے

امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ


ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] پر فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے


امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ


اس کے آخر میں ہے

وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ


اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے

امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا کہ ابی نضرہ سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے

لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.


محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں


امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں جرح بھی کی ہو

مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں

ابن قیم کتاب بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار لکھتے ہیں

قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.


ابن قیم امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں

وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده

معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کوالْجَهْمِيَّةُ کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے

افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا

شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں

وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي

رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري


اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی

اس کو البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں اس کی بعض اسناد حسن ہیں


اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں

والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم


اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….ہ


السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو لیکن اس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا

عصر حاضر میں مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں

وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته … وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه


اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
عطیہ الزہرانی کا ہی میں نے حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے جب کتاب کے آخر میں ’’ فہرس الاعلام ‘‘ مرتب کی ہے تو اس میں کسی بھی جگہ ’’ امام محمد بن عیسی الترمذی صاحب السنن ‘‘ کا تذکرہ تک نہیں کیا ۔ ہاں البتہ جہاں جہاں ’’ ترمذی ‘‘ نام آیا ہے ، اس کو انہوں نے ’’ جہم بن صفوان ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے ۔
آپ نے زہرانی کا جو حوالہ دیا ہے ، وہ ان کے فہرس الاعلام میں طریقہ کار کے خلاف ہے ۔ بہر صورت مجھے اس بات پر کوئی اصرار نہیں کہ اس سے مراد جہم بن صفوان ہی ہے ۔
مجھے اس بات پر اصرار ہے کہ اس سے مراد ’’ امام محمد بن عیسی الترمذی ‘‘ نہیں ہیں ۔ وجوہات اس کی میں پہلے ذکر کرچکا ہوں ۔
الذہبی کتاب العرش میں اپنا خیال پیش کرتے ہیں
الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه
یہ الترمذي ، أبو عيسى نہیں جو صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے لیکن مشھور نہیں
ہماری رائے میں یہ اغلبا امام ترمذی ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے
امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ
ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] پر فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے
امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ
اس کے آخر میں ہے
وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ
اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے
امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا کہ ابی نضرہ سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے
لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے
آپ اپنا انداز دیکھیں کہ بغیر کسی قرینے اور دلیل کے ’’ ترمذی ‘‘ کی تعیین کر رہے ہیں اور ذہبی کا قول ذکرنے کے بعد اس کو جراتمندی کے ساتھ رد بھی کررہے ہیں ۔
ذہبی کا قول رد کرنے کی وجہ آپ کے پاس کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ۔
جتنے قرائن آپ نے ذکر کیے ہیں ان میں سے ایک بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس سے مراد ’’ امام ترمذی ‘‘ ہیں ۔
پھر کس بنیاد پر آپ اپنے موقف پر مصر ہیں اور بڑے بڑے ائمہ کی باتوں کو رد کررہے ہیں ۔ ؟
ترمذی نے مجاہد کے قول کو نفیا و اثباتا کسی بھی صورت ذکر ہی نہیں کیا ، لیکن آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہیں کہ محدثین ان کے اس ذکر نہ کرنے سے ان کے خلاف ہوگئے ہیں ۔
آپ کی اس بات میں کچھ وزن ہوتا اگر آپ یہ ثابت کرسکیں کہ ’’ ترمذی ‘‘ سے مراد ’’امام ترمذی ‘‘ ہی ہیں ۔
باقی لمبے چوڑے جو اقتباسات آپ نے پیش کیے ہیں ان پر تبصرہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ کاپی پیسٹ کی وجہ سے غالبا آپ نےسب کچھ دوبارہ پھر دہرادیا ہے ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
عطیہ الزہرانی کا ہی میں نے حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے جب کتاب کے آخر میں ’’ فہرس الاعلام ‘‘ مرتب کی ہے تو اس میں کسی بھی جگہ ’’ امام محمد بن عیسی الترمذی صاحب السنن ‘‘ کا تذکرہ تک نہیں کیا ۔ ہاں البتہ جہاں جہاں ’’ ترمذی ‘‘ نام آیا ہے ، اس کو انہوں نے ’’ جہم بن صفوان ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے ۔
آپ نے زہرانی کا جو حوالہ دیا ہے ، وہ ان کے فہرس الاعلام میں طریقہ کار کے خلاف ہے ۔ بہر صورت مجھے اس بات پر کوئی اصرار نہیں کہ اس سے مراد جہم بن صفوان ہی ہے ۔
مجھے اس بات پر اصرار ہے کہ اس سے مراد ’’ امام محمد بن عیسی الترمذی ‘‘ نہیں ہیں ۔ وجوہات اس کی میں پہلے ذکر کرچکا ہوں ۔

آپ اپنا انداز دیکھیں کہ بغیر کسی قرینے اور دلیل کے ’’ ترمذی ‘‘ کی تعیین کر رہے ہیں اور ذہبی کا قول ذکرنے کے بعد اس کو جراتمندی کے ساتھ رد بھی کررہے ہیں ۔
ذہبی کا قول رد کرنے کی وجہ آپ کے پاس کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ۔
جتنے قرائن آپ نے ذکر کیے ہیں ان میں سے ایک بھی اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس سے مراد ’’ امام ترمذی ‘‘ ہیں ۔
پھر کس بنیاد پر آپ اپنے موقف پر مصر ہیں اور بڑے بڑے ائمہ کی باتوں کو رد کررہے ہیں ۔ ؟
ترمذی نے مجاہد کے قول کو نفیا و اثباتا کسی بھی صورت ذکر ہی نہیں کیا ، لیکن آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہیں کہ محدثین ان کے اس ذکر نہ کرنے سے ان کے خلاف ہوگئے ہیں ۔
آپ کی اس بات میں کچھ وزن ہوتا اگر آپ یہ ثابت کرسکیں کہ ’’ ترمذی ‘‘ سے مراد ’’امام ترمذی ‘‘ ہی ہیں ۔
باقی لمبے چوڑے جو اقتباسات آپ نے پیش کیے ہیں ان پر تبصرہ پہلے کیا جا چکا ہے ۔ کاپی پیسٹ کی وجہ سے غالبا آپ نےسب کچھ دوبارہ پھر دہرادیا ہے ۔

عطیہ الزہرانی نے ایک ہی کتاب میں دو تین بار موقف بدلا ہے اس لئے اپ نے دیکھا کہ ایک موقعہ پر انہوں نے اس کو جھم کہا پھر آگے جا کر انہوں نے اس کو خود رد کر دیا جو ہم نے یہاں پیش کیا

الذھبی نے اپنا خیال پیش کیا ہے دلیل انہوں نے بھی نہیں دی لہذا ان کی بات قبول نہیں کی جا سکتی الا یہ کہ کوئی دلیل پیش کریں

ترمذی مخالفین کا کہنا تھا کہ مقام المحمود صرف شفاعت نہیں بلکہ عرش پر بٹھایا جانا ہے امام ترمذی نے سنن میں اس سے مراد شفاعت ذکر کیا ہے
اس لئے گمان ان کی طرف جاتا ہے

امام ترمذی کو بعد میں بھی جھمی کہہ کر رد کیا جاتا رہا ہے

امام ترمذی سنن میں ایک حدیث بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الحَدِيدِمیں لکھتے ہیں

وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ هَذَا الحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ. عِلْمُ اللهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى العَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.


ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں کہ ترمذی نے کہا

فَحَكَى التِّرْمِذِيُّ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَعْنَى يَهْبِطُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، وَمُرَادُهُ عَلَى مَعْلُومِ اللَّهِ وَمَقْدُورِهِ وَمُلْكِهِ، أَيِ انْتَهَى عِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ إِلَى مَا تَحْتَ التَّحْتِ، فَلَا يَعْزُبُ عَنْهُ شَيْءٌ.


ابن قیم کتاب مختصر الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة میں لکھتے ہیں

شیخ ابن تیمیہ نے کہا

وَأَمَّا تَأْوِيلُ التِّرْمِذِيِّ وَغَيْرِهِ بِالْعِلْمِ فَقَالَ شَيْخُنَا: هُوَ ظَاهِرُ الْفَسَادِ مِنْ جِنْسِ تَأْوِيلَاتِ الْجَهْمِيَّةِ


اور جہاں تک ترمذی اور دوسروں کی تاویل کا تعلق ہے تو شیخ کہتے ہیں وہ ظاہر فساد ہےاور جھمیہ کی تاویلات کی جنس میں سے ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سکین پسند حضرات بھی دیکھیں



آگے لکھتے ہیں




شیخ صالح بن فوزان ، عبد العزیز بن فیصل کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے

@خضر حیات بھائی ابھی تک آپ نے اس پوسٹ کا جواب نہیں دیا
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
لولی بھائی:
قَالَ لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللہِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مجھے اللہ کے نبیوں کے درمیان فضیلت نہ دو
جواد بھائی کو ایک غلطی لگ گئی۔ اس عربی جملے کا یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اس کا ترجمہ ہے: "اللہ کے انبیاء میں کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"

اس قول رسول کو سمجھنے کے لیئے پس منظر میں موجود واقعہ کو ذہن میں رکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی اور نبی کے امتی کو اس بات پر کہ وہ اپنے نبی کو مانتا ہے اور ہمارے نبی کو نہیں جب کے وہ ذمی ہو، اس کے ساتھ ایسا رویا نہیں رکھنا چاہیئے۔ مطلب کے ایمان کے معاملے میں امبیاء کہ برابر جانو، ایک نبی کے فضائل بیان کرنے پر اپنے نبی کی افضلیت کو سامنے رکھ کر دوسرے نبی کے امتی کو برا مت جانو۔ یہ ایک اخلاقی پہلو ہے جس کی طرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ ولم نے اشارہ کیا۔

باقی رہی بات کے انبیاء میں کسی کو کسی پرفضیلت ہے کے نہیں، تو یہ بات قرآن میں ثابت ہے:

تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض (سورۃ البقرہ-253)

اس کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن قيل : فما الجمع بين هذه الآية وبين الحديث الثابت في الصحيحين
عن أبي هريرة قال : استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود فقال اليهودي في قسم يقسمه : لا والذي اصطفى موسى [ ص: 671 ] على العالمين . فرفع المسلم يده فلطم بها وجه اليهودي فقال : أي خبيث وعلى محمد صلى الله عليه وسلم ! فجاء اليهودي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشتكى على المسلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لا تفضلوني على الأنبياء ؛ فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون أول من يفيق فأجد موسى باطشا بقائمة العرش فلا أدري أفاق قبلي أم جوزي بصعقة الطور ؟ فلا تفضلوني على الأنبياء " وفي رواية : " لا تفضلوا بين الأنبياء " .

فالجواب من وجوه :

أحدها : أن هذا كان قبل أن يعلم بالتفضيل ، وفي هذا نظر .

الثاني : أن هذا قاله من باب الهضم والتواضع .

الثالث : أن هذا نهي عن التفضيل في مثل هذه الحال التي تحاكموا فيها عند التخاصم والتشاجر .

الرابع : لا تفضلوا بمجرد الآراء والعصبية .

الخامس : ليس مقام التفضيل إليكم وإنما هو إلى الله عز وجل ، وعليكم الانقياد والتسليم له والإيمان بہ

اسی حدیث کے آخری الفاظ کا ترجمہ دیکھیں جو جواد بھائی کی پوسٹ میں کیا گیا ہے:
" میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی آدمی بھی حضرت یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے"

مطلب یونس علیہ السلام تمام دوسرے آدمیوں کی طرح ہیں، نہ کوئی ان سے افضل، نہ وہ کسی سے، کیونکہ فضیلت کا ہی تو انکار کیا جا رہا ہے، ایک نبی کی حیثیت سے ان میں اور آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔ جب کے ترجمہ ٹھیک ہے، مگر ایک دوسرا تاثر پیدا ہوتا ہے، اس لیئے اس سے اگلی حدیث میں ہی یہ الفاظ ہیں:
النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّی

"رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی بندہ (مؤمن) کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں"

اس لیئے اس روایت کو بھی مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں سمجھنا چاھیئے:

أخبرنا أبو عبد الله محمد بن الفضل الخرقي أنا أبو الحسن علي بن عبد الله الطيسفوني ، أنا عبد الله بن عمر الجوهري ، أنا أحمد بن علي الكشميهني ، أنا علي بن حجر أنا إسماعيل بن جعفر ، أنا العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " فضلت على الأنبياء بست : أوتيت جوامع الكلم ونصرت بالرعب وأحلت لي الغنائم وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا وأرسلت إلى الخلق كافة وختم بي النبيون "

مجھے نبیو ں پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے :مجھے جامع کلام کرنے کا ملکہ دیا گیا ہے ۔ رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔غنائم کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے ۔زمین کو میرے لیے پاکیزہ اور سجدہ گاہ بنادیا گیا ہے ۔مجھے تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔نبوت مجھ پر ختم کی گئی ہے ۔‘‘ ، (مسلم:رقم523)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
لولی بھائی:


جواد بھائی کو ایک غلطی لگ گئی۔ اس عربی جملے کا یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اس کا ترجمہ ہے: "اللہ کے انبیاء میں کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"

اس قول رسول کو سمجھنے کے لیئے پس منظر میں موجود واقعہ کو ذہن میں رکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی اور نبی کے امتی کو اس بات پر کہ وہ اپنے نبی کو مانتا ہے اور ہمارے نبی کو نہیں جب کے وہ ذمی ہو، اس کے ساتھ ایسا رویا نہیں رکھنا چاہیئے۔ مطلب کے ایمان کے معاملے میں امبیاء کہ برابر جانو، ایک نبی کے فضائل بیان کرنے پر اپنے نبی کی افضلیت کو سامنے رکھ کر دوسرے نبی کے امتی کو برا مت جانو۔ یہ ایک اخلاقی پہلو ہے جس کی طرف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ ولم نے اشارہ کیا۔

باقی رہی بات کے انبیاء میں کسی کو کسی پرفضیلت ہے کے نہیں، تو یہ بات قرآن میں ثابت ہے:

تلك الرسل فضلنا بعضهم على بعض (سورۃ البقرہ-253)

اس کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن قيل : فما الجمع بين هذه الآية وبين الحديث الثابت في الصحيحين عن أبي هريرة قال : استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود فقال اليهودي في قسم يقسمه : لا والذي اصطفى موسى [ ص: 671 ] على العالمين . فرفع المسلم يده فلطم بها وجه اليهودي فقال : أي خبيث وعلى محمد صلى الله عليه وسلم ! فجاء اليهودي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاشتكى على المسلم ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " لا تفضلوني على الأنبياء ؛ فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون أول من يفيق فأجد موسى باطشا بقائمة العرش فلا أدري أفاق قبلي أم جوزي بصعقة الطور ؟ فلا تفضلوني على الأنبياء " وفي رواية : " لا تفضلوا بين الأنبياء " .

فالجواب من وجوه :


أحدها : أن هذا كان قبل أن يعلم بالتفضيل ، وفي هذا نظر .


الثاني : أن هذا قاله من باب الهضم والتواضع .


الثالث : أن هذا نهي عن التفضيل في مثل هذه الحال التي تحاكموا فيها عند التخاصم والتشاجر .


الرابع : لا تفضلوا بمجرد الآراء والعصبية .


الخامس : ليس مقام التفضيل إليكم وإنما هو إلى الله عز وجل ، وعليكم الانقياد والتسليم له والإيمان بہ


اسی حدیث کے آخری الفاظ کا ترجمہ دیکھیں جو جواد بھائی کی پوسٹ میں کیا گیا ہے:
" میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی آدمی بھی حضرت یونس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے"

مطلب یونس علیہ السلام تمام دوسرے آدمیوں کی طرح ہیں، نہ کوئی ان سے افضل، نہ وہ کسی سے، کیونکہ فضیلت کا ہی تو انکار کیا جا رہا ہے، ایک نبی کی حیثیت سے ان میں اور آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔ جب کے ترجمہ ٹھیک ہے، مگر ایک دوسرا تاثر پیدا ہوتا ہے، اس لیئے اس سے اگلی حدیث میں ہی یہ الفاظ ہیں:
النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّی

"رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی بندہ (مؤمن) کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں"

اس لیئے اس روایت کو بھی مندرجہ ذیل حدیث کی روشنی میں سمجھنا چاھیئے:

أخبرنا أبو عبد الله محمد بن الفضل الخرقي أنا أبو الحسن علي بن عبد الله الطيسفوني ، أنا عبد الله بن عمر الجوهري ، أنا أحمد بن علي الكشميهني ، أنا علي بن حجر أنا إسماعيل بن جعفر ، أنا العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " فضلت على الأنبياء بست : أوتيت جوامع الكلم ونصرت بالرعب وأحلت لي الغنائم وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا وأرسلت إلى الخلق كافة وختم بي النبيون "

مجھے نبیو ں پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے :مجھے جامع کلام کرنے کا ملکہ دیا گیا ہے ۔ رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔غنائم کو میرے لیے حلال کیا گیا ہے ۔زمین کو میرے لیے پاکیزہ اور سجدہ گاہ بنادیا گیا ہے ۔مجھے تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔نبوت مجھ پر ختم کی گئی ہے ۔‘‘ ، (مسلم:رقم523)
محترم عثمان بھائی-

حدیث مسلم سے متعلق آپ کے بیان کردہ مفہوم کا شکریہ -

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ الله رب العزت نے بعض انبیاء کو مختلف درجات میں بعض پر فضیلت دی ہے- جیسا کہ آپ نے قرآن کی آیت پیش کی کہ:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ سوره ٢٥٣
ی

سب رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے-

لیکن حدیث مسلم ہمیں یہ بات بتاتی ہے کہ الله کے انبیاء کی فضیلت کے بیان میں ہمیں قرآن اور صحیح احدیث نبوی سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے بلکہ کسی بھی نبی کی فضیلت کو قرآن و حدیث کے صحیح مفہوم کے تناظر میں بیان کرنا چاہیے- اب چاہے وہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات سے متعلق ہو یا حضرت موسیٰ علیہ سلام یا حضرت عیسی علیہ سلام سے متعلق ہو اور کسی بھی نبی کی اسطرح فضیلت بیان کرنا کہ جس سے کسی دوسرے نبی کی ذات کمتر ثابت ہوتی ہو-اہل ایمان کے لئے جائز نہیں- قرآن میں اہل ایمان کا یہی شیوا بیان کیا گیا ہے کہ وہ خواما خواہ انبیاء کی فضیلتوں کے بیان میں بحث و مباحثہ نہیں کرتے نہ ان میں فرق کرتے ہیں بلکہ سب پر ایمان رکھتے ہیں

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ سوره البقرہ ٢٨٥

رسول نے مان لیا جو کچھ اس پر اس کے رب کی طرف سے اترا ہے اور مومنوں نے بھی مان لیا الله کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو- (یہ مومن) کہتے ہیں کہ ہم الله کے رسولوں میں فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور مان لیا اے ہمارے رب تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے-

یہ انبیاء کی ذات میں غلو ہی ہے جس نے پچھلی امتوں کو تباہ وبرباد کردیا اور وہ کفر کی حد پر پہنچ گئے - اب یہی دیکھیں کہ حضرت عیسی علیہ سلام کی انہی خود ساختہ فضیلتوں کی بنا پر عیسائی کافر ٹہرے - اور ہمارے مسلمانوں میں بھی بیشتر فرقے نبی کریم کی ذات سے متعلق اسی غلو سے بھرپور فضیلتیں بیان کرنے کی بنا پر گمراہ ہو گئے- کوئی ان کو حاضر و ناظر ماننے لگا تو کوئی حاجت روا مشکل کشا تو کوئی ان کو عالم الغیب گرداننے لگا- اورکچھ کا عالم یہ ہے کہ انہوں نبی کریم کی ذات اقدس کو الله کے برابرمیں عرش پر بیٹھا دیا گیا-

عیسایوں کی اپنے انبیاء سے متعلق ان خود ساختہ فضیلتوں کی بنا پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو معلوم تھا کہ میری امّت میں سے بھی ایسے بدعتی کلمہ گو پیدا ہونگے جو میری ذات کے حوالے سے اہل کتاب کی طرز پر مجھ سے جھوٹی محبت کا دعوا کریں گے تو آپ نے اپنی ساری امّت کو خبردار کرتے ہوے فرمایا :

لا تطروني کما أطرت النصاری ابن مریم إنما أنا عبد فقولوا عبد اﷲ ورسوله » (صحیح البخاري:۳۴۴۵)
’’مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی شان میں انتہا کر دی میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
سکین پسند حضرات بھی دیکھیں



آگے لکھتے ہیں




شیخ صالح بن فوزان ، عبد العزیز بن فیصل کی تحقیق پر مہر ثبت کر چکے ہیں اور عبد العزیز کے نزدیک عرش پر نبی کو بٹھایا جانا، امام احمد بن حنبل کا عقیدہ ہے اور ان کے بیٹے کا بھی اور المالکی جو کہتا ہے یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں جھوٹ بولتا ہے
@خضر حیات بھائی ابھی تک آپ نے اس پوسٹ کا جواب نہیں دیا
اس میں جواب دینے والی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ اس میں دو چیزیں ثابت کی گئی ہیں :
1۔ امام احمد کا عقیدہ اقعاد النبی علی العرش کا تھا ۔
2۔ یہ صرف حنبلیوں کا ہی نہیں اور بھی علماء کا عقیدہ تھا ۔
مجھے ان دو باتوں میں سے کسی سے بھی اختلاف نہیں ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
محترم عثمان بھائی-

حدیث مسلم سے متعلق آپ کے بیان کردہ مفہوم کا شکریہ -

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ الله رب العزت نے بعض انبیاء کو مختلف درجات میں بعض پر فضیلت دی ہے- جیسا کہ آپ نے قرآن کی آیت پیش کی کہ:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ سوره ٢٥٣
ی

سب رسول ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے-

لیکن حدیث مسلم ہمیں یہ بات بتاتی ہے کہ الله کے انبیاء کی فضیلت کے بیان میں ہمیں قرآن اور صحیح احدیث نبوی سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے بلکہ کسی بھی نبی کی فضیلت کو قرآن و حدیث کے صحیح مفہوم کے تناظر میں بیان کرنا چاہیے- اب چاہے وہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ذات سے متعلق ہو یا حضرت موسیٰ علیہ سلام یا حضرت عیسی علیہ سلام سے متعلق ہو اور کسی بھی نبی کی اسطرح فضیلت بیان کرنا کہ جس سے کسی دوسرے نبی کی ذات کمتر ثابت ہوتی ہو-اہل ایمان کے لئے جائز نہیں- قرآن میں اہل ایمان کا یہی شیوا بیان کیا گیا ہے کہ وہ خواما خواہ انبیاء کی فضیلتوں کے بیان میں بحث و مباحثہ نہیں کرتے نہ ان میں فرق کرتے ہیں بلکہ سب پر ایمان رکھتے ہیں

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ سوره البقرہ ٢٨٥

رسول نے مان لیا جو کچھ اس پر اس کے رب کی طرف سے اترا ہے اور مومنوں نے بھی مان لیا الله کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو- (یہ مومن) کہتے ہیں کہ ہم الله کے رسولوں میں فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور مان لیا اے ہمارے رب تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے-

یہ انبیاء کی ذات میں غلو ہی ہے جس نے پچھلی امتوں کو تباہ وبرباد کردیا اور وہ کفر کی حد پر پہنچ گئے - اب یہی دیکھیں کہ حضرت عیسی علیہ سلام کی انہی خود ساختہ فضیلتوں کی بنا پر عیسائی کافر ٹہرے - اور ہمارے مسلمانوں میں بھی بیشتر فرقے نبی کریم کی ذات سے متعلق اسی غلو سے بھرپور فضیلتیں بیان کرنے کی بنا پر گمراہ ہو گئے- کوئی ان کو حاضر و ناظر ماننے لگا تو کوئی حاجت روا مشکل کشا تو کوئی ان کو عالم الغیب گرداننے لگا- اورکچھ کا عالم یہ ہے کہ انہوں نبی کریم کی ذات اقدس کو الله کے برابرمیں عرش پر بیٹھا دیا گیا-

عیسایوں کی اپنے انبیاء سے متعلق ان خود ساختہ فضیلتوں کی بنا پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو معلوم تھا کہ میری امّت میں سے بھی ایسے بدعتی کلمہ گو پیدا ہونگے جو میری ذات کے حوالے سے اہل کتاب کی طرز پر مجھ سے جھوٹی محبت کا دعوا کریں گے تو آپ نے اپنی ساری امّت کو خبردار کرتے ہوے فرمایا :

لا تطروني کما أطرت النصاری ابن مریم إنما أنا عبد فقولوا عبد اﷲ ورسوله » (صحیح البخاري:۳۴۴۵)
’’مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی شان میں انتہا کر دی میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
جزاک اللہ جواد بھائی۔ بس ایک بات اور کہنا چاہونگا اس ضمن میں، کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء پر مجموعی فضیلت بھی حاصل ہے، جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے:

اللہ فرماتا ہے:
"اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹہرایا) انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (خدا نے) فرمایا کہ تم (اس عہد وپیمان کے) گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (آل عمران -81)"

اس آیت میں اللہ نے تمام انبیا سے ایک نبی پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کا عہد لیا ہے، اور اہم بات یہ ہے کہ یہ عہد انبیائے سابقین سے تو لیا گیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہیں لیا گیا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی خصوصیت قرآن میں بیان ہوئی ہے کہ وہ " پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں"، اور اس کلام کے مخاطب بھی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

دوسرا یہ کہ مشہور واقعہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت کروائی، جو کہ ایک امام ہونے کی حیثیت سے آپ کی فضیلت ثابت کرتا ہے۔

تیسرا یہ کہ آپ سے اللہ تعالی نے مقام محمود کا وعدہ کیا جو کسی اور نبی سے نہیں کیا گیا۔

چوتھا کہ آپ کی تعلیمات اور عطا کی گئی کتاب کی خود حفاظت کی اللہ نے، اور آپ کو سب نبیوں میں آخری بنا کر بھیجا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث روایت کی ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ :

رسولوں میں سب سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ پل صراط عبور کروں گا ۔کتاب الاذان حدیث نمبر 764

اس لیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء پر مجموعی فضیلت حاصل ہے، مگر اس فضیلت کو دعوت کا مقصد نہیں بنانا چاھیئے، نہ ہی اس وجہ سے دوسرے انبیاء کی عزت اور فضیلت آپکی فضیلت کی وجہ سے کم ہوتی ہے۔

باقی جہاں پر بھی قرآن میں انبیاء میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے، وہاں فرق صرف ایمان کے لحاظ سے ہے، یعنی کسی پر ایمان لانا، اور کسی پر نہیں، یہ فرق اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اللہ کو نا پسند ہے۔

اس بارے میں شیخ صالح المنجد کی سائٹ پر ایک کتاب کا حوالہ موجود ہے: کتاب خصائص المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بین الغلو والجفاء ، تالیف محمد بن صادق
جزاک اللہ۔
 
Top