lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
ترمذی کون ہے؟
ان حوالوں میں ترمذی کون ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں اس سے مراد الجھم بن صفوان المتوفی ١٢٨ ھ ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں کیونکہ کتاب السنہ از ابو بکر الخلال کے مطابق یہ امام احمد اور ان کے بیٹے کا ہم عصر ہے
کتاب السنة از ابو بکر الخلال جو دکتور عطية الزهراني کی تحقیق کے ساتھ دار الراية – الرياض سے سن ١٩٨٩ میں شائع ہوئی ہے اس کے محقق کے مطابق یہ جھم نہیں
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صاحب الزاهد أبو عبدالله محمد بن علي ابن الحسن بن بشر الحكيم الترمذي ہیں لیکن یہ صوفی تھے اور اس عقیدے پر تو یہ ضررور خوش ہوتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھایا جائے گا دوم یہ عبّاس الدوری ، امام احمد وغیرہ کے ہم عصر نہیں
کتاب السنہ از الخلال میں ہے
الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ…ذَكَرَ أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي رَدَّ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ مَا رَآهُ قَطُّ عِنْدَ مُحَدِّثٍ
الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کہتے ہیں جب ان کے سامنے ترمذی کا ذکر ہوا جو مجاہد کی حدیث رد کرتا ہے کہا میں نے اس کو کسی محدث کے پاس نہیں دیکھا
معلوم ہوا کہ الترمذی، الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کا ہم عصر ہے
االْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ( المتوفی ٢٧١ ھ ) کآ یہ قول تعصب پر مبنی ہے یا واقعی یہ ترمذی کوئی جھمی ہی ہے یہ کیسے ثابت ہو گا؟ اس طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ کے لئے بھی ہیں جس میں لوگ ان کو جھمی بولتے ہیں اور کہتے ہیں حدیث میں یتیم تھے لیکن ان کو جھمی نہیں کہا جاتا . اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ ترمذی محدث نہیں تو عجیب بات ہے کہ اس عقیدے کے رد میں کوئی محدث نہیں ملتا
الذہبی کتاب العرش میں اپنا خیال پیش کرتے ہیں
الترمذي ليس هو أبو عيسى صاحب “الجامع” أحد الكتب الستة، وإنما هو رجل في عصره من الجهمية ليس بمشهور اسمه
یہ الترمذي ، أبو عيسى نہیں جو صاحب “الجامع” ہیں الستہ میں سے بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے اسی دور کا جو جھمیہ میں سے لیکن مشھور نہیں
ہماری رائے میں یہ اغلبا امام ترمذی ہیں اگر کسی کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو ہمیں خبر دے
امام ترمذی سنن میں روایت کرتے ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] وَسُئِلَ عَنْهَا قَالَ: «هِيَ الشَّفَاعَةُ»: ” هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ: دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ
ابو هُرَيْرَةَ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ نے الله کے قول عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] پر فرمایا جب میں نے سوال کیا کہ یہ شفاعت ہے
امام ترمذی نے ایک دوسری سند سے اس کو مکمل روایت کیا سند ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ
اس کے آخر میں ہے
وَهُوَ المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] ” قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ، إِلَّا هَذِهِ الكَلِمَةُ. «فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ» وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ
اور یہ مقام محمود ہے جس کا اللہ نے ذکر کیا ہے …. اور بعض نے اس کو أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سے بھی روایت کیا ہے
امام ترمذی نے نہ صرف آیت کی شرح میں مقام محمود سے مراد شفاعت لیا بلکہ کہا کہ ابی نضرہ سے ، ابن عبّاس سے بھی ایسا ہی منقول ہے
لیکن ان کے مخالفین کو یہ بات پسند نہیں آئی کیونکہ وہ تو ابن عباس سے دوسرا قول منسوب کرتے تھے لہذا کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ: وَبَلَغَنِي عَنْ بَعْضِ الْجُهَّالِ دَفْعُ الْحَدِيثِ بَقِلَّةِ مَعْرِفَتِهِ فِي رَدِّهِ مِمَّا أَجَازَهُ الْعُلَمَاءُ مِمَّنْ قَبْلَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِمَّنْ ذَكَرْتُ عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ، إِلَّا وَقَدْ سَلَّمَ الْحَدِيثَ عَلَى مَا جَاءَ بِهِ الْخَبَرُ، وَكَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِيلِ الْقُرْآنِ وَسُنَّةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مِنَ الْجُهَّالِ، وَزَعَمَ أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ هُوَ الشَّفَاعَةُ لَا مَقَامَ غَيْرُهُ.
محمد بن عثمان نے کہا اور مجھ تک پہنچا کہ بعض جھلا اس (مجاہد والی) حدیث کو قلت معرفت کی بنا پر رد کرتے ہیں … اور دعوی کرتے ہیں کہ مقام محمود سے مراد شفاعت ہے کچھ اور نہیں
امام ترمذی نے كتاب التفسير اور كتاب التاريخ بھی لکھی تھیں جو اب مفقود ہیں اور ممکن ہے مجاہد کے قول پر تفسیر کی کتاب میں جرح بھی کی ہو
مخالفین کو اعتراض ہے کہ اس آیت کی شرح میں یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ اس سے مراد صرف شفاعت ہے کچھ اور نہیں
ابن قیم کتاب بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور کے اشعار لکھتے ہیں
قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.
ابن قیم امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں
وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه
حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده
معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کوالْجَهْمِيَّةُ کہتے تھے
ہمارے نزدیک یہ عقیدہ کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے
افسوس الذھبی کے بعد بھی اس عقیدے کو محدثین نے قبول کیا مثلا
شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ کتاب القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں
وعن رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من قال اللهم صل على محمد وأنزله المقعد المقرب عندك يوم القيامه وجبت له شفاعتي
رواه البزار وابن أبي عاصم وأحمد بن حنبل وإسماعيل القاضي والطبراني في معجميه الكبير والأوسط وابن بشكوال في القربة وابن أبي الدنيا وبعض أسانيدهم حسن قاله المنذري
اور رويفع بن ثابت الأنصاري رضي الله عنه کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو کہے اے الله محمّد پر رحمت نازل کر اور روز محشر ان کو پاس بیٹھنے والا مقرب بنا، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی
اس کو البزار اورابن أبي عاصم اورأحمد بن حنبل اورإسماعيل القاضي اورالطبراني نے معجم الكبير اورالأوسط میں اور ابن بشكوال نے القربة میں اور ابن أبي الدنيا نے روایت کیا ہے اور المنذري کہتے ہیں اس کی بعض اسناد حسن ہیں
اس کے بعد السخاوي تشریح کرتے ہیں
والمقعد المقرب يحتمل أن يراد به الوسيلة أو المقام المحمود وجلوسه على العرش أو المنزل العالي والقدر الرفيع والله أعلم
اور قریب بیٹھنے والا ہو سکتا ہے اس سے مراد الوسيلة ہو یا المقام المحمود یا عرش پر بٹھایا جانا ….ہ
السخاوي اگر ان الفاظ کی تشریح نہیں کرتے تو ہم سمجھتے کہ ہو سکتا ہے ان کے نزدیک یہ روایت صحیح نہ ہو لیکن اس طرح انہوں نے اس کی تشریح کی ہے اس سے ظاہر ہے ان کا عقیدہ بھی اس پر تھا
عصر حاضر میں مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي ص ٢٣٤ میں البانی اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں
وان عجبي لا يكاد ينتهي من تحمس بعض المحدثين السالفين لهذا الحديث الواهي والاثر المنكر ومبالغتم في الانكار على من رده واساءتهم الظن بعقيدته … وهب أن الحديث في حكم المرسل فكيف تثبت به فضيلة؟! بل كيف يبنى عليه عقيده أن الله يقعد نبيه – صلى الله عليه وسلم – معه على عرشه
اور میں حیران ہو کہ سلف میں بعض محدثین کا اس واہی حدیث اور منکر اثر پر جوش و خروش کی کوئی انتہا نہیں تھی اور( حیران ہوں کہ) محدثین کا اپنے مخالفین کے انکار اور رد میں مبالغہ آمیزی اور عقیدے میں ان کو برا کہنے پر … اور حدیث مرسل ہے تو اس سے فضیلت کیسے ہوثابت ہو گئی؟ بلکہ یہ عقیدہ ہی کیسے بنا لیا کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا!