• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2. اُصولِ حدیث کے مسلمہ اُصول ''احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔'' کی رو سے ایسی تمام احادیث جن میں اطاعت ِامیر کے لئے اطاعتِ شارع کی شرط لگائی گئی ہے، ان تمام احادیث کی تشریح کرتی ہیں جن میں بظاہر اس قید کا ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی سورة بقرة آیت124 کے تحت فرماتے ہیں:
''امام وہ ہوتا ہے جس کا دامن گناہِ کبیرہ سے داغدار نہ ہو، احسان کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور اس میں حکومت کی ذمہ داریوں کو بجا لانے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان خوبیوں والے امام کے متعلق ہی نبی نے فرمایا کہ اُن سے مت جھگڑو لیکن جو فاسق و فاجر ہوں وہ امامت کے حقدار ہیں ہی نہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اُمت کو جن آخری باتوں کی وصیت فرمائی، ان میں سے ایک یہ بھی تھی : «ولو استعمل علیکم عبد یقودکم بکتاب الله فاسمعوا له وأطیعوا» ''اگر تم پر ایک غلام بھی امیر بنا دیا گیا ہوجو تمہاری امارت اللہ کی کتاب کے مطابق کررہا ہو تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3. علماے کرام کے اقوال و افعال میں تطبیق دینے کی صورت یہ ہے کہ اُصولاً خلافِ خروج اقوال کو امارةِ عادلہ اور جابرہ کے خلاف خروج پر محمول کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4. اگر علماے کرام کے خلافِ خروج اقوال کو امارت ضالہ پر بھی محمول کیا جائے تو اس کی وجہ فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہے، نہ کہ خروج کا اُصولاً ہر حال میں ناجائز ہونا ۔ امارتِ ضالہ کے خلاف خروج کے ان اقوال کا پس منظر یہ ہے کہ گو ان میں گوں نہ گوں برائیاں پائی جاتی ہیں البتہ ان امارتوں کے ذریعے اسلامی ریاستی (بشمول تعلیمی، عدالتی، معاشرتی، ادارتی، تعزیری، تبلیغی، جہادی وغیرہم) نظم بہر حال محفوظ اور قائم و دائم ہوتا ہے اور ریاستی نظام بحیثیت ِمجموعی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں شارع کی رضا کے مطابق گزارنے سے نہیں روکتا بلکہ اس میں ممد و مددگار ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی حکومتوں کو بھی بصورتِ عدم دستیابی قوت برداشت کرلیا جائے کہ بصورتِ دیگر خیر کم اور شر زیادہ پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5. البتہ ان اقوالِ فقہا کا تعلق غیر اسلامی ریاستوں کے ساتھ جوڑنا یا تو علمی خیانت ہے اور یا پھر نا سمجھی!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2) اقوال فقہا کاسیاسی پہلو
حصہ اوّل میں بیان کردہ اُصولی مباحث سے واضح ہوتا ہے کہ
1. عدم خروج کے جو اقوال کتبِ فقہ میں موجود ہیں وہ فاسق حکمران کی موجودگی میں ہی صحیح مگر اسلامی ریاست (نہ کہ محض حکومت) کی موجودگی کو بہرحال فرض (Pre-suppose) کرتے ہیں۔
2. لہٰذا علماے متقدمین نے خروج کے خلاف جو فتوے دئیے تھے،اُنہیں موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں تو سرے سے وہ اسلامی ریاست ہی مفقودہے جس کے خلاف خروج پر وہ فتوے دئیے گئے تھے، یعنی جس اسلامی ریاست کے اندر ' فساد کے اندیشے' کی وجہ سے یہ فتوے دئیے گئے، وہ ریاست ہی جب سرے سے مفقود ہے تو ان فتووں کی آڑ میں موجودہ ریاستوں کو تحفظ دینے کا کیا مطلب؟ فقہ اسلامی کے اہم رجحانات پہلی اور دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئے جب بنواُمیہ اور عباسی خلافتیں قائم تھیں ، آج کے دور میں تو مسلمان آبادیوں اور حکمرانوں سب پر طاغوت کا غلبہ ہے لہٰذا ان حالات میں بجائے انقلابی جدوجہد کی ضرورت کا دفاع کرنے کے اُنہیں غلط طور پر اِن اُصولوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرنا جو فقہاے کرام نے 'خلافت ِاسلامیہ' کے تناظر میں مرتب کئے تھے، قیاس مع الفارق ہے۔ پس فقہاے کرام کے اقوال منکرین خروج کے حق میں دلیل بننے سے قاصر ہیں، اگر وہ واقعی اپنے حق میں کوئی دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں تو فقہائے کرام کے ایسے اقوال پیش کریں جن کے مطابق ' غیر اسلامی ریاست کے خلاف ہر حال میں جہاد (خروج) کرنا ناجائز قرار دیا گیا ہو۔' اگر ایسا کوئی قول ہے تو براے مہربانی پیش کیا جانا چاہئے کیونکہ موجودہ ریاستوں کے تناظر میں خلاف خروج اقوال پیش کرنا ظلم (وضع الشيء في غیر محله) کا مصداق ہے کہ یہ تمام اقوال تو 'اسلامی ریاست' نہ کہ 'غیر اسلامی ریاست ' کے پس منظر میں نقل ہوئے ہیں۔ پس موجودہ حکومتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کو خروج کہنا ایک کم تر اور نسبتاً کمزور دلیل سے اس کا جواز فراہم کرنا ہے کیونکہ اس کے لئے زیادہ مناسب اور بہتر علمی اصطلاح جہاد ہونی چاہئے ۔18 فقہ اسلامی میں خروج سے مراد 'اسلامی ریاست' کی اصلاح کےلئے اسلامی حکومت کے خلاف بذریعہ قوت جدوجہد کرنا ہے۔ خروج بطورِ حکمت ِعملی تب محل بحث ہوسکتی ہے جب اسلامی ریاست موجود ہو۔ البتہ جب اسلامی ریاست سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ایسے حالات میں ریاست کے خلاف بذریعہ قوت کی جانے جدوجہد خروج نہیں بلکہ اصطلاحا ً جہاد کہلاتی ہے (جیسے تاتاری حکومت کے خلاف برپا کی گئی اسلامی جدوجہد)۔ دوسرے لفظوں میں تصورِ خروج خلافتِ اسلامی کی موجودگی کو فرض کرتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں جو شے مدارِ بحث ہونی چاہئے وہ خروج سے آگے بڑھ کر جہاد ہونی چاہئے۔ یہ بات درست ہے کہ فاسق و فاجر اسلامی حکومت کے خلاف جائز خروج بھی معناً جہاد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ہوا ''جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا بہترین جہاد ہے''، نیز تفسیر جصاص میں نفس زکیہ کے خروج کے حق میں امام ابوحنیفہ کا قول منقول ہے کہ آپ نے اسے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرا ر دیا )، البتہ یہاں بات اصطلاح کی ہو رہی ہے۔ یہ فرق بالکل ایسا ہے جیسے لفظ 'حد' بطورِ فقہی اصطلاح اوربطورِ قرآنی اصطلاح میں معنوی فرق ہے۔ پس دورِ جدید میں خروج کی بحث اُٹھانے والے حضرات پر درحقیقت موجودہ مسلم ریاستوں کی اصل حقیقت ہی واضح نہ ہوسکی۔
جمہوریت کی درج بالا مثال پر قیاس کرتے ہوئے چند اہم باتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے :
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3.اسلامی خلافت بھی محض تبدیلی حکومت کے مخصوص نظام (شوری کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کا نام نہیں بلکہ یہ بھی ایک مکمل نظم اطاعت ہے، لہٰذا کسی ایک ادارے (انتقال اقتدار)کے کرپٹ ہوجانے سے پورا اسلامی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔ دورِ ملوکیت میں جو بنیادی ادارتی خرابی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ 'اہل الرائے 'کے مشورے سے خلیفہ کی نامزدگی کا نظام ختم ہو گیا اور ریاست وحکومت کے اس فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے خلافت ِراشدہ کے بعد اسلامی نظام اقتدار میں آنے والی جزوی تبدیلی (اہل الرائے کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کو جدید مفکرین نے بذاتِ خود اسلامی ریاست کی تبدیلی پر محمول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے کرام نے بادشاہوں کے فسق کے باوجود خروج سے منع فرمایا ہے کہ ان انفرادی خرابیوں کے باوجود ریاستی نظام بحیثیت ِمجموعی اسلامی تھا اور خروج کے نتیجے میں نظم اطاعت کو خطرہ ہوسکتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4. یہاں سے یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ خروج کا وقت اجتہادی مسئلہ کیوں ہے؟ جیسا کہ واضح کیا گیا کہ ریاست درحقیقت ایک پیچیدہ ساخت ہوتی ہے جس کا مقصد مخصوص علمیت و عقلیت کے مطابق احکامات کا صدور و نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ چانچہ یہ فیصلہ کہ آیا نظامِ اطاعت میں کتنی تبدیلی کے بعد نظام اطاعت کی 'بنیاد' تبدیل ہوگئی ہے اور اب خروج (بذریعہ قوتِ اصلاح ) کے لئے نکلنا ضروری ہوگیا، ایک مشکل امر ہوتا ہے اور لامحالہ ایک مجتہد فی مسئلہ ہے۔ خروج کاو قت طے کرنے کا مسئلہ محض فقہاے اسلام ہی نہیں بلکہ جمہوری مفکرین کے لئے بھی ایک خاصا مشکل امر ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک جمہوری انقلاب برپا کرنے کیلئے تو ہر قسم کی جدوجہد (بشمول مسلح جدوجہد) جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت تو عقل و فطرت کا تقاضا ہے، البتہ جمہوریت کے خلاف کوئی انقلابی جدوجہد جائز نہیں، لیکن یہ طے کرنا کہ کب اور کہاں آمرانہ جمہوری ریاست بنانے کا وقت آگیا ہے، ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے جس کے ضمن میں یہ مفکرین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں (مثلاً کچھ امریکی مفکرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا یا پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں حالات کی روشنی میں ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5. اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں کو فقہا کے اقوال کی روشنی میں جانچتے وقت یہ بات ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ تقریباً تمام ہی مسلم ریاستیں یا تو لبرل یا آمرانہ جمہوری نظم کے تحت کام کررہی ہیں اور جن کا اسلامی نظم اطاعت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ لہٰذا ان ریاستوں کو غلط طور پر اسلامی فرض کرکے اُنہیں ان اقوال کی روشنی میں خروج سے پناہ دینا قیاس مع الفارق ہے۔ پس ائمہ سلف کے فتاوی کو ان کے پورے محل سے کاٹ کر الگ اور بے محل پیش کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یہ فتویٰ کن حالات اور کن اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا۔ [حصہ سوم اور چہارم آئندہ شمارہ میں ]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حوالہ جات

119؍ستمبر 2011ء کو اسلام آباد کی نیشنل لائبریری میں PIPSکے زیراہتمام ہونے والا پہلا مکالمہ

2سرمایہ دارانہ نظام ریاست کی ہیئت سمجھنے کے لئے دیکھئے: ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کا نہایت قیمتی و اہم مضمون 'لبرل سرمایہ دارانہ ریاست' کتاب 'جمہوریت یا اسلام'

3لبرل اور آمرانہ جمہوریتوں کا فرق، ان کے وجہ جواز اور برائے نام اسلامی ریاستوں کی حقیقت سمجھنے کے لئے دیکھئے: فریاد زکریا کی کتاب Future Of Freedom

4ان کی مختصر وضاحت کے لئے دیکھئے راقم کا مضمون ' اسلام خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کا تاریخی تناظر میں موازنہ'... کتاب 'جمہوریت یا اسلام'

5ہیومن رائٹس کی تفصیلی وضاحت نیز اسلامی تعلیمات میں اس کے جائزے کے لئے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون 'جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ' ماہنامہ 'محدث' 2009ء ، نیز جمہوری ریاست کے اندر اسلامی جدوجہد کی لایعنیت سمجھنے کے لئے دیکھئے ہمارا مضمون 'جمہوریت اور اس کے تناظر میں برپا اسلامی جدوجہد کا تنقیدی جائزہ' کتاب 'جمہوریت یا اسلام'

6انقلابی تحریک کے قدرے نرم گوشہ رکھنے والے مفکرین وعلما کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ تحریکیں علمی ونظریاتی نہیں بلکہ منافق قسم کے حکمرانوں کے خلاف انتقام، نا اُمیدی وغصے کے جذبات کا ( ناجائز) اظہار ہیں، حالانکہ یہ تجزیہ محل نظر ہے کیونکہ جس طرح اُنیسویں صدی کے مخصوص حالات میں علماے کرام کا سیاسی صف بندی سے کنارہ کش ہو کر مدارس کی سطح پر اسلامی علوم کو محفوظ کرنے کا فیصلہ خالصتاً علمی ونظریاتی (اورالحمد للہ کامیاب) اجتہاد تھا، بالکل اسی طرح بیسویں صدی میں انقلابی و جہادی تحریکات کا زور پکڑنا بھی ایک شعوری ونظریاتی اجتہادی فیصلہ ہے۔

7مثلاً دیکھیے تفسیر ابن جریر سورۃ بقرہ 256، ابن کثیر، سورۃ النساء ۔ ماضی قریب کے تقریباً تمام روایت پسند مکاتب فکر کے مفسرین نے اس سے یہی مراد لیا ہے۔

8متفق علیہ

9فتح البارى، كتاب الاحكام

10صحیح مسلم:1854

11فتاویٰ شامی: جلد 4

12المبسوط: جلد10

13بدائع الصنائع: جلد7

14حجۃ اللہ البالغۃ: 2؍ 399

15فتاویٰ ابن تیمیہ: 28؍ 502 تا511

16مسلم کتاب :1709

17صحیح مسلم:1838

18البتہ مسلمانوں کے فرق کے بنا پر دونوں فقہی معاملات میں یقینی فرق کیا جائے گا، مثلاً یہ کہ مسلمانوں کو غلام نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کے اموال کو مالِ غنیمت سمجھا جائے گا۔ وغیرہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
2. اُصولِ حدیث کے مسلمہ اُصول ''احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔'' کی رو سے ایسی تمام احادیث جن میں اطاعت ِامیر کے لئے اطاعتِ شارع کی شرط لگائی گئی ہے، ان تمام احادیث کی تشریح کرتی ہیں جن میں بظاہر اس قید کا ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی سورة بقرة آیت124 کے تحت فرماتے ہیں:
''امام وہ ہوتا ہے جس کا دامن گناہِ کبیرہ سے داغدار نہ ہو، احسان کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور اس میں حکومت کی ذمہ داریوں کو بجا لانے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان خوبیوں والے امام کے متعلق ہی نبی نے فرمایا کہ اُن سے مت جھگڑو لیکن جو فاسق و فاجر ہوں وہ امامت کے حقدار ہیں ہی نہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اُمت کو جن آخری باتوں کی وصیت فرمائی، ان میں سے ایک یہ بھی تھی : «ولو استعمل علیکم عبد یقودکم بکتاب الله فاسمعوا له وأطیعوا» ''اگر تم پر ایک غلام بھی امیر بنا دیا گیا ہوجو تمہاری امارت اللہ کی کتاب کے مطابق کررہا ہو تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔''
متفق
 
Top