• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر کی خوارج نما تکفیری ارجاء وتجہم زدہ جماعۃ الدعوۃ اپنے مقرر کردہ پیمانوں کے میزان میں

شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ابوزینب صاحب آپ سے تو ہم نے یہی سوال کیا تھا کہ حکومت نے کب سود کو حلال کرنے کے لیے پٹیشن داخل کی؟؟؟؟؟؟؟
حکومت پاکستان نے تو مہلت مانگی تھی کیونکہ شریعت کورٹ نے بہت کم مہلت دی تھی۔ اگر آپ اس مقدمہ کے متعلق معلومات پڑھتے تو آپ کو اندازہ ہوجاتا۔
متلاشی صاحب کیوں لوگوں کو تدلیس وتشکیک میں مبتلا کررہے ہیں ۔پوسٹ میں اس بات کو بیان کیا گیاہے حکومت کا سود کو جاری رکھنا کفر ہے۔اور اس کے لئے ثبوت جماعۃ الدعوۃ کے رسالہ مجلۃ الدعوۃ سے فراہم کیا گیا ہے جسے جماعۃ الدعوۃ نے مارچ ۱۹۹۲ میں شائع کیا ہے۔اس میں واضح طور پر صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ سود کو مدتوں سے جاری رکھنا نواز شریف حکومت کا کفر ہے۔اور یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی شک وشبہ کی اس بات میں گنجائش نہیں ہے کہ :
اے پاکستان کے صدر مملکت ،وزیراعظم ،وزراء اور حکومتی کارندو،قانون سازواورقانون کی تشریح کرنے والے اور نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ دارو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے کفر میں بلکہ تمہارے طاغوت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
دیکھئے کس قدر وضاحت کے ساتھ مجلۃ الدعوۃ میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ نواز شریف حکومت کے صدر مملکت رفیق تارڑ،وزیراعظم نواز شریف ،وزراء اور حکومتی کارندوں ،قانون سازو اور قانون کی تشریح کرنے والے اور نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ دارو۔۔۔۔تمہارے کفر میں بلکہ تمہارے طاغوت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔یعنی کسی بھی قسم کا ابہام نہیں ہے پورے مستحکم اور ٹھوس طریقے سے اس بات کو جماعۃ الدعوۃ نے اپنے رسالے میں بیان کیا ہے۔او رمتلاشی صاحب ہیں کہ بات کو کسی اور طرف گھما رہے ہیں۔بات دراصل یہ ہے جماعۃ الدعوۃ نے سود کے مسئلے میں نواز شریف کی حکومت کی 1992میں جو تکفیر کی تھی اور ان کی حکومت کو طاغوت قرا ردیا تھا ،اور ان کے وزراء کے بیانات کو کھلا ارتداد قرار دیا تھا۔وہ تکفیر اور حکومت کو طاغوت قرار دینا اور وزراء کے بیانات کو کھلا ارتداد قرار دینا آج 2013میں بھی اس وقت کی تکفیر جوں کی توں قائم ودائم ہے۔کیونکہ جماعۃ الدعوۃ نے اس دن سے لے کر آج تک اس تکفیر کے مضمون سے رجوع نہیں کیا جو کہ ان کے رسالے میں شائع ہوا تھا۔اور یہ اصول ہے کہ جب تک اپنی تحریر سے رجوع نہ کیا جائے اس وقت تک و ہ بات ان کے ذمہ رہتی ہے۔پہلے تو متلاشی صاحب اس بات کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری تھے کہ حکومت کا سود کو جاری رکھنا کفر ہے بلکہ وہ اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ یہ گناہ ہے پھر بالآخر ایک طویل بحث کے بعد موصوف فرماتے ہیں :
آپ نے جو یہ بات کی۔[پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے حرام کردہ سود کو تم نے مدت سے جاری کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہوا ہے]۔اس سے وہ کفر مراد ہوہی نہیں سکتا جو دائرہ اسلام سے خارج کرے
متلاشی صاحب یہ بات جو آپ نقل کررہے کہ :
پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے حرام کردہ سود کو تم نے مدت سے جاری کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہوا ہے۔
یہ بات ہم نے نہیں کی ہے بلکہ یہ بات ہم نے آپ کی جماعۃ الدعوۃ کے مجلۃ الدعوۃ کے رسالے مارچ 1992صفحہ نمبر ۲ سے نقل کی ہے۔یہ بات آپ کے رسالے میں موجود ہے جس کا لنک ہم اپنے پوسٹ میں دے چکے ہیں۔اس لئے بات کو گھمائیے نہیں بلکہ اپنے محل پر رکھیے۔اپنی کہی ہوئی بات کو کسی دوسرے کی طرف منسوب نہ کیجئے۔سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ دیا اور حکومت نے کیا جوابی رٹ داخل کی یہ اس پوسٹ کی بحث سے خارج ہے۔کیونکہ موضوع بحث صرف اور صرف یہ بات تھی جو کہ آپ کی جماعۃ الدعوۃ کے رسالے مجلۃ الدعوۃ میں شائع ہوئی تھی ۔جس میں آپ کی جماعۃ الدعوۃ نے نواز شریف حکومت کو طاغوت اور کافر حکومت قرار دیا ہواہے۔اور اپنی اس بات کو کسی بھی شبہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہوا ہے۔اور یہ تحریر مجلۃ الدعوۃ میں 1992میں شائع ہوئی تھی اور آج 2013ہے ۔ اور اس دن سے لے کر آج تک جماعۃ الدعوۃ نے اپنی اس تحریر سے رجوع نہیں کیا ہے۔1992میں بھی نواز شریف کی حکومت تھی اور ان کا صدر تھا۔اور آج 2013میں بھی نواز شریف کی حکومت ہے اور ان کا صدر ہے۔1992میں بھی نواز شریف وزیراعظم تھا اور آج 2013میں بھی نواز شریف ہی وزیر اعظم ہے۔1992میں بھی سود اسی طرح جاری وساری تھا جس طرح آج 2013میں سود جاری وساری ہے۔اب یہ تو جماعۃ الدعوۃ کی ذمہ داری بنتی ہے آج کی صورتحال میں اپنے پرانے موقف پر قائم رہتی ہے۔یا سود کے بارے میں کوئی نیا موقف اختیار کرتی ہے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
جماعۃ الدعوۃ کا کارکن متلاشی سود کے بارے میں اپنی تنظیم جماعۃ الدعوۃکی مقرر کردہ میزان کی زد میں جماعۃ الدعو ۃ کی مقرر کردہ میزان
کلمۃ الدعوۃ ابوطلحہ ۔افحکم الجاھلیۃ یبغون گذشتہ دنوں وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں سود کے خلاف حکم جاری کیا ہے۔یہ فیصلہ پاکستان کے ہرخاص وعام کے لئے حیرت کا باعث بن گیا ۔اسلام پسندوں کیلئے یہ فیصلہ بڑا خوش کن ہے کہ پاکستان میں کسی اعلیٰ عدالت نے پہلی بار یہ جرات کی ہے اور اسلام سے پہلو بچانے والوں کیلئے یہ فیصلہ بڑا تشویش کا باعث بنا۔حکومتی اداروں سے اس کی مخالفت کی گئی بلکہ حکومت نے شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اسلام دشمن سیاستدانوں نے ہرزہ سرائی کی اوروفاقی وزراء نے کھل کر فیصلے کے خلاف بیانات دیئے اوراقتصادی امور کے وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ موجودہ حالات میں سود کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور علماء پر طعن کرتے ہوئے اس نے یہ بھی کہا کہ علماء جب تک سود کامتبادل نظام پیش نہیں کرتے ہم اسے ختم نہیں کرسکتے ۔ ہمارے نزدیک سود کے سلسلے میں حکومت پاکستان کے اقدامات صریحاً کفر پر مبنی ہیں اور اس کے وزراء کے بیانات کھلا ارتداد ہے۔ ہم حکومت کے کارپردازوں سے پوچھتے ہیں کہ تم اس بات سے آگاہ نہیں ہو کہ سود کو اللہ نے حرام کیا ہے۔پھرتمہاری یہ جرات کیسے ہوگئی کہ تم نے سپریم کورٹ میں سود جاری رکھنےکیلئے رٹ دائر کی ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے حرام کردہ سود کو تم نے مدت سے جاری کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہوا ہےکیونکہ جو اللہ کے حلال وحرام کو نہیں مانتا اوروہ اپنے ضابطے بناتا ہے یہی اس کاکفر ہے۔پھر اگر تمہاری قائم کردہ ایک عدالت نے شریعت کی لاج رکھتے ہوئے سود کو ممنوع قرار دیا ہے تو تم فیصلے کو ماننے کی بجائے سپریم کورٹ میں چلے گئے ہو۔اس امید سے کہ قانون کی رو سے سپریم کورٹ شریعت کو رد کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔اگر تم یہی سمجھتے ہو تو سن لیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے پاکستان کے صدر مملکت ،وزیراعظم ،وزراء اور حکومتی کارندو،قانون سازواورقانون کی تشریح کرنے والے اور نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ دارو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے کفر میں بلکہ تمہارے طاغوت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔اللہ کے قرآن کا یہ فیصلہ ہے کہ جو اپنے حلال وحرام کے ضابطے اور قوانین بناتا ہے ،وہ اللہ کے مقابلے پر اپنے آپ کو رب بناتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔آگاہ رہئے ہمارارب آسمانوں میں ہے جوسب کی موت وحیات اور پوری کائنات کا مالک ہے اور بروبحر کے ہرجاندار کا رازق ہے۔وہ پتھروں کے اندر کیڑے کو بھی خوراک مہیا کرتا ہے ۔تم اس کی ربوبیت کو ماننے کی بجائے یہ کہتے ہوکہ علماء سود کے متبادل کوئی منصوبہ بندی لے کرآئیں اور وہ اسے بنکوں اور تجارتی اداروں میں سود سے بہتر منافع بخش ثابت کردیں تو پھر تم سود کو ختم کرنے کی سوچ سکتے ہو۔ (مجلۃ الدعوۃ مارچ ۱۹۹۲ صفحہ نمبر۲)
محمد علی جواد صاحب سود کا لین دین کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا جو آپ دنیا جہاں کے تمام مسلمانوں کو فرعون کے ساتھ ملا رہے ہیں اور مٹھی بھر خوارج کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔خوارج بھی قرآن کی آیات پیش کرتے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان خوارج کی تکفیر نہیں کی ہاں ان کو قتل کیا ہے اور اسی کشمکش میں خود بھی جام شہادت پیا۔ خوارجی جو کام کرتے تھے وہ بھی تو آپ کی طرح اسلام سمجھ کر کرتے تھے اور یہ تو نہیں کہتے تھے کہ ہم غلط ہیں اور جو جنگیں انہوں کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کی وہ بھی تو جہاد سمجھ کر کی اور یہی آج کے خوارجی کر رہے ہیں۔ آج آپ دیکھ لیں پاک فوج کو کافر کہہ کر کون خوارج کی سنت پر ہے اور خوارجیوں کو جہنم رسد کروا کر کون حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت پر ہے۔
سود انفرادی طور پر لیا جائے یا اجتماعی طور پر سود حرام ہے۔ پاکستان کے آئین میں سود کو حلال کہاں کہا گیا ہے آپ بتائیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان صرف سود کی شرح کا تعین کرتا ہو وہ بھی صرف شیڈیولڈ بینک کے لئے کیوں کہ پاکستان کو دوسرے ممالک سے تجارت کرنی ہوتی ہے اور قرضے بھی لینے ہوتے ہیں اس میں سود کو حلال کرنے والی بات کہاں ہے یہ آپ کا بغض بین المسلمین ہے جو آپ سود کے لین دین کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور اپنا نام خوارج کی لسٹ میں شامل کردیتے ہیں۔
لفاظی کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ بتائیں کہ سود کو حلال کہاں کہا گیا ہے بجائے آپ نشاندہی کرتے آپ نے ادھر اُدھر کی ہانکنا شروع کردی ۔ اگر سود جاری و ساری بھی رہتا ہے تو اس سے کوئی کافر نہیں ہوتا گناہ گار ہوتا ہے بجائے دلیل دینے کے عوام و خواص کے فسق کو بار بار نقل کرنے جو جہالت کے سوا اور کیا کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حافظ سعید صاحب پاکستان میں مکمل اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں جو چیزیں اُن کے نزدیک اسلامی نہیں ہیں اُن کو ختم کرنے کی بات پاکستان کے آئین و قانون میں رہتے ہوئے کرتے ہیں اور بات بات پر حافظ سعید صاحب کا نام لیتے ہو حافظ سعید صاحب کا ہی کوئی حوالہ دے دو جس میں پاکستان کفر کی حکومت کہا ہو اگر اتنا بھی نہیں کر سکتے تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چھوڑ دو۔
ابوذینب صاحب غصہ کسی دلیل کا نام نہیں ہے۔ ہمیں پہلے ہی اندازہ ہے جو بغض آپ کو آپ کے اکابرین نے سلفی علماء کے خلاف سکھایا ہے آپ خوب کھل کر اس کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن آپ کے اس تفریک بین المسلمین کی وجہ سےہم افغانستان کو اس نازک موڑ پر دیوبند اسٹیٹ قرار نہیں دیں گے بلکہ امریکہ کے مقابلہ میں اسلامی ملک ہی تصور کریں گے۔ ہاں البتہ آپ کا ہمارے جہادی لیڈروں پر اس طرح لغو تنقید کرنا بلکل بھی درست نہیں اس کی وجہ ہے کہ آپ سود کے لین دین کو کفر پر محمول کرتے ہیں اور آپ کے اکابر اسی پیسے سے جو پاکستان کے معاشی نظام سے حاصل کیا گیا تھا پورے افغانستان میں اپنا قبصہ قائم کرنے میں لگا رہے تھے اور خوب بھائی چارے کا پرچار بھی کر رہے تھے تو اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو جہاد فی سبیل الطاغوت آپ کے اکبر پر چسپا ہوتا ہے جو کسی ادنی عقل رکھنے والے سے مخفی نہیں ۔
جیسا کے میں پہلے عرض کر چُکا ہوں کے پاکستان میں تو کیا عالم اسلام میں سود کا لین دین پاکستان کے قیام سے پہلے ہی شروع ہوچُکا تھا۔ لیکن کسی عالم دین نے اس بنیاد پر نہ تو خُروج کیا اور نہ ہی تکفیر کی بلکہ اپنے اپنے ملکوں میں ایک فعال کردار ادا کیا اور رائج الوقت نظام کو اسلام میں ڈھالنے کے پُر خلوص کوششیں شروع کی۔ جس کے صلے میں دنیا کا سب سے پہلا اسلام بینک معروز وجود میں آیا۔ عالم اسلام میں 1960 میں پہلا اسلامی بینک قائم ہوا۔ کیونکہ علماء کرام، مسلمان ، اپنے دین اسلام، اور اپنے ممالک سے بے حد مخلص تھے اس لئے انہوں نے اُس وقت سودی نظام کے خلاف جہاد کیا اور مسلمانوں کو اسلامی بینکاری سے متعارف کروایا۔ کسی نے بھی اپنی حکومت کےخلاف علان بغاوت نہیں کیا تھا کہ حکومت نے سود پر لین دین شروع کیا ہے تو اب ہم جانوروں کی طرح پورے ملک میں دندناتے پھریں گے۔ یہ تھا منہج جس سے ابوزینب صاحب بھٹک گئے اور اس گہری کھائی میں جاگرے جہاں سے شاید ہی کوئی مقلد باہر آپایا ہو۔
ان نیک و مخلص علماء و ماہرین کی کوششوں کی بدولت اللہ ازوجل نے پوری دنیا کے علماءکرام کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور زیادہ سے زیادہ اسلام کے قریب لانے کی پُر خلوص کوششیں شروع ہوگئی۔ اور اب تک تقریباََ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابین، رسائیل اس موضوع پر لکھے گئے ہیں جن میں جہاں پر اسلامی بینکاری کی غیر شرعی امور پر تنقید ہے تو دوسری طرف اس نظام کو مضبوط اور مزید شریعت کے ڈھانچے میں دھالنے کی بہرپور کوشش کی جارہی ہے۔ اس نیک کام میں ہمارے علماء کرام بھی کسی سے پیچھے ہیں اور باقاعدہ طور پر پاکستان کے مرکزی بینک میں باقاعدہ ایک بورڈ اور اسلامی اسکالرز بھی موجود ہیں جن کا کام اسلامی بیکاری کو اسلامی اصولوں سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے بینکوں کو اسلامی بینکاری شروع کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔لیکن ابوزینب صاحب کا اصل مقصد مسلمانوں کی تکفیر کرنا اور شیطانی کے انڈے بچوں نام نہاد جہاد کرنے والے کی تقلید کرنا ہے اس لئے اُن کو یہ سب نظر نہیں آتا۔ اور مسلمانوں پر جھوٹا الزام لگا تے ہیں اور اپنی پوری توانائی مسلمانوں کو کافر منانے میں سرف کرتے نظر آتے ہیں۔ ابوزینب صاحب بات واقعی بہت سیدھی سی ہے اگر آپ بغض کی پٹی آنکھوں سے ہتا کر دیکھیں تو۔
ابوزینب صاحب سود لینا چھوڑے یا نا چھوڑیں بیراحال یہ کفر نہیں ہے جیسا کہ اآپ کا باطل دعوٰ ہے۔ آخر اسی سودی پیسے سے آپ لوگ افغانستان میں جہاد کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس سود سے نکلنے کےلئے کوشش اپنی جگہ پر کی جارہی ہیں۔ جہاں تک جماعت الدعوۃ کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ جماعت الدعوۃ قرضہ نہیں لیتی سود پر تو ہم کیسے دے دیں۔
تو جناب ابو زینب صاحب اس سودی پیسے سے بننے والی حکومت کو آپ اور آپ کے گروگھنٹال اسلامی حکومت کہتے ہیں ۔ لیکن خوارج جس نقطہ پر پاکستان کی تکفیر کر رہا ہے تو تمھارے نظریہ سے تو امارات اسلامیہ افغانستان اسلامی نہیں بلکہ امارات کفریہ افغانستان کفر یہ ملک ہوگیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک سوال بھی کیا تھا آپ اُس کو بھی ہضم کر گءے اور ڈکار تک نہیں لی۔ وہ سوال یہ تھا۔و آپ بتانا پسند کریں گے کہ کن کن ممالک میں۔سودی نظام نہیں ہے اور کن ممالک کے علماء کرام نے اپنے ملک میں سودی نظام کی وجہ سے بغاوت کی ہے۔اس پر بھی زرا نظر کرم کریں دیکھیں آپ کے کفر کی توپ کی رینج کتنی ہے۔ یا پھر آپ لوگوں نے جو شریعت وزیرستان میں بیٹھ کر گہڑی ہے اُس میں دیوبندی مستسنا ہیں۔
مجھے اندازہ تھا کہ آپ بھینگے ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ آپ کانے بھی ہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے کیا کہا ہے اور خوارجی نے کیا سمجا ہے۔ آپ اس جملے سے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آپ خوارجی ہیں اور مسلمانوں سے کٹ گئے ہیں۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے کیا ہی خوب بہانہ گھڑا ہے۔ ہم نے کہا تھا"اور آپ نے جو بھڑک ماری ہے "اگر سود کی حرمت ہوتی تو اس کہ یہ ختم کردیتے" تو جناب سود کو گناہ سمجھتے ہیں تبھی تو اسلامی بینکاری پو توجہ مرکوز ہے اگر سود کو جائز سمجھتے تو اس کو ختم کرنے کی کوششیں کیوں کرتے اور کیوں علماء کرام سے رابطے کیئے جاتے۔
آپ کے اس جملے سے کیا سمجھا جائے کہ عالم اسلام میں سود کا لین دین پاکستان کے قیام سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا؟؟؟تو اس بناء پر آپ پاکستان میں سود کو جائز سمجھتے ہیں کیا؟؟؟اب مسلمان خود ہی فیصلہ کر لیں کہ ابوزینب صاحب کی دماغی حالت کیاہوگئی ہے۔اپنے آپ ذلت سے بچانے کے لئے ابوزینب صاحب نے آدھی آدھی پوسٹ کو کوٹ کرنے کا طریقہ ایجاد کیا ہے تاکہ اپنی اس نالائقی اور اپنے اکابرین کی جہالت پر پردہ ڈالا کاسکتے۔لیکن میں دعوے کے ساتھ بول سکتا ہوں کہ ابوزینب صاحب اپنے تمام خوارج بشمول جو مردار ہوگئے ہیں یا جو تاقیامت آئیں گے سب کو لے آئیں اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمریں بھی ان کو دے دی جائیں تب بھی مسلمانوں سے یہ بات ثابت نہیں کرسکتے کے عالم اسلام مین سود کے لین دین کو کسی نے سود کے حلال کرنے پر محمول کیا ہو۔
جب افغان جہاد شروع ہوا تو اس وقت خوب ڈالروں کی بارش ہوئی۔ پاکستان اور امریکہ نے طالبان کی دل کھول کر امداد کی لیکن جب روس افغانستان سے چلا گیا تو امریکہ نے توہاتھ کھینچ لیا لیکن پاکستان مسلسل طالبان کی مالی اور فوجی امداد جاری رکھی۔ ابو زینب صاحب آپ کو شاید معلوم نہیں کہ روس 1989 میں افغانستان سے نقل گیا اور طالبان تو افغانستان میں موجود تھے 1990 سے لے کر 2001 تک طالبان اسی سودی نظام کا پیسہ، اسی سودی نظام سے ملنے والی سیلری کے ساتھ مل کر اپنا قبصہ مضبوط بنانے میں مشغول رہے اور وہ اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن افغان طالبان نے اس سودی نظام کی موجودگی میں کبھی بھی پاکستان کے خلاف جارہیت نہیں کی ۔ آپ زیادہ عالم ہیں یا آ پ کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض ہے جو آپ کو یہ سب حقائق سمجھنے نہیں دیتا۔"یہ دیکھیں پاکستان کا سود بھی کتنا متبرک ہے کہ مجاہدین اس سودی پیسے سے جہاد کرتے ہیں اور ابوزینب صاحب کہتے ہیں کہ سود کا لین دین کرنا کفر ہے۔ اب یہ تو افغان مجاہدین کافر ہیں یہ پھر ابوزینب صاحب کافر ہیں۔ فیصلہ ابوزینب صاحب خود ہی کر لیں۔
ابوزینب صاحب شروع دن سے رونا رو رہے ہیں یہ پاکستان نے اور اس کی افواج نے قرآن کی نصوص کے خلاف کام کیا ہے۔ ہالانکہ اس اصول پر تو ابوزینب صاحب اور ان کے خوارجی بھاءی ڈبل کافر ہوتے ہیں۔ ابوزینب صاحب کے دھرم میں تقلید، وسیلہ، تصوف وغیرہ کرنے سے مجاہد ہی نہیں اءمہ مجاہدین بن جاتے ہیں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ ابوزینب صاحب نے تقلید، وسیلہ اور تصوف کو اسلام میں داخل کر کے کن کن قرآنی نصوص کو بدلنے کی جسارت کی ہے اور شریعت میں ردوبدل کا اختیار اپنے مولویوں اور پیروں کے سپرد کردیا ہے لیکن پھر بھی ابوزینب صاحب بضد ہیں کہ سود کا لین دین کرنا کفر ہے۔ اب حقیقت سب کے سامنے کھل ہی چُکی ہے۔
اچھا تو آپ کے نزیک پوری دنیا ارجاء کا شکار نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ اسلامی ممالک نے کبھی پاکستان کو کفر کی حکومت نہیں کہا، کسی اسلامی ملک نے پاک فوج کو کفر کی حکومت نہیں کہا کیونکہ یہ اسلامی ملک نہ صرف پاکستان اور اس کی فوج کو اسلامی کہتے ہیں اس لئے آپ کے اصول سے یہ سب لوگ ارجاء کہلائیں گے۔ ہم جھوٹ نہیں بلکہ آپ تقیہ بازی کر اُتر ائیں ہیں۔ تقریباََ ۔ ہر اسلامی ملک میں سود پر کام ہورہا ہے۔ سود نافذ ہے جس کا لین دین کرنے کو اآپ سود پر محمول کرتے ہیں۔ ایسے گمراہ لوگ بھی ہیں جو مزارات کو سجدہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی تکفیر نہیں کرتے۔ شراب بھی جاری و ساری ہے، سود بھی ہے، نمازی بھی نہیں ہیں پھر بھی مسلمان ہیں تو سارا عالم اسلام آپ کے نظریات سے ارجاء کا شکار ہی ہوا۔ خام خا کلینی کے نقشِ قدم پر چلنا چھوڑیں اور تقیہ بازی سے باہر آجائیں۔
ابوزینب مجھے لگتا ہے تمھاری عمر چوسنی چوسنے کی ہے۔ جب دیوبندی نے شریعت میں شراب کی اسلامی مملکت میں فروخت جائز قرار دے دی ہے تو تم اپنا موقف پیش کرو اور دیوبندیوں پر فتویٰ جڑو جب ہم سود کے لین دین کو بھی کفر پر محمول نہیں کرتے تو شراب کی خرید و فرخت کو کیسے کفر پر محمول کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ یہ تو بتائیں کہ آپ کے دیوبندی صاحب نے چھپ کر شراب پینا کیسے حلال کردیا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ ہے جماعۃ الدعوۃ کا کارکن متلاشی جو اپنی ہی جماعت کی مقرر کردہ میزان کی زد میں ہے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ابوزینب آپ کو یقین ہے کہ متلاشی جماعۃ الدعوۃ کے کارکن ہیں۔۔۔
اگر آپ کو کنفرم ہے تو ہمیں ضرور بتائیں۔۔۔
ورنہ سوالوں اور اعتراضات تک خود کو محدود رکھیں۔۔۔
ذاتیات پر دونوں بھائی گفتگو کرنے سے گریز کیجئے۔۔۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
متلاشی صاحب کیوں لوگوں کو تدلیس وتشکیک میں مبتلا کررہے ہیں ۔پوسٹ میں اس بات کو بیان کیا گیاہے:
ابوزینب صاحب آپ کے دماغ پر تو خوارجیت کی کافی موٹی تحہ پڑی ہوئی ہے لوگوں پر ایسی کوئی تحہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ آپ کی طرح بصارت سے محروم ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تبھی آپ بیمار کتیہ کی طرح دم ٹانگوں میں بجائے بھاگ رہے ہو۔​
حکومت کا سود کو جاری رکھنا کفر ہے۔اور اس کے لئے ثبوت جماعۃ الدعوۃ کے رسالہ مجلۃ الدعوۃ سے فراہم کیا گیا ہے جسے جماعۃ الدعوۃ نے مارچ ۱۹۹۲ میں شائع کیا ہے۔اس میں واضح طور پر صاحب مضمون نے لکھا ہے کہ سود کو مدتوں سے جاری رکھنا نواز شریف حکومت کا کفر ہے۔اور یہ بات اس طرح بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی شک وشبہ کی اس بات میں گنجائش نہیں ہے​
اس کا جواب آپ کے پہلے ہی دیدیا گیا تھا۔ آپ کو تو ہمارے جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ اپنی پوسٹ میں وہی بیماری مکھیاں دوبارہ چپکادیں تاکہ عوام الناس کو دھوکہ دیا جا سکے۔​
ہم نے اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ​
اس سے وہ کفر مراد ہوہی نہیں سکتا جو دائرہ اسلام سے خارج کرے کیونکہ مقدمہ جب سود کو حلال و حرام کرنے کا نہیں تھا تو سپریم کورٹ کیسے حلال کرتی؟ مقدمہ شریعت کورٹ کے فیصلے پر تھا کہ اتنی جلدی کیسے تعمیل کی جائے۔ اس بات کی مذید تائید آپ کے پوائنٹ نمبر 3 سے ہوتی ہے جس کو صاحب مضمون نے قظیہ شرطیہ کے ساتھ لکھا ہے یعنی "اگر" ایک ادنی عقل رکھنے والا بھی سمجھتا ہے کہ لفظ "اگر" کب استعمال کیا جاتا ہے۔ جب معملات مکمل طور پر واضح نہ ہو تب ہی کہا جاتا ہے۔
بلفرض اگر صاحب مضمون کی وہی مراد ہوتی جو آپ نے لی ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ آپ بتائیں کہ کہاں پر سود کو حلال کہا گیا ہے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے اور یقیناََ نہیں کرسکتے تو صاحب مضمون کا وہی مطلب متعین ہوجائے گا جو ہم نے اُوپر بیان کیا ہے۔
اصولی طور پر تو آپ کو ہمارے لگائے گے لنکس کا جواب دینا چاہئے تھا کہ اُس میں صاحب مضمون نے جو بات سمجھی ہے وہ کہاں ہے۔
جی ابوزینب صاحب ہم نے تو بھی کہا تھا اس کا جواب ابھی دوگے اگر نہیں دے سکتے تو اپنے پیروں سے بولو مراقبہ کرو اور جہنم سے اپنے جنسی حکیموں کو طلب کریں اور اس کا جواب دیں ۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ڈھکوسلے بازی کے آپ کا کام بننے والا نہیں ہے۔​
دوسری بات یہ ہے کہ ہم مقلد نہیں ہیں کہ آپ کسی کی بھی تحریر لا کر ہمیں دیکھا دیں اور ہم سے جواب طلب کریں ہم قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں اگر کہیں کوئی بھی شخص غلط بات کر بھی دے تو ہمارے لئے اس کو غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں چاہے وہ جماعت الدعوۃ ہو یا پھر کوئی بھی ۔​
ہمارا مطالبہ اب بھی آپ کے جواب کا منتظر ہے کہ آپ سود کو حلال کرنے کے الزام کا باحوالہ جواب دیں۔​
ادھر تک ہم نے وہ تمام تر ابلیس کی تمام تر طلبیسات کا ذکر کردیا ہے جو اُس نے ہمارے پوسٹ کا جواب نہ دے کر اور بار بار طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگاکر قارعین کرام کو دینے کی کوشش کی۔​
اب دیکھئیں یہ الزام کیسے ٹی ٹی پی کہ منہ پر کالک بن کر چمکتا ہے۔​
ابوزینب کے اصول تکفیر اور ٹی ٹی پی
ابوزینب صاحب کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے ان کے خوارجی گرو نے مزاکرات کے لئے نواز شریف کی ضمانت مانگی تھی۔​
تو ابوزینب صاحب یہ میاں نواز شریف کون ہیں۔۔۔ کچھ دماغ ٹھکانے آیا آپ کا۔۔۔ اگر ابھی بھی نہیں آیا تو میں آپ کے دماغ تو ٹھکانے لگادیتا ہوں۔​
پاکستان کے حکمرانوں کے لئے خوارجیوں کے بیانات دیکھ لیں ذرا​
متلاشی صاحب آپ کو شاید علم نہیں ہے کہ انفرادی طور سود کا لین دین کرنا ایک الگ چیز ۔ لیکن کسی حکمران کا سود کو حلال قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے لئے حلال کرنا اور چیز ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس حکمران نے اللہ کی شریعت میں تبدیلی کی ہے۔کیوں آپ کے وزیر خزانہ کے دفتر سے شرح سود کے ریٹ پورے ملک میں لاگو نہیں ہوتے؟ ۔ آپ کا اسٹیٹ بینک سود کی شرح کا تعین نہیں کرتا؟یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ سب اللہ کی حرام کردہ چیز کو جائز قرار دینا نہیں ہے؟؟؟؟
پوسٹ نمبر 16​
کیوں ابوزینب صاحب اب وزیر خزانہ کون ہے؟ کیا سود کا ریٹ پورے ملک پر لاگو نہیں ہورہا۔ اب اسٹیٹ بینک شرح سود کا تعین نہیں کرتا؟ جب تم ان سب چیزوں کو سود کے حلال کرنے پر محمول کرتے ہو تو ایسے حکمرانون کی ضمانت بھی مانگتے ہو۔ اب دوباتیں ہیں ایک یہ کے آپ نے یہ لکھنے سے پہلے بھنگ پی ہوئی تھی یا پھر تمھاری خوارجیوں نے نوازشریف کی ضمانت مانگنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے بھنگ پی تھی۔ فیصلہ کرلو تو پھر بتاؤ​
پاکستان کی حکومت سود پر قرضے لیتی ہے۔ سود پر قرضے فراہم کرتی ہے۔اور جب سپریم کورٹ نے سود کو ختم کرنے کا حکم دیا تو اسی موجودہ حکومت کے وزیراعظم نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تاکہ اس ملک میں سود جاری وساری رہ سکے۔اسے کیا کہتے ہیں؟ اسے کہتے ہیں اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنا۔ آپ مانوں یا نہ مانو
ابوزینب صاحب کچھ یاد آیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب یا تو تم مسلمان کو کافر کہہ کر کافر ہوگئے ہو یا پھر تمھارے خوارجی گرو​

آپ کے لئے اتنا ہی کافی ہوگا۔ انشااللہ​
اب ابوزینب صاحب کی بات بھی سنیں​
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
جماعۃ الدعوۃ کا کارکن متلاشی سود کے بارے میں اپنی تنظیم جماعۃ الدعوۃکی مقرر کردہ میزان کی زد میں جماعۃ الدعو ۃ کی مقرر کردہ میزان


یہ ہے جماعۃ الدعوۃ کا کارکن متلاشی جو اپنی ہی جماعت کی مقرر کردہ میزان کی زد میں ہے۔
ہماری اقتباسات میں کفر سے مراد دائرہ اسلام کے خارج کردینے والا کفر ہے۔ وہ کفر نہیں کس کو کرنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ادھر ہم آپ کے ہی مفتی کا ایک اقتباس نقل کردیتے ہیں۔
ہاں اس جگہ دو باتیں قابلِ خیال ہیں۔ اول تو یہ کہ کفر و ارتداد اُس صورت میں عاءد ہوتا ہے جب کہ حکم قطعی کے تسلیم کرنے سے انکار اور گردن کشی کرے اور اُس حکم کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے لیکن اگر کوءی شخص حکم کو تو واجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت یا شرارت کی وجہ سے اُس پر عمل نہیں کرتا تو اس کو کفر و ارتداد نہ کہا جاءے گا اگر چہ ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اس حکم پر عمل کرنے کی نوبت نہ آءے بلکہ اس شخص کو مسلمان ہی سمجھا جاءے گا۔ اور پہلی صوت میں کہ کسی حکم قطعی کو واجب التعمیل ہی نہیں جانتا اگر چہ کسی وجہ سے وہ ساری عمر اُس پر عمل بھی کرتا رہے جب بھی کافر فرتد قرار دیا جاءے گا۔ مثلاََ ایک شخص پانچوں وقت کی نماز کا شدت کے ساتھ پابند ہے مگر فرض اور واجب التعمیل نہیں جانتا یہ کافر ہے اور دوسرا شخص جو فرض جانتا ہے مگر کبھی نہیں پڑھتا وہ مسلمان ہے اکرچہ فاسق و فاجر اور سخت گناگار ہے۔​
کتاب​
اسلام اور کفر کا معیار​
(صفحہ نمبر 26،27)​
مصنف​
مفتی محمد شفیع دیوبندی​
اب جو جواب اپنے مفتی کے دفاع میں دو وہی میرے طرف سے اپنے لئے سمجھ لو​
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ابوزینب صاحب آپ کے دماغ پر تو خوارجیت کی کافی موٹی تحہ پڑی ہوئی ہے لوگوں پر ایسی کوئی تحہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ آپ کی طرح بصارت سے محروم ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تبھی آپ بیمار کتیہ کی طرح دم ٹانگوں میں بجائے بھاگ رہے ہو۔​
اس کا جواب آپ کے پہلے ہی دیدیا گیا تھا۔ آپ کو تو ہمارے جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ اپنی پوسٹ میں وہی بیماری مکھیاں دوبارہ چپکادیں تاکہ عوام الناس کو دھوکہ دیا جا سکے۔​
ہم نے اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ​
جی ابوزینب صاحب ہم نے تو بھی کہا تھا اس کا جواب ابھی دوگے اگر نہیں دے سکتے تو اپنے پیروں سے بولو مراقبہ کرو اور جہنم سے اپنے جنسی حکیموں کو طلب کریں اور اس کا جواب دیں ۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ڈھکوسلے بازی کے آپ کا کام بننے والا نہیں ہے۔​
دوسری بات یہ ہے کہ ہم مقلد نہیں ہیں کہ آپ کسی کی بھی تحریر لا کر ہمیں دیکھا دیں اور ہم سے جواب طلب کریں ہم قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں اگر کہیں کوئی بھی شخص غلط بات کر بھی دے تو ہمارے لئے اس کو غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں چاہے وہ جماعت الدعوۃ ہو یا پھر کوئی بھی ۔​
ہمارا مطالبہ اب بھی آپ کے جواب کا منتظر ہے کہ آپ سود کو حلال کرنے کے الزام کا باحوالہ جواب دیں۔​
ادھر تک ہم نے وہ تمام تر ابلیس کی تمام تر طلبیسات کا ذکر کردیا ہے جو اُس نے ہمارے پوسٹ کا جواب نہ دے کر اور بار بار طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگاکر قارعین کرام کو دینے کی کوشش کی۔​
اب دیکھئیں یہ الزام کیسے ٹی ٹی پی کہ منہ پر کالک بن کر چمکتا ہے۔​
ابوزینب کے اصول تکفیر اور ٹی ٹی پی
ابوزینب صاحب کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے ان کے خوارجی گرو نے مزاکرات کے لئے نواز شریف کی ضمانت مانگی تھی۔​
تو ابوزینب صاحب یہ میاں نواز شریف کون ہیں۔۔۔ کچھ دماغ ٹھکانے آیا آپ کا۔۔۔ اگر ابھی بھی نہیں آیا تو میں آپ کے دماغ تو ٹھکانے لگادیتا ہوں۔​
پاکستان کے حکمرانوں کے لئے خوارجیوں کے بیانات دیکھ لیں ذرا​
پوسٹ نمبر 16​
کیوں ابوزینب صاحب اب وزیر خزانہ کون ہے؟ کیا سود کا ریٹ پورے ملک پر لاگو نہیں ہورہا۔ اب اسٹیٹ بینک شرح سود کا تعین نہیں کرتا؟ جب تم ان سب چیزوں کو سود کے حلال کرنے پر محمول کرتے ہو تو ایسے حکمرانون کی ضمانت بھی مانگتے ہو۔ اب دوباتیں ہیں ایک یہ کے آپ نے یہ لکھنے سے پہلے بھنگ پی ہوئی تھی یا پھر تمھاری خوارجیوں نے نوازشریف کی ضمانت مانگنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے بھنگ پی تھی۔ فیصلہ کرلو تو پھر بتاؤ​
ابوزینب صاحب کچھ یاد آیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب یا تو تم مسلمان کو کافر کہہ کر کافر ہوگئے ہو یا پھر تمھارے خوارجی گرو​

آپ کے لئے اتنا ہی کافی ہوگا۔ انشااللہ​
اب ابوزینب صاحب کی بات بھی سنیں​
متلاشی صاحب ہم نے اس موضوع سے متعلق جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا ہے۔ان مقرر کردہ اوزان کی ہم نے پوری طرح سے قارئین کو دکھادیا ہے۔ بات صرف سمجھنے کی ہے۔ہم نے تو وہی کہا جو کہ آپ کی جماعۃ الدعوۃ کے رسالے نے لکھا اس سے نہ تو آگے کچھ کہا نہ ہی پیچھے کچھ کہا۔اب آپ جو چاہو ہمارے متعلق لکھتے پھرو ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔کیونکہ ایسا پہلی مرتبہ تھوڑی ہورہا ہے۔ ایسا تو جب سے ہورہا ہے۔ جب سے حق اور باطل ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اہل باطل اہل حق کے دلائل سے عاجز ہوکر ماضی میں بھی اسی طرح کا رویہ اختیار کرتے رہے ہیں اور حال تو اس پر شاہد ہے۔
آپ نے ہمارے بارے میں لکھا کہ :
آپ بیمار کتیہ کی طرح دم ٹانگوں میں بجائے بھاگ رہے ہو۔
ابوزینب صاحب آپ کے دماغ پر تو خوارجیت کی کافی موٹی تحہ پڑی ہوئی ہے
آپ کو تو ہمارے جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ اپنی پوسٹ میں وہی بیماری مکھیاں دوبارہ چپکادیں
جی ابوزینب صاحب ہم نے تو بھی کہا تھا اس کا جواب ابھی دوگے اگر نہیں دے سکتے تو اپنے پیروں سے بولو مراقبہ کرو اور جہنم سے اپنے جنسی حکیموں کو طلب کریں اور اس کا جواب دیں
اب دیکھئیں یہ الزام کیسے ٹی ٹی پی کہ منہ پر کالک بن کر چمکتا ہے۔
تو ابوزینب صاحب یہ میاں نواز شریف کون ہیں۔۔۔ کچھ دماغ ٹھکانے آیا آپ کا۔۔۔ اگر ابھی بھی نہیں آیا تو میں آپ کے دماغ تو ٹھکانے لگادیتا ہوں۔
اب دوباتیں ہیں ایک یہ کے آپ نے یہ لکھنے سے پہلے بھنگ پی ہوئی تھی یا پھر تمھاری خوارجیوں نے نوازشریف کی ضمانت مانگنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے بھنگ پی تھی۔ فیصلہ کرلو تو پھر بتاؤ
ابوزینب صاحب کچھ یاد آیا ۔۔۔۔۔۔۔ اب یا تو تم مسلمان کو کافر کہہ کر کافر ہوگئے ہو یا پھر تمھارے خوارجی گرو
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
ہماری اقتباسات میں کفر سے مراد دائرہ اسلام کے خارج کردینے والا کفر ہے۔ وہ کفر نہیں کس کو کرنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ادھر ہم آپ کے ہی مفتی کا ایک اقتباس نقل کردیتے ہیں۔
اب جو جواب اپنے مفتی کے دفاع میں دو وہی میرے طرف سے اپنے لئے سمجھ لو​
ہر وہ قول ، فعل یا عقیدہ جو توحید کی قسم ثالث یعنی توحید الوہیت میں طعن یا تنقیص کا سبب ہو، نواقض الایمان کی تیسری قسم میں شمار ہوتا ہے ۔ توحیدِ الوہیت کا مقصد ہے اﷲ تعالیٰ کو اکیلا معبودِ برحق ماننا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی بھی چیز عبادت کے لائق نہیں ہے ۔ اب اگر کوئی شخص اِسکے مخالف عقیدہ رکھے ،یا اسکا کوئی قول یا فعل اس اقرار کے منافی ہو یا ان میں سے کسی بھی چیز میں تنقیص کا سبب ہو ،یا اﷲ کے ساتھ ان صفات میں کسی اور کو شریک مانتا ہو، تو ایسا شخص کافر و مرتد شمار ہوگا ۔
زیادہ تر لوگوں کے کافر یا مرتد ہونے کا تعلق بھی اسی قسم کی توحید کے ساتھ ہے ۔ اکثر لوگ اﷲ کے وجود ، اس کے خالق ، رازق ، قادر ، محی و ممیت (زندہ کرنے والا اور مارنے والا )ہونے کے پہلے بھی قائل تھے اور اب بھی ہیں ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کے بارے میں فرمایا :
{وَلَئِنْ سَاَلَتْہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اﷲُ} ( زخرف : ۸۷ )
'' اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (کُفّارِ مکہ )سے پوچھیں کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اﷲ نے ۔ ''
اسی طرح فرمایا :
{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَلْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ}(زخرف : ۹)
'' اگر آپ ا ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یہ یہی کہیں گے کہ اﷲ نے جو غالب اور عالم ہے ۔ ''
اس اقرار کے باوجود اکثر کو کافر اس بنیاد پر کہا گیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو اکیلا عبادت کا مستحق نہیں سمجھتے تھے اور اﷲ کے اس (تنہامعبودہونے کے )استحقاق کا انکار کرتے تھے ۔ یہ انکار بھی قولی ، فعلی یا اعتقادی میں سے کسی قسم کا ہوتا تھا۔ اور چونکہ دوسروں کو بھی اﷲ کے اس حق میں شریک سمجھتے تھے اس لئے انہیں کافر قرار دیا گیا ۔ یہ شرک بھی خواہ قولی ہو یا فعلی یا اعتقادی ، کفر و ارتداد کا سبب تھا اور ہوگا ۔ اس لئے کہ جو شخص یہ مانتا ہو کہ اﷲ خالق ہے ، مالک ہے ، ہر چیز کی تدبیر کرنے والا ہے اسی طرح اﷲ کی تمام جلالی و کمالی صفات کا معترف ہو تو اس اعتراف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ الوہیت میں بھی اﷲ کو اکیلا ہی سمجھے اور عبودیت کا مستحق بھی صرف اسی اکیلے اﷲ کو سمجھے ۔ اگر وہ اس کا انکار کرتا ہے اور اﷲ کے ساتھ یا اﷲ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ اعتراف (یعنی اﷲ کی ربوبیت کا )باطل ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ جیسا کہ صنعانی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب تطہیر الاعتقاد میں لکھا ہے :
''جو شخص اﷲ کی توحید ربوبیت کا اعتراف کرتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اﷲ کو عبادت میں بھی اکیلا سمجھے۔ اگر اس طرح نہیں کرے گا تو اس کا پہلا اقرار بھی باطل ہے ۔ ''
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اﷲ تعالیٰ نے بندوں کے امتحان کا ذریعہ توحید الوہیت کو بنایا ہے ۔ اﷲ فرماتا ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ} (الذاریات : ۵۶)
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ''
یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ لا الہ الا اﷲ کے منافی دو امور ہیں:
(۱) خالق کے حق کی نفی کی جائے یعنی کسی بھی قسم کی عبادت ہو اﷲ کو اس کا مستحق نہ مانا جائے ۔
(۲) یہ حق کسی اور کے لئے ثابت کیا جائے یعنی مخلوق میں سے کسی کو عبادت کا مستحق مانا جائے ۔
اب ہر قول یا عمل یا اعتقاد جس میں ان دو امور میں سے کوئی امر پایا جائے وہ عمل ، اعتقاد یا قول کفر میں داخل کرنے کا سبب ہوگا اور ایسا قول، عمل یا اعتقاد رکھنے والا مرتد شمار ہوگا ۔
جو امور اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہیں وہ یہ ہیں : عاجزی ، انکساری ، اطاعت ، جھکنا ، محبت ، ڈرنا ، مدد طلب کرنا ، دعا کرنا ، بھروسہ کرنا ، امید رکھنا ، رکوع ، سجدہ ، روزہ ، ذبح ، طواف وغیرہ ۔
جو شخص اپنے قول یا عمل یا اعتقاد کے ذریعہ سے ان امور میں سے کسی ایک کی بھی اﷲ کے لئے نفی کرے گا تو یہ قول ، عمل یا اعتقاد کفر ہے ۔ مثلاً ایک شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اﷲ سے ڈرنا نہیں چاہئے یا اس سے دعا نہیں کرنی چاہئے یا اس سے مدد نہیں مانگنی چاہئے یا اس کے سامنے رکوع نہیں کرنا چاہئے (یا مذکورہ اعمال یا اُن میں سے کوئی بھی ایک اﷲ کے لئے کرنا ضروری نہیں )، یا ان اعمال میں سے کسی عمل کے کرنے والے کا مذاق اڑائے ، یا رکوع ، سجود ، روزہ ، حج وغیرہ یا کسی بھی ایسے قول یا عمل کا مذاق اڑائے جسے شریعت نے عبادت کا درجہ دیا ہو تو یہ بھی کفر و ارتداد ہے ۔ اس لئے کہ ان اعمال کا یاان کے کرنے والے کا مذاق اڑانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص اﷲ کو ان عبادات کا مستحق نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح وہ شخص بھی کافر شمار ہوگا جو اﷲ کو اور اس کے احکام کو قابلِ اطاعت نہیں سمجھتا یا اﷲ کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کی ایک شریعت (قانون)ہے جو اس کی کتاب میں موجود ہے اور اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی ہے ۔ اب جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اﷲ کی اس شریعت میں سے کوئی حکم ماننا ضروری نہیں ہے یا اس دور میں ان احکام پر عمل نہیں ہو سکتا یا اس جیسی کوئی بات کرتا ہے تو وہ شخص کافر شمار ہوگا ۔ اس لئے کہ الوہیت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ حکم کرے اور شریعت بنائے ۔
{اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ ﷲِ} (یوسف :۴۰)
''حکم کرنا صرف اﷲ کا استحقاق ہے ۔ ''
اور عبودیت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اطاعت و فرمانبرداری کرے ۔
اسی طرح وہ شخص بھی کافر کہلائے گا جو ان عبادات میں سے کسی عبادت کو غیر اﷲ کے لئے ثابت مانے یا جو شخص خود کو عبادت کا مستحق سمجھ کر لوگوں کو اپنی عبادت بجا لانے کا حکم کرے ۔ ایسے شخص کی تصدیق کرنے والا بھی کافر ہوگا اور اس کی عبادت بجا لانے والا بھی ۔ وہ شخص بھی کافر ہے جو یہ پسند کرے کہ ان عبادات میں سے کوئی عبادت اس کے لئے بجا لائی جائے اگرچہ کسی کو ایسا کرنے کا حکم نہ بھی کرے ۔ جیسے کہ کوئی شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اس سے مدد مانگی جائے ۔ اس پر بھروسہ کیا جائے ، اس سے ڈرا جائے یا اس سے امید رکھی جائے ۔ (ایسا خوف اور امید جس طرح اﷲ سے رکھی جاتی ہے ،جو انسان کے قدرت سے باہر ہو ۔ انسان کے اختیار میں جو قوت و غلبہ ہے اگر اس سے کوئی شخص ڈرتا ہے یا امید رکھتا ہے تو یہ کفر نہیں ہے ) یا کوئی شخص یہ حکم کرے یا چاہت رکھے کہ اسے سجدہ کیا جائے یااس کے سامنے جھکا جائے یا ایسا کوئی بھی کام جو صرف اﷲ کے لئے کیا جانا خاص ہو وہ اپنے لئے کرنے کا حکم کرے یا خواہش کرے تو یہ کفر کے زمرے میں شامل ہوگا ۔
اسی طرح وہ شخص بھی کافر کہلائے گا جو یہ دعویٰ کرے کہ مجھے قانون و شریعت بنانے کا حق ہے اگرچہ اﷲ کے احکام کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ۔یایہ کہے کہ کیو نکہ اُس کے پاس حکومت یا فیصلے کے اختیارات ہیں اس لئے اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دے ۔ مثلاً کوئی حکمران ایسے احکامات جاری کرے یا قوانین وضع کرے جن سے زنا، سود ، بے پردگی کا جواز پیدا ہوتا ہو یا اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود و سزاؤں میں تغیّر لازم آتا ہو یا زکٰوۃ کے لئے شریعت کے مقرر کردہ نصاب میں یا میراث ، کفارہ اور عبادات وغیرہ میں تبدیلی آتی ہو تو اس طرح کے قوانین بنانے والا اور اس کو صحیح تسلیم کرنے والا دونوں کافر شمار ہوں گے۔ اس لئے کہ یہ غیر اﷲ کی الوہیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲ َ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ}(نحل : ۳۶)
'' ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (جو انہیں یہ حکم کرتا تھا کہ )اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ۔ ''
دوسری مقام پر فرمایا :
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَہَا وَاﷲ ُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ }( بقرۃ : ۲۵۶ )
''جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ۔ اور اﷲ سننے والا جاننے والا ہے ۔ ''
مضبوط کڑے سے مراد لا الہ الا اﷲ کی شہادت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادات کی غیر اﷲ سے نفی کی جائے اور تمام عبادات کا مستحق صرف اﷲ کو مانا جائے ۔
اب اگر کوئی حکمران اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں کتاب و سنت سے ثابت شدہ قوانین کے معارض قوانین بنا سکتا ہوں جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا جاتا ہو تو ایسا حکمران کافر و مرتد ہے اس لئے کہ اس کا عقیدہ یہ بن چکا ہے کہ اس کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ اﷲ کی شریعت کی بجائے اپنی شریعت اپنے قوانین بنا سکتا ہے ۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے ۔ (بلکہ یہی شحض طاغوت ہے)
البتہ اس سے وہ قانون سازی مستثنیٰ ہے جس میں قرآن و سنت کی نصوص واضح نہیں ہیں یعنی قرآن و سنت میں کوئی قانون نہ ہویا مجتہدین نے کسی مسئلہ میں اختلاف کیا ہو تو اس میں حکومت کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے بشرطیکہ قرآن و سنت کے معارض و مخالف نہ ہو ۔ لہٰذا جو شخص ایسا کوئی قانون بنائے جس سے زنا ، سود یا ہر وہ چیز یا عمل جسے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو اس کا جواز پیدا ہو رہا ہو تو ایسا قانون ساز بھی کافر ہے اور اس کے ساتھ اس عمل میں حصہ لینے والے بھی کافر ہیں ۔ البتہ ایسا شخص جو ملکی معاملات یا لوگوں کی سیرت و کردار کو بہتر کرنے کے لئے قانون بناتا ہو یا اشیاء کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہوںتو یہ جا ئزہے کیونکہ یہ قرآن و سُنَّت کے مخالف نہیں ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے اس سے بھی منع کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے لئے اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنا جائز نہیں ہے ۔ مگر ان علماء کی بات صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ قیمتیں مقرر کرنا اجتہادی مسئلہ ہے اور بعض فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے ۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ حکمرانوں کو خلافِ قرآن و سنت قانون سازی کا اختیار حاصل ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے اور وہ شخص بھی کافر ہے جو خلافِ شرع فیصلے کرنے والوں سے اپنے فیصلے کرواتاہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلَا لًا بَعِیْدًا}( النسآء : ۶۰ )
'' کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا یہ خیال ہے کہ وہ آپ پر اور آپ سے قبل نازل کردہ ( کتب و شرائع )پر ایمان لائے ہیں مگر وہ چاہتے یہ ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت سے کروائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت سے کفر کریں ۔ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بہت بڑی گمراہی میں مبتلا کر دے ۔ ''
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{اَمْ لَہُمْ شُرَکَآءُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَالَمْ یَاْذَنْ بِہِ اﷲ ُ} (شورٰی : ۲۱)
''کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں وہ قوانین بنا دئیے ہیں جن کی اجازت اﷲ نے نہیں دی ۔ ''
 
Top