ہماری اقتباسات میں کفر سے مراد دائرہ اسلام کے خارج کردینے والا کفر ہے۔ وہ کفر نہیں کس کو کرنے سے مسلمان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ادھر ہم آپ کے ہی مفتی کا ایک اقتباس نقل کردیتے ہیں۔
اب جو جواب اپنے مفتی کے دفاع میں دو وہی میرے طرف سے اپنے لئے سمجھ لو
ہر وہ قول ، فعل یا عقیدہ جو توحید کی قسم ثالث یعنی توحید الوہیت میں طعن یا تنقیص کا سبب ہو، نواقض الایمان کی تیسری قسم میں شمار ہوتا ہے ۔ توحیدِ الوہیت کا مقصد ہے اﷲ تعالیٰ کو اکیلا معبودِ برحق ماننا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی بھی چیز عبادت کے لائق نہیں ہے ۔ اب اگر کوئی شخص اِسکے مخالف عقیدہ رکھے ،یا اسکا کوئی قول یا فعل اس اقرار کے منافی ہو یا ان میں سے کسی بھی چیز میں تنقیص کا سبب ہو ،یا اﷲ کے ساتھ ان صفات میں کسی اور کو شریک مانتا ہو، تو ایسا شخص کافر و مرتد شمار ہوگا ۔
زیادہ تر لوگوں کے کافر یا مرتد ہونے کا تعلق بھی اسی قسم کی توحید کے ساتھ ہے ۔ اکثر لوگ اﷲ کے وجود ، اس کے خالق ، رازق ، قادر ، محی و ممیت (زندہ کرنے والا اور مارنے والا )ہونے کے پہلے بھی قائل تھے اور اب بھی ہیں ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کے بارے میں فرمایا :
{وَلَئِنْ سَاَلَتْہُمْ مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اﷲُ} ( زخرف : ۸۷ )
'' اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (کُفّارِ مکہ )سے پوچھیں کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اﷲ نے ۔ ''
اسی طرح فرمایا :
{وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَلْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ}(زخرف : ۹)
'' اگر آپ ا ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یہ یہی کہیں گے کہ اﷲ نے جو غالب اور عالم ہے ۔ ''
اس اقرار کے باوجود اکثر کو کافر اس بنیاد پر کہا گیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو اکیلا عبادت کا مستحق نہیں سمجھتے تھے اور اﷲ کے اس (تنہامعبودہونے کے )استحقاق کا انکار کرتے تھے ۔ یہ انکار بھی قولی ، فعلی یا اعتقادی میں سے کسی قسم کا ہوتا تھا۔ اور چونکہ دوسروں کو بھی اﷲ کے اس حق میں شریک سمجھتے تھے اس لئے انہیں کافر قرار دیا گیا ۔ یہ شرک بھی خواہ قولی ہو یا فعلی یا اعتقادی ، کفر و ارتداد کا سبب تھا اور ہوگا ۔ اس لئے کہ جو شخص یہ مانتا ہو کہ اﷲ خالق ہے ، مالک ہے ، ہر چیز کی تدبیر کرنے والا ہے اسی طرح اﷲ کی تمام جلالی و کمالی صفات کا معترف ہو تو اس اعتراف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ الوہیت میں بھی اﷲ کو اکیلا ہی سمجھے اور عبودیت کا مستحق بھی صرف اسی اکیلے اﷲ کو سمجھے ۔ اگر وہ اس کا انکار کرتا ہے اور اﷲ کے ساتھ یا اﷲ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ اعتراف (یعنی اﷲ کی ربوبیت کا )باطل ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ جیسا کہ صنعانی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب تطہیر الاعتقاد میں لکھا ہے :
''جو شخص اﷲ کی توحید ربوبیت کا اعتراف کرتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اﷲ کو عبادت میں بھی اکیلا سمجھے۔ اگر اس طرح نہیں کرے گا تو اس کا پہلا اقرار بھی باطل ہے ۔ ''
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اﷲ تعالیٰ نے بندوں کے امتحان کا ذریعہ توحید الوہیت کو بنایا ہے ۔ اﷲ فرماتا ہے :
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ} (الذاریات : ۵۶)
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ''
یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے کہ لا الہ الا اﷲ کے منافی دو امور ہیں:
(۱) خالق کے حق کی نفی کی جائے یعنی کسی بھی قسم کی عبادت ہو اﷲ کو اس کا مستحق نہ مانا جائے ۔
(۲) یہ حق کسی اور کے لئے ثابت کیا جائے یعنی مخلوق میں سے کسی کو عبادت کا مستحق مانا جائے ۔
اب ہر قول یا عمل یا اعتقاد جس میں ان دو امور میں سے کوئی امر پایا جائے وہ عمل ، اعتقاد یا قول کفر میں داخل کرنے کا سبب ہوگا اور ایسا قول، عمل یا اعتقاد رکھنے والا مرتد شمار ہوگا ۔
جو امور اﷲ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہیں وہ یہ ہیں : عاجزی ، انکساری ، اطاعت ، جھکنا ، محبت ، ڈرنا ، مدد طلب کرنا ، دعا کرنا ، بھروسہ کرنا ، امید رکھنا ، رکوع ، سجدہ ، روزہ ، ذبح ، طواف وغیرہ ۔
جو شخص اپنے قول یا عمل یا اعتقاد کے ذریعہ سے ان امور میں سے کسی ایک کی بھی اﷲ کے لئے نفی کرے گا تو یہ قول ، عمل یا اعتقاد کفر ہے ۔ مثلاً ایک شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اﷲ سے ڈرنا نہیں چاہئے یا اس سے دعا نہیں کرنی چاہئے یا اس سے مدد نہیں مانگنی چاہئے یا اس کے سامنے رکوع نہیں کرنا چاہئے (یا مذکورہ اعمال یا اُن میں سے کوئی بھی ایک اﷲ کے لئے کرنا ضروری نہیں )، یا ان اعمال میں سے کسی عمل کے کرنے والے کا مذاق اڑائے ، یا رکوع ، سجود ، روزہ ، حج وغیرہ یا کسی بھی ایسے قول یا عمل کا مذاق اڑائے جسے شریعت نے عبادت کا درجہ دیا ہو تو یہ بھی کفر و ارتداد ہے ۔ اس لئے کہ ان اعمال کا یاان کے کرنے والے کا مذاق اڑانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص اﷲ کو ان عبادات کا مستحق نہیں سمجھتا ۔ اسی طرح وہ شخص بھی کافر شمار ہوگا جو اﷲ کو اور اس کے احکام کو قابلِ اطاعت نہیں سمجھتا یا اﷲ کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کی ایک شریعت (قانون)ہے جو اس کی کتاب میں موجود ہے اور اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی ہے ۔ اب جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اﷲ کی اس شریعت میں سے کوئی حکم ماننا ضروری نہیں ہے یا اس دور میں ان احکام پر عمل نہیں ہو سکتا یا اس جیسی کوئی بات کرتا ہے تو وہ شخص کافر شمار ہوگا ۔ اس لئے کہ الوہیت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ حکم کرے اور شریعت بنائے ۔
{اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ ﷲِ} (یوسف :۴۰)
''حکم کرنا صرف اﷲ کا استحقاق ہے ۔ ''
اور عبودیت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اطاعت و فرمانبرداری کرے ۔
اسی طرح وہ شخص بھی کافر کہلائے گا جو ان عبادات میں سے کسی عبادت کو غیر اﷲ کے لئے ثابت مانے یا جو شخص خود کو عبادت کا مستحق سمجھ کر لوگوں کو اپنی عبادت بجا لانے کا حکم کرے ۔ ایسے شخص کی تصدیق کرنے والا بھی کافر ہوگا اور اس کی عبادت بجا لانے والا بھی ۔ وہ شخص بھی کافر ہے جو یہ پسند کرے کہ ان عبادات میں سے کوئی عبادت اس کے لئے بجا لائی جائے اگرچہ کسی کو ایسا کرنے کا حکم نہ بھی کرے ۔ جیسے کہ کوئی شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اس سے مدد مانگی جائے ۔ اس پر بھروسہ کیا جائے ، اس سے ڈرا جائے یا اس سے امید رکھی جائے ۔ (ایسا خوف اور امید جس طرح اﷲ سے رکھی جاتی ہے ،جو انسان کے قدرت سے باہر ہو ۔ انسان کے اختیار میں جو قوت و غلبہ ہے اگر اس سے کوئی شخص ڈرتا ہے یا امید رکھتا ہے تو یہ کفر نہیں ہے ) یا کوئی شخص یہ حکم کرے یا چاہت رکھے کہ اسے سجدہ کیا جائے یااس کے سامنے جھکا جائے یا ایسا کوئی بھی کام جو صرف اﷲ کے لئے کیا جانا خاص ہو وہ اپنے لئے کرنے کا حکم کرے یا خواہش کرے تو یہ کفر کے زمرے میں شامل ہوگا ۔
اسی طرح وہ شخص بھی کافر کہلائے گا جو یہ دعویٰ کرے کہ مجھے قانون و شریعت بنانے کا حق ہے اگرچہ اﷲ کے احکام کے مخالف ہی کیوں نہ ہو ۔یایہ کہے کہ کیو نکہ اُس کے پاس حکومت یا فیصلے کے اختیارات ہیں اس لئے اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دے ۔ مثلاً کوئی حکمران ایسے احکامات جاری کرے یا قوانین وضع کرے جن سے زنا، سود ، بے پردگی کا جواز پیدا ہوتا ہو یا اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حدود و سزاؤں میں تغیّر لازم آتا ہو یا زکٰوۃ کے لئے شریعت کے مقرر کردہ نصاب میں یا میراث ، کفارہ اور عبادات وغیرہ میں تبدیلی آتی ہو تو اس طرح کے قوانین بنانے والا اور اس کو صحیح تسلیم کرنے والا دونوں کافر شمار ہوں گے۔ اس لئے کہ یہ غیر اﷲ کی الوہیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲ َ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ}(نحل : ۳۶)
'' ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (جو انہیں یہ حکم کرتا تھا کہ )اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ۔ ''
دوسری مقام پر فرمایا :
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَہَا وَاﷲ ُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ }( بقرۃ : ۲۵۶ )
''جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں ۔ اور اﷲ سننے والا جاننے والا ہے ۔ ''
مضبوط کڑے سے مراد لا الہ الا اﷲ کی شہادت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی عبادات کی غیر اﷲ سے نفی کی جائے اور تمام عبادات کا مستحق صرف اﷲ کو مانا جائے ۔
اب اگر کوئی حکمران اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں کتاب و سنت سے ثابت شدہ قوانین کے معارض قوانین بنا سکتا ہوں جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا جاتا ہو تو ایسا حکمران کافر و مرتد ہے اس لئے کہ اس کا عقیدہ یہ بن چکا ہے کہ اس کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ اﷲ کی شریعت کی بجائے اپنی شریعت اپنے قوانین بنا سکتا ہے ۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے ۔ (بلکہ یہی شحض طاغوت ہے)
البتہ اس سے وہ قانون سازی مستثنیٰ ہے جس میں قرآن و سنت کی نصوص واضح نہیں ہیں یعنی قرآن و سنت میں کوئی قانون نہ ہویا مجتہدین نے کسی مسئلہ میں اختلاف کیا ہو تو اس میں حکومت کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے بشرطیکہ قرآن و سنت کے معارض و مخالف نہ ہو ۔ لہٰذا جو شخص ایسا کوئی قانون بنائے جس سے زنا ، سود یا ہر وہ چیز یا عمل جسے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو اس کا جواز پیدا ہو رہا ہو تو ایسا قانون ساز بھی کافر ہے اور اس کے ساتھ اس عمل میں حصہ لینے والے بھی کافر ہیں ۔ البتہ ایسا شخص جو ملکی معاملات یا لوگوں کی سیرت و کردار کو بہتر کرنے کے لئے قانون بناتا ہو یا اشیاء کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہوںتو یہ جا ئزہے کیونکہ یہ قرآن و سُنَّت کے مخالف نہیں ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے اس سے بھی منع کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے لئے اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنا جائز نہیں ہے ۔ مگر ان علماء کی بات صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ قیمتیں مقرر کرنا اجتہادی مسئلہ ہے اور بعض فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے ۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ حکمرانوں کو خلافِ قرآن و سنت قانون سازی کا اختیار حاصل ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہے اور وہ شخص بھی کافر ہے جو خلافِ شرع فیصلے کرنے والوں سے اپنے فیصلے کرواتاہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلَا لًا بَعِیْدًا}( النسآء : ۶۰ )
'' کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا یہ خیال ہے کہ وہ آپ پر اور آپ سے قبل نازل کردہ ( کتب و شرائع )پر ایمان لائے ہیں مگر وہ چاہتے یہ ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت سے کروائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت سے کفر کریں ۔ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں بہت بڑی گمراہی میں مبتلا کر دے ۔ ''
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{اَمْ لَہُمْ شُرَکَآءُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَالَمْ یَاْذَنْ بِہِ اﷲ ُ} (شورٰی : ۲۱)
''کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں وہ قوانین بنا دئیے ہیں جن کی اجازت اﷲ نے نہیں دی ۔ ''